صفحات

Tuesday, December 29, 2015

دنیا کا سب سے بہتریں جوڑا

دنیا کا سب سے بہتریں جوڑا


آپ عنوان دیکھ کر چونکے ہوں گے
شاید کہ کسی میاں بیوی کے جوڑے کی بات ہوگی

لیکن میں تو ایک اور ہی جوڑے کی بات کررہا ہوں

جی ہاں ۔۔ 
آنسو اور مسکراہٹ دنیا کا بہترین جوڑا ہے
مگر آنسو کے ساتھ مسکراہٹ کا تصور کچھ عجیب سا ہے
بہت منفرد سا ہے

عام زندگی میں تو آنسو جب آتے ہیں تو مسکراہٹ کو غائب کردیتے ہیں 
اورمسکراہٹ چھلکتے آنسووں کو روک دیتی ہے

لیکن آپ نے کبھی وہ منظر دیکھا ہے 
جب آپ چھلکتے آنسووں کے ساتھ مسکراتے ہیں
وہ منظر ، وہ لمحہ دنیا کا خوبصورت ترین منظر ، یادگارترین لمحہ ہوتا ہے
آنسو اور مسکراہٹ کا بہترین امتزاج ، بہتر ین جوڑا

ایسے لمحے بہت کم ، بہت ہی شاذ ہو تے ہیں مگر بہت قیمتی ہو تے ہیں 

کیا آپ ایسے کسی لمحے سے واقف ہیں۔۔۔؟

Friday, December 25, 2015

ماں کی یا د کے 36 آنسو

ماں کی یا د کے 36 آنسو ............. ڈاکٹر نورً
آج میں آپ سے اپنے آنسو شیئر کرنا چاہتا ہوں

یہ آنسو میری ماں کی یا د کے آنسو ہیں
میں نے یہ اشعار اپنی ماں کی یا د میں لکھے ہیں۔
اور بہتے آنسووں کے ساتھ لکھےہیں ۔
یہ اشعار ان تمام بھائیوں ، بہنوں ، دوستوں کے نام جن کی مائیں
اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔
یقینا میرے آنسوان سب کو رلا دیں گے۔ جن کے غم میرے جیسے ہیں۔
یہ 36 مصرعے نہیں ، 36 آنسوہیں


بہت چھوٹا سا تھا جب میں، میری دنیا بھی چھوٹی تھی
میری ہستی کا کل سا ما ں ، تیری آغوش ہو تی تھی
تیرے سینے سے لگ کرمیں ہر اک غم بھول جا تا تھا
تیرے چہرے کو تک کرمیرے دل کی پیاس بجھتی تھی
تیری دنیا فقط میں تھا ، میری دنیا فقط تو تھی
میں تجھ کو دیکھ جیتا تھا، تو مجھ کو دیکھ جیتی تھی

تیرے وہ پھول سے بازو، مجھے خوابوں میں لے جاتے
تیرے چہرے پہ بکھرے نور سے ہو تی سحر میری
میں بھوکا ہوں کہ پیاسا ہوں، میں خوش ہوں یا کہ افسردہ
فقط اک تیری ہستی تھی، جسے سب تھی خبر میری
تیرا چہرہ جو ہوجاتا، اگر اک پل کہیں اوجھل
تو ہرآہٹ پہ چونک اٹھتی تھی یہ بے چیں نظر میری

تیرا رس گھولتا لہجہ ، میری تسکین کا ساماں
تیرا دستِ مسیحائی ، میرے ہر درد کا درماں
میرے پہلے قدم کی لرزشوں سے سیدھا چلنےتک
تیری چاہت بھری نظریں ہراک حرکت پہ تھیں درباں
بلائیں دور رہتی تھیں، ہمیشہ سوقدم مجھ سے
دعائے نیم شب سے میرے رستے روشن و تاباں

میں گھر سے جب نکلتا تھا، دعائیں ساتھ چلتی تھیں
جھلستی دھوپ میں ، ٹھنڈی ہوائیں ساتھ چلتی تھیں
کبھی پر پیچ رستوں پر قدم نہ ڈگمگائے تھے
ہمشہ ذکر کرتی وہ ، نگاہیں ساتھ چلتی تھیں
میرے حصے کے زخموں سے بدن چھلنی رہا تیرا
مجھے حلقے میں ڈالے، تیری بانہیں ساتھ چلتی تھیں

مگراب کسیے بتلاوں کہ وہ ہستی نہیں باقی
نہ وہ دست دعا باقی ، نہ وہ پاکیزہ صورت ہے
یہ آنسواب مقدر ہیں کہ ان کو پونچھنے والے
مشفق ہا تھ ہیں تیرے ، نہ چادر کی حرارت ہے
زمانے بھر کے غم ہیں اور اکیلا تیرا بیٹا ہے
مجھے تیری دعاوں کی بہت اب تو ضرورت ہے

میرے مولا، میری اک التجا ہے تیری رحمت سے
تیرے گلشن میں ہر سوپیارہی کے پھول کھل جائیں
ہے دنیا جب تلک باقی ، سدا مائیں رہیں زندہ
لگے جو زخم دل پر ہیں تو شاید یوں وہ سل جائیں
مجھے تسلیم ہے کہ موت بر حق ہے، مگر مالک
سبھی بیٹوں کی عمریں ، کاش ان ماوں کو مل جائیں

