صفحات

Sunday, November 22, 2015

؟میرا قصور کیا ہے؟؟؟


آج صبح بیگم کو اٹھایا اور اس سے پوچھا جان! واک کیلئے میرے ساتھ چلو گی؟ 
بیگم نے نیم غنودگی میں جواب دیا " کیا مطلب؟ تمھارا خیال ہے میں موٹی ہو گئی ہوں؟
" نہیں ، نہیں۔۔ واک صحت کے لئے اچھی ہے"
 بیگم: اوہ۔۔۔ اس کا مطلب ہے میں بیمار ہوں 
میں: قطعا نہیں۔۔ میری جان اگر تم واک پہ نہیں جانا چاہتی تو کوئی بات نہیں۔ 
بیگم: تو تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ میں سست ہوں۔ ہیں؟ 
میں: بالکل نہیں ۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ۔ تم بلاوجہ الجھ رہی ہو 
بیگم: واہ واہ۔۔۔ ۔۔تو گویا میں لڑاکا بیوی ہوں۔بس لڑنے کا بہانہ ڈھوندتی ہوں ۔ ہیں نا؟
 میں: اچھا چھوڑو۔ بہتر یہی ہے کہ میں بھی واک پہ نہ جاؤں
 بیگم: ہوں ں ں ۔۔۔ تو یوں کہو نا ۔ تم خود واک پہ جانا نہیں چاہ رہے۔ پھر مجھے کیوں الزام دے رہے ہو
 میں: اچھا بابا۔ تم پھر آرام سے سوتی رہو۔ میں واک پہ جا رہا ہوں 
بیگم: روہانسے انداز میں ۔ تم ہمیشہ اکیلے ہی ہر جگہ جاتے ہو۔ تم تو چاہتے ہی یہی ہو
 میں: افوہ۔۔۔ میر ا تو دم گھٹنے لگا ہے صبح صبح ۔
 بیمگم: دیکھا؟ میں ٹھیک کہتی ہوں ۔ تم خود غرض ہو۔ صرف اپنی فکر رہتی ہے۔ میری صحت کا تمھیں ذرا خیال نہیں
 ای ای ای ای ۔۔۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ 
میں ابھی تک ٹی وی روم میں بیٹھا ہوں ۔ سوچ رہا ہوں ۔ واک پہ جاؤں کہ نہ جاؤں ویسے بائی داوے آپ بتائیے ۔۔۔ مجھ سے کیا اور کہاں غلطی ہوئی ہے؟

ہم سفر

اس دن صبح سے ہی ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے اور موسم بہت دلفریب ہورہا تھا۔ ایسے میں سفر کا مزہ اور دوبالا ہو جاتا ہے لیکن میرے لئے وہ شخص بہت الجھن کا باعث بن رہا تھا۔ میں نے اپنے ایک عزیز کو ملنے کے لئے لاہور جانا تھا۔ اسلام آباد سے ایک معروف کمپنی کی بس میں سوار ہوا تو موسم کے منا سبت سے ایک دھن خود بخود میرے ہونٹوں پر تھرکنے لگی ۔ بہت خوشگوار موڈ کے ساتھ جب اپنی سیٹ پر بیٹھا تو کچھ ہی دیر بعد جو صاحب میرے ساتھ آکر بیٹھے وہی میرے لئے کوفت اور الجھن کا سبب بن گئے۔جھٹ سے آتے ہی فرمانے لگے " آپ کہاں جارہے ہیں" نہ سلام نہ دعا ۔ مجھے نجانے کیوں ایک دم غصہ آگیا ۔ "ظاہر ہے بس لاہور جارہی ہے تو میں پشاور جانے سے تو رہا۔ لاہور ہی جارہا ہوں" " گڈ۔ اس کا مطلب ہے آپ کے ساتھ سفر کافی اچھا گذرے گا۔ " "کیا مطلب؟ " " سادہ سی بات ہے۔ آپ بہت خوش مزاج لگ رہے ہیں سو آپ کے ساتھ اگلے کچھ گھنٹے بات چیت کرکے مزا آئے گا" میں تو تلملا کر رہ گیا۔ اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی واقف کار نظر آئے تو سیٹ بدل لوں ۔ لیکن سب چہرے اجنبی تھے۔ بس ہوسٹس سے مد د لینے کا خیال آیا پھر اپنی فطری روادری اور جھجھک آڑے آگئی ۔ سو چپ ہی رہا۔ میں دراصل دوران سفر خاموش رہنا ہی پسند کرتا ہوں ۔ جو صاحب میرے ہم سفر بنے پہلے فقرے سے ہی مجھے اچھے نہ لگے ۔ اور وہ تھے کہ مسلسل سوال کیے جارہے تھے۔ اچھا آپ کہاں سے ہیں۔ کیا کرتے ہیں۔ لاہور کیوں جارہے ہیں۔ ؟ میں مختصر جواب دیتا رہا ۔ اور رواداری میں جب یہی سوال ان سے پوچھے توگویا وہ جیسے انتظار میں تھے ۔ اپنے حوالے سے جو گفتگو شروع کی تو لاہور جا کر دم لیا۔ وہ صاحب دراصل بہت بڑے بزنس مین تھے ۔ اور ان کا بزنس پاکستا ن کے کئی شہروں میں پھیلا ہوا تھا۔ ان کے بزنس میں گاڑیوں کے سپیئر پارٹس سے لے کر لیپ ٹاپ تک شامل تھے ۔ کئی شہروں میں ان کے ذاتی محل نما گھر تھے۔ میں تو حیرت اور مرعوبیت کی کیفیت میں ان کی گفتگو سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ کسی کے بارے میں بھی فوری رائے نہیں قائم کرنی چاہیے ۔ اس کی گفتگو اس کے بزنس، دولت ، محلوں، گاڑیوں اور رنگ برنگی محفلوں کے گرد گھومتی رہی۔ اور میں اس کی گفتگو کے دوران ایک تصوراتی دنیا میں اس کے ساتھ قدم بہ قد م چلتا رہا۔ یہاں تک کہ لاہور آگیا۔ ۔۔۔۔۔۔ وہ ایک دم اٹھ کر نیچے اترا اور پھر غائب ہو گیا ۔ میں نے اسے آگے پیچھے بہت دیکھا لیکن وہ نہ ملا ۔ حالانکہ میں تو سوچ رہا تھا کہ وہ مجھے اپنا محل دیکھنے کی دعوت دے گا۔ خیر میں باہر آکر داتا دربار جانے والی ویگن میں بیٹھا ۔ یہ میرا معمول تھا ۔ جب بھی لاہور آ تا سب سے پہلے داتا حاضری لگواتا ۔ راستے میں مجھے ایک دفعہ شک ہوا کہ ایک گذرتی ویگن میں وہی میرا ہم سفر بیٹھا ہوا ہے۔ لیکن میں نے اسے ایک وہم سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ داتا دربار پہنچا تو نماز کا ٹائم ہو چکا تھا۔ نماز ادا کی اور باہر نکلنے لگا تو اچانک میری نظر ایک طر ف بیٹھے ایک بندے پر پڑی جو ایک شاپنگ بیگ پکڑے اس میں سے لنگر کے چاول ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ ۔۔ یہ بندہ وہی میرا ارب پتی ہم سفر تھا

