صفحات

Friday, April 1, 2016

ایڈونچر۔ ناولٹ۔ حصہ آخری


ایڈونچر۔ ناولٹ۔ حصہ آخری

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بلوبھائی میرے تصورات کے بالکل برعکس شخصیت کے مالک نکلے
انتہائی پرخلوص اور مہذبانہ انداز سے ہمیں خوش آمدید کہا
شہلا کو بہن کہ کر مخاطب کیا
اور فورا ہی ناشتے کا انتظام کیا
اور کہا کہ آپ لوگ تسلی سے ناشتہ کرلیں
پھر ملاقات کرتے ہیں
ہم نے خوب ڈٹ کر ناشتہ کیا
شہلا تو ناشتہ کرتے ہی اونگھنے لگی ۔
میں نے اسے کہا کہ تم لیٹ جاؤ اور آرام کرلو
کمرے میں سونے کا بہترین انتظام تھا
میں نے سامان وغیرہ کمرے میں موجود الماری میں رکھا
اورخود ہی برتن اٹھا کر باہر لے آیا
مجھے برتن اٹھائے آتا دیکھ کر ایک بندہ فورا ہی آگیا
اور کہنے لگا
جناب آپ نےکیوں زیادتی کی۔ ہمیں حکم دیا ہوتا
میں نے برتن اسے دیے اور پوچھا
بلوبھائی کس طرف ہیں۔
وہ مجھے بلوبھائی کےپاس دوسرے کمرے لے گیا
بلوبھائی بہت خوش شکل اور بہت شائستہ انداز میں باتیں کرنے والی
شخصیت کے طور پر مجھے بہت اچھے لگے
بہت ساری باتیں ہوئیں
میں نے انہیں اپنے اور شہلا کے بارے میں سچ سچ بتا دیا
پتہ نہیں کیوں مجھے وہ بہت بااعتماد لگے
لیکن مجھے اس کا قطعا اندازہ نہیں تھا
کہ ان کے پاس بیٹھے ہوئے دیگر دوافراد بھی بہت غور سے میری باتیں سن رہے ہیں
اور آنے والے دنوں میں میرا یہ سچ میرے لئے بہت سی مشکلات کا سبب بننے والا ہے

بلو بھائی نے کہا
جمیل ۔۔۔ تم نے کوئی غلط کام نہیں کیا
اچھا اور مردوں والا کا م کیا ہے
اب کیا ارادہ ہے۔
میں نے کہا
جی ۔ فی الحال تو ادھر ہی رکیں گے۔
کہنے لگے
نہیں نہیں
یہاں ٹھہرنے کی جہاں تک بات ہے تو بسم اللہ ۔ جب تک جی چاہے
ٹھہرو۔
میں شہلا بہن کے حوالے سے کہ رہا تھا۔

میں نے حیران ہو کر پوچھا
میں سمجھا نہیں بلوبھائی

بھئی میرا مطلب تو بہت واضح ہے۔
اب شہلا بہن اور تمھاری شادی کا انتظام کب کرنا ہے۔

میں تو شرما ہی گیا
واقعی ۔۔۔۔۔ اس بھاگ دوڑ میں ۔۔ یہ بات تو میرے وہم و گمان میں نہ آئی

مجھے شرماتے دیکھ کربلو بھائی کہنے لگے
اچھا چلیں اس موضوع کو چھوڑیں اس پر بعد میں بات کریں گے۔
اپنے بارے میں مزید بتا ؤ ۔
میں نے بتایاکہ میٹرک کیاہوا ہے۔ مزید تعلیم کے بارے میں بھی خواہش تو ہے۔
لیکن اب دیکھتے ہیں کہ حالا ت کیارخ اختیار کرتے ہیں
میں نے جان بوجھ کر اسے گھرسے بھاگنے والی بات چھپا لی

بلوبھائی نے کہا کہ تعلیم تو بہت اچھی چیز ہے
لیکن آج کے دور میں کچھ اور بھی ضروری ہنر ہیں۔
تم ایک دودن رہو۔
پھر اس سلسلے میں آپ سے تفصیلی بات ہوگی۔
میں بھی یہی چا ہتا تھا کہ اکمل آجائے تو پھر آگے کا لائحہ عمل بناتے ہیں

میں کمرے آگیا ۔۔۔۔۔ کل سے جن حالا ت سے گذرا تھا۔ ذہنی اور جسمانی طور پر
بہت تھک چکا تھا
چنانچہ میں نے مناسب یہی سمجھا کہ
کچھ دیرسولیا جائے

سوکر اٹھا تو شام ہو چکی تھی
شہلا بھی جاگ رہی تھی
اور کافی فریش لگ رہی تھی
اٹیچ باتھ میں نہا کر جب میں باہر نکلا تو وہ اپنے بال سنوار رہی تھی
سادگی میں اس کا حسن اور بھی نکھرا نکھرا سا تھا

کہنے لگی پتہ نہیں پیچھے کیا حال ہوگا۔۔
مجھے تو یہ سب ایک خواب کی مانند لگ رہا ہے
تمھارا ملنا اور پھر اتنی جلدی حالات کے اندر اتنی بڑی تبدیلی ۔۔
جمیل میں سچ کہ رہی ہوں
میں خواب میں یہی کچھ دیکتھی رہی ہوں
اور جاگ کر بھی
پتہ نہیں اللہ کو میری کون سی با ت پسند آگئی کہ میں اس ماحول سے نکل آئی
جہاں میرا دل کبھی نہ لگا تھا
تم نہیں جانتے جمیل
میں کیسے اپنے آپ کو اس ماحول میں مقید محسوس کرتی تھی
پر مجھے کبھی یہ خیال نہ تھا کہ میں یوں وہاں سے نکل آؤں گی

یہ سب اللہ کا کرم تو ہے ہی
پر تیرا بھی بہت شکریہ

میں نے فورا ہی اسے ٹوک دیا
پگلی کیا کہ رہی ہو
اپنوں کا شکریہ ادا نہیں کیا جاتا

اور میں نے کیا ہی کیا ہے۔۔۔
سچی اگرتیرا ساتھ نہ ہوتا تو جمیل کبھی انتا توانا نہ ہوتا
تیری محبت نے تیرے پیار نے مجھے بہت طاقت دی ہے

بس دعا کرو۔۔۔
اللہ مزید پریشانیوں سے بچائے

پھر اس نے بلوبھائی کے بارے میں پوچھا تو میں نے اسے اپنی ملاقات کا
سب احوال بتایا

کہنے لگی
جمیل وہ ٹھیک کہ رہے ہیں۔۔
تم مجھ سے سال دو چھوٹے ہی ہوگے ۔ ۔۔ پر ہمیں جلد ازجلد شادی کرلینی چاہیے
یوں رہنا کسی طور مناسب نہیں

اور یہ تو میں جانتی ہوں، تم جانتے ہو یا اپنا رب جانتا ہے کہ ہماری محبت کتنی پاکیزہ ہے
لیکن یہ دنیا تو نہیں جانتی

میں نے اسے کہا کہ میں اکمل کا انتظار کررہاہوں وہ آجائے تو اس سلسلےمیں
اس سے بات کروں گا۔ وہ جیسے کہے گا کرلیں گے

میں باہر آیا تو بلوبھائی نہیں تھے ۔ پوچھا تو کہنے لگے
وہ کلاس میں ہیں
میں حیران رہ گیا
پتہ چلا کہ وہ شام کو روزانہ محلے کے نوجوان بچوں کو جوڈو کراٹے سکھاتے ہیں

میں بھی وہیںچلا گیا
مجھے دیکھتے ہی بلو بھائی نے باقی لڑکوں کو جو وہاں موجود تھے کہا

لوجی ہمارا نیا سٹوڈنٹ بھی آگیا

سب لڑکوں نے مجھے خوش آمدید کہا
میں تو بہت ہی خوش ہوا
اس دن بلوبھائی کے ساتھ پہلی کلاس میں بہت مزا آیا

بہت دیر تک وہیں رہے۔
پھر سب لڑکے چلے گئے تو بلوبھائی نے مجھے کہا کہ
آؤ ذرا باہر کا چکر لگا کے آتے ہیں
اور شہلا بہن کی فکر نہ کرو
وہ سمجھو اپنے بھائی کے گھر میں ہے

میں پھر بھی شہلا کو بتا کر باہر آگیا
بلوبھائی جہاں جہاں سے گذرے لوگ بہت عزت سے ملے
نئی نئی آبادی تھی
ابھی کئی پلاٹ خالی نظر آرہے تھے
وہ مجھے ایک مارکیٹ میں لے گئے
سب دوکان دار انہیں بلوبھائی ہی کہ کر مخاطب کر رہے تھے
میں یہ سب حیرت سے دیکھ رہا تھا

جب واپس مکان پر آئے تو بلوبھائی نے بتا یا کہ وہ حتی الوسع اس آبادی کے لوگوں کے
کام آتے ہیں۔
اور ہرکسی کی خوشی اور غم شریک ہوتے ہیں
خدا کا شکرہے کہ سب عزت کرتے ہیں

میں تو اندرہی اندر بلوبھائی کا گرویدہ ہو گیا۔۔۔

رات کو ہمارے کمرے میں ٹی وی بھی رکھوادیا گیا

دودن اسی طرح گذر گئے

اکمل نہ آیا ۔۔۔ نہ اس کی کوئی خیر خبر کا پتہ چلا
ہاں ان دودنوں میں میں باقاعدگی سے کلاسز لیتا رہا

باقی لوگوں سے بھی تعارف ہوا۔ ٹوٹل جو افراد اس مکان میں رہ رہے تھے انکی تعداد
سات تھی۔ ڈبل سٹوری مکان تھا۔
شاید جگہ کنال سے زیادہ تھی۔ چارکمرے نیچے اور تین کمرے اوپر تھے
بہت اچھا کھلا مکان تھا
نیچے ایک کمرا ہال نما تھا ۔۔۔ جہاں کلاس ہوتی تھی

