صفحات

Sunday, November 22, 2015

؟میرا قصور کیا ہے؟؟؟


آج صبح بیگم کو اٹھایا اور اس سے پوچھا جان! واک کیلئے میرے ساتھ چلو گی؟ 
بیگم نے نیم غنودگی میں جواب دیا " کیا مطلب؟ تمھارا خیال ہے میں موٹی ہو گئی ہوں؟
" نہیں ، نہیں۔۔ واک صحت کے لئے اچھی ہے"
 بیگم: اوہ۔۔۔ اس کا مطلب ہے میں بیمار ہوں 
میں: قطعا نہیں۔۔ میری جان اگر تم واک پہ نہیں جانا چاہتی تو کوئی بات نہیں۔ 
بیگم: تو تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ میں سست ہوں۔ ہیں؟ 
میں: بالکل نہیں ۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ۔ تم بلاوجہ الجھ رہی ہو 
بیگم: واہ واہ۔۔۔ ۔۔تو گویا میں لڑاکا بیوی ہوں۔بس لڑنے کا بہانہ ڈھوندتی ہوں ۔ ہیں نا؟
 میں: اچھا چھوڑو۔ بہتر یہی ہے کہ میں بھی واک پہ نہ جاؤں
 بیگم: ہوں ں ں ۔۔۔ تو یوں کہو نا ۔ تم خود واک پہ جانا نہیں چاہ رہے۔ پھر مجھے کیوں الزام دے رہے ہو
 میں: اچھا بابا۔ تم پھر آرام سے سوتی رہو۔ میں واک پہ جا رہا ہوں 
بیگم: روہانسے انداز میں ۔ تم ہمیشہ اکیلے ہی ہر جگہ جاتے ہو۔ تم تو چاہتے ہی یہی ہو
 میں: افوہ۔۔۔ میر ا تو دم گھٹنے لگا ہے صبح صبح ۔
 بیمگم: دیکھا؟ میں ٹھیک کہتی ہوں ۔ تم خود غرض ہو۔ صرف اپنی فکر رہتی ہے۔ میری صحت کا تمھیں ذرا خیال نہیں
 ای ای ای ای ۔۔۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ 
میں ابھی تک ٹی وی روم میں بیٹھا ہوں ۔ سوچ رہا ہوں ۔ واک پہ جاؤں کہ نہ جاؤں ویسے بائی داوے آپ بتائیے ۔۔۔ مجھ سے کیا اور کہاں غلطی ہوئی ہے؟

ہم سفر

اس دن صبح سے ہی ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے اور موسم بہت دلفریب ہورہا تھا۔ ایسے میں سفر کا مزہ اور دوبالا ہو جاتا ہے لیکن میرے لئے وہ شخص بہت الجھن کا باعث بن رہا تھا۔ میں نے اپنے ایک عزیز کو ملنے کے لئے لاہور جانا تھا۔ اسلام آباد سے ایک معروف کمپنی کی بس میں سوار ہوا تو موسم کے منا سبت سے ایک دھن خود بخود میرے ہونٹوں پر تھرکنے لگی ۔ بہت خوشگوار موڈ کے ساتھ جب اپنی سیٹ پر بیٹھا تو کچھ ہی دیر بعد جو صاحب میرے ساتھ آکر بیٹھے وہی میرے لئے کوفت اور الجھن کا سبب بن گئے۔جھٹ سے آتے ہی فرمانے لگے " آپ کہاں جارہے ہیں" نہ سلام نہ دعا ۔ مجھے نجانے کیوں ایک دم غصہ آگیا ۔ "ظاہر ہے بس لاہور جارہی ہے تو میں پشاور جانے سے تو رہا۔ لاہور ہی جارہا ہوں" " گڈ۔ اس کا مطلب ہے آپ کے ساتھ سفر کافی اچھا گذرے گا۔ " "کیا مطلب؟ " " سادہ سی بات ہے۔ آپ بہت خوش مزاج لگ رہے ہیں سو آپ کے ساتھ اگلے کچھ گھنٹے بات چیت کرکے مزا آئے گا" میں تو تلملا کر رہ گیا۔ اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی واقف کار نظر آئے تو سیٹ بدل لوں ۔ لیکن سب چہرے اجنبی تھے۔ بس ہوسٹس سے مد د لینے کا خیال آیا پھر اپنی فطری روادری اور جھجھک آڑے آگئی ۔ سو چپ ہی رہا۔ میں دراصل دوران سفر خاموش رہنا ہی پسند کرتا ہوں ۔ جو صاحب میرے ہم سفر بنے پہلے فقرے سے ہی مجھے اچھے نہ لگے ۔ اور وہ تھے کہ مسلسل سوال کیے جارہے تھے۔ اچھا آپ کہاں سے ہیں۔ کیا کرتے ہیں۔ لاہور کیوں جارہے ہیں۔ ؟ میں مختصر جواب دیتا رہا ۔ اور رواداری میں جب یہی سوال ان سے پوچھے توگویا وہ جیسے انتظار میں تھے ۔ اپنے حوالے سے جو گفتگو شروع کی تو لاہور جا کر دم لیا۔ وہ صاحب دراصل بہت بڑے بزنس مین تھے ۔ اور ان کا بزنس پاکستا ن کے کئی شہروں میں پھیلا ہوا تھا۔ ان کے بزنس میں گاڑیوں کے سپیئر پارٹس سے لے کر لیپ ٹاپ تک شامل تھے ۔ کئی شہروں میں ان کے ذاتی محل نما گھر تھے۔ میں تو حیرت اور مرعوبیت کی کیفیت میں ان کی گفتگو سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ کسی کے بارے میں بھی فوری رائے نہیں قائم کرنی چاہیے ۔ اس کی گفتگو اس کے بزنس، دولت ، محلوں، گاڑیوں اور رنگ برنگی محفلوں کے گرد گھومتی رہی۔ اور میں اس کی گفتگو کے دوران ایک تصوراتی دنیا میں اس کے ساتھ قدم بہ قد م چلتا رہا۔ یہاں تک کہ لاہور آگیا۔ ۔۔۔۔۔۔ وہ ایک دم اٹھ کر نیچے اترا اور پھر غائب ہو گیا ۔ میں نے اسے آگے پیچھے بہت دیکھا لیکن وہ نہ ملا ۔ حالانکہ میں تو سوچ رہا تھا کہ وہ مجھے اپنا محل دیکھنے کی دعوت دے گا۔ خیر میں باہر آکر داتا دربار جانے والی ویگن میں بیٹھا ۔ یہ میرا معمول تھا ۔ جب بھی لاہور آ تا سب سے پہلے داتا حاضری لگواتا ۔ راستے میں مجھے ایک دفعہ شک ہوا کہ ایک گذرتی ویگن میں وہی میرا ہم سفر بیٹھا ہوا ہے۔ لیکن میں نے اسے ایک وہم سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ داتا دربار پہنچا تو نماز کا ٹائم ہو چکا تھا۔ نماز ادا کی اور باہر نکلنے لگا تو اچانک میری نظر ایک طر ف بیٹھے ایک بندے پر پڑی جو ایک شاپنگ بیگ پکڑے اس میں سے لنگر کے چاول ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ ۔۔ یہ بندہ وہی میرا ارب پتی ہم سفر تھا

