صفحات

Sunday, March 20, 2016

دو ٹانگوں والے کتے اور اخلاقی انقلاب


دو ٹانگوں والے کتے اور اخلاقی انقلاب


بچیاں سکول جانے لگیں تو میں نے کہا

" بیٹے ۔ سکول جاتے ہوئے ۔ دھیان رکھنا۔ راستے میں آوارہ کتے ہوتے ہیں "
بڑی بیٹی نے مجھے مسکرا کر دیکھا اور کہا
" ابو ۔ آٌپ تو جانتے ہیں یہ کینٹ کا علاقہ ہے۔ یہاں آوارہ کتے نہیں ہوتے"
" میں ان کتوں کی بات نہیں کر رہا بیٹے ۔ میں دوٹانگوں والے کتوں کی بات کررہا ہوں"
" دو ٹانگوں والے کتے" میری بیٹی چلتے چلتے ایک دم رک گئی اور حیرت سے مجھے دیکھنے لگی
" جی بیٹا"
وہ کچھ دیر سوچتی رہی پھر جھینپ کر بولی " جی ابو! وہ تو ہوتے ہیں"
" بس بیٹا ۔ ایسے کتے بھونکتے رہتے ہیں ۔ ان کی طرف دھیان نہ دینا"
یہ باتیں ویگن میں بیٹھا ایک بزرگ اپنے ساتھی کے ساتھ کر رہا تھا۔
دراصل بات کچھ شروع ایسے ہوئی کہ ایک سواری کنڈکٹر سے الجھ پڑی ۔ بات کرائے کی تھی۔ سواری کا موقف تھا کہ کرایہ کم بنتا ہے لیکن کنڈکٹر یہ بات سننے کو تیا ر نہ تھا۔
یوں باتوں باتوں میں ایک صاحب کہنے لگے " یہ اسلام آباد ہے یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا یہ حال ہے تو باقی شہروں کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے حمکران آنے چاہیں  جو پبلک ٹرانسپورٹ مکمل مفت فراہم کریں ۔ فری ٹرانسپورٹ ہوگی تو ہمارے کافی مسائل حل ہوسکتے ہیں "
ان کی اس تجویز پر کچھ لوگ مسکرا پڑے کچھ نے تائید کی ۔
ایسے میں وہ بزرگ بہت نفیس اور دھیمے لہجے میں بولے
" سچ پوچھیں ۔ تو ہمارے ملک کو کسی معاشی انقلاب کی ضرورت نہیں ۔ صرف اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں اخلاقی قدریں ناپید ہو چکی ہیں ۔ میرے نزدیک ہمارے بہت سارے مسائل کی جڑ ہمارے اند ر اخلاقیات کی کمی ہے۔
اگر ہم پیار سے بولنا سیکھ لیں ۔ اگر ہم شکریہ ادا کرنا سیکھ لیں ۔ اگر ہم عزت دینا سیکھ لیں ۔ جن سے ہم پیار کرتے ہیں ا ن سے پیار کا اظہار سیکھ لیں تو ہماری زندگی گل وگلزار بن سکتی ہے"
ایک صاحب بڑی خبیث سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے
" بزرگو! پیار کا اظہار کیسے سیکھیں۔ اور پیار کا اظہار کس سے کریں"
" ہر اس رشتے سے پیار کا اظہار کریں ۔ جس سے آپ کا پرخلوص رشتہ ہے۔ مثلا اپنی ماں سے ۔ اسے بتائیں ۔ اسے اپنے رویے سے ، اپنے افعال سے یہ باور کرائیں کہ آپ اس سے کتنا پیار کرتے ہیں ۔ اپنی ماں کو بولیں ۔ ماں آپ دنیا کی خوبصورت ترین عورت ہیں ۔ آپ میری کائنات کا ایسا قیمتی اثاثہ ہیں جس کے آگے سب چیزیں ہیچ ہیں ۔ اپنی ماں ، اپنی بہن ، اپنی بیوی ، اپنے بھائی ، اپنے دوست کی ہر اچھی بات کو سراہیں ۔ شکریہ ادا کریں ۔ مناسب مواقع پر تحائف دیں ۔ اور اس کے ساتھ اپنے خالق کے بھی شکر گذار بنیں ۔ یقین کریں آپ کی زندگی میں اتنی خوبصورتی ، اتنی طمانیت ، اتنی خوشی در آئے گی کہ آپ اپنے آپ کو خوش قسمت ترین افراد میں شمار کریں گے"
بزرگ کی گفتگو جاری تھی۔
کہ میرا سٹا پ آگیا ۔۔ میں ویگن سے اترتے ہوئے سوچ رہا تھا۔ میں اس بزرگ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے اتنی خوبصورت اور قیمتی گفتگو سے میری سوچ کو جلا بخشی ۔
مجھے سوچتے دیکھ کر کنڈکٹر زور سے بولا
" رستہ چھوڑو ۔ کیا دیوار بن کے کھڑے ہو گئے ہو۔ "
ایک دم میرا مغز گھوم گیا۔
میں ابھی منہ سے کچھ " ارشاد" کرنے ہی والا کہ ۔۔۔۔
یاد آیا
ہمیں اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہے



No comments:

Post a Comment