بلوبھائی کے بارے میں زیادہ معلومات تو نہ ملیں ۔۔۔ وہ اپنے بارے میں کم ہی بولتا تھا

ہاں اسکی آمدن کا ایک ذریعہ جو مجھے ان دودنوں میں پتہ چلا وہ یہ تھا کہ پہلے دن جس مارکیٹ
میں لے گیا تھا۔ وہ اس کی ذاتی مارکیٹ تھی – جس سے کرایہ اسے مل رہا تھا

جب تین دن گذرگئے اور اکمل نہ آیا تو میں پریشان ہوگیا

بلوبھائی سے بات کی تو اس نے تسلی دی اور کہا ایک آدھ دن اور دیکھ لو
میرا رابطہ بھی نہیں ہو پا رہا ۔ شاکی استاد سے۔
نہ اس کا کوئی بندہ کئی دنوں سے ادھر آیا ہے۔

اگر مزید دودن تک آپ کا دوست نہیں آتا تو پھر لاہور جا کر پتہ کرلیں گے

دودن مزیدبھی گذر گئے اور اکمل نہ آیا ۔ میں نے بلوبھائی سے کہ کر لاہور کا پروگرام بنایا
بلوبھائی کہنے لگا ۔ ٹھیک ہے ۔ مجھے بھی چنددنوں کے لئے لاہور جانا ہے ۔ میرے ساتھ ہی چلنا

میں شہلا کے حوالے سے فکرمند تھا۔
لیکن بلوبھائی کے مکان پر اسے محفوظ بھی خیال کرتا تھا۔
چنانچہ میں دوسرے دن علی الصبح ہی بلوبھائی کے ساتھ لاہور روانہ ہو گیا
بلوبھائی نے احتیاطا میرے حلیے میں کافی تبدیلی کروادی تھی۔
سر پر بھی وگ اور چہرے پر ایک تل کا اضافہ ہو گیا تھا۔
بلوبھائی میک اپ کا ایکسپرٹ تھا۔ ۔
کچھ ٹپس اس نے مجھے بھی دیں۔۔۔
خیر ہم لاہور پہنچے تو بلوبھائی نےایک جگہ سے فون کرکے کچھ بندوں سے بات کی۔۔
پھر مجھے بتایا کہ استاد شاکی اور دیگر کئی لوگ جیل میں ہی بند ہیں۔۔۔
مجھے لگتا ہے یہ شہلا بہن کی ماں کی ہی کارستانی ہے۔۔۔

اب آپ کیا کرنا چاہو گے۔۔

میں نے کہا کہ آپ اپنا کام کریں ۔۔ میں اکمل کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں

اس نے کافی کچھ باتیں سمجھائیں ۔ ویسے میں اب بہت پر اعتماد تھا۔ جوڈو کراٹے کی ٹریننگ نے مجھے کافی حد تک اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت سے مالا مال کیا تھا۔پھر میرا حلیہ بھی بالکل مختلف تھا۔۔۔

چنانچہ میں بلو بھائی سے خدا حافظ کہ کر سب سے پہلے آغا جی کے ہوٹل کی طرف گیا۔۔۔
وہاں مجھے کسی نے بھی نہ پہچانا ۔۔ مجھے زبیر کی تلاش تھی ۔ زیبر بھی ہوٹل پر ملازم تھا۔ لیکن میرے ساتھ کافی مخلص تھا۔
وہ مجھے کھانا کھاتے ہوئے مل گیا۔۔۔ پہچان ہی نہ سکا۔۔۔
میں اسے احتیاط سے تعارف کروانے کے بعد ہوٹل سے باہر لے آیا۔۔
اس نے مجھے بتا یا کہ اکمل تو تمھارے جانے کے بعد دوسرے دن ہی چلا گیا تھا۔۔۔
آغاجی کو تم لوگوں کی وجہ سے کافی پریشانی ہوئی ۔۔۔ خصوصا تھانے میں ۔۔
پھر پولیس اکمل کے بھی پیچھے پڑ گئی ۔۔
کئی دفعہ اسکے پیچھے ہوٹل آئی ۔ چوری کے علاوہ بھی کوئی اور کیس لگتا تھا۔۔

کئی ملازموں سے بھی پوچھ گچھ کی۔۔۔۔
اس نے مجھ سے بھی کئی سوال کئے ۔۔ میں اسے ادھر ادھر کے جوابات سے ٹالتا رہا۔۔
پھر اسے خداحافظ کہ کر نکل آیا۔۔
ہوٹل سے مزید کچھ معلومات ملنے کا امکان نہ تھا۔۔۔
میں پھر استاد شاکی کے ڈیرے کی طرف چلا گیا۔۔۔
پہلے کافی دیر تک ادھر ادھر پھر کر تسلی کی کہ کہیں کوئی پولیس کا بندہ نہ ہو
پھر جب جا کر دروازہ کھٹکھٹایا تو کافی دیر تک اندر سے کوئی نہ نکلا۔۔

میں مایوس ہو کر پلٹنے ہی والا تھا کہ
اچانک شاہیہ آگیا ۔۔
مجھے دیکھ کر کافی حیران ہوا کہ میں کون ہوں اور کس سے ملنا ہے۔۔
میں سمجھ گیا کہ میرے تبدیل شدہ حلیے کی وجہ سے نہیں پہچان پایا ۔۔۔
پھرجب اسے بتایا کہ میں جمیل ہوں تو فورا ہی اندر لے گیا۔۔
کہنے لگا
استاد جمیل ۔۔۔ شکرکرو۔۔ تم یہاں سے نکل گئے۔۔
پولیس تو بالکل باؤلی ہوئی جارہی تھی۔۔ استاد شاکی اور دو اور بندے ابھی تک تھانے میں بند ہیں
تین دفعہ یہاں چھاپے مار چکی ہے۔۔
میں نے اس سے پوچھا کہ میرا ایک دوست اکمل بھی یہاں آیا تھا۔۔ تو اس نے بتایا کہ ہاں
وہ ادھر آیا تھا۔۔۔ پر ہم نے اسے فورا ہی بھگا دیا۔۔۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اسے یہی مشورہ دیا کہ کہیں چھپ جائے ۔۔
میں تو اب بہت پریشان ہوگیا۔۔

یہ کیا ہورہا ہے؟ میں اکمل تک کیسے پہنچوں؟
میں نے بہرحال شاہیہ کو سمجھایا کہ اگر اکمل دوبارہ یہاں آئے یا اسکی ملاقات کہیں بھی اکمل سے ہو تو اسے بلوبھائی کا پتہ ضرور سمجھا دے۔۔

شاہیہ شاید بلوبھائی کے ڈیرے پر کبھی نہ گیا تھا۔ میں نے اسے سارا پتہ سمجھایا۔۔
اس نے وعدہ کیا کہ کوشش کرے گا ۔۔ کہ اکمل کو میرے پاس بھجوادے۔۔

پھر میں وہاں سے نکل آیا ۔۔۔ جی میں آئی ۔۔ شہلا کے مکان تک کا چکرلگا کر وہاں کے حالات کا بھی پتہ کیا
جائے۔۔پھر سوچا وہاں جانا خطرے سے خالی نہ ہوگا۔۔۔

کافی دیرتک ادھر ادھر پھرتا رہا۔۔ کچھ سمجھ نہ آرہا تھا۔۔۔ کبھی خیال آتا واپس بیگم کوٹ چلاجاؤں ۔۔
پھر سوچتا۔۔ ایک دن مزید لاہورمیں ٹھہر کر اکمل کا پتہ کروں ۔۔۔

آخرکار میں نے یہی مناسب جانا کہ رات لاہورمیں ٹھہر جاتا ہوں ۔۔ کل پھر شاہیہ سے مل کر اکمل کے بارے میں پتہ کروں گا۔۔۔
ورنہ کل واپس چلاجاؤں گا۔۔۔


رات گئے تک آوارہ گردی کرتا رہا۔۔
خیال یہی تھا کہ کہیں اکمل نطر آجائے گا۔۔
لیکن افسوس ۔۔۔ ایسا نہ ہوا

رات ایک ہوٹل میں گذاری ۔۔۔

دوسرے دن دوپہرکے وقت استاد شاکی کے ڈیرے پر پھر گیا۔۔۔

مقدرنے یاوری کی۔۔۔ اکمل بھی اسی وقت وہاں پہنچ گیا۔۔
خداکا شکراداکیا۔۔
اور فورا ہی وہاں سے بیگم کوٹ کا پروگرام بنایا۔۔
میں نے اکمل سے کہا

یہاں زیادہ رکنا بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔۔
اس نے گرچہ کافی حد تک حلیہ تبدیل کیا ہوا تھا۔۔ لیکن
پھر بھی احتیاط اچھی تھی۔

شاہیہ کا شکریہ ادا کرکے وہاں سے نکل آئے
میں نے راستے میں اکمل سے پوچھا کہ وہ کہاں غائب رہا
میں اس کے بارے میں کتنا پریشان تھا۔۔

اس نے بتایا کہ
کہ وہ میرے جانے کے بعد دوسرے دن ہی ہوٹل چھوڑکر استاد شاکی کے ڈیرے پر آیا تھا۔۔
لیکن وہاں پولیس دیکھ کر فورا ہی بھاگ آیا۔۔۔
دودن اس نے چھپ کر ہی گذارے پھر دوبارہ ڈیرے پر آیا تو شاہیہ سے پتہ چلا کہ حالا ت خراب ہیں
اسے بلوبھائی کے ڈیرے کا پتہ نہ تھا۔۔۔ اور پریشانی میں شاہیہ سے اس حوالے سے بات نہ کرسکا
ویسے اسے یقین تھا کہ میں بخیریت ہوں گا۔۔۔