زندگی


زندگی بہت مختصر ہے یہ فقرہ تو ہم دن میں شاید کئی بار سنتے ہیں ۔ لیکن کبھی غور نہیں کیا ۔ مختصر کیوں ، کیسے؟ اگر کسی کی عمراللہ کریم نے 50 سال لکھی ہے ، 70 سال لکھی ہے یا 100 سال- تو وہ دنیا میں اتنے ہی سال گذار کر جائے گا۔ پھر مختصر کیوں ہے زندگی ؟ میں کوئی مذہبی سکالر نہیں ۔ لیکن ایک بات جو اپنی کم علمی کے اعتراف کے باوجود جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم جب اپنی گذشتہ زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے گذارے گئے دس ، بیس ، تیس سال تو گویا کل کی بات ہے۔ یوں گذرے گئے جیسے اک لمحہ گذرا ہو۔ اسی سے قیاس کرکے جب یہ سوچ ذہن میں آتی ہے کہ جب نزع کا عالم ہو گا تو ممکن ہے اس وقت ہمیں یہی محسوس ہو کہ ہماری 60، 70 زندگی یوں پلک چھپکتے گذر گئی کہ پتہ بھی نہ چلا۔ تو پھر شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ زندگی مختصر ہے۔ ہاں سچ ہی تو کہتے ہیں۔ ذرا ایک لمحے کے لئے تصور کیجئے ۔ وہ پہلا دن جب آپ اسکول گئے۔ کل کی بات لگتی ہے نا۔ بے شک سر کے بال سفید ہوگئے یا سفیدی کی جانب سرک رہے ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے ابھی تو ہم جوان ہیں۔ کوئی انکل بولے یا آنٹی تو حیرت سی ہوتی ہے۔ ہوتی ہے نا؟ اصل میں یہ زندگی کیا ، دنیا کی ہر چیز ہی گویا دھوکہ ہے۔ جیسے دن ، مہینے، سال ہمیں دھوکہ دیتے ہیں ، دنیا میں ہر چیز ویسے ہی نظر کا دھوکہ ہی ہے۔ جو بات کل ناممکن تھی آج ہمارے لئے ایک عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے۔ ذرا سوچیئے ۔۔۔ کیا کچھ سال پہلے تک کوئی سوچ سکتا تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھے ، بناکسی تار، کسی ظاہری وسیلے کے ہزاروں میل دور بسنے والوں سے نہ صرف بات کی جا سکتی ہے بلکہ ا ن کو دیکھا بھی سکتا ہے۔ سچ پوچھیئے تو اگر کوئی سو سال پہلے کا فرد آج اگر زندہ ہو جائے تو شاید یہ سب کچھ دیکھ کر حیرت سے دوبارہ مرجائے۔ یہ سب کیا ہے؟ کیونکر ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو ہماری آواز کو ، تصویر کو ہزاروں میل دور ایک چھوٹی سی ڈیوائس یا موبائل فون تک پہنچادیتی ہے۔ سائنس کہتی ہے۔فضائے بسیط جو عام نظر کو خالی نظر آتی ہے ۔ یہ سب ایک مخصوص مادے سے بھری ہے۔ ہم جہاں بیٹھتے ہیں ، کھڑے ہوتے ہیں ۔ کچھ دیر تک اس فضا میں ہمارے چلے جانے کے باوجود ہمارا عکس موجود رہتا ہے۔ کیوں؟ ہماری آوازیں اسی کائنات کے کسی بڑے ڈیٹآ سٹوریج میں محفوظ ہو رہی ہیں۔ بلکہ جو کچھ اب تک کہا گیا، بولا گیا وہ لفظ ، وہ آوازیں اسی کائنات میں موجود اور محفوظ ہیں۔ ہم دھوکے پہ دھوکہ کھار ہے ہیں ۔ تو پھر اس زندگی کا کیا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ایسا کریں نا کہ جو محفوظ ہو وہ باعث شرمندگی نہ ہو۔ زندگی دھوکہ سہی اس کا ماحصل دھوکہ نہیں ۔ ایک بہت چھوٹا سا لیکن بہت گہرا نقطہ ہے۔ دھوکہ کھانے والے جب جان بوجھ کر دھوکہ کھاتے ہیں تو اس کے پیچھے کوئی مقصد ہوتا ہے۔ دھوکہ ہی کھانا ہے نا تو جان بوجھ کر کیوں نہ کھائیں۔
ایک دوست کے ساتھ کہیں جارہا تھا۔ راستے میں ایک ٹھیلے والے کے پاس پڑے پھل اچھے لگے تو رک گئے۔ ریٹ پوچھا تو میں نے بھاؤ تاؤ کرنے کی کوشش کی۔ مجھے دوست نے روک دیا ۔ کہا ۔" بس جو بھی بھاؤ لگائے اس سے پھل لے لو" میں نے ایسا ہی کیا لیکن پھر اس سے پوچھا کہ کیوں؟ کہنے لگا" اس ٹھیلے والے کے پاس کل سامان ہی ہزار پندرہ سو کا ہے۔ اس نے اسی سامان سے اپنے گھروالوں کے لئے کچھ روٹی کا بندوبست کرنا ہے۔ ہم اس سے بھی بھاؤ تاؤ کر کے خریدیں گے تو اس کو کیا بچے گا؟۔ ہم روزانہ کتنے خرچ کرتے ہیں کبھی حساب نہیں کیا۔ لیکن اس ٹھیلے والے سے دو دو روپے کے لئے کیوں بحث کرتے ہیں"
کیوں؟ واقعی کیوں؟