سب جھوٹے خواب دکھاتے ہیں۔



انسان ازل سے بہتری کی تلاش میں ہے

خوب سے خوب تر کی چاہ میں رہتا ہے۔
اس خوب سے خوب تر کی تلاش میں انسان جہاں
ترقی کی منازل طے کرتا رہا وہیں ہوس کی بیماری بھی
اسے لاحق ہوئی۔
ہوس نے انسانوں کو انسانوں کا دشمن بنا یا۔
ہوس نے منافقت، جھوٹ، بے وفائی سکھائی
ایک انسان کو دوسرے انسان پر فضیلت کی بنیاد
معاشی و معاشرتی حیثیت پر رکھی اور پھر
ہر اس فعل کو جائز قرار دے ڈالا جس سے ا س کی
معاشی و معاشرتی حیثیت کو تقویت پہچتی ہو
لالچ نے جب دلوں میں گھر کیا تو محبت، خلوص
وفا رخصت ہوئی ۔
انسان انسان کا دشمن بنا۔
آج کا انسان اور آج سے ہزاروں سال پہلے کا انسان
ایک جیسا ہی ہے۔
کچھ فرق نہیں۔
نام ، مقام، اور ظاہری اطوار بدل گئے ہیں لیکن
لالچ نے جو اصول اس وقت وضع کیے تھے
وہی آج تک چل رہے ہیں۔
وہی خواب جو آج سے لاکھوں سال پہلے کے انسان نے
دیکھے ہوں گے وہی آج کے انسان کے ہیں
کیا ہمیں صرف سر چھپانے کو ٹھکانہ، تن پر پہننے کو کپڑا
اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کو خوراک ہی چاہیےنا۔
لیکن ہم جب تک بھوکے رہتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ہمیں کچھ اور نہیں صرف
کھانا چاہیے ہوتا ہے۔
جب پیٹ بھرتا ہے تو پھر ہمیں سردی گرمی سے بچنے کے لئے
ٹھکانہ چاہیے ہوتا ہے۔
جب ٹھکانہ مل جاتا ہے تو ہمین نفسانی خواہشیں ستانے لگتی ہیں
پھر جب یہ بھوک بھی مٹ جائے تو معاشرے میں اپنی ناک اونچی رکھنے
کی فکر دامن گیر ہو جا تی ہے۔
جب معاشرے میں جھوٹی عزت ، شان و شوکت قائم ہو جاتی ہے۔
ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو احسا س ہو تا ہے۔
ہمارا دامن تو خالی ہے۔ ہم جو عزت کمائی وہ دوسروں کی پگڑی اچھال کر کمائی،
ہم نے دولت کمائی تو ہماری کم اور دوسروں کی زیادہ ہے
وہی دولت جس کو حاصل کرنے میں ہم اپنا ایمان بیچا، ضمیر کا سودا کیا
اپنے رب کو ناراض کیا۔ وہ دولت تو ہماری نہ نکلی ۔
پھر انسان جب اپنے اندر کی آواز سنتا ہے تو وقت بہت آگے نکل چکا ہوتا ہے
کچھ تو سنبھل جاتے ہیں۔ اپنی دولت ، اپنا سب کچھ معاشرے کو
لوٹانے کی ٹھان لیتے ہیں لیکن
کچھ اندر کی آواز کو دبا کر
مزید دولت کی ہوس میں پڑ جا تے ہیں۔
غریب جو صدیوں سے
تن کے کپڑوں
کی خاطر
تو کبھی
چار نوالوں کی خاطر
بکتا آیا ہے۔
وہ خاک نشیں زرق خا ک ہی ہوتا ہے۔
اس کے خواب کبھی پورے نہ ہوئے
ان کو کبھی تعبیر نہ ملی
کوئی انقلاب کے نعرے لگاتا ہے
تو کوئی انصاف کی آواز بلند کرتا ہے
کوئی مساوات کا درس دیتا ہے
تو ہر خوشہ گندم کو جلانے کی بات کرتا ہے
کیاکسی نے کبھی سوچا
جس نے کائنات بنائی
اس نے اس پر رہنے کے
اس کو برتنے کے
اس پر بسنے والوں کے
ساتھ برتاؤکے
اصول ازل سے وضع کر دیے ہیں
جس کی زمین ہے، وہ جب چاہے زمین کھینچ لے
جس کا دیا ہوا سب کھاتے ہیں وہ جب چاہیے واپس لے لے
سانسوں کی میعاد بخشنے والے کو ہی اختیار ہے
وہ زندگی کے کس موڑ پر شام کردے۔
دل کو بنانے والا ہی دلوں کے بھید بہتر جانتا ہے۔
دلوں کی بستیوں میں جب اس کے خالق کا نعرہ
گونجتا ہے تو دل آبا د ہوتا ہے۔
ہمیں خواب دکھانے والے کتنے جھوٹے ہیں ۔
سب جھوٹے خواب دکھاتے ہیں۔

Sunday, December 20, 2015

Part-1ایک سیاہ رات کی کہانی







Part-1ایک سیاہ رات کی کہانی




وہ ایک سیاہ اندھیر ی رات تھی۔

وہ سب دوست گاوں کے چوپال پر بیٹھے ہوئے تھے۔

گپوں میں جنوں بھوتوں کا ذکر نکل آیا۔

اسد کہنے لگا۔

میرے دادا جی بتاتے تھے کہ گاوں سے باہر پانی والی بھن (تالاب نما جگہ جہاں بارش کا پانی اکٹھا ہو جائے) کے پاس جنوں کا ڈیرہ ہے ۔ وہ ایک رات کو بہت دیرسے وہاں سے گذرے تو وہاں ڈھول بجانے کی آوازیں آرہی تھی۔ شاید کسی جن کی شادی تھی۔ دادا بہت مشکل سے جان بچاکر آئےتھے۔

شہباز بولا

بکواس ۔ میں کئی مرتبہ وہاں گیا ۔ وہاں کچھ بھی نہیں ۔ یہ محض گھڑی ہوئی بات ہے-

اسد بولا۔

تم دن کے وقت جاتے ہو۔ دن کو سب ہی لوگ جاتے ہیں۔ جن تو وہاں رات کو ہوتے ہیں۔

اکرم بھی نے ہاں میں ہاں ملائی

شہباز ٹھیک کہتاہے۔ جن تو وہاں رات کو ہی ہو تے ہیں۔ دن کو وہ جگہ خالی کر دیتے ہیں ۔

اسد اپنی بات پر اڑا رہا۔
اتنے میں تنویر بولا۔

یارو کیوں بحث کرتے ہو۔ یہ جن ون سب سنی سنائی باتیں ہیں۔ کیا آپ میں سے کسی کا جن سے سامنا ہوا ہے۔؟


اس کا جواب تو نفی میں تھا- لیکن شہباز کب ہار ماننے والا تھا۔


اگر ایسی بات ہے۔ تو پھر آپ لوگ ابھی وہاں بھن پر جائیں اور وہاں چکر لگا کر آئیں- تو میں آپ کی بات مان لوں گا۔

اسد اور تنویر نے کہا-
لو جی۔ یہ کونسی بڑی بات ہے۔ لیکن اگر ہم وہاں سے چکر لگا آجائیں تو تمھیں
500 روپے دینا ہوں گے۔
شہباز نے کہا
ڈن۔۔۔۔
لیکن اس بات کا یقین کیسے کیا جائےگا کہ آپ لوگ بھن پر گئے ہیں یا نہیں۔۔
اکرام نے تجویز پیش کی
اس کا بھی حل ہے۔ ہم ایک لکڑی کا ڈنڈا ان کو دیتے ہیں - یہ وہاں بھن کے شمال میں بیس قدم کے فاصلے یہ ڈنڈا زمین میں گاڑ کر آئیں گے۔ ہم صبح سویرے سب جاکر چیک کریںگے۔ اگر ڈنڈا گڑا ہوا پایا گیا تو اسد اور تنویر شرط جیت جائیں گے۔

فیصلہ ہو گیا۔اسد اور تنویرکو لکڑی کا ایک ڈنڈا جس پر مخصوص نشانی لگی ہوئی تھی۔ دے دیا گیا۔ اوروہ اپنی مہم پر روانہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک گھنٹے میں واپس آجائیں گے۔

لیکن ایک کے بجائے دوگھنٹے گذر گئے اسد اور تنویر واپس نہ آئے

……………………………………….

