صفحات

Saturday, March 5, 2016

قصہ قیس سے ملاقات اور پلاٹ کی بکنگ کا

قصہ قیس سے پہلی ملاقات 
محمد نور آسی

بہت عرصہ سے یہ شعر سن رکھا تھا
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
سو قیس کی تنہائی کا تصور ہمیں بھی جذباتی کرتا تھا کہ چلیں مل لیں اک بار۔ دیکھ لیں کس حال میں ہے۔ ایک دو دفعہ اسی خیال سے گھر سے نکل بھی پڑے تھے لیکن رستے میں بھوک اور پیا س نے ستایا تو پلٹ آئے ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب عمر کی ابتدائی سیڑھیوں پر تھے۔  پھر کچھ اور لوگوں سے پتہ چلا کہ جنگل میں صرف قیس نہیں کچھ جانور بھی ہوتے ہیں ۔  خوف محسو س ہوا ۔ ایسا نہ ہو قیس کے بجائے کسی لگڑ بھگے سے واسطہ پڑ جائے ۔ بچپن میں تو سوچ بھی خام تھی ۔ سو قیس سے ملاقات ایک خواہش تک محد ود رہی ۔
پھر وقت کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی اور قیس سے ملنے کی خواہش بھی کہیں خواہشوں کے انبار تلے دب گئی ۔
یہ آج سے کچھ دن پہلے کی با ت ہے ایک پرانے دوست سے ملاقات ہوئی اور بہت عرصہ بعد ہوئی سو ساری مصروفیات چھوڑ کر چند دن اس کی معیت میں گذارے کہ
اے داغ کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
چونکہ بچپن ایک ایسے علاقے میں گذرا ہے جہاں جنگل ، پہاڑ ، جھیلیں ، چھرنے ہمارے ہم راز رہے ہیں ۔ سو پروگرام بنا کہ کسی جنگل میں ایک دن گذارا جائے ۔ جنگل ایک الگ دنیا ہے ۔ اور اس کا ایک الگ ہی جادو ہے ۔ جس کو جنگل کا سحر جکڑ لیتا ہےوہ قیس بن جاتا ہے۔
ہم بھی شاید اندر سے قیس ہی ہوں بس جنگل سے دور ہونے کی وجہ سے اظہار نہ ہوسکا ہو
جنگل کا ذکر آیا تو اچانک اسی پرانی خواہش نے ایک دم سے انگڑائی لی کہ
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
اب کی بار خواہش کا بازو پکڑا اور اسے خواہشوں کی گٹھری سے باہر کھینچا ۔ جھاڑ پونچھ کر ساتھ لئے جنگل  کو نکل پڑے۔
جنگل کا حسن انسان کو اپنی طرف بلاتا نہیں مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتا ہے۔
خاموشی کا سحر سر چڑھ کر بولتا ہے۔
اور فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ آپ کے سامنےرقصاں  ہوتی ہے۔ فطرت کا بیلے ڈانس جس نے دیکھ لیا ، اسی کا ہو گیا۔
ہم اسی سحر میں گرفتا ر جنگل کی پگڈیوں پر جسیے تیرتے ہوئے جار تھے کہ اچانک ایک طرف سے کچھ آوازیں آنا شروع ہوگئیں ۔ یہ آوازیں جنگل کی سحر انگیز خاموشی میں جیسے ہل چل مچانے لگیں ۔ ہم ابھی الجھن میں ہی تھے کہ کیا کریں ۔ ایک دم سے پنٹ شرٹ میں ملبوس ایک نوجوان سامنے آگیا ۔
