صفحات

Thursday, June 27, 2024

جہاں میں مارا گیا ہوں ، وہاں میں زندہ ہوں

 جہاں میں مارا گیا ہوں ، وہاں میں زندہ ہوں



‏صبر کی طاقت اور کمال

 

‏صبر کی طاقت اور کمال

صبر بظاہر ایک چھوٹی سی کرداری خوبی ہے ۔ لیکن صبر کی طاقت اور نتائج سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ صبر ایک خوبی نہیں بلکہ ایک ایسی طاقت ہے کہ آپ بڑے سے بڑے مسئلے کو حل کرستکے ہیں ۔ حضرت ایوب کا صبر اور برداشت مثالی تھا ۔ اسی طرح تاریخ سے صبر کی بے شمار مثالیں موجود ہوں ۔ لیکن آج ہم صبر کے حوالے سے مارش میلو تھیوری پر بات کریں گے۔

استاد نے کلاس کے سب بچوں کو ایک خوب صورت ٹافی دی اور پھر ایک عجیب بات کہی۔

’’سنو بچو! آپ سب نے دس منٹ تک اپنی ٹافی نہیں کھانی۔‘‘

یہ کہہ کہ وہ کلاس روم سے نکل گئے۔

چند لمحوں کے لیے کلاس میں خاموشی چھاگئی ، ہر بچہ اپنے سامنے پڑی ٹافی کو بے تابی سے دیکھ رہا تھا اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ان کے لیے خود کو روکنا مشکل ہو رہا تھا۔ دس منٹ پورے ہوئے اور استاد نے آ کر کلاس روم کا جائزہ لیا۔ پوری کلاس میں سات بچے ایسے تھے، جن کی ٹافیاں جوں کی توں تھیں، جب کہ باقی تمام بچے ٹافی کھا کر اس کے رنگ اور ذائقے پر تبصرہ کر رہے تھے۔ استاد نے چپکے سے ان سات بچوں کے نام اپنی ڈائری میں نوٹ کیے اور پڑھانا شروع کردیا۔

اس استاد کا نام پروفیسر والٹر مشال تھا۔

کچھ سالوں بعد استاد نے اپنی وہی ڈائری کھولی اور ان سات بچوں کے نام نکال کر ان کے بارے میں تحقیق شروع کی۔ کافی جدوجہد کے بعد ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اپنی زندگی میں کامیابی کے کئی زینے طے کر چکے ہیں اور ان کا شمار کامیاب افراد میں ہوتا ہے۔پروفیسر والٹر نے اپنی کلاس کے باقی طلبہ کا بھی جائزہ لیا، معلوم ہوا کہ ان میں اکثریت ایک عام سی زندگی گزار رہی تھی، جب کہ کچھ افراد ایسے بھی تھے، جنھیں سخت معاشی اور معاشرتی حالات کا سامنا تھا۔

اس تمام تر کاوش اور تحقیق کا نتیجہ پروفیسر والٹر نے ایک جملے میں نکالا اور وہ یہ تھا۔۔۔

’’جو انسان دس منٹ تک صبر نہیں کرسکتا، وہ زندگی میں ترقی نہیں کر سکتا۔‘‘

اس تحقیق کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی اور اس کا نام ’’مارش میلو تھیوری‘‘ پڑ گیا، کیوں کہ پروفیسر والٹر نے بچوں کو جو ٹافی دی تھی، اس کا نام ’’مارش میلو‘‘ تھا۔ یہ فوم کی طرح نرم تھی۔

اس تھیوری کے مطابق دنیا کے کامیاب ترین افراد میں اور بہت ساری خوبیوں کے ساتھ ایک خوبی ’’صبر‘‘ کی بھی پائی جاتی ہے، کیوں کہ یہ خوبی انسان کی قوتِ برداشت کو بڑھاتی ہے، جس کی بدولت انسان سخت حالات میں بھی مایوس نہیں ہوتا اور یوں وہ ایک غیر معمولی شخصیت بن جاتا ہے۔