لیکن ایک کے بجائے دوگھنٹے گذر گئے اسد اور تنویر واپس نہ آئے

شہباز پریشان ہو گیا۔
یار یہ لوگ تو واپس نہیں آئے۔ کہیں جنوں کے ہتھے نہ چڑھ گئے ہوں۔
اکرم کو بھی یقین تھا کہ بھن کے پاس جن ہیں۔
وہ بھی خوفزدہ آواز میں بولا۔
ہاں یا ر۔ پتہ نہیں ان کے ساتھ کیا ہو ا ہو گا۔۔
پھر سوچ کر بولا۔
ہم آدھا گھنٹہ اور انتظار کرتے ہیں پھرکچھ اور سوچتے ہیں۔

آدھا گھنٹہ بھی گذر گیا ۔ مگراسد اور تنویر واپس نہ آئے۔

اب تو اکرم اور شہباز ایک دوسرے پرالزام لگانے لگے۔
یہ تم کہاتھا، نہیں یہ تم نے کہاتھا۔

بہرحال بہت سی بحث کے بعد فیصلہ ہو ا کہ دونوں مل کر جاتے ہیں اور گاوں سے باہر تک اسد اور تنویر کو دیکتھے ہیں شاید وہ آرہے ہوں۔
وہ گاوں سے ذرا باہر تک گئے تو خوف نے ان کے قدم روک دیے۔

واپسی پر شہباز کا بڑا بھائی انہیں ڈھونڈتا ہوا مل گیا۔
تم لوگ کہاں گئے تھے -
اب شہباز نے ڈرتے ڈرتے ساری بات بتا دی۔
شہباز کے بھائی نے کہا۔
آپ لوگوں نے بہت برا کیا۔ پتہ نہیں وہ لوگ اب زندہ بھی ہوں گے یا نہیں- بہرحال میں ابو سے بات کرتاہوں۔


تھوڑی دیر بعدپندرہ بیس بندوں کا قافلہ ہاتھوں میں لالٹینیں، لاٹھیاں، کلہاڑیاں وغیرہ اٹھانے گاوں سے باہر بھن کی طرف روانہ ہوگیا۔
شہباز اور تنویر کے گھر کہرام مچا ہوا تھا۔ گاوں کی عورتیں اکٹھی تھیں اور مختلف تبصرے کررہی تھیں۔

گاوں کے مسجد کے امام کو بلا لیا گیا تھا۔

اور قرانی آیا ت کا ورد جاری تھا۔

ادھر قافلہ جوں جوں بھن کے قریب پہنچ رہا تھا۔ لوگوں کے اندر بے چینی ، تجسس، اور ایک نامعلوم خوف بڑھتا جا رہا تھا۔
جیسے وہ لوگ بھن کے پاس پہنچے ۔

انہیں دور ہی سے دو افراد ساتھ ساتھ زمین پر گرے ہوئے نظر آئے۔

وہ اسد اور تنویر ہی تھے۔ لیکن دونوں بے ہوش تھے۔

لوگوں کی نظریں خوف سے ان کا طواف کر رہی تھیں-


…………………………………………………………………..


وہ اسد اور تنویر ہی تھے۔ لیکن دونوں بے ہوش تھے۔

لوگوں کی نظریں خوف سے ان کا طواف کر رہی تھیں-
شاید وہ آس پاس کہیں جن کی موجودگی کے آثار تلاش کررہے تھے۔

کسی کی ہمت نہ ہورہی تھی کہ وہ لڑکوں کے پاس جائے۔

اچانک چچا سلطان کا بیٹا کاشف جو چند دن پہلے ہی شہر سے آیا تھا۔ وہ آگے بڑھا اور ایک لڑکے کو سیدھا کیا۔ وہ تنویر تھا ۔ اس نے اسکی نبض چیک کی۔ دل پر ہاتھ رکھا۔ اور زور سے کہا۔

یہ صرف بے ہوش ہے۔ اسے اٹھا لیں۔

گاوں والے اپنے ساتھ ایک چارپا ئی بھی لائے تھے ۔ فورا ہی تنویر کو اٹھا کر چارپا ئی پر ڈال دیا گیا۔ لیکن سب بہت خوفزدہ سے انداز میں کام کر رہے تھے۔ کچھ لوگ کلمہ کا ورد کررہے تھے۔

اب کاشف اسد کی طرف بڑھا۔

وہ تھوڑا آگے تھا۔ اس کو سیدھا کیا اور اٹھانے کی کوشش کی۔

لیکن کاشف کو ایسے لگا جیسے پیچھے سے کسی نے اسد کو پکڑا ہو ا ہو۔۔

خوف کی ایک سرد لہر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاشف کے جسم سے سرسراتی ہوئی گذری۔۔

گرچہ لالٹینوں کی روشنی تھی مگروہ لوگ پیچھے ذرا فاصلے پر تھے۔ ویسے بھی روشنی صرف ایک رخ یعنی سامنے سے تھی۔

پیچھے کی طرف تو کچھ بھی نظرنہیں آتا تھا۔

کاشف پہلی مرتبہ خوف زدہ ہوا۔

لیکن ہمت کرکے اس نے اسد کو پھر اٹھانے کی کوشش کی ۔۔۔

اسے پھر ایسے لگا جیسے کسی نے اسد کو پیچھے سے پکڑ رکھا ہو۔۔

وہ اپنی خوف کی کیفیت کا اظہار نہیں کر نا چاہتا تھا۔

اسے پتہ تھا۔
یہ دیہاتی لوگ توہم پر ست ہیں۔۔
یہ اور بھی خوف زدہ ہو جائیں گے۔۔
اس کا ذہن بہت تیزی سے سوچ رہا تھا۔۔۔
اسکے ماتھے پر پسینے کے قطرے ابھر آئے۔۔۔


…………………………………………………….


اس کا ذہن بہت تیزی سے سوچ رہا تھا۔۔۔
اسکے ماتھے پر پسینے کے قطرے ابھر آئے۔۔۔

اس نے ایک بند ے کو لالٹین قریب لانے کو کہا۔۔

پھر لالٹین اسکے کے ہاتھ سے لے کر اسد کے پیچھے لے گیا۔۔۔

چند لمحے بعدہی وہ سب معمہ حل ہو گیا ۔۔

اوہ۔۔۔
تو یہ بات ہے۔۔

آدھے گھنٹہ بعد وہ سب اسد کے گھر میں بیٹھے ہو ئے ۔۔ تھے۔

اسد اور تنویر کو ہوش آگیا تھا۔ ۔۔

پہلے تو وہ بہت خوف زدہ تھے۔ بلکہ جب اسد کو ہوش آیا تو اس نے با قاعدہ دوڑنے کی کوشش کی۔۔

اور چیخنے لگا۔۔ جن نے مجھے پکڑ لیا ہے۔۔۔جن نے مجھے پکڑ لیا ہے۔۔۔

مولوی صاحب نے سورہ یٰسین پڑھ کر دم کی۔۔۔لوگوں نے حوصلہ دیا۔۔

اسکی ماں آب زم زم لے آئی۔۔

اور کچھ دیر بعد وہ پرسکون ہوا۔۔۔

رات تو تقریبا گذر ہی چکی تھی۔۔۔

اسد کے باپ نے اپنے گھر میں سب افراد کو

چائے پلائی ۔۔۔
موسم اتنا سردتو نہیں تھا۔ ۔
مگر رات نے خنکی بڑھا دی تھی

چائے کا دور ختم ہو نے کے باوجود

لوگ اسد کے پاس موجود تھے۔۔۔
سبھی کو تجسس تھا۔۔
اسد اور تنویر کے ساتھ ہوا کیا تھا۔۔۔

وہ کیسے بے ہوش ہوئے۔۔

کیا انہوں نے جن دیکھے۔۔

یہ اور اس ملتے جلتے سوالوں نے سب لوگوں کو وہاں روک رکھا ۔۔

یہ اس چھوٹے سے دیہات کی
بریکنگ نیوز تھی۔۔ بلکہ بریکنگ سٹوری تھی۔۔۔
جو شاید اگلے کئی ہفتے زیربحث آنی تھی۔۔
اس سٹوری کے اصل کردار ان کے سامنے تھے۔
وہ ان کے منہ سے ۔۔۔۔
سنسی خیزانکشافات سننے کے انتظار میں تھے۔

جاری ہے ۔۔۔ پارٹ ٹو.. 
………………………………………………….