کائنات کی ہر چیز دوسروں کےلئے ہے۔ یہ نکتہ جس جس کو سمجھ آیا وہ کامیاب ہوا۔لیکن  زندگی میں کچھ  کرنے کے لئے ، دوسروں کو کچھ دینے کے لئے بھی تو کسی مرشد، کسی استاد ، کسی بزرگ سے وابستگی ضروری ہے۔
بعض اوقات سامنے کی بات سمجھ نہیں آتی ۔ سینکڑوں کتابوں، ہزاروں فلسفوں کے بیچ الجھنے والے سادہ سی بات بھی نہیں سمجھ پاتے۔
بجلی کا کام کرنے والا بتا تا ہے ۔ صاحب بلب تب روشنی دیتا ہے جب وہ کسی تار سے وابستہ ہوتا ہے، تار کسی بورڈ سے جڑی ہوتی ہے۔ بورڈ کسی لائن سے اور لائن کسی گرڈ سٹیشن سے۔
سامنے کی ہی بات ہے۔ لیکن سمجھ بہت دیر میں کیوں آتی ہے۔
خود کو عقل کل سمجھنا ہی سب سے بڑی نادانی ہے۔ سرنڈر کرنا سیکھنا ہوتا ہے۔ تب کچھ ملتا ہے۔ صاحب جی ابلیس کی کہانی تو یاد ہے نا۔ سرنڈر کرنے سے انکار کیا۔ تو سب کچھ ضائع کر بیٹھا۔
کسی استاد ، کسی مرشد، کسی بزرگ کے آگے سرنڈر کرو۔جو آپ کی تاریں کسی بورڈ سے جوڑ دے۔ آپ کا رابطہ گرڈ اسٹیشن سے ہوگا تو کرنٹ آئے گا ۔ورنہ دھوکے پہ دھوکہ کھاؤ گے۔
گذرے پل اور آنے والے پل کے بیچ میں کچھ ایسا ہے جو ہم سمجھ نہیں پاتے۔
بس ذرا غور کرنے پڑتا ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھنا پڑتا ہے

Sunday, July 5, 2015

پہلا روزہ

ہمیں نہ تو کسی نے مجبور کیا ، بہت ضد کی یا منت سماجت کی کہ خدا کے اپنے پہلے روزے کے بارے میں  اپنا ایک ادبی  شاہکار  اپنے "زورقلم اور زیادہ " والے قلم  سے  عنائت کریں  اور نہ ہی کسی نے ان باکس میں کوئی مسیج کیا نہ کسی نے ٹیک کیا۔  پھربھی پتہ نہیں کیوں ہم نے یہ تحریرلکھی ہے بلکہ اپنے ایک عدد بوسیدہ بلکہ خزان رسیدہ  بلاگ پر بھی ڈال دی ۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلاروزہ رکھے ویسے تو اب اتنے سال بیت گئے ہیں کہ بہت ساری تفصیلات ذہن میں نہیں تاہم ماہ رمضان سے جڑے اپنے بچپن کے کچھ ایسے واقعات ضرور یاد ہیں جو کل کی طرح تازہ لگتے ہیں۔  پہلا روزہ جب رکھا تو یہ یاد نہیں کہ کیا کھایا کیا پیا البتہ شام کو جو آؤ بھگت ہوئی وہ نہیں بھولتی ۔  گھروالوں کے علاوہ خصوصا خالہ ، پھوپھو اور کزن نے جو تحائف پھلوں اور دیگر کھانے کی اشیاء اور نقدی  کی صورت میں دیے تو  دل کرتا تھا اب روزانہ روزہ ہی رکھیں گے ۔ وہ تو امی آڑے آ جاتی کہ معصوم جان اور سخت گرمی ۔ بس ایک روزہ کافی ہے ۔ ہاں جس دن موسم ٹھیک ہو گا اس دن رکھ لینا ۔
جمعے کا روزہ ضد کرکے رکھتے تھے۔ ایک دفعہ روزہ رکھنے کے بعد شام کو دوستوں کے ساتھ جھیل پر گئے وہاں کافی دیر کھیلتے رہے اور واپسی پر دوستوں کے ساتھ ٹافیاں کھالیں ۔ بالکل خیال نہ آیا کہ روزہ ہے۔ جب گھر آیا تو بڑی بہن نے پوچھا کہ ابھی تک روزہ قائم ہے یا کچھ کھا پی لیا تھا۔ ایک دم خیال آیا کہ ٹافی کھائی تھی۔ بس رو رو کر برا حال ہو گیا۔ میرا روزہ ٹوٹ گیا میرا روزہ ٹوٹ گیا۔ سب چپ کرواتے رہے بہلاتے رہے اور سمجھا تے رہے کہ بھول چوک کر کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا مگر میں ماننے کو تیار نہ تھا۔ ۔۔دکھ اور افسوس اتنا شدید تھا کہ  افطاری تک روتا ہی رہا ۔
ماں جی کے ہاتھوں سے سحری میں  بنے پراٹھوں کی لذت دوپہر کو اور سوا ہوجاتی تھی اور جو مزہ دوپہر کو ان پراٹھوں کو کھا کر آتا تھا وہ ابھی تک بھول نہیں پایا۔ ماہ رمضان واقعی بہت رونقوں بھرا مہینہ ہوتا تھا۔ صبح سے شام تک ایک الگ ہی ماحول ہوتا تھا۔خصوصا تراویح ایک ایسی پرکشش عبادت لگتی تھی کہ رمضان کے بعد  بھی اس کا ذکر اپنے سکول کے دوستوں میں ہوتا رہتا کیونکہ تراویح میں شرارتیں بھی ہوتی تھی اور برزگوں سے ماربھی کھاتے تھے۔ تراویح پڑھنے کا انداز بھی مختلف تھا۔ جب امام تراویح کے لئے کھڑا ہوتا تو ہم سب بیٹھے رہتے جونہی امام رکوع پر جاتا سب بھاگ کر نیت کرتے اور رکعت میں شامل ہوتے ۔
محلے ، مسجد میں افطاری بھجوانا ایک معمول تھا اور یہ افطاری بہت شوق سے تقسیم کرنا اپنا مشعلہ تھا۔ کیوں کہ اکثر اس سامان میں سے کچھ نہ کچھ اڑا بھی لیا جاتا تھا۔
گڑ کا شربت اب تو معدوم ہو چکا ہے لیکن یہ شربت میرے بچپن میں بہت شوق سے پیا جاتا تھا۔ اس میں بادام ، خسخاش بھی پیس کر ملایا جاتا ۔ تو لذت اور بڑھ جاتی تھی۔افطاری میں نمک سے افطار کرنا باعث ثواب سمجھا جاتا تھا۔ بعد نمک کی جگہ کھجور نے لے لی۔
تو یہ تھیں کچھ یا دیں کچھ باتیں