میں نے اس سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہوا اور کیسے ہوا۔۔
اس کے پا س کافی معلومات تھیں ۔۔ اس کا رابطہ کئی لوگوں سے تھا۔۔
اس نے بتایا کہ
شہلا کی امی بہت بااثر لوگوں میں سے تھی۔۔ اور اس کی واقفیت شاید پولیس میں بھی بہت ہائی لیول پر تھی۔
اس نے پورے لاہور کی پولیس کو الرٹ کروا دیا۔۔۔

پولیس نے آغا جی کے ہوٹل پر بھی چھاپے مارے۔۔۔ کیوں کہ شہلا کے آدمی نے ہوٹل کے بارے میں پولیس کو بتا دیا تھا۔۔۔
اس نے یہ بھی بتا یا کہ
اگروہ دوسرے دن ہوٹل نہ چھوڑتا تو اس وقت تھانے میں بند ہوتا۔۔۔

یہ تو شکرکرو جمیل کہ میری واقفیت کام آگئی ۔۔ ٹھیک ہے واقفیت شریف لوگوں کے ساتھ نہین تھی ۔۔ لیکن ایسے وقت میں شریف لوگ کچھ نہ کر پاتے ۔۔۔
استاد شاکی جی دار بندہ ہے۔۔ بس ایک دفعہ اتفاق سے اس کے کام آیا تھا۔۔
اس کے علاوہ بھی چند ایک دوست ہیں۔۔ جنہوں نے مجھے لاہور میں اتنے دن چھپائے رکھا۔۔

اس نے ایک بندے کے ذریعے پتہ کروایا تھا کہ شہلا کے مکان کے سبھی ملازم بھی تھانے میں تھے۔۔۔
شہلا کی امی بہت غصے میں تھی۔۔ وہ ہر صورت میں شہلا کی برآمدگی چاہتی ہے۔۔
لیکن پولیس ابھی تک کچھ حاصل نہیں کر سکی ۔۔

ویسے تمھیں فکرکرنے کی ضرورت نہیں استاد شاکی کے بندے مرجائیں گے۔۔ لیکن تمھارا نہیں بتائیں گے
ویسے بھی پولیس نے کئی اور لوگوں کو بھی پکڑا ہوا ہے۔۔۔


اکمل کی باتوں سے میں اتنا پریشان تو نہ ہوا۔۔۔ لیکن پھر بھی ۔۔۔
یہ باتیں ایسی نہ تھیں کہ بندہ فکرمند نہ ہو۔۔۔

میں نے اکمل سے کہا
اب جلدی سے یہاں سے نکلو
اکمل پبلک ٹرانسپورٹ کے چکر میں تھا ۔۔ میں نے کہا چھوڑو
ٹیکسی پکڑتے ہیں ۔۔۔

چنانچہ ٹیکسی کے ذریعے بیگم کوٹ پہنچے ۔۔۔

میں نے ٹیکسی والے کو بہت پہلے ہی روک دیا۔۔۔
اور پھر پیدل ہی بلوبھائی کے مکان کی طرف گئے۔۔۔

اکمل کا مل جانا میرے لئے بہت حوصلہ افزاء بات تھی۔۔
میں واقعی بہت خوش خوش اس کے ساتھ چل رہا تھا
لیکن مجھے بالکل بھی اندازہ نہ تھا
کہ آگے میرے لئے کیسی خوفنا ک خبر منتظر ہے۔۔۔۔

میں اکمل کے ساتھ گویا اڑتا ہوا جا رہا تھا۔۔۔
جب بلو بھائی کے مکان پر پہنچے تو وہاں میں سب سے پہلے اپنے کمرے میں گیا
مجھے یقین تھا جب میں شہلا کو بتاؤں گا کہ میں اکمل کو لے آیا ہوں تو وہ بھی بہت
خوش ہوگی ۔
لیکن کمرا خالی تھا۔۔۔
میرا دل دھک سے رہ گیا۔۔۔
میں نے شہلا کو آواز دی
شہلا ۔۔ شہلا
لیکن کوئی جواب نہ آیا
شہلا تو ہمیشہ کمرے تک ہی محدود رہی تھی۔
پھر وہ کدھر جاسکتی ہے
میں نے اس کے کمرے پر کافی بے ترتیبی دیکھی ۔۔۔

میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا
میں نے اکمل کو آواز دی

اکمل ۔۔ ادھر آؤ
میری آواز کے ارتعاش سے وہ بھی ایک پریشان ہو کر اندر آیا

کیا ہوا جمیل

اکمل اکمل ۔۔۔ شہلا ادھر نہیں ہے۔۔۔ وہ ادھر نہیں ہے۔۔
یہ دیکھو اس کا بستر خالی پڑا ہے۔۔

ارے یار ۔۔۔ ادھر ہی ہوگی۔۔

نہیں ہے نا ادھر ۔۔

میں نے واش روم بھی دیکھ لیا ۔۔۔

میں دل ڈوبنے لگا۔۔۔ سر چکرانے لگا۔۔۔
سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔ کیا ہو گیا ہے۔۔۔

اکمل سے کہا ۔۔۔
دیکھو ادھر باقی لوگوں سے پوچھو۔۔
وہ کہیں باہر تو نہیں گئی

نیچے والے حصے میں ہم ، ایک ملازم جو کھانا وغیرہ پکاتا تھا، اور
بلو بھائی رہتے تھے۔
اوپر والے پورشن میں چھ افراد رہائش پذیر تھے۔۔

ملازم نے بتایا کہ بی بی تو گھر سے باہر نہیں نکلی
وہ دوگھنٹے پہلے انہیں کھانا دے کر آیا تھا ۔۔۔۔
پھر تھوڑی دیر بعد انہوں نے برتن والپس کیے تھے۔۔

ویسے بھی کوئی جب باہر نکلتا ہے تو میری نظروں میں آئے بغیر ممکن نہیں
کیونکہ میں یا تو کچن میں ہوتا ہوں یا گیٹ کے ساتھ کمرے میں ۔۔۔

میں تو ہوش و حواس کھونے کے قریب ہی تھا۔۔۔

شہلا کی حفاظت میری ذمہ داری تھی۔۔۔ میں یہ ذمہ داری کیوں نہ نبھا سکا۔۔
میں اپنے آپ کو کوسنے لگا

اکمل مجھے حوصلہ دے رہا تھا۔۔
سا تھ ہی اس نے سب لوگوں کو ایک جگہ پر بلا لیا
اور ان سے پوچھنے لگا۔۔۔

سب نے کہا کہ انہیں نہیں پتہ ۔۔۔
ہمیں بلوبھائی نے سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ بہن کے کمرے کی طرف نہیں آنا
ویسے بھی ہم بوقت ضرورت ہی نیچے اترتے ہیں

ان میں سے تین افراد ایسے کمرے میں رہائش پذیرتھے جس کی کھڑکی سے پوری گلی کا منظر
نظر آتا تھا۔۔۔
ان کے بقول وہ ہمہ وقت کمرے میں رہے۔۔
آج صبح دس بجے کے بعد کوئی فرد مکان سے باہر نہیں گیا۔۔۔

یا اللہ یہ کیا ہورہا ہے۔۔
پھر شہلا کہاں غائب ہوگئی ۔۔۔

اکمل اور میں نے ایک دفعہ پھر کمرے کا باریک بینی سے جاہزہ لیا۔۔۔
بستر کی بے ترتیبی واضح طورپر بتارہی تھی کہ یہاں کچھ نہ کچھ ضرور ہوا ہے
اچانک ہی میری نظر بیڈ کے ساتھ ہی گرے ایک رومال پر پڑی ۔۔
یہ رومال نہ میرا تھا نہ شہلا کا ۔۔۔

میں نے اکمل کو رومال دکھایا۔۔۔
اس نے فورا ہی کہا

جمیل اس رومال کو بے ہوش کردینے والے کیمیکل میں بھگویا گیا ہے۔۔۔

وہ رومال پکڑ کر باہر آگیا اور اوپر جاکر باری باری سب سے پوچھا۔۔۔
کہ یہ رومال کس کا ہے۔۔۔

ان میں سے ایک بندے نے کہا کہ اس نے یہ رومال ۔۔۔ بلوبھائی کے
مہمان شوکی کے پاس دیکھا تھا۔۔۔
شوکی بلوبھائی کے پاس کسی حوالے سے آیا تھا۔۔۔
وہ بھی پولیس کو مطلوب تھا۔۔
پچھلے پندرہ بیس دنوں سے ادھر ہی ٹھہرا ہوا تھا۔۔۔
وہ سب سے آخروالے کمرے میں رہائش پذیر تھا۔۔۔
اس کمرے کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا سٹور بھی تھا جو اکثر بند ہی رہتا تھا۔۔۔

ہم دونوں شوکی کے کمرے میں گئے ۔ ۔۔ وہ وہاں لیٹا ہوا تھا۔۔۔
ہمیں دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا

اکمل نے رومال اس کے آگے لہراتے ہوئے پوچھا

کیا یہ رومال تمھارا ہے

ہاں ۔۔۔ میرا ہے ۔۔ یہ تمھیں کہاں سے مل گیا۔۔

میں تو بالکل ہی پاگل ہوگیا

میں نے اندھا دھند شوکی کی پٹائی شروع کردی

اتنے میں دوسرے افراد بھی آگئے ۔۔

شوکی بھی پہلے تو سمجھ ہی نہ پایا پھر وہ جوابی وار کرنے لگا۔۔۔

پیچھے سے اکمل نے اس کو زور سے کک ماری تو وہ اچھل کر دیوار کے ساتھ
جا لگا۔۔
لیکن فورا ہی سنبھل گیا ۔۔
پھراس نے اچانک ہی کہیں سے ایک چاقو نکال لیا ۔۔۔۔