Part-2ایک سیاہ رات کی کہانی



Part-2ایک سیاہ رات کی کہانی 


اس سٹوری کے اصل کردار ان کے سامنے تھے۔
وہ ان کے منہ سے ۔۔۔۔

سنسی خیزانکشافات سننے کے انتظار میں تھے۔۔

بالاخر مولوی صاحب بولے۔۔ 
فجر کی نماز میں تھوڑا سا وقت ہے۔۔
یہ سب لوگ۔۔
اسد اور تنویر کے منہ سے واقعات کی تفصیل سننا چاہتے ہیں۔۔

اگر اسد بیٹا اب بہتر محسوس کررہا ہے تو
ساری بات بتائے تاکہ لوگ گھر جائیں اور نماز کی تیاری کریں

اسد سے پہلے تنویر بولا
جی مولوی صاحب
میں بتاتاہوں۔۔


ہم لوگ جب اکرم اور شہباز کو بتا کر نکلے تو ہمارے ذہن خوف سے خالی تھے۔
ہم بہت پر اعتماد انداز سے بھن پر پہنچ گئے۔۔۔
وہاں پہنچے تو ایک ہولناک۔۔خاموشی کا سحر
ہرسو طاری تھا۔۔
بھن کے ساتھ ہی واقع پہاڑی بہت بڑی ،
اپنے حجم سے بہت بڑی لگ رہی تھی۔۔
پھر ہوا چلنے لگی۔۔


سرسراتی ہوا۔۔
پھراچانک ہمیں ایسا لگا ۔۔۔
جیسے کچھ آوازیں آ رہی ہوں۔۔۔۔

جیسے کوئی بول رہا ہو-۔۔

پتہ نہیں کیوں ہمیں کچھ کچھ خوف محسوس ہوا۔۔

لیکن اسد نے بھن سے بیس قدم گن کر ڈنڈے کو زمین میں ایک پتھر لے کر دبا نا شروع کیا ۔۔۔

میں بھی اسد کے پاس ہی تھا۔۔

ہر سوگھپ اندھیرا۔۔۔

ہوا چل رہی تھی۔۔ اور
پتہ نہیں کیوں ایسے لگ رہا تھا۔۔ جیسے کوئی بول رہا ہے۔۔
کچھ کہ رہا ہے۔۔

میں نےاسد کو کہا ۔۔۔
جلدی کرو ۔۔ مجھے خوف محسو س ہو رہا ہے۔۔

اسد بولا۔۔۔
ہاں یا ر ۔۔۔ کچھ ایسا ہی مجھے بھی لگ رہا ہے۔۔۔

میں ڈنڈے کو زمیں میں گاڑ رہاہوں ۔۔۔ لیکن بہت مشکل ہورہی ہے۔
کچھ نظرہی نہیں آ رہا۔۔

میں نے کہا
زور زور سے پتھر کو ڈنڈے کے سر پر مارو۔۔۔

پھراسد نے ایسے ہی کیا۔۔

اور بولا
چلواب بھاگو یہاں سے

جیسے ہی میں نےقدم اٹھایا۔۔
اسد چیخا۔۔

تنویر۔۔۔ تنویر۔۔

مجھے کسی نے پیچھے سے پکڑ لیا ہے۔۔

مجھے جن نے پکڑ لیا ہے۔۔

مجھے۔۔۔مجھ۔۔۔

اور پھروہ خاموش ہوگیا۔۔

مجھے ایسے لگا۔۔

میرے پاوں کسی نے زمین سے باندھ دیے ہوں۔۔

اور پھر ۔۔

شاید میں بھی خوف سے بے ہو ش ہوگیا۔۔

………………………………..

مجھے ایسے لگا۔۔
میرے پاوں کسی نے زمین سے باندھ دیے ہوں۔۔
اور پھر ۔۔
شاید میں بھی خوف سے بے ہو ش ہوگیا۔۔۔


اب آگے کی کہانی بلکہ اصل کہانی میں سناتا ہوں۔۔۔ 
اچانک چچا سلطان کا بیٹا کاشف بولا۔۔۔

تم۔۔۔
تنویر، اسد کے ساتھ تقریبا سب ہی لوگ چونک کر بولے۔۔۔
مگر تم تو ہمارے ساتھ ہی وہاں گئے تھے۔۔

جی ہاں ۔۔۔۔ 
میں آپ لوگوں کے ساتھ ہی گیا تھا۔۔۔
اور ایک لمحے کو تو ۔۔۔۔ سچی بات ہے۔۔۔ میں بھی بہت ڈر گیا تھا۔۔۔

مگرپھر اللہ نے مجھے ہمت دی۔۔۔

اور میں بات کی تہ تک پہنچ گیا۔۔۔

کاشف نے بہت پرسکون انداز میں جواب دیا۔۔

اب لوگ کاشف کی طرف متوجہ ہوگئے۔۔۔

سب کی آنکھیں ۔۔

تجسس سے جیسے پھٹ رہی تھیں۔۔۔

--
کاشف دھیما سا مسکرایا۔۔۔ اور کہا۔۔


آپ سب لوگوں کے سامنے میں پہلے تنویر کو جو کہ اسد سے چند قدم پہلے گرا ہوا تھا۔۔ چیک کیا ۔۔ اور آپ لوگوں کو اٹھا نے کا کہا۔۔