ہم سفر


اس دن صبح سے ہی ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے اور موسم بہت دلفریب ہورہا تھا۔ ایسے میں سفر کا مزہ اور دوبالا ہو جاتا 
ہے لیکن میرے لئے وہ شخص بہت الجھن کا باعث بن رہا تھا۔ میں نے اپنے ایک عزیز کو ملنے کے لئے لاہور جانا تھا۔ اسلام آباد سے ایک معروف کمپنی کی بس میں سوار ہوا تو موسم کی منا سبت سے ایک دھن خود بخود میرے ہونٹوں پر تھرکنے لگی ۔ بہت خوشگوار موڈ کے ساتھ جب اپنی سیٹ پر بیٹھا تو کچھ ہی دیر بعد جو صاحب میرے ساتھ آکر بیٹھے وہی میرے لئے کوفت اور الجھن کا سبب بن گئے۔جھٹ سے آتے ہی فرمانے لگے " آپ کہاں جارہے ہیں"
نہ سلام نہ دعا  ۔ مجھے نجانے کیوں ایک دم غصہ آگیا ۔
"ظاہر ہے بس لاہور جارہی ہے تو میں پشاور جانے سے تو رہا۔ لاہور ہی جارہا ہوں"
" گڈ۔ اس کا مطلب ہے آپ کے ساتھ سفر کافی اچھا گذرے گا۔ "
"کیا مطلب؟ "
" سادہ سی بات ہے۔ آپ بہت خوش مزاج لگ رہے ہیں سو آپ کے ساتھ اگلے کچھ گھنٹے بات چیت کرکے مزا آئے گا"
میں تو تلملا کر رہ گیا۔ اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی واقف کار نظر آئے تو سیٹ بدل لوں ۔ لیکن سب چہرے اجنبی تھے۔ بس ہوسٹس سے مد د لینے کا خیال آیا پھر اپنی فطری روادری اور جھجھک  آڑے آگئی ۔  سو چپ ہی رہا۔
میں دراصل دوران سفر خاموش رہنا ہی  پسند کرتا ہوں ۔ جو صاحب میرے ہم سفر بنے پہلے فقرے سے ہی مجھے اچھے نہ لگے ۔ اور وہ تھے کہ مسلسل سوال کیے جارہے تھے۔
اچھا آپ کہاں سے ہیں۔ کیا کرتے ہیں۔ لاہور کیوں جارہے ہیں۔ ؟
میں مختصر جواب دیتا رہا ۔ اور رواداری میں جب یہی سوال ان سے  پوچھے توگویا وہ جیسے انتظار میں تھے ۔ اپنے حوالے سے جو گفتگو شروع کی تو لاہور جا کر دم لیا۔ وہ صاحب دراصل بہت بڑے بزنس مین تھے ۔ اور ان کا بزنس پاکستا ن کے کئی شہروں میں پھیلا ہوا تھا۔ ان کے بزنس میں گاڑیوں کے سپیئر پارٹس سے لے کر لیپ ٹاپ تک شامل تھے ۔ کئی شہروں میں ان کے ذاتی محل نما گھر تھے۔ میں تو حیرت اور مرعوبیت کی کیفیت میں ان کی گفتگو سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ کسی کے بارے میں بھی فوری رائے نہیں قائم کرنی چاہیے ۔ اس کی گفتگو اس کے بزنس، دولت ، محلوں، گاڑیوں اور رنگ برنگی محفلوں  کے گرد گھومتی رہی۔ اور میں اس کی گفتگو کے دوران ایک تصوراتی دنیا میں اس کے ساتھ قدم بہ قد م چلتا رہا۔ یہاں تک کہ لاہور آگیا۔ ۔۔۔۔۔۔
وہ ایک دم اٹھ کر نیچے اترا اور پھر غائب ہو گیا ۔ میں نے اسے آگے پیچھے بہت دیکھا لیکن وہ نہ ملا ۔ حالانکہ میں تو سوچ رہا تھا کہ وہ مجھے اپنا محل دیکھنے کی دعوت دے گا۔
خیر میں  باہر آکر داتا دربار جانے والی ویگن میں بیٹھا ۔ یہ میرا معمول تھا ۔ جب بھی لاہور آ تا سب سے پہلے داتا حاضری لگواتا ۔ راستے میں مجھے ایک دفعہ شک ہوا کہ ایک گذرتی ویگن میں وہی میرا ہم سفر بیٹھا ہوا ہے۔ لیکن میں نے اسے ایک وہم سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ داتا دربار پہنچا تو نماز کا ٹائم ہو چکا تھا۔ نماز ادا کی اور باہر نکلنے لگا تو اچانک میری نظر ایک طر ف بیٹھے ایک بندے پر پڑی جو ایک شاپنگ بیگ پکڑے اس میں سے لنگر کے چاول ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ ۔۔ یہ بندہ وہی میرا ارب پتی ہم سفر تھا