میں نے بے اختیار پوچھا
آپ کہیں قیس تو نہیں ہو
مسکرا کر بولا
بالکل درست پہچانا آپ نے۔ میں قیس ہی ہوں
یقین کریں دل کی دھک دھک نے ہمارے وجود میں دھما چوکڑی مچا دی
تو بالاخر آج ہماری ملاقات قیس سے ہوہی گئی۔
کچھ دیر بعد ہم ایک عارضی رہائش گا ہ میں موجود تھے جہاں ہماری خدمت میں ڈیو  پیش کی گئی ۔
گپ شپ بھی ساتھ چلتی رہی ۔ اتنی دیر میں کھانا آگیا ۔
کھانے میں بریانی۔ چکن فرائی ، سویٹ ڈش سمیت کافی لوازمات موجود تھے۔
آپ کو حیرت ہورہی ہوگی نا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے ۔
مجھے بھی ہورہی تھی لیکن کھانے کے وقت میں فضول باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتا ۔
کھانے سے فراغت کے بعد میں نے قیس پوچھا
میاں یہ سب کیا ہے؟ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ آپ کے حالا ت کافی خراب ہوں گے۔ اور آپ کی شکل کسی لگڑبھگے جسی ہو چکی ہوگی۔ کپڑے پھٹ چکے ہو ں گے بلکہ کپڑوں کی جگہ درختوں کے پتوں نے لے لی ہو گی۔
لیکن آپ تو ماشاء اللہ پپو پپو سے لگ رہے ہو
سوٹ بھی ایک دم نیا ہے۔
اور ۔۔ اور
قیس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے مزید بولنے سے روک دیا۔
دیکھوبھیا۔ آپ بھی انہی لوگوں کی طرح سوچ رہے ہوجویہاں پہلے آچکے ہیں ۔
دراصل یہ سب اس شاعر کا کیا دھرا ہے جس نے کہا تھا
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
بس لوگ جوق درجوق جنگل کی طرف آنا شروع ہوگئے ۔
پہلے پہل تو مجھے بہت غصہ آیا ۔ یہ سب کیوں ادھر آرہے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میں بھی بہت کچھ سیکھ گیا ۔
آبادی بڑھتی گئی اور ساتھ میں سہولیات بھی آتی گئیں ۔
میں نے آج سے کچھ سال پہلے " قیس ہاوسنگ سوسائٹی" کی بنیاد رکھی ۔ اب تک اس کے سات فیز کامیابی سے  مکمل  ہوچکے ہیں ۔ اوراس جگہ پر ہم آٹھویں فیز کی پلاننگ کر رہے ہیں ۔آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو فیز آٹھ میں  اپنی مرضی کا پلاٹ آسان اقساط پر مل جائے گا۔
دوستو ! میں نے تو اسی وقت دس مرلہ کا ایک کارنر پلاٹ  بک کروا لیا ہے۔
آپ میں سے کوئی دل چسپی رکھتا ہو۔ تو مجھ سے رابطہ کر سکتا ہے۔  پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیا د پر محدود پلاٹ باقی ہیں


