صفحات

Friday, May 17, 2024

عین ممکن مدینے لے جائے

 عین ممکن مدینے لے جائے




Tuesday, May 7, 2024

مزاحیہ نظم آپ کا یہ ہفتہ کیسے گزرے گا

 مزاحیہ نظم آپ کا یہ ہفتہ کیسے گزرے گا

ڈاکٹر عزیز فیصل
پیر کی یہ سہ پہر اچانک
تم کو مہنگی پڑ سکتی ہے
ناک شریف پہ کوئی دبوڑی لڑ سکتی ہے
چھیمو، رانو والے رقعے بیوی یکدم پھڑ سکتی ہے
بات سسر تک بڑھ سکتی ہے
نیلے کپڑوں والی بھکارن سے محتاط ہی رہنا
آج اسے کہہ دینا۔۔ بہنا۔۔۔
دفتر سے جب واپس گھر کو آنا
رستے بھر میں تم لاحول ہی پڑھتے جانا
منگل کے دن
کوئی شخص ڈبل شہ بن کر
ایک منٹ کے اندر تم کو ٹھگ سکتا ہے
کچھ داندان کو کیڑا مکوڑا لگ سکتا ہے
انڈا تمھارے منہ کے اندر پھنس سکتا ہے
عین چول سا بندہ تم پر ہنس سکتا ہے
بدھ کو دور کے پنڈ سے کوئی گیسٹ آئے گا
اپنے ساتھ سسر کے علاوہ
نو دس بچے بھی لائے گا
سارا ٹبر دسویں دن کو
شام کا کھانا کھا کر واپس گھر جائے گا
دائیں ہاتھ تمھارا یکدم
دروازے میں آ سکتا ہے
کوا تمھارے گنج کے اوپر اپنی بیٹ گرا سکتا ہے
شک پڑنے پر ہمسائی کا وہمی شوہر
تھانے میں بھی جا سکتا ہے
کوئی ریڈ کرا سکتا ہے
اور پولیس تمھارے دولت خانے پر بھجوا سکتا ہے
جمعرات کو شام کے ساڑھے چار بجے تک
کوئی تمھاری گندی وڈیو لیک کرے گا
بالکل ٹھیک کرے گا
آڈیو کال بھی منظر عام پہ آ سکتی ہے
مس معصومہ تمھارا سارا بھٹہ ہی بٹھوا سکتی ہے
تم کو شہر کے رنڈووں سے پٹوا سکتی ہے
اور تمھارا فون زنانی کولر میں ہی ڈبو سکتی ہے
یا پھر واشن مشین کے اندر دھو سکتی ہے
اور پھر اس نقصان کا باعٹ تم کو کہہ کر
پورے چھ گھنٹے تک زور سے رو سکتی ہے
جمعے کے دن تیز ہوا میں
تاش کی بازی پھِر سکتی ہے
گنج سے اڑ کر وگ بھی نیچے گر سکتی ہے
اک حجام سے جمعہ پڑھ کر
دائیں مونچھ پہ سنجیدہ سا جھگڑا ہو جائے گا
استرے والا پاگل تگڑا ہو جائے گا
گتھم گتھا ہو جانے پر
آدھی ناک بھی کٹ سکتی ہے
چائے والی گرم پیالی
آج تمھارے سوٹ پہ خوب الٹ سکتی ہے
ہفتے کی منحوس فضا میں
تم کو اپنی پڑی رہے گی
بیگم پونے سولہ گھنٹے لڑی رہے گی
یہ محترمہ کسی فضول ترین سی ضد پر اڑی رہے گی
گھر کے سارے بھانڈے آج بھی صاف کرو گے
بیگم کی ہر غلطی پھر بھی معاف کرو گے
پاوں پڑنے، منت ترلے کرنے ہوں گے
ورنہ گھر میں بیگم جان کے دھرنے ہوں گے
۔۔۔
اس اتوار کو بیگم تم پر وار کرے گی
جوتی بیڑا پار کرے گی
چوتھی پسلی سے بیلن ٹکرا سکتا ہے
سر سے خون بھی آسکتا ہے
دسواں دانت بھی ہل سکتا ہے
رات کے پونے تین بجے کو
کوئی شاعر تم سے آکر مل سکتا ہے
تم کو یہ نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے
بیگم کے ہمراہ کہیں بھی سیر کو جانا پڑسکتا ہے
کوئی تمھارے حقے میں تبدیلی کر سکتا ہے
تمباکو کی بجائے اس میں
کوئی پٹاخہ بھر سکتا ہے
اس ہفتے تم بزم سخن سے تھوڑا سا محتاط گزرنا
صدر کے جوتوں سے تقریبا پورا ڈرنا