Thursday, December 4, 2014

تکیہ کلام

تکیہ کلام
یہ تکیہ کلام بھی کیا عجب چیز ہے۔ جس بندے سے چپک جائے پھر جان نہیں چھوڑتا۔ عمومی تکیہ کلام تو خیر پھربھی قابل برداشت ہوتے ہیں  جیسے " اور سنائیں" یا پھر " تو میں کہ رہا تھا"ٗ لیکن کچھ لوگوں کا تکیہ بہت الجھاؤ پیدا کرتا ہے۔
میرے ایک دوست ہیں جن کا تکیہ کلا م ہے " اچھا پھر کیا ہوا؟" ۔ اب آ پ کوئی بھی بات کریں اور وہ مکمل بھی ہوجائے تو موصوف ضرور بولیں گے اچھا پھر کیا ہوا۔ ایک دفعہ ان سے بات ہورہی تھی کہ اپنے فلاں کلاس فیلو کا انتقال ہو گیا ۔
حسب عادت بولے" پھر کیا ہوا"
 بھئی مرحوم کا جنازہ  ہوا اور میں جنازے میں شریک ہوا ۔
بولے اچھا پھر کیا ہوا؟
"بس جنازے کے بعد میت کو قبرستان لے گئے اور دفنایا"
اچھا پھر کیا ہوا
میں بھنا کر رہ گیا۔
اب میں انہیں قبر کا احوال تو بتانے سے رہا۔
ایک اور مہربان ہیں۔ جن کا تکیہ کلام ہے " بس مت پوچھو"
جب  بھی ملتے ہیں بدحواسی چہرے پر ایسے جلوہ فرما ہوتی ہے۔  جیسے خواتین کے چہرے پہ میک اپ
حال پوچھو تو وہی جواب
بس مت پوچھو ۔
کئی دفعہ جھنجھلا کر اگر کہ کہ اچھا نہیں پوچھتے تو
بنا پوچھے وہ رام لیلا چھیڑتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔
بیگم کی پنڈلی میں ہونے والی خارش سے لے کر دودھ پیتے منے کے منہ کے چھالوں تک ساری تفصیل بتاکر ہی دم لیں گے۔ اور آخر میں یہ ضرور فرمائیں گے
بس مت پوچھو
ایک اور مہربان کا تکیہ کلا م کو بندے کو زچ کرکے رکھ دیتا ہے
جی ہاں ان کا تکیہ کلام ہے " معاملہ اس سے بھی خراب ہوسکتا تھا"
اب آپ ان سے دنیا جہاں کے کسی موضوع پر بات کرلیں۔ان کے مرغے کی ایک ٹانگ ہوگی۔
کسی دوست نے بتایا کہ بیٹے کو بخار ہوگیا ہے۔ کسی دوائی سے اتر نہیں رہا
تو بولے ۔ شکرکرو۔ معاملہ اس سے بھی خراب ہوسکتاتھا۔
دوست چڑ کر بولا
کیاخراب ہوسکتاتھا۔
بھئی دیکھو نا۔ بخار کا کیا ہے اتر ہی جائے گا لیکن خدانخواستہ بچے کو ہیپاٹائٹس بھی تو ہوسکتا تھا
اب وہ مارنے کو ہی دوڑے۔
ایک دوست کے بیٹے کا موٹر سے ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ۔
وہاں گئے تو حسب عادت بول دیا
کوئی بات نہیں۔ معاملہ اس بھی خراب ہوسکتا تھا۔
وہ دوست تو خیر چپ رہے لیکن ان کی بیوی چٹخ کر بولی
میرے بیٹے کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور آپ بول رہے ہیں کہ معاملہ اس سے بھی خراب ہوسکتا تھا۔
گڑبڑا کر بولے
جی جی۔ میرا مطلب تھا کہ دونوں ٹانگیں بھی تو ٹوٹ سکتی تھیں نا۔
پھر اس کے بعد حالات کیا بتائیں۔ ہم اس کی جگہ بھابی سے معافیاں مانگتے رہے۔
اور پینے کو پانی بھی نہ ملا
موصوف کئی مرتبہ مار کھا چکے ہیں لیکن مجال ہے جو اپنے تکیہ کلام سے پیچھے ہٹے ہوں
ہم نے کئی بار سوچا کہ کوئی ایسی صورت حال ہو کہ یہ صاحب اپنا فقرہ نہ بول پائیں ۔ لیکن انوکھی سے انوکھی صورت حال میں یہ موصوف اپنا راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔
لیکن آخرِکا ایک دن ایک ایسا اندوہناک واقعہ پیش آیا کہ ہم دوستو﷽ں کا خیال ہوا کہ اس واقعے پر وہ اپنا تکیہ بھول جائیںگے ۔
واقعہ کچھ یوں تھا کہ ہمارے محلے میں ایک صاحب عزیزالدین نامی رہتے تھے۔ جنہوں نے پچھلی عمر میں ایک نوجوان دوشیزہ سے شادی کی تھی۔ طبیعت کے انتہائی تیز اور شکی مزاج تھے۔ بازار میں پان کی دوکان تھی۔ دن میں دو سے تین بار گھر کا چکر لگاتے تھے۔ ان کی بیگم کافی کھلی ڈلی طبیعت کی تھیں۔ اورمحلے کے کئی افراد موقع پاکر ان کے گھرآیا جایا کرتے تھے۔
ایک دن پہلے وہ اپنے معمول سے ہٹ کر گھر آئے تو کسی اجنبی کو اپنے بیوی کے پاس بیٹھے دیکھ کر شدید غصے میں آگئے اور گھرمیں پڑے پسٹل سے دونوں کو بھون ڈالا۔ بعد میں خود بھی خودکشی کرلی۔
واقعہ اتنا اندوہناک تھا کہ اس پر سوائے افسوس کے اور کہا جا سکتا تھا۔ چنانچہ ہم نے یہ بات جب اپنے اسی دوست کو بتائی تو
یاحیرت۔۔۔ ٹھک سے بولے
اوہ۔۔ معاملہ اس بھی خراب ہوسکتا تھا۔
ہم ہکے بکے رہ گئے۔
کیسے؟؟؟؟
ان کا پورا گھر اجڑ گیا ۔ اب معاملہ اس سے زیادہ کیا خراب ہوسکتا تھا؟؟؟
بہت پرسکون ہو کر بولے
اچھا یہ بتاو۔ یہ واقعہ کب پیش آیا۔
ہم نے کہا کہ کل
بولے
اگر عزیزالدین پرسوں اسی ٹائم پر گھر آجاتے تو یہ خاکسار زندہ آپ کے سامنے کھڑا نہ ہوتا۔
اب بتاؤ معاملہ اس سے زیادہ خراب ہو سکتا تھا کہ نہیں
ہم تو گنگ ہو کر رہ گئے۔