اور کہنے لگا۔۔۔

ابے ۔۔۔ کنجری کے یار ۔۔
تو کیا سمجھتا ہے اپنے آپ کو۔۔۔

پھر اچھل کر آیا اور میرے اوپر چاقوکا وار کیا

میں پوری طرح ہوشیا ر تھا فوری ہی جھکائی دے ایک طرف سے نکل گیا
وہ اپنے ہی زور میں دروازے کے پاس جا گرا
اور چاقو اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔۔

اتنے میں اسے دیگر لوگوں نے اپنے حصار میں لے لیا
ایک بندے نے ہمارے اوپر پسٹل تان لی۔۔۔

ہالٹ۔۔۔۔ اگر کسی نے بھی ایک قدم آگے بڑھنے کی کوشش کی تو فائر کھول دوں گا۔۔

یہ ہمارے مہمان ہیں اور آپ بھی ۔۔۔

مجھے اچھا نہیں لگے گا آپ لوگوں پر گولی چلانا ۔۔۔
لیکن مجبورا ایسا کرنا پڑا تو گریز بھی نہیں کروں گا۔۔

آپ لوگ کیوں آپس میں لڑ رہے ہیں۔۔۔ کیا شہلابی بی والا مسئلہ ہی ہے

ہاں ۔۔
میں نے کہا
اس سے پوچھو۔۔
کدھر کیا ہے اسے اس نے ۔۔۔

مجھے یقین تھا شہلا کے غائب ہونے میں اسی کا ہاتھ ہے۔۔۔


ہاں ہاں ۔۔۔ میں نے ہی اسے سا تھ والے سٹور میں بند کیا ہے۔۔

اور تم اتنا کیوں مجنوں بن رہے ہو
کسی کوٹھے سے ہی لے کر آرہے ہو نا اسے۔۔۔
وہ کونسا نیک پروین ہے۔۔

اس کی بکواس نے پھر میرا مغز گھما دیا۔۔۔

میں اچھل کر اس کی طرف گیا اور اسے کک مارنے کی کوشش کی
لیکن مجھے تین بندوں نے قابو کرلیا

اسے بھی ایک بندے نے خاموش ہونے کا کہا
اور سختی سے ڈنٹا کہ وہ شہلا بی بی کے حوالے سے کوئی غلط بات نہ کرے

ایک بندہ اسے پکڑ کر دوسرے کمرے میں لے گیا۔۔۔

پھر ہم نے مل کر سٹور کو کھولا ۔۔ وہ ایک کونے میں شہلا بے ہوش پڑی تھی

ہم فورا ہی اسے آٹھاکر نیچے لے آئے

اور چارپائی پر لٹایا ۔۔۔

تقریبا ایک گھنٹے بعد اسے ہوش آگیا ۔۔

بہت بری طرح خوفزدہ تھی۔۔۔
اسے حوصلہ دیا۔۔۔

مجھے سامنے دیکھ وہ میرے ساتھ لپٹ گئ اور رونے لگی ۔۔

میں اسے تسلی دیتا رہا۔۔۔
پھرشوکی ایک ڈاکٹر لے آیا
اس نے چیک اپ کیا اور کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں
اعصابی سکون کے لئے کچھ ادویات دیں۔۔
اور آرام کا مشورہ دیا
شہلا دوائی لے کر لیٹ گئی
میں اس کے پاس ہی رہا ۔۔
جب وہ سوگئی تو اٹھ کر باہر آیا
اکمل بلوبھائی کے کمرے میں تھا۔
وہیں باقی لوگ بھی تھے

سب شرمندہ سے لگ رہے تھے
اور معذرت کررہے تھے۔۔
انہیں اندازہ نہ تھا کہ
بلوبھائی کا مہمان ایسی حرکت کر سکتا ہے

وہ اسے بھی اپنی کوتاہی کہ رہے تھے۔۔۔
انے کے تصور میں بھی نہ تھا کہ ایسابھی ہو سکتا ہے

میرا خون ابھی تک کھول رہا تھا۔۔۔
جی چاہ رہا تھا ۔۔ اس شخص کی بوٹی بوٹی کردوں۔۔۔

لیکن سب لوگ مجھے تحمل کا مشورہ دینے لگے

انہوں نے کہا بلوبھائی کو آنے دیں ۔۔۔ وہ جو فیصلہ کریں گے۔۔

میں اکمل کو ساتھ لے کر واپس کمرے میں آگیا ۔۔۔
وہ مجھے بار بار حوصلہ دینے لگا
لیکن مجھے کسی پل چین نہ آرہا تھا۔۔
اصل غصہ مجھے شہلا کی توہین کرنے پر آیا تھا۔۔۔
مجھے پتہ تھا اس کمینے رذیل کو خدا نے موقع ہی نہ دیا تھا کہ وہ کوئی مذموم
حرکت کرتا۔۔۔ لیکن پھر بھی مجھے بار بار ایک ہی خیال آرہا تھا کہ شہلا
اپنی توہین برداشت نہ کرپائے گی۔۔۔
ابھی تو دواؤں کے زیر اثر سور رہی تھی۔۔ لیکن وہ مجھ پر اعتما د کرکے
ایک گندگی سے نکلی تھی۔ اب پھر اسے گندگی کے طعنے ملے تو وہ تو
مر جائے گی۔۔
وہ ایک کنول کا پھول تھی۔۔۔
اس کی تازگی ، اس کی پاکیزگی کامیرا دل گواہ تھا۔ مجھے کسی اورگواہی کی
ضرورت نہ تھی ۔۔۔ میں اس بدمعاش کی مغلطات سن کر اپنی توہین محسوس کررہا تھا

تھوڑی دیر بعد ہم دونوں کو ہال میں بلایا گیا ۔۔وہاں شوکی کے علاوہ پانچ بندے موجود تھے
ان میں سے ایک آدمی نے جس کا نام توقیرتھا اور جو بلوبھائی کے بعد ایک قسم کا انچارج تھا
اس نے ہمیں کہ اس نے اپنے طورپر تحقیق کرلی ہے۔
وہ خبیث شوکی آپ کے آنے سے کچھ منٹ پہلے ہی شہلا بہن کو اوپر بے ہوش کرکے لے گیا۔
یقینا اس میں ہمارے ساتھیوں کی غفلت شامل ہے۔۔ لیکن وہ بھی اس وجہ سے مار کھاگئے کہ
وہ بلو بھائی کا مہمان تھا۔۔۔
ورنہ ایسا واقعہ نہ ہوتا۔۔۔
مجھے آپ لوگوں کے جذبات کا پوری طرح اندازہ ہے۔
میں نے ابھی اپنے ایک بندے کی ڈیوٹی لگا دی وہ شوکی کی نگرانی کررہا ہے۔۔
تاکہ بلوبھائی کے آنے کے بعد اس کے حوالے سے فیصلہ کیا جا سکے۔۔۔
یہ تو آپ نے بھی اندازہ لگا لیا ہو گا کہ یہ سب واقعہ آپ کے یہاں پہنچنے سے چند منٹ پہلے ہی
وقوع پذیرہوا۔۔ ۔۔۔۔
ہم سب آپ کے سامنے شرمندہ ہیں۔۔۔ ۔۔
امید ہے آپ ہماری کوتاہی اورغفلت کو معاف کردیں گے۔۔۔
اور اگرآپ نے معاف نہ کیا تو بلوبھائی ہمیں زندہ نہ چھوڑے گا۔۔۔

میں نے باری باری سب کے چہروں کو غور سے دیکھا۔۔۔ ان کے اندر کی ندامت
ان کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔۔۔
کیا ان بدمعاش لوگوں میں بھی شرم وحیا ہوتی ہے؟
یہ سوال میرے اندر گونجا۔۔۔
یا میرے مالک یہ کیسا نظام ہے۔۔۔ وہاں ایک گندے ماحول میں شہلا جیسا پھول کھلتا ہے
تو یہاں شوکی جیسے رذیل لوگوں کے بیچ بلوبھائی ، توقیر ان جیسے لوگ بھی ہوتے ہیں
جو مہمان کی عزت کو اپنی عزت سمجھتے ہیں۔۔۔
میرا ذہن چکرانے لگا۔۔۔
میں کیا کروں ۔۔۔ میں کیا کروں۔۔۔
پھر میرے اندر ہی ایک اور آواز آئی ۔۔۔
خدا نے شہلا کی عزت محفوظ رکھی ہے۔۔ ۔۔ اس کی عزت اور حرمت کی خاطر ان سب کو معاف کردے

یہ خیال یا آواز گویا ۔۔۔ میرے اندر بازگشت کرنے لگی ۔۔
اکمل بھی خاموش تھا۔۔۔ اور میری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔

میں نے بالاخر کہا
ٹھیک ہے۔۔۔ میں سب کو معاف کرتا ہوں ۔۔
آپ کو بھی اور شوکی کو بھی۔۔۔

باقی بلوبھائی آئیں گے تو ان کو بھی یہی کہوں گا۔۔۔
لیکن میں اب یہاں نہیں رکوں گا۔۔۔

بس اتنا کہ کر میں اٹھ آیا۔۔

کمرے میں آکر میں بہت دیر تک شہلا کو دیکھتا رہا۔۔۔
اس کے پھول جیسے چہرے پر اب جیسے مردنی سی چھائی تھی۔۔۔
میں بہت ٹوٹ کر رویا۔۔۔
لیکن یہ رونا۔۔۔۔۔ بے نام تھا۔۔۔ کہیں کہیں اندر یہ تسلی بھی در آتی تھی کہ
اللہ کریم سب کچھ بہتر کردے گا۔۔۔ کہیں اپنی کوتاہی کا احسا س ہوتا تھا، شہلا کی توہین
کا خیال آتا تھا۔۔۔ تو ہوک اٹھتی ۔۔۔
جی چاہتا تھا۔۔۔ شہلا کو ابھی لےجاؤں کہیں دور ۔۔ ۔۔ کسی پرسکون اور محفوظ وادی میں۔۔
جہاں بس میں ہوں اور شہلا ہو۔۔۔

