صفحات

Showing posts with label Ghazal. Show all posts
Showing posts with label Ghazal. Show all posts

Tuesday, February 13, 2024

جسے سناتے ہوئے عمر کاٹ دی میں نے


جسے سناتے ہوئے عمر کاٹ دی میں نے 


جسے سناتے ہوئے عمر کاٹ دی میں نے

وہ ایک بات بھی  پوری کہاں کہی میں نے

یوں حرف و لفظ کی سیکھی ہے ساحری میں نے

کہ بات کہنے سے پہلے ،بہت سنی میں نے

محال سانس بھی لینا جہاں کیا گیا تھا

یہ کم نہیں ہے وہاں عمر کاٹ دی میں نے

نہیں ہے کوئی سزاوار اب سماعت کا

صدا لگا کے بھی دیکھا گلی گلی میں نے

ملے گا وقت تو جانیں گے کیا نواح میں ہے

ابھی تو اس کو بھی دیکھا ہے سرسری میں نے

اداس بیٹھا تھا ، پھر ایک بسرے لمحے کو

بہت لطیف سی کردی ہے گدگدی میں نے

روئیں روئیں میں دکھوں سے ہراک کٹاؤ بھرا

اور ایک شال بھی اوڑھی ہے ساحلی میں نے

تمارے شہر میں چشمے کہاں سے لا تا میں

سو اپنے اندر ہی کھودی ہے باؤلی میں نے

ملائمت سی جو لہجے میں ہے ، جواز تو ہے

زمانے بھر سے سنی ہے جلی کٹی میں نے

عجب نہیں ہے کہ جنگل میں وہ سنائی دے

وہ  بات جو کبھی پہلے نہیں سنی میں نے

مرے دروں میں کوئی لو ہے جو جھلکتی ہے

کہاںکسی سے بھی مانگی ہے روشنی میں نے

میں پہلے  سانس کی آری سے ریاض کرتا رہا

پھر اس کے بعد خریدی تھی بانسری میں نے

کہاں یہ چھاؤں سی ٹھنڈک مرے وجود میں تھی

بہت رکھی ہے درختوں سے دوستی میں نے

میں اپنی ساری سپہ ، سارے خوف چھوڑ آیا 

کہ اب کے لڑنی تھی اک جنگ آخری میں نے

وہ گھر میں آیا اچانک ، سو ایسی عجلت میں

کہیں چراغ، کہیں چاندنی دھری میں نے