Sunday, August 17, 2014

محبت سب کے لئے

محبت سب کے لئے

میری یہ تحریر آج سے کچھ سال پہلے پاک نیٹ پہ شائع ہوئی ۔ اور اس کے بعد یہ مختلف فورمز اور پیجز پر کاپی پیسٹ ہوتی 
  رہی۔ آج اتفاق سے کسی نے فیس بک پہ پوسٹ کی  تو میں اسے محفوظ رکھنے کی خاطر اپنے بلاگ پر لگا یا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

ایک ٹیچر اپنی کلاس کے معصوم بچوں کو محبت اور نفرت کا فرق سمجھا نا چاہ رہی تھی ۔ اس نے بچوں کو ایک کھیل کے
 ذریعے یہ سبق سکھا نے کا فیصلہ کیا ۔ اور بہت سوچنے کے بعد اس نے بچوں کو کہا
" بچو ہم ایک کھیل کھیلنے جا رہے ہیں ۔ جس کے آخر میں آپ کو ایک بہت شاندار سبق بھی حا صل ہو گا۔ کیا آپ سب یہ کھیل کھیلنے کیلئے تیار ہیں"
بچوں نے یک زبان ہو کر کہا" جی ۔ بالکل"
" تو بچو۔ آپ کو کرنا یہ ہے کہ کل جب آپ سکول آئیں تو اپنے ساتھ ایک شاپنگ بیگ میں اتنے ٹماٹر ڈال کرلائیں جتنے لوگوں سے آپ نفرت کرتے ہیں"
ٹیچر نے کہا
سب بچوں نے بڑے جوش و خروش سے ٹیچر سے وعدہ کیا کہ کل وہ ایسا ہی کریں گے۔
چنانچہ دوسرے دن ہر بچے کے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا۔ کسی میں ایک ٹماٹر ، کسی میں دو اور کسی میں پانچ ٹماٹرتھے۔ غرضیکہ ٹماٹڑوں کی تعداد ان لوگوں کی تعداد ظاہر کررہی تھی جتنے لوگوں سے وہ نفرت کرتے تھے۔
اب ٹیچر نے سب بچوں سے کہا۔" بچو۔ آپ سب لوگ اپنے اپنے شاپنگ بیگز کو
بند کرلیں اور ان کو ہر وقت اپنے پاس رکھنا ہے۔ چاہے آپ کلاس میں ہوں ، گھر میں ہوں، سورہے ہوں، کھانا کھا رہے ہوں۔ بس یہ شاپنگ بیگ آپ کے پاس رہے۔ اور ہاں یہ کھیل ایک ہفتہ کیلئے ہے۔ ایک ہفتے کے بعد اس کھیل کا اختتام ہوگا"
سب بچوں نے کہا" جی ۔ ہم سمجھ گئے۔ یہ تو بڑا آسان سا کھیل ہے"
لیکن یہ آسان کھیل بچوں کیلئے بہت مشکل ثابت ہوا۔ دوسرے ہی دن ٹماٹروں سے بد بو آنا شروع ہوگئ۔ مزید یہ کہ جن کے پاس زیادہ ٹماٹر تھے یعنی جو بچے زیادہ لوگوں سے نفرت کرتے تھے۔ ان کیلئے دہری مصیبت تھی۔ بدبو کے ساتھ وزن بھی اٹھانا، ہر وقت اپنے پاس رکھنا، ایک عذاب بن گیا ۔
جلد ہی بچے تنگ آگئے۔ لیکن کھیل تو ایک ہفتے کا تھا۔
تیسرے چوتھے دن ہی بچوں کی ہمت جواب دینے لگی۔ بد بو سے سب کا برا حال تھا۔ انہوں نے ٹیچر سے کہا" میڈم یہ کھیل جلدی ختم کریں ورنہ ہم بیمار ہو جائیں گے"
ٹیچر نے جو بچوں کی پریشانی دیکھی تو کہا" ٹھیک کھیل آج ہی ختم کردیتے ہیں- آپ لوگ جلدی اپنے اپنے شاپنگ بیگ متعلقہ جگہ پر ڈال کر ، ہاتھ دھو کر آئیں – پھر اس کھیل کے بارے میں بات کرتے ہیں"
بچے تو خوشی سے اچھل پڑے اور فورا باہر بھاگے۔ تھوڑی دیر جب سب بچے واپس کلاس میں آئے تو انکے چہروں پر تازگی کے ساتھ تجسس کے تاثرات موجود تھے اور وہ منتظر تھے کہ اس کھیل کا مقصد اور نتیجہ جان سکیں۔
ٹیچر نے سب بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
" بچو۔ آپ نے دیکھا کہ آپ جتنے لوگوں سے نفرت کرتے تھے ۔ انکی علامت کے طور پر ٹماٹر ساتھ رکھنا کتنا مشکل اور تکلیف دہ کام تھا۔
ہم جب کسی سے نفرت کرتے ہیں تو اس کا احساس ہمارے دل میں رہتا ہے۔
یہ احساس، یہ سوچ دماغ میں رہتی ہے۔ اور
یہ سوچ، یہ احساس ان ٹماٹروں کی طرح جب کئی دنوں تک پڑی رہتی ہے تو
بدبو پیدا کردیتی ہے، تعفن پھیلا دیتی ہے۔ ذرا سوچئے ہم کتنے مہینوں، سالوں سے یہ بدبو بھرا تعفن زدہ احساس اپنے دل میں رکھے ہوئے ہیں ۔ کیا ہمارا دل اس سے تنگ نہیں ہوتا؟
اس گندگی سے ہمارا دل اور دماغ میلے نہیں ہو جاتے ۔؟
اگر ہم اس بدبو اور گندگی کی جگہ محبت جیسا خوشبو انگیز احساس دل میں رکھیں تو ہمارا دل خوش نہیں ہوگا۔"
بچوں کو اب احسا س ہو رہا تھا۔ کہ میڈم کتنی بڑی سچائی بیان کررہی ہیں۔
تو بھائیو- بہنو
کیا ہم نفرت نہیں چھوڑ سکتے ۔
کیاہم اپنےدل و دماغ صاف نہیں رکھ سکتے ؟
صرف ایک احساس ، ایک جذبہ
محبت سب کیلئے

