پہلا روزہ
محمد نور آسی
ہمیں نہ تو کسی نے مجبور کیا ، بہت ضد کی یا
منت سماجت کی کہ خدا کے اپنے پہلے روزے کے بارے میں اپنا ایک ادبی
شاہکار اپنے "زورقلم اور
زیادہ " والے قلم سے عنائت کریں
اور نہ ہی کسی نے ان باکس میں کوئی مسیج کیا نہ کسی نے ٹیک کیا۔ پھربھی پتہ نہیں کیوں ہم نے یہ تحریرلکھی ہے
بلکہ اپنے ایک عدد بوسیدہ بلکہ خزان رسیدہ
بلاگ پر بھی ڈال دی ۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلاروزہ رکھے ویسے تو اب اتنے سال بیت گئے ہیں
کہ بہت ساری تفصیلات ذہن میں نہیں تاہم ماہ رمضان سے جڑے اپنے بچپن کے کچھ ایسے
واقعات ضرور یاد ہیں جو کل کی طرح تازہ لگتے ہیں۔ پہلا روزہ جب رکھا تو یہ یاد نہیں کہ کیا کھایا
کیا پیا البتہ شام کو جو آؤ بھگت ہوئی وہ نہیں بھولتی ۔ گھروالوں کے علاوہ خصوصا خالہ ، پھوپھو اور کزن
نے جو تحائف پھلوں اور دیگر کھانے کی اشیاء اور نقدی کی صورت میں دیے تو دل کرتا تھا اب روزانہ روزہ ہی رکھیں گے ۔ وہ تو
امی آڑے آ جاتی کہ معصوم جان اور سخت گرمی ۔ بس ایک روزہ کافی ہے ۔ ہاں جس دن موسم
ٹھیک ہو گا اس دن رکھ لینا ۔
جمعے کا روزہ ضد کرکے رکھتے تھے۔ ایک دفعہ روزہ
رکھنے کے بعد شام کو دوستوں کے ساتھ جھیل پر گئے وہاں کافی دیر کھیلتے رہے اور
واپسی پر دوستوں کے ساتھ ٹافیاں کھالیں ۔ بالکل خیال نہ آیا کہ روزہ ہے۔ جب گھر
آیا تو بڑی بہن نے پوچھا کہ ابھی تک روزہ قائم ہے یا کچھ کھا پی لیا تھا۔ ایک دم
خیال آیا کہ ٹافی کھائی تھی۔ بس رو رو کر برا حال ہو گیا۔ میرا روزہ ٹوٹ گیا میرا
روزہ ٹوٹ گیا۔ سب چپ کرواتے رہے بہلاتے رہے اور سمجھا تے رہے کہ بھول چوک کر کھانے
سے روزہ نہیں ٹوٹتا مگر میں ماننے کو تیار نہ تھا۔ ۔۔دکھ اور افسوس اتنا شدید تھا
کہ افطاری تک روتا ہی رہا ۔
ماں جی کے ہاتھوں سے سحری میں بنے پراٹھوں کی لذت دوپہر کو اور سوا ہوجاتی
تھی اور جو مزہ دوپہر کو ان پراٹھوں کو کھا کر آتا تھا وہ ابھی تک بھول نہیں پایا۔
ماہ رمضان واقعی بہت رونقوں بھرا مہینہ ہوتا تھا۔ صبح سے شام تک ایک الگ ہی ماحول
ہوتا تھا۔خصوصا تراویح ایک ایسی پرکشش عبادت لگتی تھی کہ رمضان کے بعد بھی اس کا ذکر اپنے سکول کے دوستوں میں ہوتا
رہتا کیونکہ تراویح میں شرارتیں بھی ہوتی تھی اور برزگوں سے ماربھی کھاتے تھے۔
تراویح پڑھنے کا انداز بھی مختلف تھا۔ جب امام تراویح کے لئے کھڑا ہوتا تو ہم سب
بیٹھے رہتے جونہی امام رکوع پر جاتا سب بھاگ کر نیت کرتے اور رکعت میں شامل ہوتے ۔
محلے ، مسجد میں افطاری بھجوانا ایک معمول تھا
اور یہ افطاری بہت شوق سے تقسیم کرنا اپنا مشعلہ تھا۔ کیوں کہ اکثر اس سامان میں
سے کچھ نہ کچھ اڑا بھی لیا جاتا تھا۔
گڑ کا شربت اب تو معدوم ہو چکا ہے لیکن یہ شربت
میرے بچپن میں بہت شوق سے پیا جاتا تھا۔ اس میں بادام ، خسخاش بھی پیس کر ملایا
جاتا ۔ تو لذت اور بڑھ جاتی تھی۔افطاری میں نمک سے افطار کرنا باعث ثواب سمجھا
جاتا تھا۔ بعد نمک کی جگہ کھجور نے لے لی۔
تو یہ تھیں کچھ یا دیں
کچھ باتیں
بہت اچھا لکھا۔
ReplyDeleteاپنی یادوں کی باتیں لکھنے کے لیے کسی کا کہنا ضروری نہیں ۔ لفظ خود ہی اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔
بہت عمدہ تحریر
ReplyDeleteدعوت پہ تو سب لکھتے ہیں آپ نے بغیر دعوت کے لکھا اور بہت خوب لکھا
ReplyDeleteبس اپنے بلاگ کی فانٹ کو ڈیفالٹ فانٹ کر دیجئے تاکہ پڑھنے میں کچھ اور آسانی ہو سکے
ڈاکٹر صاحب مزہ تو تب آتا ہے جب بغیر کسی کی ہدایات کے آپ اپنی تحریر لکھیں ورنہ میری مثال تو وہ ہے کہ جب تک ڈنڈا نہ ہو کام نہیں کرتے۔ بہت مزے کی تحریر ہے خاص کر تراویح والی شرارتیں عین اسی طرح ہم بھی کر چکے ہیں اور اب جو بچے کرتے ہیں اُن کو منع نہیں کرتا کیونکہ یہ اُن کے ماضی کی حسین یادیں ہونگی۔ بہت مزہ آیا آپ کی تحریر پڑھ کر۔
ReplyDeleteبہت بہت شکریہ سب دوستوں کا
ReplyDeleteبہت عمدہ منظر کشی
ReplyDeleteمیں جب چھوٹی تھی تب روزے سردیوں میں آتے تھے۔ پہلے روزے کے حالات کچھ کچھ یاد ہیں بابا اور بھائیوں نے ڈھیروں کھلونے لا کر دیئے تھے اور دوسرا روزہ رکھنے پر پہلے جیسا اہتمام نہ ہونے پر بد دل ہونا بھی یاد ہے۔
اور تراویح پڑھنے بھی ماما کے ساتھ جایا کرتے تھے اور خوب شرارتیں کیا کرتے تھے۔
بہت مزہ آیا تحریر پڑھ کے
بہت شکریہ ۔ سحرش انصاری صاحبہ
ReplyDeleteبہت عمدہ تحریراور یادیں جس کو شیئر کرنے کے لئے تہہ دل سے شکریہ
ReplyDelete