موڈ خراب کرنے کے آزمودہ طریقے
یہ بات اب کسی تحقیق کی محتاج نہیں رہی کہ خوش رہنے کے لیے محنت درکار ہوتی ہے، مگر موڈ خراب کرنے کے لیے صرف ذرا سی غفلت کافی ہوتی ہے۔ بعض لوگ اسے اتفاق سمجھتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر اس فن میں درجۂ کمال تک پہنچ چکے ہیں—بغیر کسی استاد، بغیر کسی سند کے۔
موڈ خراب کرنے کا سب سے معتبر اور قدیم نسخہ یہ ہے کہ دن کی ابتدا خود سے نہیں، دنیا سے کی جائے۔ آنکھ کھلتے ہی موبائل فون کی اسکرین پر نظریں ڈالنا دراصل اپنے ذہن کو دوسروں کی پریشانیوں، کامیابیوں اور بے وقت تجزیوں کے حوالے کر دینا ہے۔ چند لمحوں میں دل بوجھل، سوچ منتشر اور صبح بے وقت تھکی ہوئی محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ وہ واحد عبادت ہے جس کے بعد روح ہلکی نہیں، بوجھل ہو جاتی ہے۔
دوسرا آزمودہ طریقہ یہ ہے کہ ہم توقعات کو خاموشی سے پالنا شروع کر دیں۔ نہ کسی کو بتائیں، نہ خود سے اعتراف کریں۔ بس دل کے کسی کونے میں یہ یقین جما لیں کہ فلاں شخص سمجھے گا، فلاں موقع بدلے گا، فلاں دن خاص ہو گا۔ پھر جب کچھ بھی ویسا نہ ہو تو موڈ کو افسوس نہیں ہوتا، اسے حیرت ہوتی ہے—اور یہی حیرت دیرپا اداسی میں بدل جاتی ہے۔
تیسرا طریقہ ماضی سے وابستہ ہے، مگر یہاں بھی انتخاب بہت اہم ہے۔ یادداشت کے کتب خانے سے وہی فائلیں نکالی جائیں جن پر ناکامی، ندامت یا ادھورے جملوں کی مہر لگی ہو۔ وہ باتیں جو ہم کہہ نہ سکے، وہ فیصلے جو ہم نہ کر سکے، اور وہ لمحے جو ہمارے ہاتھ سے پھسل گئے—یہ سب مل کر موڈ کو اس نزاکت سے توڑتے ہیں کہ وہ احتجاج بھی نہیں کر پاتا۔
موڈ خراب کرنے کے جدید طریقوں میں سوشل میڈیا کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ وہاں زندگی ایک مستقل جشن کی صورت دکھائی دیتی ہے: مسکراتے چہرے، مکمل خواب اور فلٹر شدہ خوشیاں۔ ہم اس نمائش کو حقیقت سمجھ لیتے ہیں اور اپنی بے ترتیب، غیر فلٹر شدہ زندگی سے موازنہ کر بیٹھتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ موڈ نہ صرف خراب ہوتا ہے بلکہ خود سے ناراض بھی ہو جاتا ہے۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پوری خیرخواہی سے ہمیں ہماری کمیوں کی یاد دہانی کرواتے ہیں۔ ان کی آواز نرم، الفاظ میٹھے اور نیت صاف ہوتی ہے، مگر اثر ایسا ہوتا ہے جیسے کسی خاموش کمرے میں آئینہ رکھ دیا گیا ہو—آدمی خود کو دیکھ کر نظریں چرا لیتا ہے۔
اور آخر میں سب سے مہلک طریقہ: خود سے مسلسل سوال کرنا—"میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟" یہ سوال بظاہر معصوم ہے، مگر اس کے جواب کی تلاش میں موڈ آہستہ آہستہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے۔ نہ جواب ملتا ہے، نہ سکون۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم یہ سب کچھ نہایت سلیقے اور تسلسل سے کرتے ہیں، اور پھر شکوہ بھی کرتے ہیں کہ دل کیوں بوجھل ہے، مسکراہٹ کیوں اوپر سے آتی محسوس ہوتی ہے، اور دن کیوں خود سے بیزار لگتا ہے۔
شاید اصل مسئلہ یہ نہیں کہ موڈ خراب ہو جاتا ہے—اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اسے خراب کرنے کے سارے طریقے یاد کر رکھے ہیں، اور بہتر رکھنے کی مشق کبھی سنجیدگی سے کی ہی نہیں۔
ایم نور آسی#



