صفحات

Saturday, December 13, 2025

موڈ خراب کرنے کے آزمودہ طریقے

 موڈ خراب کرنے کے آزمودہ طریقے



یہ بات اب کسی تحقیق کی محتاج نہیں رہی کہ خوش رہنے کے لیے محنت درکار ہوتی ہے، مگر موڈ خراب کرنے کے لیے صرف ذرا سی غفلت کافی ہوتی ہے۔ بعض لوگ اسے اتفاق سمجھتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر اس فن میں درجۂ کمال تک پہنچ چکے ہیں—بغیر کسی استاد، بغیر کسی سند کے۔

موڈ خراب کرنے کا سب سے معتبر اور قدیم نسخہ یہ ہے کہ دن کی ابتدا خود سے نہیں، دنیا سے کی جائے۔ آنکھ کھلتے ہی موبائل فون کی اسکرین پر نظریں ڈالنا دراصل اپنے ذہن کو دوسروں کی پریشانیوں، کامیابیوں اور بے وقت تجزیوں کے حوالے کر دینا ہے۔ چند لمحوں میں دل بوجھل، سوچ منتشر اور صبح بے وقت تھکی ہوئی محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ وہ واحد عبادت ہے جس کے بعد روح ہلکی نہیں، بوجھل ہو جاتی ہے۔

دوسرا آزمودہ طریقہ یہ ہے کہ ہم توقعات کو خاموشی سے پالنا شروع کر دیں۔ نہ کسی کو بتائیں، نہ خود سے اعتراف کریں۔ بس دل کے کسی کونے میں یہ یقین جما لیں کہ فلاں شخص سمجھے گا، فلاں موقع بدلے گا، فلاں دن خاص ہو گا۔ پھر جب کچھ بھی ویسا نہ ہو تو موڈ کو افسوس نہیں ہوتا، اسے حیرت ہوتی ہے—اور یہی حیرت دیرپا اداسی میں بدل جاتی ہے۔

تیسرا طریقہ ماضی سے وابستہ ہے، مگر یہاں بھی انتخاب بہت اہم ہے۔ یادداشت کے کتب خانے سے وہی فائلیں نکالی جائیں جن پر ناکامی، ندامت یا ادھورے جملوں کی مہر لگی ہو۔ وہ باتیں جو ہم کہہ نہ سکے، وہ فیصلے جو ہم نہ کر سکے، اور وہ لمحے جو ہمارے ہاتھ سے پھسل گئے—یہ سب مل کر موڈ کو اس نزاکت سے توڑتے ہیں کہ وہ احتجاج بھی نہیں کر پاتا۔

موڈ خراب کرنے کے جدید طریقوں میں سوشل میڈیا کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ وہاں زندگی ایک مستقل جشن کی صورت دکھائی دیتی ہے: مسکراتے چہرے، مکمل خواب اور فلٹر شدہ خوشیاں۔ ہم اس نمائش کو حقیقت سمجھ لیتے ہیں اور اپنی بے ترتیب، غیر فلٹر شدہ زندگی سے موازنہ کر بیٹھتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ موڈ نہ صرف خراب ہوتا ہے بلکہ خود سے ناراض بھی ہو جاتا ہے۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پوری خیرخواہی سے ہمیں ہماری کمیوں کی یاد دہانی کرواتے ہیں۔ ان کی آواز نرم، الفاظ میٹھے اور نیت صاف ہوتی ہے، مگر اثر ایسا ہوتا ہے جیسے کسی خاموش کمرے میں آئینہ رکھ دیا گیا ہو—آدمی خود کو دیکھ کر نظریں چرا لیتا ہے۔

اور آخر میں سب سے مہلک طریقہ: خود سے مسلسل سوال کرنا—"میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟" یہ سوال بظاہر معصوم ہے، مگر اس کے جواب کی تلاش میں موڈ آہستہ آہستہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے۔ نہ جواب ملتا ہے، نہ سکون۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم یہ سب کچھ نہایت سلیقے اور تسلسل سے کرتے ہیں، اور پھر شکوہ بھی کرتے ہیں کہ دل کیوں بوجھل ہے، مسکراہٹ کیوں اوپر سے آتی محسوس ہوتی ہے، اور دن کیوں خود سے بیزار لگتا ہے۔

شاید اصل مسئلہ یہ نہیں کہ موڈ خراب ہو جاتا ہے—اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اسے خراب کرنے کے سارے طریقے یاد کر رکھے ہیں، اور بہتر رکھنے کی مشق کبھی سنجیدگی سے کی ہی نہیں۔

 ایم نور آسی#

Thursday, December 11, 2025

Monday, December 8, 2025

اندر کا میلہ

 