Monday, May 20, 2013

شادی ۔ ایک مذہبی فریضہ یا نمائش

شادی ۔ ایک مذہبی فریضہ یا نمائش


شادی ۔۔۔۔ شادی ۔۔۔۔
خانہ آبادی۔۔۔
ہر مذ ہب میں شادی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے - اسلام میں شادی حکم خداوندی کے ساتھ ساتھ سنت رسول بھی ہے۔
اسلام شادی کو معاشرے کی بنیا د کا پہلا پتھر قرار دیتا ہے ۔ اور قران میں بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ شادی، میاں بیوی کے تعلقات، اور طلاق جیسے معاملات کو بیان کیا گیا ہے۔
شادی جہان ایک مذہبی فریضہ ہے وہیں ایک اہم ذمہ داری بھی ہے۔
ایک مر د یا ایک عورت شا دی کے معاشرے میں عملی کردار ادا کرنے کی ابتدا کرتے ہیں۔
چنانچہ ضروری ہے کہ شادی سے پہلے ہی ہر دو افراد کو ان تمام ذمہ داریوں سے مکمل آگاہ کیا جائے جو ایک معاشرے کا فعال رکن بننے کی حیثیت سے ان پر نا فذ ہوتی ہیں۔
ہمارے ماحول میں شادی اب ایک مذہبی فریضے سے زیا دہ ایک نمائشی پروگرام اور ایک نام نہادثقافتی شو بن کر رہ گئی ہے - اسکے پیچھے ایک مکمل تاریخ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برصغیر پاک وہند کا علاقہ اسلام کی روشنی آنے سے پہلے بہت سارے من گھڑت مذاہب کی آماجگا ہ
رہاہے ۔ جن میں سر فہرست ہندو مت ہے۔ ہندو مت بنیادی طور کچھ رسومات اور کچھ توہمات کا ملغوبہ ہے- شادی کے حوالے سے جہیز کا معاملہ سر فہرست ہے۔ ہندووں میں وراثت کے جو قوانین ہیں- ان میں خواتین کو بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے۔ تاہم اس خامی کو جہیز کی روائت سے درست کرنے کی کو شش کی گئی ہے۔ چنانچہ ہندو معاشرے میں ایک لڑکی کے والدیں اسے وراثت میں حصے کے بجائے جہیز کی شکل میں متبادل دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اسی طرح لڑکی کے قریبی عزیز اقارب کو ایک نام نہاد رسم کے تحت لڑکی کو جہیز کیلئے حصہ ڈالنے کا پابند بنا یا گیا ہے۔ جسے مختلف علاقوں مختلف نام دیے گئے ہیں ۔ مثلا ننھال کا دین، دوھیال کا دین وغیرہ۔
شادی پر فضول اور بے معنی رسموں کے ذریعے اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنے کی لت بھی اسی ہیندوانہ معاشرے کی روائت ہے۔
چونکہ برصغیر میں لڑکی لڑکے کے آزادانہ ملاپ کو صدیوں پہلے سے قابل مذمت سمجھا جا تا تھا لہذا شادی کو لڑکی لڑکے آزادانہ اختلاط کا ذریعہ بھی بنایا گیا۔ اور شادی میں کچھ ایسی رسموں کا اضافہ کیا گیا جس میں ہردو جنس براہ راست شریک ہو سکے۔ اس میں میں مختلف علاقوں میں مختلف انداز اور مختلف ناموں کے ساتھ رسوم ملتی ہیں لیکن مقصد سب کا ایک ہی ہے۔
شادی پر ڈھول اور ناچ گانا بھی اہم رسم شمار کی جا تی ہے-اس میں پیسے کے ضیاع کو قابل فخر رسم سمجھا جاتا۔ ڈھول باجے بجانے والوں اور ناچ گانا کرنے والوں پر پیسے لٹانا اسی جاہلانہ معاشرےکی نفسیاتی احساس کمتری کا مظہر ہے۔
جہیز بنانا تو پھر بھی سمجھ میں آتا ہے۔ مگر خصوصی طور ایک دن مخصوص کرکے جہیز کی نمائش کرنا بھی صدیوں پرانی رسم ہے ۔ یہ رسم جہاں نام نہاد احساس تفاخر بلکہ تکبر کی نمائندہ ہے وہیں غریب افراد کی دل شکنی کا با عث بھی ہے۔