Monday, February 29, 2016

بھٹکے ہوئے کیوں؟

بھٹکے ہوئے کیوں؟
محمد نور آسی

چند دن پہلے کی بات ہے۔ ایک محترمہ مجھ سے ملنے آئیں ۔ ایک اچھےتعلیمی ادارے کی سربراہ ہیں اور کافی معروف شخصیت ہیں ۔ اب اتفاق کی بات کہ میرے پاس کچھ اورلوگ موجود تھے اور میں نے ان کے لئےکھانا منگوایا ہوا تھا۔ وہ محترمہ کہنے لگیں کہ وہ جلدی میں ہیں ۔ انہیں دو تین اہم باتیں کرنی ہیں ۔ میں نے اخلاقا انہیں بات کرنے کا موقع دیا ۔ اور ساتھ ہی کھانے کی بھی دعوت دی ۔ جو انہوں نے قبول نہیں کی اور کہنے لگیں کہ وہ بس دومنٹ اپنی بات کہ کر رخصت ہوتی ہیں ۔ میں نے مہمانوں سے معذرت کی کہ ذرا انتظار کریں میں ان کی بات سن لوں پھر کھانا کھاتے ہیں ۔ اب یہ تما م صورت حال ان محترمہ کے سامنے تھی  ۔ کہنے لگیں مجھے احسا س ہے کہ اپ کا کھانا لگا ہوا ہے۔ میں زیادہ ٹائم نہیں لیتی بس مختصر سی بات کرنی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کم وبیش آدھا گھنٹہ گفتگو کی ۔ پھر بھی ان کی تسلی نہ ہوئی کہنے لگیں مجھ جلدی نہ ہوتی تو بات مکمل کرتی ۔ خیر پھر سہی۔ میرےمہمان یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہے تھے۔ ان کے جانے کے بعد ایک صاحب نے کہا کہ ان کی گفتگو سوانے اپنی تعریف اور کچھ معاملات پر اپنی خواہشات کے مطابق پیش رفت کی فرمائش کے علاوہ کچھ بھی نہ تھی۔ کیا یہ ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ ہونے کی اہل ہیں ؟
میں خاموش رہا ۔ لیکن میرے ذہن میں کچھ سوال ضرور تھے۔
یہ سوالا ت کئی دن سے میرے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔
آج اس واقعے کو ابتدا بنا کرمیں کچھ باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔
میرے نقطہ نظر سے سب سے اہم شعبہ جو ہمارے ملک میں سب سے زیادہ تباہ کن حالات کا شکار ہے وہ تعلیم کا شعبہ ہے۔ ہمارے ملک میں  ایک استاد ، ایک مدرس اور روحانی باپ کی تباہی کی بنیاد لارڈ میکالے نے رکھی اور ہمارے معاشرے نے اسے حسب توفیق پروان چڑھایا ۔
تعلیمی نظام میں سب سے مشکل کا م ایک بچے کی ابتدائی تعلیم و تربیت کر نا ہے۔ ایک پرائمری ٹیچر اہم ترین کردار کا حامل ہوتا ہے۔ میرے ذاتی خیال میں ایک پرائمری آستاد کے انتخاب کا طریقہ کار ایسا وضع کرنا چاہیے کہ صرف وہ لوگ پرائمری استاد منتخب ہوں جو کم ازکم مندرجہ ذیل خوبیوں کے مالک ہوں
 اس کے کردار میں مضبوطی ہو۔ وہ اخلاقیات ، اقدار کے حوالے سے نہ صرف بہترین علم رکھتے ہوں بلکہ خود اس کا عملی نمونہ ہوں ۔ وہ بچے کی ذہنی ، نفسیاتی سطح کو سمجھتے ہوں ، بچے کے اندر مثبت سوچ پیدا کرنے، اسے خود اعتمادی سے بات کرنے ، اپنی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، اپنے جذبات کو بیان کرنے اور مختلف اشیاء ، واقعات کو اپنی ذہنی سطح کے مطابق تجزیہ کرنے کی صلاحیت سکھانے کے اہل ہوں ۔