اندر کا میلہ



رات کے اُس پہر میں، جب شہر کی سڑکیں اپنی تھکن کی چادر اوڑھ کر سو جاتی ہیں، میں اپنے اندر اُٹھنے والے اُس سمندر کے کنارے کھڑا ہوتا ہوں جس کی لہریں بے آواز ہیں مگر بے وزن نہیں۔ یہاں، خاموشی کوئی خلا نہیں؛ یہ تو ایک بھری ہوئی لائبریری ہے، جس کے ہر طاق میں کوئی نہ کوئی کہانی سانس لیتی ہے۔ کبھی یہ خاموشی بچپن میں ایک سزا تھی—کمرے کے کونے میں دیوار سے باتیں کرتا وہ بچہ جو ڈرتا تھا کہ شاید بولنا بھول جائے گا۔ پھر جوانی نے اسے فرار کا راستہ بنا دیا—ہجوم سے چھٹکارے کی ایک سرگوشی۔ اور اب؟ اب خاموشی ایک وطن ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی سرحدیں میرے اندر شروع ہوتی ہیں اور میرے اندر ہی ختم ہو جاتی ہیں۔

دیکھئے، خاموشی کی بھی تہیں ہوتی ہیں۔ پہلی تہہ وہ ہے جو دروازہ بند کرتے ہی ہوا میں جمنے لگتی ہے۔ دوسری تہہ دل کی لاشعوری گہرائیوں میں گونجتی ہے، جہاں شور بھی ہے مگر سنائی نہیں دیتا۔ تیسری تہہ وجودی ہے—وہ مقام جہاں آدمی اپنی اصل سے آمنے سامنے ہوتا ہے۔ بچپن میں یہ خاموشی کھیل کے بیچ اچانک آ جاتی تھی، جیسے دنیا نے سانس روک لیا ہو۔ جوانی میں یہی چبھتی ہوئی ہو گئی، جیسے اندر کہیں خراب سائلنٹ موڈ والا الارم بج رہا ہو۔ اور اب، یہ ایک تھکی ہوئی دوست کی طرح میرے پاس بیٹھ جاتی ہے اور کہتی ہے: "پہلے مجھے تھوڑا سن لو۔ باتیں بعد میں بھی ہو جائیں گی۔"

شہر کا شور ایک فریب ہے۔ وہ بسوں کے ہارن، گاڑیوں کی چیخیں، فون کی گھنٹیاں یہ سب بیرونی ہنگامہ ہے جو اندر کے سمندر کو چھو ہی نہیں سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم سب کے اندر ایک دوسرا شہر آباد ہے: بے آواز مگر مکمل۔ یہاں خاموشی اپنا جغرافیہ بدلتی رہتی ہے—کبھی پہاڑ بن کر، کبھی وادی بن کر، کبھی ایک ایسا سمندر بن کر جس کی تہہ میں زخم تیرتے ہیں اور خواب سانس لیتے ہیں۔

میں نے ایک عجیب سفر کیا ہے خاموشی کے ساتھ۔ کبھی یہ میری دشمن تھی، میرے ٹوٹے ہوئے دل کے ہر کونے میں چھری کی نوک رکھ دیتی تھی۔ پھر وقت نے سکھایا کہ یہی خاموشی زخموں پر مرہم بھی رکھ سکتی ہے۔ کب دشمن دوست بن گئی، پتہ ہی نہ چلا۔ اب تو جب آوازیں زیادہ ہونے لگتی ہیں، میں خود خاموشی کو پکارتا ہوں—جیسے کوئی پرانا رفیق دروازہ کھٹکھٹا رہا ہو۔

اور شاید اسی لیے تخلیق خاموشی کا محتاج ہے۔ الفاظ ہجوم میں پیدا نہیں ہوتے۔ وہ تب جنم لیتے ہیں جب اندر کی گیلری میں صرف ایک ہلکی سی گونج باقی رہ جاتی ہے، جب باہر کے شور اور اندر کے شور میں صلح ہو جاتی ہے۔ کاغذ پر اترنے والا پہلا لفظ اسی صلح کا دستخط ہے۔ یہ ڈوبنے کا عمل ہے—سمندر کی تہہ میں اتر کر خزانے تلاش کرنا۔ کیونکہ سطح پر تو صرف لہریں ہیں، حقیقت تو گہرائی میں سوئی ہوئی ہے۔

آج، اس رات کے پچھلے پہر میں، میں نے یہ دریافت کیا ہے کہ خاموشی دراصل خود سے ملاقات کا دوسرا نام ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جو ہمیں ہماری اصل آواز سناتا ہے۔ باہر کے شور میں تو ہم دوسروں کی آوازوں کی گونج بن جاتے ہیں۔ اندر کی خاموشی میں ہم اپنی زبان سیکھتے ہیں۔

تو آؤ، اپنے اندر کے اس شور سے دوستی کر لو۔ یہ تمہارا اپنا میلہ ہے۔ اس میں تمہارے ہی رنگ ہیں، تمہاری ہی سُر ہے۔ اور جب یہ میلہ لگتا ہے، تو خاموشی کی گونج میں ایک میٹھی سی آواز کہتی ہے: "تم ہو بس۔ اور بس تم ہی ہو۔ یہی کافی ہے۔" یہی وہ سکون ہے جس کی تلاش میں ہماری تمام خاموشیاں سانس لیتی ہیں۔

# محمد نور آسی