پھر

جب میں نےاسد کو اٹھانے کی کوشش کی تو مجھے ایسے لگا

جیسے اسے پیچھے سے کسی نے پکڑا ہوا ہو۔۔

میں لالٹین منگوائی اور جب دیکھا۔۔

تو

اسد کی قمیص ڈنڈے کے ساتھ ہی زمیں میں گڑی ہوئی ۔۔

دراصل اندھیرے میں اسے پتہ نہ چلا۔۔ہوگا۔۔

یوں جب اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو اسے لگا کہ

اسے کسی نے پکڑ لیا۔۔۔

حالانکہ ایسی کوئی بات نہ تھی۔۔

یہ ذہن میں جاگزیں خوف تھا ۔۔۔

جس نے انہیں بے ہوش کردیا۔۔۔۔

سب حیرت سے منہ پھاڑے کاشف کو دیکھے جارہے تھے۔۔۔

-----------------------------------------

THE END

Sunday, December 13, 2015

فرشتہ

آج صبح اچانک ہی آنکھ کھل گئی ۔ وقت دیکھا تو ابھی رات کے ساڑھے تین بجے تھے۔ حیرت سی ہوئی کہ ایسے کبھی پہلے نہیں ہوا۔ ہمیشہ موبائل کے الارم بجنے سے آنکھ کھلتی تھی۔ دوبارہ سونے کی کوشش کی لیکن نیند کوسوں دور بھاگ گئی۔ ایسے ہی سوچنے لگا ۔ اتنی جلدی آنکھ کھلنے کا سسب کیا ہے؟ کیا خواب میں کچھ ایسا دیکھ لیا۔ ذہن پہ زور دینے پر بھی کوئی خواب یا خواب سے متعلقہ کوئی منظر ذہن میں نہ آیا۔ بس الجھن سی ہونے لگی۔
کروٹ پہ کروٹ لیتا رہا نہ نیند آئی نہ بے چینی اور الجھن ختم ہوئی ۔ اتنے میں اذان کی آواز آئی ۔ سوچا جاگ تو رہا ہوں نماز پڑھ لوں۔ پلنک سے اٹھا اور جوتے پہن کر واش روم گیا ۔ وضو کرکے باہر نکلا تو بیگم بھی جاگتی نظر آئی۔
اس نے حیرت، غصے اور الجھن بھری نظروں سے مجھے دیکھا
میں نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا اور کمرے سے باہر نکلنے لگا تو پیچھے سے بیگم نے پوچھا
کہاں چلے
نماز کے لئے مسجد جا رہا ہوں۔
میں نے پلٹ کر جواب دیا۔
اور اسے حیرت اور الجھن میں ہی چھوڑ کر باہر آگیا۔
جب میں مسجد سے نماز پڑھ کر باہر نکلا تو محلے کے ایک صاحب نے سلام کیا اور حال احوال پوچھا ۔
میں نے اپنی خیریت سے آگاہ کرنے کے بعد اخلاقا اس سے خیریت دریافت کی تو اس نے بتا یا کہ اس کی بیگم پچھلے کئی دن سے ہسپتا ل میں داخل ہیں اور ڈاکٹر نے آپریشن کی تاریخ دی ہوئی ہے لیکن اس کی بیگم کے خون کا گروپ او نیگیٹو ہے ۔ جو کہ ایک کم باب گروپ ہے۔ ڈاکٹر ز نے کہا ہے کہ آپ کم از کم چھ بوتل او نیگیٹو گروپ کا انتظام کرلیں۔ ورنہ آپریشن مقررہ تاریخ کو نہ ہو سکے گا۔ اس نے اپنی سی پوری کوشش کر لی لیکن انتظام نہ ہو سکا۔ ہسپتال انتظامیہ نے کہا کہ وہ دو بوتل اس گروپ کے خون کی دے سکتے ہیں لیکن اس کے لئے اسے آٹھ بوتل کسی دوسرے گروپ کے خون کی دینی ہوں گی۔
وہ اسی پریشانی میں تھا اور اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے ۔
مجھے چند سال پہلے کا ایک منظر یا د آگیا۔
میں بھی اسی کی طرح پریشان ایک مشہور ہسپتال کے سامنے کھڑا اور تقریبا اسی طرح کی پریشانی سے دوچار تھا۔ تب ایک نوجوان نے مجھے سلام کیا اور کہا
سر آپ یہاں ؟ خیریت تو ہے۔
میں نے اسے جب بتایا کہ میری والدہ اسی ہسپتال میں ہیں اور انہیں فوری طور پر خون کی ضرورت ہے تو اس نوجوان نے میں مجھے کہا
اگرتو ایک بوتل چاہیے تو میں ابھی حاضر ہوں سر ورنہ مجھے صرف ایک گھنٹہ دیں ۔ میں اپنے سب دوستوں کو بلا لیتاہوں۔
میں نے اس دن پہلی بار ایک فرشتے کو انسانی شکل میں دیکھا تھا۔
مجھے سوچوں میں گم دیکھ کر وہ صاحب بولے
لگتا ہے آپ خود کسی پریشانی میں ہیں
نہیں نہیں۔ الحمدللہ ایسی بات نہیں ۔
آپ صرف یہ بتائیں کہ آپ کی بیگم کس ہسپتال میں ہیں۔ وارڈ اور بیڈ نمبر کیا ہے ۔
آپ کے لئے خون کا انتظام ہو جائے گا۔
وہ ایک دم سے جھٹکا کھا کر رک گیا۔
سچ کہ رہے ہیں آپ ؟
میں نے اسے مکمل تفصیل سے بتا یا کہ میں اس کے لئے کیسے خون کا انتظام کر سکتا ہوں اور یہ کا م میرے لئے کوئی مشکل نہیں ۔ تو اس کی آنکھیں بے اختیار نم ہو گئیں۔
اور اس نے ایک مجھے گلے لگا لیا۔
اور کہا
قسم کھا کر کہ رہاہوں ۔ میں نے آج زندگی میں پہلی بار ایک فرشتے کو انسانی شکل میں دیکھا ہے۔
میں چپ تھا ۔ لیکن مجھے صبح سویرے آنکھ کھلنے کی وجہ سمجھ میں آگئی

Sunday, November 22, 2015

؟میرا قصور کیا ہے؟؟؟


آج صبح بیگم کو اٹھایا اور اس سے پوچھا جان! واک کیلئے میرے ساتھ چلو گی؟ 
بیگم نے نیم غنودگی میں جواب دیا " کیا مطلب؟ تمھارا خیال ہے میں موٹی ہو گئی ہوں؟
" نہیں ، نہیں۔۔ واک صحت کے لئے اچھی ہے"
 بیگم: اوہ۔۔۔ اس کا مطلب ہے میں بیمار ہوں 
میں: قطعا نہیں۔۔ میری جان اگر تم واک پہ نہیں جانا چاہتی تو کوئی بات نہیں۔ 
بیگم: تو تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ میں سست ہوں۔ ہیں؟ 
میں: بالکل نہیں ۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ۔ تم بلاوجہ الجھ رہی ہو 
بیگم: واہ واہ۔۔۔ ۔۔تو گویا میں لڑاکا بیوی ہوں۔بس لڑنے کا بہانہ ڈھوندتی ہوں ۔ ہیں نا؟
 میں: اچھا چھوڑو۔ بہتر یہی ہے کہ میں بھی واک پہ نہ جاؤں
 بیگم: ہوں ں ں ۔۔۔ تو یوں کہو نا ۔ تم خود واک پہ جانا نہیں چاہ رہے۔ پھر مجھے کیوں الزام دے رہے ہو
 میں: اچھا بابا۔ تم پھر آرام سے سوتی رہو۔ میں واک پہ جا رہا ہوں 
بیگم: روہانسے انداز میں ۔ تم ہمیشہ اکیلے ہی ہر جگہ جاتے ہو۔ تم تو چاہتے ہی یہی ہو
 میں: افوہ۔۔۔ میر ا تو دم گھٹنے لگا ہے صبح صبح ۔
 بیمگم: دیکھا؟ میں ٹھیک کہتی ہوں ۔ تم خود غرض ہو۔ صرف اپنی فکر رہتی ہے۔ میری صحت کا تمھیں ذرا خیال نہیں
 ای ای ای ای ۔۔۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ 
میں ابھی تک ٹی وی روم میں بیٹھا ہوں ۔ سوچ رہا ہوں ۔ واک پہ جاؤں کہ نہ جاؤں ویسے بائی داوے آپ بتائیے ۔۔۔ مجھ سے کیا اور کہاں غلطی ہوئی ہے؟