مجھے نہ کھانے کا ہوش تھا نہ پینےکا۔۔

شام کو اکمل آیا اور اس نے مجھے کہا کہ آؤ ۔۔ بلوبھائی آگئے ہیں۔۔
بہت غصے میں ہیں ۔۔ اپنے آدمیوں سے شدید ناراض ہوئے ہیں۔۔۔ اور انہیں مارا ہے
لیکن میں نے انہیں پوری تفصیلات سے اور تمھارے معاف کردینی والی بات سے بھی آگاہ کیا ہے

وہ کہتا ہے۔۔ میں سب کی بوٹی بوٹی کردوں گا۔۔۔ انہوں نے شہلا بہن کی نہیں میری توہین کی ہے۔۔

بہرحال تم آؤ اور انہیں بتاؤ ۔ تمھارا کہناہی وہ مانیں گے۔۔۔

میں بہت بے دلی سے بلوبھائی کے پاس گیا ۔۔۔ وہ آئے اور مجھے گلے لگا لیا۔۔۔
میں نے پہلی بار اس کی آنکھ میں آنسو دیکھے۔۔۔
مجھے شدید حیرت ہوئی ۔۔
بہت دیر تک وہ کچھ نہ بول سکے ۔۔
نظر جھکائے۔۔۔ کھڑے رہے۔۔
پھر کہا
جمیل تو میرے چھوٹے بھائی کی مانند ہے۔۔
اور شہلامیری بہن کی طرح ۔۔
یہاں میرے ڈیرے پر ہر مہمان میری عزت ہوتا ہے۔۔۔
پر میرے ساتھیوں نے آج میرا سب مان توڑ دیا۔۔۔ہے۔۔

میں ان میں سے کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔
میں نے اسے فورا ہی ٹوک دیا

نہیں بلوبھائی ۔۔۔
جو ہوا ۔۔ سو ہوا۔۔۔ میں نے ان سب کو معاف کردیا ہے
تو بھی معاف کردے۔۔

بہت مشکلوں سے اسے ٹھنڈا کیا۔۔۔
ان لوگوں کا رویہ دیکھ کر میں بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوا۔۔

یہ لوگ بظاہر معاشرے کی نظروں میں برے ہیں۔۔۔ ان میں خامیاں بھی ہیں
لیکن ان کے اندر بھی دل ہے۔۔
ان کے بھی کچھ اصول ہیں۔۔۔
اگر ان کو درست رہنمائی ملے تو یہ بھی معاشرے کا مثبت کردار بن سکتے ہیں

آخرکوئی نہ کوئی وجہ ہوگی جس نے انہیں غلط کاموں کی طرف راغب کیا ہوگا۔۔۔
میں سوچتا جا رہا تھا۔۔۔۔

شہلا کو بہت رات گئے جاگ آئی ۔۔۔ میں نے زبردستی اسے دودھ پلایا اور کچھ کھانے کو دیا

وہ بہت دیر تک خاموش رہی۔۔ میں نے بھی اسے زیادہ نہ بلایا۔۔۔
پھردوبارہ اسے دوائی دی جس کے بعد وہ پھر سوگئی ۔۔۔
میں تو اس کے پاس بیٹھا ساری رات ہی جاگتا رہا۔۔۔

پتہ نہیں سوچیں کہاں سے کہاں لے جاتی رہیں۔۔۔
مجھے اپنے بچپن کی ایک بات باربار یا د آرہی تھی۔۔۔

ہمارے ہاں ہمارے ایک رشتہ دار دورپار کے گاؤں سے آئے ہوئے تھے
ان کی بچے میرے ہم عمر ہی تھے۔۔ کچھ اور کزن بھی آگئے تھے
ہم سب لوگ اپنے گھر کے کھلے صحن میں کھیل رہے تھے
کبھی کچھ کبھی کچھ
میرے ان رشتہ داروں کی ایک بچی بہت تیز طرار تھی۔۔۔
بہت بولتی تھی۔۔۔ تھی تو سانولی سی پر اچھی دکھتی تھی۔۔
اس نےکہا کہ دولہا دولہن کا کھیل کھیلتے ہیں
میں نے یہ کھیل پہلی دفعہ سنا اور پوچھا کہ کیسے کھیلتے ہیں
بچی کہنے لگی
اس میں ایک بچہ دولہا بنے گا۔۔۔ اور ایک بچی دولہن
اور دوسرے بچے ان کے رشتہ دار بنیں گے۔۔۔
پھر ان کی شادی ہوگی ۔۔۔
خوب ناچ ہوگا ۔۔ گانا ہوگا۔۔۔
بہت مزا آئے گا۔۔۔
سب بچے بہت ایکسائٹڈ ہوگئے۔۔۔
لیکن ۔۔۔


اب بچوں کا آپس میں فیصلہ نہ ہورتھا کہ کون دولہا بنے گا
کون دلہن
وہ بچی کہنے لگی ۔۔۔
جمیل دولہا بنے گا اور میں دولہن۔۔۔
میں نے تو فورا ہی انکار کردیا
اور کہا کہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔
پتہ نہیں شاید شرما گیا تھا۔۔۔
لیکن سب بضد ہوگئے ۔۔۔
میں پھر بھی نہ مانا ۔۔
اس پر وہ اس بچی نے جو کہاتھا۔۔۔
وہ مجھے آج بھی یا د تھا

بہت منہ پھٹ سی بچی تھی۔۔۔
کہنے لگی ۔۔۔
چھوڑو اس کو۔۔۔
یہ شہزادہ ہے نا۔۔۔ کسی شہزادی کا دولہا بنے گا۔۔۔
میں تو کالی ہوں نا۔۔۔اس لئے میرا دولہا نہیں بن رہا
سب بچے ہنسنے لگے تھے۔۔۔
مجھے اس بچی کے الفاظ میں کچھ ایسا لگا کہ
میں نے اسے دیکھا ۔۔۔
اس کی آنکھوں میں کچھ عجیب رنگ اترا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔
جیسے پہاڑوں میں چشمے ہوتے ہیں۔۔۔
پتھروں سے پانی رستا ہے۔۔
لیکن کچھ چشمے ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے پانی باہر نہیں رس پاتا۔۔
بس پتھروں کو ہی گیلا کرتا رہتا ہے۔۔ اور پتھروں کا رنگ بدل جاتا ہے۔۔
اس بچی کی آنکھیں بھی ان پتھروں کی مانند تھیں۔۔

مجھ سے دیکھا نہ گیا۔۔
میں توکھیل چھوڑ کر بھاگ گیا۔۔۔

آج یہ بات سوچ کر مجھے ایسے لگا۔۔۔
وہ بچی یہ بات کیسے کہ گئی۔۔
پر شہلا کو دیکھ کر مجھے لگا وہ سچ ہی کہتی تھی
یہ واقعی شہزادی تھی۔۔۔
لیکن ۔۔۔ اپنے محل سے دور۔۔۔۔
میں بھی ایک شہزادہ ۔۔۔ لیکن
اپنی سلطنت سے دور۔۔۔
پھر مجھے گھر یا د آنے لگا۔۔۔
امی یاد آنےلگی ۔۔۔
وہ امی جو میری ایک ایک کروٹ سے جاگ اٹھتی تھی
وہ امی جومیرے ایک ایک سانس کے زیروبم سے آشنا تھی۔۔۔۔۔

اب پتہ نہیں کس حال میں ہوگی۔۔
میرا اندر ابلنے لگا ۔۔۔ کھولنے لگا۔۔۔
گھٹن ہونے لگی ۔۔۔
میں گھبرا کر باہر نکل آیا۔۔۔
اشک خود بخود ہی رستے رستے میرا چہرہ گیلا کرنے لگے۔۔۔
باہر صحن میں چاندنی پوری آب وتاب سے چہارسو
بکھری ہوئی تھی ۔۔۔
میں نے اوپر نظر اٹھائی۔۔۔
چاند۔۔۔
مکان کی چھت سے مجھے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔

یہ چاند تو میرا بہت پرانا آشنا تھا۔۔۔
کتنی دوستی تھی میری اس کے ساتھ۔۔
میرے گھرکی چھت پر روز اترتا تھا۔۔
مجھے کتنا اپنا اپنا سا لگتا تھا۔۔۔

میں بچپن میں سوچتا تھا۔۔۔
چاند میرا دوست ہے۔۔
روز میرے گھر کی چھت پر مجھ سے ملنے آتا ہے۔۔
میں بھی روز اسے ملنےجاتا تھا۔۔۔

آج چاند کو بہت دنوں بعد غور سے دیکھا تو ایسے لگا۔۔
وہ بھی گلہ کررہا ہو۔۔

یار کہاں گم ہوگئے ہو۔۔ جمیل
سب اپنوں کو بھول گئے ہو کیا؟


مجھے ایک بہت پرانی غزل یا د آگئی ۔۔۔

ہم تو ہیں پردیس میں لیکن دیس میں نکلا ہوگا چاند
اپنے گھرکی چھت پہ کتنا تنہا تنہا ہو گا چاند
جن آنکھوں میں کاجل بن کر تیرتی کالی راتیں ہوں
ان آنکھوں میں آنسوکا اک قطرہ  جیسا ہوگا چاند
چاند بنا ہر دن یوں بیتا جیسے یگ بیتے ہوں
میرے بنا کس حال میں ہوگا، کیسا ہو گا چاند