انہیں کسی بھی سکول میں معلم  بنانے سے پہلے ایک سخت تربیتی پروگرام سے گذارا جائے ۔ پرائمری استاد کی تنخواہ سب سے زیادہ ہو ۔ کم ازکم 22 گریڈ کے افسر کے برابر ہو ۔
اسکی کارگردگی کو جانچنے کا معیار انتہائی سخت ہو ۔
پرائمری سطح کے استاد کو معاشرے کا ایک معزز رکن کا درجہ حاصل ہو۔
یہ اس لئے ضروری ہے کہ ہم جب ایک بچے کو بہتر ابتدا نہیں دیتے تو پھر اس سے معاشرہ کا ایک بہتر فرد ہونے کی توقع نہیں رکھ سکتے ۔
جس بچے کی ابتدائی تعلیم اچھے اساتذہ کے زیرنگرانی ہوگی وہ یقینا بڑے ہوکر ایک بہتر شہری ثابت ہو گا۔
ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں استاد کی اہلیت کا کوئی معیار نہیں ۔ جو کچھ نہیں کر سکتا کسی سکول میں استاد بن کر ہماری آنے والی نسل کو تباہ کرتا ہے۔
مجھے ایک صاحب بات بتا رہے تھے کہ وہ جاپان میں ایک کورس کرنے گئے ۔ وہاں ان کی ایک جاپانی خاندان سے ملاقات ہوئی اور ان کے گھر دوچار دفعہ آنا ہوا ۔ ایک دن وہ جاپانی کے گھر اس سے ملنے کے لئے گئے تو ان کا چھوٹا بیٹا باہر آیا ۔ انہوں نے پوچھا کہ ابو کدھر ہیں تو بچے نے کہا کہ وہ مارکیٹ گئے ہیں ۔ پاکستانی نے بچے سے کہا سچ کہ رہے ہونا۔ کہیں وہ گھرپر ہی ہوں اور تم جھوٹ بولنے کا کہ دیا ہو۔ ( وہ دراصل بچے کے ساتھ مذاق کرنا چاہ رہے تھے) بچہ چپ ہو گیا ۔ کچھ جواب نہ دیا ۔ اچانک دروازے کے پیچھے سے اس کی ماں آگئی اور اس نے کہا کہ آپ نے میرے اور میرے بچے کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ میرے بچے کو پتہ ہی نہیں کہ جھوٹ کیا ہو تا ہے؟ اب وہ مجھ سے جھوٹ کا مطلب پوچھے گا؟
خیر یہ تو ایک بات ہے جوممکن ہے  زیب داستان  ہو۔ لیکن یہ حقیقت بہرحال اپنی جگہ پر ہے کہ جاپان میں بچے کی ابتدائی تعلیم کا معیار بہت اعلی ہے ۔ وہاں بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی پڑھائی کے علاوہ کچھ ایسی تربیت دی جاتی ہے جو ان کے لئے ساری زندگی  مشعل راہ ہوتی ہے۔
بات ایک پرنسپل صاحبہ سے شروع ہوئی اور کہاں چلی گئی۔ دراصل ہم سب کے رویے ہماری تربیت اور ہماری تعلیم کی عکاسی کرتے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے کے لوگ بچے کی گفتگو ، نشستن و برخواستن سے اندازہ لگاتے تھے کہ بچہ کسی اچھے خاندان کا ہے۔ اچھا خون ہے۔
عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں
 اب خاندان کی روایات دم توڑ چکی ہیں ۔ اور رہی اساتذہ کی تو ہمارے اساتذہ بچے کو پڑھا نہیں رہے بلکہ انہیں ایک جنس سمجھتے ہیں جو ان کی کمائی کا ذریعہ ہے۔
ہمارے سامنے اصحاب صفہ سے لے کر جامعہ الاظہر تک کی مثالیں موجود ہیں ۔
میں سوچتا ہوں قوموں کو صدیاں گذر جاتی ہیں کوئی راستہ نہیں ملتا
ہمارے پاس راستہ بھی ہے۔ ہمارے پاس قرآن اور حدیث کی صورت میں ہر مسئلے کا حل  بھی موجودہے ۔
ہم کیوں بھٹکے ہوئے ہیں؟ 