اچھے میاں کا سہرا

 

اچھے میاں کا سہرا

صاحبو ! افتاب قدر یعنی اچھے میاں، مہتاب قدر یعنی پیارے میاں (دونوں بھائی اپنے اخری ایام تک اسلام اباد میں F-6 میں رہائش پذیر تھے، یہ دونوں بھائی اور دلاور فگار مرحوم ہم عمر بھی تھے، بدایوں شریف میں ساتھ اسکول میں پڑھتے بھی تھے اور رشتہ داریاں بھی تھیں اپس میں۔ افتاب قدر یعنی اچھے میاں میرے سگے پھوپھا تھے۔ دلاور فگار مرحوم کو شرارت سوجھی اور ایک نقشہ کھینچا کہ دلاور فگار کے پاس ایک شاگرد بڑی بدحواسی میں ایا ہے اور کہہ رہا ہے کہ استاد ِ محترم، اچھے میاں کی اج شادی ہے اور پیارے میاں کا انتقال ہوگیا ہے، اسلیے اپ جلدی سے مجھے ایک تو سہرا لکھوادیں اور ایک مرثیہ لکھوادیں۔ دلاور فگار بہت غصہ ہوئے کہ ہمیشہ ایسی ہی بدحواسی میں اتے ہو، چلو جلدی جلدی لکھو، جب دلاور فگار مصرعہ بول رہے تھے تو شاگرد نے سہرا اور مرثیہ گڈمڈ کردیا اسکےکچھ مصرعے ادھر اور اسکے کچھ مصرعے اِدھر۔ پھر شاعر پہنچتا ہے اچھے میاں اور پیارے میاں کے گھراور بڑی ہی جلدی میں سہرا اور مرثیہ کچھ ایسے پڑھتا ہے:

شاعر : دلاور فگار
اچھے میاں کا عقد ہوا ہے بہار میں
کہدو کسی سے پھول بچھادے مزار میں
روئے حسیں پہ سہرے سے کیسی بہار ہے
اے موت ابھی جا کہ ترا انتظار ہے
دولہا دلہن شریف گھرانے میں ہیں پلے
لائی حیات ائے، قضا لے چلی چلے
نوشاہ کو عروس بڑی ذی ہنر ملی
مرحوم کو حیات مگر مختصر ملی
یارب بنی کے ساتھ ہمیشہ بنا رہے
یہ کیا رہینگے جب نہ رسول ِ خدا رہے
نوشاہ کو عروج وہ رب ِ جلیل دے
اور اسکے وارثین کو صبر ِ جمیل دے
پیارے میاں کی موت ہوئی ہے بہار میں
مدت سے اقربا تھے اسی انتظار میں
پیارے میاں کے سوگ میں دل بے قرار ہے
ساون کے گیت گاو فضا سوگوار ہے
پیارے میاں کو عمر بڑی مختصر ملی
مدت کے بعد اج یہ اچھی خبر ملی
پیارے میاں چلے کہ قضا ان کو لے چلی
اچھا ہے خاندان کے سر سے بلا ٹلی
اب ضبط تو یہ صدمہ بھی کرنا ہی چاہئے
اس عمر میں تو تمکو بھی مرنا ہی چاہئے
فردوس میں گھر ان کو وہ رب ِ جلیل دے
اور انکی اہلیہ کو بھی عمر ِ قلیل دے