میں اور چاند بہت دیرتک ایک دوسرے کے سنگ روتے رہے

صبح کی اذان ہوئی تو وضو کرکے نماز پڑھی اور سجدے میں گرکر
اپنے اللہ سے بہت دعائیں مانگیں

جب شہلا نیند سے اٹھی تو کافی بہتر تھی۔۔

ناشتہ وغیرہ کیا ۔۔
میری توقعات کے برعکس شہلانارمل لگ رہی تھی
میری دعاؤں کا اثر تھا یا دوائی کا۔۔

مجھے تو بہت خوشی ہوئی ۔۔
میں نے اس سے ادھر ادھر کی باتیں کیں۔۔
پھر اسے کہا کہ ہم نے آج ہی یہاں سے نکل جانا ہے
اس پر وہ فورا ہی تیار ہوگئی
میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیسا محسوس کررہی ہے
تو اس نے کہا کہ کمزوری تو محسوس ہورہی ہے
لیکن میں ٹھیک ہوں
میں نے اسے بتا یا کہ فی الحال میرے ذہن میں کچھ واضح نہیں
میں بس یہاں سے نکلنا چاہتا ہوں۔۔۔
کہاں جانا چاہتاہوں کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔

وہ کچھ سوچنے لگی ۔۔۔ اور کہا
میں سوتے میں ایک بہت اچھا خواب دیکھ رہی تھی
میں ایک باغ میں ہوں جہاں پھول اور تتلیاں ہیں
اور میں وہاں بہت خوش ہوں ۔۔۔
اور پھر میںنے یہ دیکھا کہ میں اور تم ایک ریلوے سٹیشن پر ہیں
اور اچانک ایک گاڑی آتی ہے ہم اس میں سوار ہوتے ہیں
وہ گاڑی راول پنڈی جا رہی ہوتی ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔
بس آگے یاد نہیں آرہا ۔۔۔

میں ہنسنے لگا۔۔

اچھا۔۔۔ اس کا مطلب ہے تم تو کوئی پہنچی ہوئی شے ہو
تمھیں تو خواب میں سفر کے اشارے ملنا لگے ۔۔۔

خیرتم نے میری الجھن دور کردی ۔۔
ہم اللہ کا نام لے کر راولپنڈی ہی چلتے ہیں۔۔۔

وہاں کسی ہوٹل میں رہ لیں گے۔۔۔۔ وقتی طور پر۔۔

لیکن یہ ریل گاڑی سے تونہیں ۔۔۔ ہم یہاں سے
ویگن میں سفر کریں گے۔۔

وہ کہنے لگی ۔۔۔ نہیں جمیل ۔۔
ہم ریل گاڑی سے ہی چلیں گے۔۔۔

اس کی بات بھلا میں کیسے ٹال سکتا تھا۔۔
سو حامی بھرلی ۔۔۔

پھر بلوبھائی سے ملا ۔۔۔ اکمل بھی وہیں تھا۔۔
انہیں اپنے پروگرام کا بتایا۔۔
تو بلوبھائی ایک دم اچھل پڑا۔۔۔
اور کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا ۔۔
لگتاہے تم بہت ناراض ہو۔۔
میں نے اور اکمل نے اسے سمجھایا کہ اب یہاں رہنا
ممکن نہ ہوگا۔۔۔
بہت مشکلوں سے اسے راضی کیا۔۔

بعد میں اکمل سے علیحدگی میں بات کی
کہ وہ بھی ہمارے ساتھ ہی چلے۔۔
اس نے کہا
جمیل ہم دوست ہیں ، رہیں گے
تم جانتے ہو ہم ایڈونچر کے چکرمیں گھر سے نکلے تھے
لیکن بھول بھلیوں میں گم ہوگئے ہیں
میں توایک نظریے کا قائل ہوں کہ پیسا ہے تو سب کچھ ہے
تم شہلا کے چکر میں پڑ کر اب کچھ بھول گئے ہو

مجھے پتہ ہے۔۔ اب اس حوالے سے بات کرنا وقت کا ضیاع ہی ہوگا

لیکن یہ بھی طے ہے کہ ان حالات میں میرا تمھارا ساتھ اب الجھنوں کا
باعث بنے گا۔۔۔
میں جس فیلڈ میں آگیا ہوں تم اس میں فٹ نہیں ہو
اور جس طرف تم چلے گئے ہو وہاں سے تمھاری واپسی مشکل ہے
بہتر یہی ہے کہ اب تم اکیلے ہی راولپنڈی جاؤ۔۔
ہاں اگرکہیں میری ضرورت پڑی تومجھے آواز دینا
میں ضرور پہنچوں گا۔۔

مجھے یہ سب اچھا تو نہ لگا۔۔ لیکن اکمل کی باتیں مبنی بر حقیقت تھیں
میں نے تھوڑی دیر غور کیا تو مجھے بھی یہی بہتر لگا کہ
میں اب اکمل سے الگ ہی ہو جاؤں ۔۔

بلوبھائی نے کہا کہ اگر آپ ریل سے جانا چاہتے ہیں تو میں اپنی گاڑی میں
آپ کو ریلوے سٹیشن تک چھوڑ آؤں گا۔۔۔

میں نے سب لوگوں کے نمبر اور پتے لئے
اکمل نے اپنے کچھ دوستوں کے نمبر اور پتے نوٹ کروائے کہ بوقت ضرورت
رابطہ ہوسکے۔۔
پھر ہم تیاری کرکے وہاں سے نکل آئے
میں نے اپنے چہرے میں میک اپ کے ذریعے کچھ تبدیلی کر تھی۔
شہلا نے نقاب اوڑھ لیا۔۔۔

بلوبھائی نے راولپنڈی کے ٹکٹ بھی لے دیے اور زبردستی کافی سارے پیسے بھی دیے

ہم اللہ کا نام لے کر ٹرین میں سوار ہو گئے۔۔

جس ڈبے میں جگہ ملی وہاں ہمارے سامنے پہلے ہی ایک فیملی کے لوگ براجمان تھے
گرچہ سفر تو لمبا نہ تھا ۔۔ لیکن برتھ بھی لے لی تھی۔۔ کہ شہلا اگر لیٹنا چاہے
جو فیملی ہمارے کیبن میں تھی۔۔۔ اس میں دوبچیاں ایک عورت اورایک بزرگ تھے

میں نے ایسے ہی سرسری نظر سے دیکھا۔۔۔

بچیوں کے چہرے پر مجھے کچھ انوکھا سا محسوس ہوا۔۔

لیکن ہم لوگ بیٹھ گئے ۔۔ شہلا کو میں نے کھڑکی کی طرف بٹھایا۔۔۔
بزرگ میرے ساتھ ہی بیٹھ گئے۔۔۔

شہلا اس دوران حتی الوسع کافی محتاط رہی ۔۔۔
اور اپنے دھیان میں ہی بیٹھی رہی۔۔۔

جب ٹرین چلی تو ۔۔۔۔۔ میں نے شہلا سے پوچھا کہ اگروہ کہے تو
برتھ پر لیٹ جائے اس نے کہا
نہیں میں ادھر ہی ٹھیک ہوں۔۔۔

میں سوچنے لگا۔۔۔
صبح مجھے شہلا کہ رہی تھی کہ وہ خواب میں ٹرین میں سفر کر رہی تھی
اور اب پتہ نہیں کیوں مجھے یہ سفر بھی خواب لگنے لگا۔۔

یہ سفر جس کی کوئی واضح منزل میرے ذہن میں نہ تھی۔۔
راولپنڈی پہنچ کر کیا ہوگا۔۔۔ کیسے ہوگا
میں کچھ نہ جانتا تھا۔۔۔
لیکن اب میں اتنا پریشان نہ تھا۔۔

جیسے ہی گاڑی لاہور شہرسے نکل کر مضافات میں پہنچے تو شہلا کی آنکھیں بند ہونے لگیں
میں نے پوچھا نیند آرہی ہے ۔۔
کہنے لگی نہیں نیند تو نہیں بس ویسے ہی آنکھیں بوجھل ہورہی ہیں

ہماری باتیں شاید سامنے بیٹھی خاتوں نے سن لیں ۔۔
وہ کہنے لگی

بیٹا اگر کہوتو ہمارے پاس چائے ہے۔۔۔ وہ دے دوں

میں نے جھجھکتے ہوئے معذرت کی ۔۔

تو اس خاتوں اور اس کے ساتھی بزرگ نے کہا کہ
کوئی بات نہیں بیٹا پی لو۔۔۔ ہم ہمیشہ سفر میں زیادہ چائے یا قہوہ بنا کر لاتے ہیں
تاکہ اور لوگ بھی شریک ہوسکیں۔۔

شہلا نے شرگوشی میں کہا کہا واقعی اس کا چاہے پینے کو دل کررہاہے
میں نے خاتون سے کہا کہ چلیں آپ پلا دیں۔
گھرکی بنی چائے بہت مزے کی تھی۔۔
پھر آہستہ آہستہ تعارف ہوا۔۔
پتہ چلا کہ وہ لوگ راولپنڈی ہی کے ہیں لاہور میں اپنے ایک عزیز کے پاس آئے تھے
خاتوں ہمارے بارے میں کافی متجسس لگ رہی تھی۔۔
اس نے کافی سوال کیے ۔۔
میں نے انہیں کچھ سچ کچھ جھوٹ بتا یا
یہ میری کزن ہے۔۔ ہم لوگ راولپنڈی میں پڑھتے ہیں۔۔
یہاں اپنے گھر آئے تھے اب واپس راولپنڈی جا رہے ہیں
خاتون کہنے لگی۔۔
آپ لاہور میں رہتے ہو تو راولپنڈی میں کیوں پڑھتے ہو۔۔
میں تو پھنس ہی گیا۔۔
اس پر شہلا نے میری مدد کی
اور کہا کہ ہم لوگ میڈیکل کالج میں پڑھتے ہیں۔۔۔
لاہور میں داخلہ نہ مل سکا ۔۔
لیکن خاتون کچھ مطمئن نظر نہ آئی ۔۔
ایک بات میں نے محسوس کی کہ مجھے خاتون کے لہجے میں
شک کے بجائے صرف تجسس ہی نظر آیا۔۔
اور اس کے چہرے میں بھی کچھ خاص بات لگی ۔۔
کیا خاص بات تھی ۔۔
میں سمجھ نہ پا رہا تھا۔۔
پھر ہماری کافی باتیں ہوتی رہیں ۔۔۔ شہلا بھی وقتا فوقتا حصہ لیتی رہی ۔۔