ہم سفر

اس دن صبح سے ہی ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے اور موسم بہت دلفریب ہورہا تھا۔ ایسے میں سفر کا مزہ اور دوبالا ہو جاتا ہے لیکن میرے لئے وہ شخص بہت الجھن کا باعث بن رہا تھا۔ میں نے اپنے ایک عزیز کو ملنے کے لئے لاہور جانا تھا۔ اسلام آباد سے ایک معروف کمپنی کی بس میں سوار ہوا تو موسم کے منا سبت سے ایک دھن خود بخود میرے ہونٹوں پر تھرکنے لگی ۔ بہت خوشگوار موڈ کے ساتھ جب اپنی سیٹ پر بیٹھا تو کچھ ہی دیر بعد جو صاحب میرے ساتھ آکر بیٹھے وہی میرے لئے کوفت اور الجھن کا سبب بن گئے۔جھٹ سے آتے ہی فرمانے لگے " آپ کہاں جارہے ہیں" نہ سلام نہ دعا ۔ مجھے نجانے کیوں ایک دم غصہ آگیا ۔ "ظاہر ہے بس لاہور جارہی ہے تو میں پشاور جانے سے تو رہا۔ لاہور ہی جارہا ہوں" " گڈ۔ اس کا مطلب ہے آپ کے ساتھ سفر کافی اچھا گذرے گا۔ " "کیا مطلب؟ " " سادہ سی بات ہے۔ آپ بہت خوش مزاج لگ رہے ہیں سو آپ کے ساتھ اگلے کچھ گھنٹے بات چیت کرکے مزا آئے گا" میں تو تلملا کر رہ گیا۔ اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی واقف کار نظر آئے تو سیٹ بدل لوں ۔ لیکن سب چہرے اجنبی تھے۔ بس ہوسٹس سے مد د لینے کا خیال آیا پھر اپنی فطری روادری اور جھجھک آڑے آگئی ۔ سو چپ ہی رہا۔ میں دراصل دوران سفر خاموش رہنا ہی پسند کرتا ہوں ۔ جو صاحب میرے ہم سفر بنے پہلے فقرے سے ہی مجھے اچھے نہ لگے ۔ اور وہ تھے کہ مسلسل سوال کیے جارہے تھے۔ اچھا آپ کہاں سے ہیں۔ کیا کرتے ہیں۔ لاہور کیوں جارہے ہیں۔ ؟ میں مختصر جواب دیتا رہا ۔ اور رواداری میں جب یہی سوال ان سے پوچھے توگویا وہ جیسے انتظار میں تھے ۔ اپنے حوالے سے جو گفتگو شروع کی تو لاہور جا کر دم لیا۔ وہ صاحب دراصل بہت بڑے بزنس مین تھے ۔ اور ان کا بزنس پاکستا ن کے کئی شہروں میں پھیلا ہوا تھا۔ ان کے بزنس میں گاڑیوں کے سپیئر پارٹس سے لے کر لیپ ٹاپ تک شامل تھے ۔ کئی شہروں میں ان کے ذاتی محل نما گھر تھے۔ میں تو حیرت اور مرعوبیت کی کیفیت میں ان کی گفتگو سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ کسی کے بارے میں بھی فوری رائے نہیں قائم کرنی چاہیے ۔ اس کی گفتگو اس کے بزنس، دولت ، محلوں، گاڑیوں اور رنگ برنگی محفلوں کے گرد گھومتی رہی۔ اور میں اس کی گفتگو کے دوران ایک تصوراتی دنیا میں اس کے ساتھ قدم بہ قد م چلتا رہا۔ یہاں تک کہ لاہور آگیا۔ ۔۔۔۔۔۔ وہ ایک دم اٹھ کر نیچے اترا اور پھر غائب ہو گیا ۔ میں نے اسے آگے پیچھے بہت دیکھا لیکن وہ نہ ملا ۔ حالانکہ میں تو سوچ رہا تھا کہ وہ مجھے اپنا محل دیکھنے کی دعوت دے گا۔ خیر میں باہر آکر داتا دربار جانے والی ویگن میں بیٹھا ۔ یہ میرا معمول تھا ۔ جب بھی لاہور آ تا سب سے پہلے داتا حاضری لگواتا ۔ راستے میں مجھے ایک دفعہ شک ہوا کہ ایک گذرتی ویگن میں وہی میرا ہم سفر بیٹھا ہوا ہے۔ لیکن میں نے اسے ایک وہم سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ داتا دربار پہنچا تو نماز کا ٹائم ہو چکا تھا۔ نماز ادا کی اور باہر نکلنے لگا تو اچانک میری نظر ایک طر ف بیٹھے ایک بندے پر پڑی جو ایک شاپنگ بیگ پکڑے اس میں سے لنگر کے چاول ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ ۔۔ یہ بندہ وہی میرا ارب پتی ہم سفر تھا