بشکریہ: طارق ہاشمی

Sunday, February 18, 2024

میں ہار جاؤں محبت میں کب گوارا ہے

 میں ہار جاؤں محبت میں کب گوارا ہے

عجیب کھیل ہے یہ جیت بھی خسارا ہے

ہر ایک شخص سے ملتا ہے اس تپاک کیساتھ

ہر ایک شخص سمجھتا ہےوہ ہمارا پے

بچھڑنے والے تجھے وہ بھی سونپ دیتا ہوں

جو چشم نم میں مری آخری ستارا ہے

عجب گلی ہے جہاں روشنی نہیں جاتی

کہیں پہ اشک کہیں پر کوئی ستارہ ہے

کہیں سمٹنے میں آئے تو سانس لیں ہم بھی

یہ زندگی ہے کہ دکھ درد کا کھلارا ہے

قدم قدم نئے لہجے ہیں اپنی مٹی کے

ہراک زباں میں الگ ذائقہ ہمارا ہے

یہ چاند تارے توہیں صرف میرا عکس جمال

یہ آسماں میری مٹی کا استعارہ ہے

گذر کے ایا ہے کس کرب سے یہ سوچ ذرا

ہمارا اشک اگر ذائقے میں کھارا ہے

بھنور مزاج ہیں ہم اور ہمیں بتایا گیا

کہ اس طرف نہ چلیں جس طرف کنارا ہے

تمھارا سانحہ تاریکیوں میں لٹنا تھا

ہمارا المیہ ہےیہ ،روشنی نے مارا ہے

Saturday, February 17, 2024

میں ہار جاؤں، محبت کو کب گوارا ہے

میں ہار جاؤں، محبت کو کب گوارا ہے
عجیب کھیل ہے یہ جیت بھی خسارا ہے
ہر ایک شخص سے ملتا ہے اس تپاک کیساتھ
ہر ایک شخص سمجھتا ہے بس ہمارا پے
بچھڑنے والے تجھے وہ بھی سونپ دیتا ہوں
جو چشم نم میں مری آخری ستارا ہے
عجب گلی ہے جہاں روشنی نہیں جاتی
کہیں پہ اشک کہیں پر کوئی ستارہ ہے
کہیں سمٹنے میں آئے تو سانس لیں ہم بھی
یہ زندگی ہے کہ دکھ درد کا کھلارا ہے
قدم قدم نئے تیور ہیں اپنی مٹی میں
ہراک زباں میں الگ ذائقہ ہمارا ہے
یہ چاند تارے توہیں صرف میرا عکس جمال
یہ آسماں میری مٹی کا استعارہ ہے
گذر کے ایا ہے کس کرب سے یہ سوچ ذرا
ہمارا اشک اگر ذائقے میں کھارا ہے
بھنور مزاج ہیں ہم اور ہمیں بتایا گیا
کہ اس طرف نہ چلیں جس طرف کنارا ہے
تمھارا سانحہ تاریکیوں میں لٹنا تھا
ہمارا المیہ ہے، روشنی نے مارا ہے 

Tuesday, February 13, 2024

جسے سناتے ہوئے عمر کاٹ دی میں نے


 


جسے سناتے ہوئے عمر کاٹ دی میں نے

وہ ایک بات بھی  پوری کہاں کہی میں نے

یوں حرف و لفظ کی سیکھی ہے ساحری میں نے

کہ بات کہنے سے پہلے ،بہت سنی میں نے

محال سانس بھی لینا جہاں کیا گیا تھا

یہ کم نہیں ہے وہاں عمر کاٹ دی میں نے

نہیں ہے کوئی سزاوار اب سماعت کا

صدا لگا کے بھی دیکھا گلی گلی میں نے

ملے گا وقت تو جانیں گے کیا نواح میں ہے

ابھی تو اس کو بھی دیکھا ہے سرسری میں نے

اداس بیٹھا تھا ، پھر ایک بسرے لمحے کو

بہت لطیف سی کردی ہے گدگدی میں نے

روئیں روئیں میں دکھوں سے ہراک کٹاؤ بھرا

اور ایک شال بھی اوڑھی ہے ساحلی میں نے

تمارے شہر میں چشمے کہاں سے لا تا میں

سو اپنے اندر ہی کھودی ہے باؤلی میں نے

ملائمت سی جو لہجے میں ہے ، جواز تو ہے

زمانے بھر سے سنی ہے جلی کٹی میں نے

عجب نہیں ہے کہ جنگل میں وہ سنائی دے

وہ  بات جو کبھی پہلے نہیں سنی میں نے

مرے دروں میں کوئی لو ہے جو جھلکتی ہے

کہاںکسی سے بھی مانگی ہے روشنی میں نے

میں پہلے  سانس کی آری سے ریاض کرتا رہا

پھر اس کے بعد خریدی تھی بانسری میں نے

کہاں یہ چھاؤں سی ٹھنڈک مرے وجود میں تھی

بہت رکھی ہے درختوں سے دوستی میں نے

میں اپنی ساری سپہ ، سارے خوف چھوڑ آیا 

کہ اب کے لڑنی تھی اک جنگ آخری میں نے

وہ گھر میں آیا اچانک ، سو ایسی عجلت میں

کہیں چراغ، کہیں چاندنی دھری میں نے