اس دوران دونوں بچیاں زیادہ وقت خاموش رہیں
ان کی عمریں دس سے بارہ سالوں کے درمیان تھیں۔۔۔

پھر میں نے محسوس کیا ۔۔
شہلا اس خاتوں سے زیادہ باتیں کرنے لگی۔۔
اس سے فیملی کے حوالے سے سوال پوچھنے لگی۔۔

میں الجھن میں پڑ گیا۔۔۔
مجھے شہلا کو روکنا چاہیے ۔۔
زیادہ بے تکلفی ہمارا پول نہ کھول دے۔۔
لیکن میں شہلا کو با وجود خواہش کے نہ روک سکا۔۔

گاڑی جب لالہ موسی پہنچی تو وہاں کچھ دیر رکی
میں نے سوچا یہاں سے کچھ کھانے کےلئے لے لوں
شہلا سے بات کی تو اس نے کہا کہ اس کا کچھ کھانے کو دل نہیں کررہا

اس دوران خاتون نے شاید ہماری بات سنی ۔۔
اس نے اپنے سامان کی پٹاری کھولی اور کھانا اور فروٹ نکال لیا ۔۔

ہماری ضد کے باوجود اس نے ہمیں کھانے میں شریک کیا۔۔

گرچہ میں محتاط رہنا چاہتا تھا۔۔
لیکن پھر بھی مجھے کچھ ایسا لگ رہا تھا ۔۔۔ کہ
جو کچھ ہورہا ہے وہ سب ٹھیک ہورہا ہے۔۔

کھانے کے وقت شہلا نے جب نقاب اتارا تو خاتون اسے بہت غور سے دیکھنے لگی
اور کافی دیر تک دیکھتی رہی۔۔۔
اس کی آنکھوں عجیب سی چمک تھی۔۔۔

لیکن وہ بولی کچھ نہیں ۔۔

مجھے اس کا یوں شہلا کو دیکھنا۔۔۔
خطرے کی گھنٹی لگا۔۔۔

میں چوکنا ہوگیا۔۔۔


سچی بات تو یہ ہے کہ میں اب پہلے سے بہت زیادہ پراعتماد تھا

میں اگر اکیلے ہی شہلا کو لے کر راولپنڈی کی طرف چل پڑا تھا
تو یہ میرا اپنے رب اور اپنی ذات پر بھروسہ ہی تھا۔۔۔

میں ایک عام سا دیہاتی لڑکا نہ تھا۔۔۔ مجھے جہاں شہلا کی محبت نے
مضبوط کیا وہیں بلوبھائی کی ٹریننگ نے بھی مجھے سیلف ڈیفنس کے ساتھ
ساتھ ہر قسم کے حالا ت کا سامنا کرنے کا ہنر بھی سکھایا تھا۔۔۔

کھانا بھی اچھا تھا۔۔۔ اور ان لوگوں کا رویہ تو بہت ہی اچھا تھا۔۔۔

میں بہت سوچتا رہا کہ آخر کیا بات ہے جومجھے اس خاتوں، اسکی بچیوں کے
حوالے سے عجیب محسوس ہورہی ہے۔۔۔
چونکہ میں شہلا کے حوالے سے بہت خدشات رکھتا تھا۔۔۔
جن حالا ت سے اب تک گذرا تھا۔۔۔ ان کا منطقی نتیجہ یہی تھا کہ مجھے کسی پر
اعتماد نہیں کرنا۔۔۔
چنانچہ میری سوچ اسی حوالے سے محدود رہی۔۔۔

شہلا جس انداز سے اس خاتون سے باتیں کررہی تھی۔۔ وہ میرے لئے تشویشناک تھا
لیکن میں یوں سب کی موجودگی میں اسے روک کر یا ٹوک سب کے سامنے اپنے آپ کو
مشکوک نہیں بنا نا چاہتا تھا۔۔

کھانے کے بعد خاتون نے شہلا کے حوالے مزید باتیں شروع کردیں۔۔
اس کے ابو کیا کرتے ہیں۔۔۔
وہ کیا شروع سے ہی لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔۔

اس کاکوئی رشتہ دار راولپنڈی میں تو نہیں رہتا
وغیرہ وغیرہ

شہلا پتہ نہیں کیوں اس کی باتوں کا جواب دیے جارہی تھی۔۔

اس نے بتا یا کہ اس کی امی کا اسے کوئی پتہ نہیں کیوں کہ اس کے
ابو نے دوسری شادی کر لی ۔۔ اور اسکی امی کو پتہ نہیں طلاق دی تھی یا نہیں
وہ کچھ نہیں جانتی ۔۔۔
اس نے امی کو بہت چھوٹی عمر میں دیکھا تھا

اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کی ایک اور چھوٹی بہن بھی تھی ۔۔ لیکن وہ اسکی امی کے
پاس ہی رہ گئی ۔۔
اس کا اپنی امی سے کوئی رابطہ نہ تھا۔۔

میں شہلا کی باتیں سن کر حیران ہوتا رہا۔۔۔ وہ کیا کررہی ہے
کیوں ایسی باتیں کررہی ہے۔۔

گاڑی کسی جگہ رکی تو میں اسے اٹھا کر ایک طرف لے گیا۔۔
اور اسے کہا کہ وہ بے وقوفی کررہی ہے
تم خاموش بیٹھو اور اس عورت سے ایسی باتیں نہ کرو

لیکن اس نے کہا

جمیل
میں یہ سب باتیں جان بوجھ کر رہی ہوں۔۔۔
پتہ ہے کیوں ؟

مجھے ایسے لگتا ہے۔۔۔ یہ عورت میری کوئی رشتہ دار ہے
بلکہ ۔۔۔
بلکہ جمیل سچ پوچھو تو اس میں مجھے اپنی امی کی جھلک نظر آئی ہے

تم نے اسے اور اس کی بیٹیوں کو غور سے دیکھا ہے۔۔۔

کیا کچھ محسوس ہوا ہے۔۔۔

میرے ذہن میں ایک دم چھپاکا ہوا۔۔۔۔

ہاں ۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔

میں اچھل پڑا ۔۔۔

شہلا ۔۔۔ میں بہت دیر سے سوچ رہا تھا۔۔
مجھے ان لڑکیوں اور اس خاتون میں کچھ عجیب سا دکھ رہا تھا۔۔۔

اب میں سمجھ گیا وہ عجیب کیاہے۔۔۔


ان لڑکیوں کی شباہت شہلا سے مماثلت رکھتی تھی۔۔۔

میرے وجود میں ایک سنسنی دوڑ گئی ۔۔۔

کیا پتہ یہ شہلا کے ہی گھر والے والے ہوں۔۔۔۔

شہلا کے چہرے پر موجود چمک بھی بتا رہی تھی کہ وہ
بھی ایسا ہی سوچ رہی ہے۔۔

میں نے اس کے کندھے کو ہلکے سے تھپتھپایا۔۔
اسے حوصلہ دیا ۔۔۔
شہلا اللہ بہت رحیم و کریم ہے۔۔۔
وہ بہت بڑا مسب الا سباب ہے۔۔

تم حوصلہ رکھو۔۔۔
میرا مالک بہترہی کرے گا۔۔۔

لیکن مناسب یہی ہے کہ ابھی اس موضوع کو زیادہ نہ چھیڑا جائے
تم کسی طرح ان کا اعتماد حاصل کرو۔۔
یہ موضوع راولپنڈ ی میں کسی محفوظ جگہ پر بیٹھ کر چھیڑا جا سکتا ہے

شہلا میری بات کی تہ تک پہنچ گئی
ہاں جمیل تم ٹھیک کہ رہے ہو ۔۔
ہمیں ابھی محتاط ہی رہنا چاہیے۔۔
سفر میں اس حوالے زیادہ بات کرنا دوسروں لوگوں کو ہماری طرف متوجہ کرسکتا ہے

ا سکے بعد ہم واپس سیٹ پر آگئے

شہلا اور اس فیملی کی گفت وشنید ہوتی رہی ۔۔
میں نے بزرگ سے باتیں شروع کردیں۔۔
راولپنڈی پہنچتے پہنچتے۔۔ ہم کافی حد تک ۔۔۔
ایک دوسرے سے بے تکلف ہو چکے تھے۔۔


جب پنڈی سٹیشن پر اترے تو میں بہانہ تلاش کررہا تھا کہ کسی طرح ان کا پتہ لے لیا جائے

لیکن قدرت نے ایک موقع فراہم کردیا۔۔۔

اس خاتون نے شہلا سے پوچھا کہ تم لوگ کہاں ٹھہرے ہوئے ہو۔۔
تو اس نے کہا کہ ہوسٹل میں
اس پر اس خاتون نے اسے کہا کہ اگر تم اعتماد کرو۔۔۔ تو ہمارے ہاں آج رات کا کھانا کھا کر چلی جانا۔۔

شہلا نے میری طرف دیکھا۔۔۔
اور کچھ جھجھکی ۔
میں یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہتا تھا۔۔۔

میں نے فورا ہی کہا۔۔۔
کوئی بات نہیں شہلا ۔۔۔
آنٹی اتنے خلوص سے دعوت دے رہی ہیں تو ضرور ہمیں دعوت قبول کرلینی چاہیے