زندگی


زندگی بہت مختصر ہے یہ فقرہ تو ہم دن میں شاید کئی بار سنتے ہیں ۔ لیکن کبھی غور نہیں کیا ۔ مختصر کیوں ، کیسے؟ اگر کسی کی عمراللہ کریم نے 50 سال لکھی ہے ، 70 سال لکھی ہے یا 100 سال- تو وہ دنیا میں اتنے ہی سال گذار کر جائے گا۔ پھر مختصر کیوں ہے زندگی ؟ میں کوئی مذہبی سکالر نہیں ۔ لیکن ایک بات جو اپنی کم علمی کے اعتراف کے باوجود جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم جب اپنی گذشتہ زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے گذارے گئے دس ، بیس ، تیس سال تو گویا کل کی بات ہے۔ یوں گذرے گئے جیسے اک لمحہ گذرا ہو۔ اسی سے قیاس کرکے جب یہ سوچ ذہن میں آتی ہے کہ جب نزع کا عالم ہو گا تو ممکن ہے اس وقت ہمیں یہی محسوس ہو کہ ہماری 60، 70 زندگی یوں پلک چھپکتے گذر گئی کہ پتہ بھی نہ چلا۔ تو پھر شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ زندگی مختصر ہے۔ ہاں سچ ہی تو کہتے ہیں۔ ذرا ایک لمحے کے لئے تصور کیجئے ۔ وہ پہلا دن جب آپ اسکول گئے۔ کل کی بات لگتی ہے نا۔ بے شک سر کے بال سفید ہوگئے یا سفیدی کی جانب سرک رہے ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے ابھی تو ہم جوان ہیں۔ کوئی انکل بولے یا آنٹی تو حیرت سی ہوتی ہے۔ ہوتی ہے نا؟ اصل میں یہ زندگی کیا ، دنیا کی ہر چیز ہی گویا دھوکہ ہے۔ جیسے دن ، مہینے، سال ہمیں دھوکہ دیتے ہیں ، دنیا میں ہر چیز ویسے ہی نظر کا دھوکہ ہی ہے۔ جو بات کل ناممکن تھی آج ہمارے لئے ایک عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے۔ ذرا سوچیئے ۔۔۔ کیا کچھ سال پہلے تک کوئی سوچ سکتا تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھے ، بناکسی تار، کسی ظاہری وسیلے کے ہزاروں میل دور بسنے والوں سے نہ صرف بات کی جا سکتی ہے بلکہ ا ن کو دیکھا بھی سکتا ہے۔ سچ پوچھیئے تو اگر کوئی سو سال پہلے کا فرد آج اگر زندہ ہو جائے تو شاید یہ سب کچھ دیکھ کر حیرت سے دوبارہ مرجائے۔ یہ سب کیا ہے؟ کیونکر ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو ہماری آواز کو ، تصویر کو ہزاروں میل دور ایک چھوٹی سی ڈیوائس یا موبائل فون تک پہنچادیتی ہے۔ سائنس کہتی ہے۔فضائے بسیط جو عام نظر کو خالی نظر آتی ہے ۔ یہ سب ایک مخصوص مادے سے بھری ہے۔ ہم جہاں بیٹھتے ہیں ، کھڑے ہوتے ہیں ۔ کچھ دیر تک اس فضا میں ہمارے چلے جانے کے باوجود ہمارا عکس موجود رہتا ہے۔ کیوں؟ ہماری آوازیں اسی کائنات کے کسی بڑے ڈیٹآ سٹوریج میں محفوظ ہو رہی ہیں۔ بلکہ جو کچھ اب تک کہا گیا، بولا گیا وہ لفظ ، وہ آوازیں اسی کائنات میں موجود اور محفوظ ہیں۔ ہم دھوکے پہ دھوکہ کھار ہے ہیں ۔ تو پھر اس زندگی کا کیا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ایسا کریں نا کہ جو محفوظ ہو وہ باعث شرمندگی نہ ہو۔ زندگی دھوکہ سہی اس کا ماحصل دھوکہ نہیں ۔ ایک بہت چھوٹا سا لیکن بہت گہرا نقطہ ہے۔ دھوکہ کھانے والے جب جان بوجھ کر دھوکہ کھاتے ہیں تو اس کے پیچھے کوئی مقصد ہوتا ہے۔ دھوکہ ہی کھانا ہے نا تو جان بوجھ کر کیوں نہ کھائیں۔
ایک دوست کے ساتھ کہیں جارہا تھا۔ راستے میں ایک ٹھیلے والے کے پاس پڑے پھل اچھے لگے تو رک گئے۔ ریٹ پوچھا تو میں نے بھاؤ تاؤ کرنے کی کوشش کی۔ مجھے دوست نے روک دیا ۔ کہا ۔" بس جو بھی بھاؤ لگائے اس سے پھل لے لو" میں نے ایسا ہی کیا لیکن پھر اس سے پوچھا کہ کیوں؟ کہنے لگا" اس ٹھیلے والے کے پاس کل سامان ہی ہزار پندرہ سو کا ہے۔ اس نے اسی سامان سے اپنے گھروالوں کے لئے کچھ روٹی کا بندوبست کرنا ہے۔ ہم اس سے بھی بھاؤ تاؤ کر کے خریدیں گے تو اس کو کیا بچے گا؟۔ ہم روزانہ کتنے خرچ کرتے ہیں کبھی حساب نہیں کیا۔ لیکن اس ٹھیلے والے سے دو دو روپے کے لئے کیوں بحث کرتے ہیں"
کیوں؟ واقعی کیوں؟

کائنات کی ہر چیز دوسروں کےلئے ہے۔ یہ نکتہ جس جس کو سمجھ آیا وہ کامیاب ہوا۔لیکن  زندگی میں کچھ  کرنے کے لئے ، دوسروں کو کچھ دینے کے لئے بھی تو کسی مرشد، کسی استاد ، کسی بزرگ سے وابستگی ضروری ہے۔
بعض اوقات سامنے کی بات سمجھ نہیں آتی ۔ سینکڑوں کتابوں، ہزاروں فلسفوں کے بیچ الجھنے والے سادہ سی بات بھی نہیں سمجھ پاتے۔
بجلی کا کام کرنے والا بتا تا ہے ۔ صاحب بلب تب روشنی دیتا ہے جب وہ کسی تار سے وابستہ ہوتا ہے، تار کسی بورڈ سے جڑی ہوتی ہے۔ بورڈ کسی لائن سے اور لائن کسی گرڈ سٹیشن سے۔
سامنے کی ہی بات ہے۔ لیکن سمجھ بہت دیر میں کیوں آتی ہے۔
خود کو عقل کل سمجھنا ہی سب سے بڑی نادانی ہے۔ سرنڈر کرنا سیکھنا ہوتا ہے۔ تب کچھ ملتا ہے۔ صاحب جی ابلیس کی کہانی تو یاد ہے نا۔ سرنڈر کرنے سے انکار کیا۔ تو سب کچھ ضائع کر بیٹھا۔
کسی استاد ، کسی مرشد، کسی بزرگ کے آگے سرنڈر کرو۔جو آپ کی تاریں کسی بورڈ سے جوڑ دے۔ آپ کا رابطہ گرڈ اسٹیشن سے ہوگا تو کرنٹ آئے گا ۔ورنہ دھوکے پہ دھوکہ کھاؤ گے۔
گذرے پل اور آنے والے پل کے بیچ میں کچھ ایسا ہے جو ہم سمجھ نہیں پاتے۔
بس ذرا غور کرنے پڑتا ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھنا پڑتا ہے