زندگی


زندگی بہت مختصر ہے یہ فقرہ تو ہم دن میں شاید کئی بار سنتے ہیں ۔ لیکن کبھی غور نہیں کیا ۔ مختصر کیوں ، کیسے؟ اگر کسی کی عمراللہ کریم نے 50 سال لکھی ہے ، 70 سال لکھی ہے یا 100 سال- تو وہ دنیا میں اتنے ہی سال گذار کر جائے گا۔ پھر مختصر کیوں ہے زندگی ؟ میں کوئی مذہبی سکالر نہیں ۔ لیکن ایک بات جو اپنی کم علمی کے اعتراف کے باوجود جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم جب اپنی گذشتہ زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے گذارے گئے دس ، بیس ، تیس سال تو گویا کل کی بات ہے۔ یوں گذرے گئے جیسے اک لمحہ گذرا ہو۔ اسی سے قیاس کرکے جب یہ سوچ ذہن میں آتی ہے کہ جب نزع کا عالم ہو گا تو ممکن ہے اس وقت ہمیں یہی محسوس ہو کہ ہماری 60، 70 زندگی یوں پلک چھپکتے گذر گئی کہ پتہ بھی نہ چلا۔ تو پھر شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ زندگی مختصر ہے۔ ہاں سچ ہی تو کہتے ہیں۔ ذرا ایک لمحے کے لئے تصور کیجئے ۔ وہ پہلا دن جب آپ اسکول گئے۔ کل کی بات لگتی ہے نا۔ بے شک سر کے بال سفید ہوگئے یا سفیدی کی جانب سرک رہے ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے ابھی تو ہم جوان ہیں۔ کوئی انکل بولے یا آنٹی تو حیرت سی ہوتی ہے۔ ہوتی ہے نا؟ اصل میں یہ زندگی کیا ، دنیا کی ہر چیز ہی گویا دھوکہ ہے۔ جیسے دن ، مہینے، سال ہمیں دھوکہ دیتے ہیں ، دنیا میں ہر چیز ویسے ہی نظر کا دھوکہ ہی ہے۔ جو بات کل ناممکن تھی آج ہمارے لئے ایک عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے۔ ذرا سوچیئے ۔۔۔ کیا کچھ سال پہلے تک کوئی سوچ سکتا تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھے ، بناکسی تار، کسی ظاہری وسیلے کے ہزاروں میل دور بسنے والوں سے نہ صرف بات کی جا سکتی ہے بلکہ ا ن کو دیکھا بھی سکتا ہے۔ سچ پوچھیئے تو اگر کوئی سو سال پہلے کا فرد آج اگر زندہ ہو جائے تو شاید یہ سب کچھ دیکھ کر حیرت سے دوبارہ مرجائے۔ یہ سب کیا ہے؟ کیونکر ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو ہماری آواز کو ، تصویر کو ہزاروں میل دور ایک چھوٹی سی ڈیوائس یا موبائل فون تک پہنچادیتی ہے۔ سائنس کہتی ہے۔فضائے بسیط جو عام نظر کو خالی نظر آتی ہے ۔ یہ سب ایک مخصوص مادے سے بھری ہے۔ ہم جہاں بیٹھتے ہیں ، کھڑے ہوتے ہیں ۔ کچھ دیر تک اس فضا میں ہمارے چلے جانے کے باوجود ہمارا عکس موجود رہتا ہے۔ کیوں؟ ہماری آوازیں اسی کائنات کے کسی بڑے ڈیٹآ سٹوریج میں محفوظ ہو رہی ہیں۔ بلکہ جو کچھ اب تک کہا گیا، بولا گیا وہ لفظ ، وہ آوازیں اسی کائنات میں موجود اور محفوظ ہیں۔ ہم دھوکے پہ دھوکہ کھار ہے ہیں ۔ تو پھر اس زندگی کا کیا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ایسا کریں نا کہ جو محفوظ ہو وہ باعث شرمندگی نہ ہو۔ زندگی دھوکہ سہی اس کا ماحصل دھوکہ نہیں ۔ ایک بہت چھوٹا سا لیکن بہت گہرا نقطہ ہے۔ دھوکہ کھانے والے جب جان بوجھ کر دھوکہ کھاتے ہیں تو اس کے پیچھے کوئی مقصد ہوتا ہے۔ دھوکہ ہی کھانا ہے نا تو جان بوجھ کر کیوں نہ کھائیں۔
ایک دوست کے ساتھ کہیں جارہا تھا۔ راستے میں ایک ٹھیلے والے کے پاس پڑے پھل اچھے لگے تو رک گئے۔ ریٹ پوچھا تو میں نے بھاؤ تاؤ کرنے کی کوشش کی۔ مجھے دوست نے روک دیا ۔ کہا ۔" بس جو بھی بھاؤ لگائے اس سے پھل لے لو" میں نے ایسا ہی کیا لیکن پھر اس سے پوچھا کہ کیوں؟ کہنے لگا" اس ٹھیلے والے کے پاس کل سامان ہی ہزار پندرہ سو کا ہے۔ اس نے اسی سامان سے اپنے گھروالوں کے لئے کچھ روٹی کا بندوبست کرنا ہے۔ ہم اس سے بھی بھاؤ تاؤ کر کے خریدیں گے تو اس کو کیا بچے گا؟۔ ہم روزانہ کتنے خرچ کرتے ہیں کبھی حساب نہیں کیا۔ لیکن اس ٹھیلے والے سے دو دو روپے کے لئے کیوں بحث کرتے ہیں"
کیوں؟ واقعی کیوں؟

کائنات کی ہر چیز دوسروں کےلئے ہے۔ یہ نکتہ جس جس کو سمجھ آیا وہ کامیاب ہوا۔لیکن  زندگی میں کچھ  کرنے کے لئے ، دوسروں کو کچھ دینے کے لئے بھی تو کسی مرشد، کسی استاد ، کسی بزرگ سے وابستگی ضروری ہے۔
بعض اوقات سامنے کی بات سمجھ نہیں آتی ۔ سینکڑوں کتابوں، ہزاروں فلسفوں کے بیچ الجھنے والے سادہ سی بات بھی نہیں سمجھ پاتے۔
بجلی کا کام کرنے والا بتا تا ہے ۔ صاحب بلب تب روشنی دیتا ہے جب وہ کسی تار سے وابستہ ہوتا ہے، تار کسی بورڈ سے جڑی ہوتی ہے۔ بورڈ کسی لائن سے اور لائن کسی گرڈ سٹیشن سے۔
سامنے کی ہی بات ہے۔ لیکن سمجھ بہت دیر میں کیوں آتی ہے۔
خود کو عقل کل سمجھنا ہی سب سے بڑی نادانی ہے۔ سرنڈر کرنا سیکھنا ہوتا ہے۔ تب کچھ ملتا ہے۔ صاحب جی ابلیس کی کہانی تو یاد ہے نا۔ سرنڈر کرنے سے انکار کیا۔ تو سب کچھ ضائع کر بیٹھا۔
کسی استاد ، کسی مرشد، کسی بزرگ کے آگے سرنڈر کرو۔جو آپ کی تاریں کسی بورڈ سے جوڑ دے۔ آپ کا رابطہ گرڈ اسٹیشن سے ہوگا تو کرنٹ آئے گا ۔ورنہ دھوکے پہ دھوکہ کھاؤ گے۔
گذرے پل اور آنے والے پل کے بیچ میں کچھ ایسا ہے جو ہم سمجھ نہیں پاتے۔
بس ذرا غور کرنے پڑتا ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھنا پڑتا ہے