آنٹی نے بہت تشکر آمیز نظروں سے میری طرف دیکھا اورکہا

بیٹا ایسا کرو تم بھی آجاؤ۔۔۔

شاید تمھاری بغیر اسے دعوت قبول کرنا مشکل لگ رہا ہے۔۔۔

ہم لوگ ان کے سا تھ ہی ان کے گھر پہنچ گئے۔۔
ان کا گھرراولپنڈی شہر کے اندورنی آبادی میں واقع تھا۔۔
پرانا لیکن اچھا کھلا گھرتھا۔۔

شہلا بہت بے چین نظروں سے ، بہت پیاسی نظروں سے گھر کو دیکھ رہی تھی۔۔

اس کی بے چینی ، اس کا اضطراب مجھے بے کل کر رہا تھا۔۔۔

میں نے سرگوشی سے پوچھا ۔۔۔

شہلا کیا بات ہے۔۔۔
اس کی آنکھیں چھلکنے لگیں۔۔۔

جمیل ۔۔۔ میں دھوکہ نہیں کھا سکتی ۔۔۔
یہ ۔۔۔ یہ ۔۔۔
میرا ہی گھر ہے۔۔۔

پھروہ اندر کی طرف بھاگی ۔۔۔
اور آنٹی سے چپک گئی۔۔۔

امی ۔۔۔ امی۔۔۔

پھر وہ آنٹی کے قدموں میں گری اور بے ہوش ہوگئی۔۔

سب لوگ حیرت و استعجاب سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے




میرے لئے بھی یہ لمحات بالکل بے خودی کے تھے

مجھے اندازہ نہ تھا کہ شہلا اچانک ہی جذبات کی شدت کو چھولے گی

سوائے میرے اس گھرمیں کسی فرد کو پتہ نہ تھا کہ شہلا کو ہوا کیا؟

چند لمحوں بعد جب وہ حیرت و استعجاب سے باہر نکلے تو سب سے پہلے آنٹی نے
قدموں میں گری شہلا کو اٹھایا
میں بھی دوڑ کر آگے بڑھا۔۔

ہم نے مل کر شہلا کو ایک بیڈ پر لٹایا۔۔۔

میں نے انکل سے کہا
پلیز فورا کسی ڈاکٹر کو بلائیں۔۔۔

لڑکیوں سے کہا کہ وہ شہلا کے تلوے کو ملیں۔۔۔

عجیب سی کیفیت سے گذر رہا تھا میں ۔۔۔

خوشی اور اطمینان کی شرشاری میں پورا وجود گویا نہایا ہوا تھا۔۔۔

میں شہلا کی بے ہوشی سے پریشان تو ہو گیا ۔۔
لیکن جانتا تھا جذبات کی شدت کو سہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں

وہ لڑکی تو کن خوفناک حالا ت سے گذر کر آئی تھی۔۔۔
اس کی ہمت تھی وہ ابھی تک حوصلہ نہ ہاری تھی۔۔۔
پوری طرح سلامت تھی۔۔۔

میں نے آنٹی کو حوصلہ دیا۔۔۔

اتنے میں ڈاکٹر آگیا ۔۔۔ اس نے چیک اپ کیا۔۔۔

بلڈ پریشر بہت لو ہو گیا تھا۔۔۔
فوری طور ڈرپ لگائی گئی۔۔۔

تھوڑی دیر بعد شہلا کی حالت سنبھلنا شروع ہوگئی۔۔۔

میرے دل میں دعاؤں کا ورد جاری تھا۔۔۔

یااللہ اس لڑکی نے بہت دکھ جھیلے ۔۔
اپنے حبیب کے صدقے اسے زندگی دے، ہمت دے۔۔
خوشیاں دے۔۔۔


کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے شہلا کی حالت تسلی بخش قرار دی۔۔۔

اس نے کسمکانا شروع کر دیا۔۔۔


میں باہر آگیا۔۔۔
تھوڑی بعد انکل اور آنٹی کو بھی بلا لیا۔۔۔

میں چاہتا تھا انہیں سچ سے آگاہ کردوں۔۔

شہلا کی طرف سے اطمینان ہو گیا ۔۔۔
وہ تھوڑی دیرکے لئے ہوش آئی ۔۔۔
اسے پانی پلایا گیا۔۔۔
لیکن ڈرپ میں ادویات کے زیر اثر پھر سو گئی۔۔

میں نے آنٹی اور انکل سے پوچھا

کیا آپ لوگ مجھے بتائیں گے۔۔۔
آپ کی کوئی بیٹی بچپن میں گم ہو گئی تھی
آنٹی کی تو چیخ نکل گئی۔۔
وہ ہچکیاں لے کر رونے لگی ۔۔۔

چھوڑو لمبی باتوں کو بیٹا جمیل۔۔
میرا دل پھٹ جائے گا۔۔۔

بس مجھے بتا ؤ ۔۔۔
شہلا نے اپنے والدین کے بارے میں جوبتایا تھا
وہ سب جھوٹ تھا نا؟

ہاں ۔۔۔ آنٹی اصل بات یہ ہے کہ وہ نہیں جانتی اس کے ماں بات کون ہیں

ہائے میری بیٹی ۔۔۔۔
آنٹی بھاگ کر شہلا کر طرف گئی اور بے اختیار اسے چومنا شروع کردیا۔۔

اس کی بہنوں کو جب چلا کہ شہلا ان کی بڑی بہن ہے۔۔ تو
وہ بے اختیار ہو گئیں ۔۔
انکل بھی شہلا کو دیکھے جارہے تھے اور روئے جارہے تھے
میں نے بہت مشکلوں سے انہیں سنبھالا۔

آنٹی پلیز۔۔۔ شہلا بہت تکلیف دہ حالات سے گذری ہے
اسے آرام کرنے دیں۔۔۔

کافی دیربعد جب سب لوگ کچھ پرسکون ہوئے ۔۔

میں نے انہیں تھوڑے بہت حالات بتائے
لیکن۔۔۔۔ میں نے شہلا کی بتائی ہوئی کہانی کو ہی استعمال کیا۔۔۔

انہیں یہی ظاہر کیا وہ کسی طرح ایک اچھی فیملی کے پاس پہنچ گئی تھی
جنہوں نے اسے پالا۔۔۔

پھر اپنے حوالے سے انہیں بتا یا ۔۔۔

لیکن انہیں ان باتوں کچھ زیادہ دلچسپی نہ تھی۔۔۔

وہ شہلا کو پاکر پھولے نہ سمائے جارہے تھے۔۔۔

آنے والے دن خوشیوں بھرے دن تھے۔۔

شہلا کا رنگ نکھرنے لگا۔۔
اس کے چہرے پر بکھرتے قہقہے دیکھ کر
میں خوشی سے سرشار ہو جاتا۔۔

میں ابھی ان کے گھر کے ایک فرد کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔۔
اور انہیں میری پورے حالا ت کا پتہ چل چکا تھا۔۔
میری اور شہلا کی محبت اور میرے گھرسے بھاگنے کا سب قصہ

آنٹی اور انکل نے مجھے کئی دفعہ سمجھایا کہ میں اب اپنے والدین کے پاس چلا
جاؤں۔۔۔
وہ کہ رہے تھے۔۔
بیٹا ہمیں اندازہ ہے کہ تمھارے والدین کس کرب سے گذر رہے ہوں گے۔۔۔

میں بھی اب یہی سوچ رہا تھا لیکن شرمندگی دامن پکڑ لیتی
کس منہ اپنے پیاروں کا سامنا کروں گا۔۔۔

آخر انکل اور آنٹی نے ایک دن کہا وہ پوری فیملی میرے ساتھ چلی گی۔۔
اور میرے گاؤں مجھے چھوڑ کر آئیں گے۔۔

ساتھ ہی وہ میرے اور شہلا کے حوالے سے بات کریں گے۔۔

آخر ایک دن ہم سب راولپنڈی سے چلے ۔۔۔
اور اپنے گاؤں پہنچ گئے۔۔

ان کیفیات کو رقم کرنا میرے بس میں نہیں ۔۔
جب مجھے ماں نے اپنے سامنے پایا ۔۔۔
وہ منظرالفاظ میں سمویا ہی نہیں جا سکتا ۔۔

بس محسوس کیا جا سکتا ہے۔۔۔

جذبات کے آگے الفاظ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔۔۔

میں بھی کتنا بھولا تھا۔۔۔
جنت چھوڑ کے بھاگ نکلا ۔۔

لیکن نہیں شاید یہ تو آدم کی شرست میں ہے۔۔

اور میرے لئے تو یہ کتنی خوش قسمتی کی بات تھی۔۔
کہ شہلا کی صورت میں ایک تحفہ بھی مل گیا۔۔

ماں کی دعائیںتھیں۔ میرے رب کی رحمت تھی۔۔
میں راہ سے بھٹکا ضرور لیکن ۔۔۔
گم نہ ہوا۔۔۔

شہلا کے والدین نے میرے والدین کو راضی کر ہی لیا۔۔

لیکن میرے والدین کی خواہش کو بھی تسلیم کرلیا گیا۔۔

میں پہلے پڑھائی مکمل کروں گا۔۔۔ پھر۔۔۔ شادی ہو گی۔۔
شہلا تو بھی یہی چاہتی تھی۔۔ اسے بھی آگے پڑھنے کا شوق تھا۔۔۔
میں نے کالج میں داخلہ لے لیا ہے۔ اس دوران میں نے اکمل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن نہ ہوسکا۔ البتہ اس کا ایک پیغام ملا۔ کہ وہ جس راہ پر چل نکلا ہے وہاں سے واپسی اب ممکن نہیں

No comments:

Post a Comment