Tuesday, December 29, 2015

دنیا کا سب سے بہتریں جوڑا

دنیا کا سب سے بہتریں جوڑا


آپ عنوان دیکھ کر چونکے ہوں گے
شاید کہ کسی میاں بیوی کے جوڑے کی بات ہوگی

لیکن میں تو ایک اور ہی جوڑے کی بات کررہا ہوں

جی ہاں ۔۔ 
آنسو اور مسکراہٹ دنیا کا بہترین جوڑا ہے
مگر آنسو کے ساتھ مسکراہٹ کا تصور کچھ عجیب سا ہے
بہت منفرد سا ہے

عام زندگی میں تو آنسو جب آتے ہیں تو مسکراہٹ کو غائب کردیتے ہیں 
اورمسکراہٹ چھلکتے آنسووں کو روک دیتی ہے

لیکن آپ نے کبھی وہ منظر دیکھا ہے 
جب آپ چھلکتے آنسووں کے ساتھ مسکراتے ہیں
وہ منظر ، وہ لمحہ دنیا کا خوبصورت ترین منظر ، یادگارترین لمحہ ہوتا ہے
آنسو اور مسکراہٹ کا بہترین امتزاج ، بہتر ین جوڑا

ایسے لمحے بہت کم ، بہت ہی شاذ ہو تے ہیں مگر بہت قیمتی ہو تے ہیں 

کیا آپ ایسے کسی لمحے سے واقف ہیں۔۔۔؟

Friday, December 25, 2015

ماں کی یا د کے 36 آنسو

ماں کی یا د کے 36 آنسو 
محمد نور آسی

آج میں آپ سے اپنے آنسو شیئر کرنا چاہتا ہوں

یہ آنسو میری ماں کی یا د کے آنسو ہیں
میں نے یہ اشعار اپنی ماں کی یا د میں لکھے ہیں۔
اور بہتے آنسووں کے ساتھ لکھےہیں ۔
یہ اشعار ان تمام بھائیوں ، بہنوں ، دوستوں کے نام جن کی مائیں
اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔
یقینا میرے آنسوان سب کو رلا دیں گے۔ جن کے غم میرے جیسے ہیں۔
یہ 36 مصرعے نہیں ، 36 آنسوہیں



بہت چھوٹا سا تھا جب میں، میری دنیا بھی چھوٹی تھی
میری ہستی کا کل سا ما ں ، تیری آغوش ہو تی تھی
تیرے سینے سے لگ کرمیں ہر اک غم بھول جا تا تھا
تیرے چہرے کو تک کرمیرے دل کی پیاس بجھتی تھی
تیری دنیا فقط میں تھا ، میری دنیا فقط تو تھی
میں تجھ کو دیکھ جیتا تھا، تو مجھ کو دیکھ جیتی تھی

تیرے وہ پھول سے بازو، مجھے خوابوں میں لے جاتے
تیرے چہرے پہ بکھرے نور سے ہو تی سحر میری
میں بھوکا ہوں کہ پیاسا ہوں، میں خوش ہوں یا کہ افسردہ
فقط اک تیری ہستی تھی، جسے سب تھی خبر میری
تیرا چہرہ جو ہوجاتا، اگر اک پل کہیں اوجھل
تو ہرآہٹ پہ چونک اٹھتی تھی یہ بے چیں نظر میری

تیرا رس گھولتا لہجہ ، میری تسکین کا ساماں
تیرا دستِ مسیحائی ، میرے ہر درد کا درماں
میرے پہلے قدم کی لرزشوں سے سیدھا چلنےتک
تیری چاہت بھری نظریں ہراک حرکت پہ تھیں درباں
بلائیں دور رہتی تھیں، ہمیشہ سوقدم مجھ سے
دعائے نیم شب سے میرے رستے روشن و تاباں

میں گھر سے جب نکلتا تھا، دعائیں ساتھ چلتی تھیں
جھلستی دھوپ میں ، ٹھنڈی ہوائیں ساتھ چلتی تھیں
کبھی پر پیچ رستوں پر قدم نہ ڈگمگائے تھے
ہمشہ ذکر کرتی وہ ، نگاہیں ساتھ چلتی تھیں
میرے حصے کے زخموں سے بدن چھلنی رہا تیرا
مجھے حلقے میں ڈالے، تیری بانہیں ساتھ چلتی تھیں

مگراب کسیے بتلاوں کہ وہ ہستی نہیں باقی
نہ وہ دست دعا باقی ، نہ وہ پاکیزہ صورت ہے
یہ آنسواب مقدر ہیں کہ ان کو پونچھنے والے
مشفق ہا تھ ہیں تیرے ، نہ چادر کی حرارت ہے
زمانے بھر کے غم ہیں اور اکیلا تیرا بیٹا ہے
مجھے تیری دعاوں کی بہت اب تو ضرورت ہے

میرے مولا، میری اک التجا ہے تیری رحمت سے
تیرے گلشن میں ہر سوپیارہی کے پھول کھل جائیں
ہے دنیا جب تلک باقی ، سدا مائیں رہیں زندہ
لگے جو زخم دل پر ہیں تو شاید یوں وہ سل جائیں
مجھے تسلیم ہے کہ موت بر حق ہے، مگر مالک
سبھی بیٹوں کی عمریں ، کاش ان ماوں کو مل جائیں