Sunday, July 5, 2015

پہلا روزہ

ہمیں نہ تو کسی نے مجبور کیا ، بہت ضد کی یا منت سماجت کی کہ خدا کے اپنے پہلے روزے کے بارے میں  اپنا ایک ادبی  شاہکار  اپنے "زورقلم اور زیادہ " والے قلم  سے  عنائت کریں  اور نہ ہی کسی نے ان باکس میں کوئی مسیج کیا نہ کسی نے ٹیک کیا۔  پھربھی پتہ نہیں کیوں ہم نے یہ تحریرلکھی ہے بلکہ اپنے ایک عدد بوسیدہ بلکہ خزان رسیدہ  بلاگ پر بھی ڈال دی ۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلاروزہ رکھے ویسے تو اب اتنے سال بیت گئے ہیں کہ بہت ساری تفصیلات ذہن میں نہیں تاہم ماہ رمضان سے جڑے اپنے بچپن کے کچھ ایسے واقعات ضرور یاد ہیں جو کل کی طرح تازہ لگتے ہیں۔  پہلا روزہ جب رکھا تو یہ یاد نہیں کہ کیا کھایا کیا پیا البتہ شام کو جو آؤ بھگت ہوئی وہ نہیں بھولتی ۔  گھروالوں کے علاوہ خصوصا خالہ ، پھوپھو اور کزن نے جو تحائف پھلوں اور دیگر کھانے کی اشیاء اور نقدی  کی صورت میں دیے تو  دل کرتا تھا اب روزانہ روزہ ہی رکھیں گے ۔ وہ تو امی آڑے آ جاتی کہ معصوم جان اور سخت گرمی ۔ بس ایک روزہ کافی ہے ۔ ہاں جس دن موسم ٹھیک ہو گا اس دن رکھ لینا ۔
جمعے کا روزہ ضد کرکے رکھتے تھے۔ ایک دفعہ روزہ رکھنے کے بعد شام کو دوستوں کے ساتھ جھیل پر گئے وہاں کافی دیر کھیلتے رہے اور واپسی پر دوستوں کے ساتھ ٹافیاں کھالیں ۔ بالکل خیال نہ آیا کہ روزہ ہے۔ جب گھر آیا تو بڑی بہن نے پوچھا کہ ابھی تک روزہ قائم ہے یا کچھ کھا پی لیا تھا۔ ایک دم خیال آیا کہ ٹافی کھائی تھی۔ بس رو رو کر برا حال ہو گیا۔ میرا روزہ ٹوٹ گیا میرا روزہ ٹوٹ گیا۔ سب چپ کرواتے رہے بہلاتے رہے اور سمجھا تے رہے کہ بھول چوک کر کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا مگر میں ماننے کو تیار نہ تھا۔ ۔۔دکھ اور افسوس اتنا شدید تھا کہ  افطاری تک روتا ہی رہا ۔
ماں جی کے ہاتھوں سے سحری میں  بنے پراٹھوں کی لذت دوپہر کو اور سوا ہوجاتی تھی اور جو مزہ دوپہر کو ان پراٹھوں کو کھا کر آتا تھا وہ ابھی تک بھول نہیں پایا۔ ماہ رمضان واقعی بہت رونقوں بھرا مہینہ ہوتا تھا۔ صبح سے شام تک ایک الگ ہی ماحول ہوتا تھا۔خصوصا تراویح ایک ایسی پرکشش عبادت لگتی تھی کہ رمضان کے بعد  بھی اس کا ذکر اپنے سکول کے دوستوں میں ہوتا رہتا کیونکہ تراویح میں شرارتیں بھی ہوتی تھی اور برزگوں سے ماربھی کھاتے تھے۔ تراویح پڑھنے کا انداز بھی مختلف تھا۔ جب امام تراویح کے لئے کھڑا ہوتا تو ہم سب بیٹھے رہتے جونہی امام رکوع پر جاتا سب بھاگ کر نیت کرتے اور رکعت میں شامل ہوتے ۔
محلے ، مسجد میں افطاری بھجوانا ایک معمول تھا اور یہ افطاری بہت شوق سے تقسیم کرنا اپنا مشعلہ تھا۔ کیوں کہ اکثر اس سامان میں سے کچھ نہ کچھ اڑا بھی لیا جاتا تھا۔
گڑ کا شربت اب تو معدوم ہو چکا ہے لیکن یہ شربت میرے بچپن میں بہت شوق سے پیا جاتا تھا۔ اس میں بادام ، خسخاش بھی پیس کر ملایا جاتا ۔ تو لذت اور بڑھ جاتی تھی۔افطاری میں نمک سے افطار کرنا باعث ثواب سمجھا جاتا تھا۔ بعد نمک کی جگہ کھجور نے لے لی۔
تو یہ تھیں کچھ یا دیں کچھ باتیں

ہم سفر


اس دن صبح سے ہی ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے اور موسم بہت دلفریب ہورہا تھا۔ ایسے میں سفر کا مزہ اور دوبالا ہو جاتا 
ہے لیکن میرے لئے وہ شخص بہت الجھن کا باعث بن رہا تھا۔ میں نے اپنے ایک عزیز کو ملنے کے لئے لاہور جانا تھا۔ اسلام آباد سے ایک معروف کمپنی کی بس میں سوار ہوا تو موسم کی منا سبت سے ایک دھن خود بخود میرے ہونٹوں پر تھرکنے لگی ۔ بہت خوشگوار موڈ کے ساتھ جب اپنی سیٹ پر بیٹھا تو کچھ ہی دیر بعد جو صاحب میرے ساتھ آکر بیٹھے وہی میرے لئے کوفت اور الجھن کا سبب بن گئے۔جھٹ سے آتے ہی فرمانے لگے " آپ کہاں جارہے ہیں"
نہ سلام نہ دعا  ۔ مجھے نجانے کیوں ایک دم غصہ آگیا ۔
"ظاہر ہے بس لاہور جارہی ہے تو میں پشاور جانے سے تو رہا۔ لاہور ہی جارہا ہوں"
" گڈ۔ اس کا مطلب ہے آپ کے ساتھ سفر کافی اچھا گذرے گا۔ "
"کیا مطلب؟ "
" سادہ سی بات ہے۔ آپ بہت خوش مزاج لگ رہے ہیں سو آپ کے ساتھ اگلے کچھ گھنٹے بات چیت کرکے مزا آئے گا"
میں تو تلملا کر رہ گیا۔ اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی واقف کار نظر آئے تو سیٹ بدل لوں ۔ لیکن سب چہرے اجنبی تھے۔ بس ہوسٹس سے مد د لینے کا خیال آیا پھر اپنی فطری روادری اور جھجھک  آڑے آگئی ۔  سو چپ ہی رہا۔
میں دراصل دوران سفر خاموش رہنا ہی  پسند کرتا ہوں ۔ جو صاحب میرے ہم سفر بنے پہلے فقرے سے ہی مجھے اچھے نہ لگے ۔ اور وہ تھے کہ مسلسل سوال کیے جارہے تھے۔
اچھا آپ کہاں سے ہیں۔ کیا کرتے ہیں۔ لاہور کیوں جارہے ہیں۔ ؟
میں مختصر جواب دیتا رہا ۔ اور رواداری میں جب یہی سوال ان سے  پوچھے توگویا وہ جیسے انتظار میں تھے ۔ اپنے حوالے سے جو گفتگو شروع کی تو لاہور جا کر دم لیا۔ وہ صاحب دراصل بہت بڑے بزنس مین تھے ۔ اور ان کا بزنس پاکستا ن کے کئی شہروں میں پھیلا ہوا تھا۔ ان کے بزنس میں گاڑیوں کے سپیئر پارٹس سے لے کر لیپ ٹاپ تک شامل تھے ۔ کئی شہروں میں ان کے ذاتی محل نما گھر تھے۔ میں تو حیرت اور مرعوبیت کی کیفیت میں ان کی گفتگو سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ کسی کے بارے میں بھی فوری رائے نہیں قائم کرنی چاہیے ۔ اس کی گفتگو اس کے بزنس، دولت ، محلوں، گاڑیوں اور رنگ برنگی محفلوں  کے گرد گھومتی رہی۔ اور میں اس کی گفتگو کے دوران ایک تصوراتی دنیا میں اس کے ساتھ قدم بہ قد م چلتا رہا۔ یہاں تک کہ لاہور آگیا۔ ۔۔۔۔۔۔
وہ ایک دم اٹھ کر نیچے اترا اور پھر غائب ہو گیا ۔ میں نے اسے آگے پیچھے بہت دیکھا لیکن وہ نہ ملا ۔ حالانکہ میں تو سوچ رہا تھا کہ وہ مجھے اپنا محل دیکھنے کی دعوت دے گا۔
خیر میں  باہر آکر داتا دربار جانے والی ویگن میں بیٹھا ۔ یہ میرا معمول تھا ۔ جب بھی لاہور آ تا سب سے پہلے داتا حاضری لگواتا ۔ راستے میں مجھے ایک دفعہ شک ہوا کہ ایک گذرتی ویگن میں وہی میرا ہم سفر بیٹھا ہوا ہے۔ لیکن میں نے اسے ایک وہم سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ داتا دربار پہنچا تو نماز کا ٹائم ہو چکا تھا۔ نماز ادا کی اور باہر نکلنے لگا تو اچانک میری نظر ایک طر ف بیٹھے ایک بندے پر پڑی جو ایک شاپنگ بیگ پکڑے اس میں سے لنگر کے چاول ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ ۔۔ یہ بندہ وہی میرا ارب پتی ہم سفر تھا