اسی طرح جہیز مانگ کر لینا، اپنی مطالباتی فہرست دلہن کے والدین کر پیش کرنا اور انکی مالی حیثیت سے بڑھ کر جہیز مانگنا انسانیت کی توہین ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں اسے معمولی بات سمجھا جا تا ہے۔یہ روائت بھی تاریخ نے دی ہے۔
اپنی حیثیت سے بڑھ کر بارات بنا کر دلہن کے گھر جانا، ویلیں دینا، اور راستوں میں ناچ گانا، ہلڑبازی کرنا کسی مہذب معاشرے میں رائج نہیں ۔ مگر ہمارے ہاں اسے شادی کا جزو لاینفک گردانا جاتا ہے۔
ولیمہ بھی ایک نمائشی رسم بنا دیا گیا ہے۔ یہاں بھی زیادہ سے زیادہ افراد کو مدعو کرنا، ہوٹلوں میں کھانے کا انتظام کرنا، کھانے کے دوران بے جا بے صبری ، ہلڑبازی، اور کھانے کا ضیا ع جیسی چیزیں ولیمہ کی تقریب کی اسلامی روح سے قطعا مماثلت نہیں رکھتیں۔
بات شادی تک محدود نہیں۔ شادی کے بعد بھی فضول رسومات کی ایک لمی فہرست ہے۔ جو خصوصی طور پر لڑکی کے والدین کو معا شی لحاظ مزید کمزور کرتی ہے۔
دیکھا جائے تو موجودہ رسم و رواج کے سا تھ شادی لڑکی کے والدین کیلئے انکے معاشی قتل کے مترادف ہے۔
مجھے سمجھائیے ہماری شادیوں میں سوائے نکاح کے کونسی چیز اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے؟






















Sunday, March 17, 2013

ایک مشکل کشا ہتھیار




ایک مشکل کشا ہتھیار


اررے ارررررے

گھبرائیں نہیں
میں کسی ایسے ہتھیار کی بات نہیں کر وں گا جس کیلئے لائسنس کی ضرورت پڑے
بس ایک سادہ سا ہتھیارہے
جو آپ کی بہت سی مشکلوں کو آسان کرنے میں فی زمانہ بہت کارآمد ہے

جی ہاں ۔۔ اور ہتھیار کا نام ہے
خوشامد
جی خوشامد گرچہ بہت پرانا ہتھیار ہے مگر اس جدید دور میں بھی بہت زبردست کام کرتا ہے۔
کوئی بھی کام نکلوانا ہو۔۔
فورا خوشامد شروع کر دیں۔ اور پھر دیکھیں اس کا کمال
لیکن اس کیلئے سب سے پہلے بندے کو
اپنی " میں" مارنی پڑتی ہے۔
تھوڑا سا ڈھیٹ‌ہو نا پڑتا ہے۔
اس اس مقولے پر عمل کرنا پڑتا ہے کہ
عزت آنے جانے والی چیز ہے
وہ اپنے اس سیاستدان کا قصہ آپ نے ضرور سنا ہوگا۔
جو سرکاری عہدیداروں کو گالی دے کر کہتا تھا۔
اس کی کیا مجال کہ میری بات ٹالے، میرا کام نہ کرے۔
میں ابھی اس سے ملتاہوں
اور پھر صاحب کے کمرے میں جا کر پاوں پڑ جا تا تھا ،
سرجی میری "عزت" کا سوال ہے۔
بس جب کام ہوجا تا تو اکڑ کر کہتا۔
ارے سالا کیسے نہ کام کرتا ۔میرے آگے اسکی حیثیت ہی کیا ہے

سو یہ خوشامد بڑے کام کا ہتھیار ہے۔
میں نے سرکاری دفتروں بہت سے نااہلوں کو اس ہتھیار سے بڑے بڑے افسر شکار کرتے دیکھا ہے۔
اور اہل ، ایماندار بندوں کو اس ہتھیار سے عدم واقفیت کی بنیاد پر رلتے دیکھا۔
کیا ظالم ہتھیار ہے

مس کالو جی۔ ایک نئی سائنس

مس کالو جی۔ ایک نئی سائنس
محترم قارئین
آپ نے بیا لوجی، سائیکا لو جی ، فزیالوجی وغیرہ تو پڑھا یا سنا ہو گا
یہ مس کا لوجی کیا ہے؟ 
یہ ہم آپ کو بتا تے ہیں 
یہ در اصل دو الفا ظ سے مل کر بنا ہے 
  مس کال اور لوجی 
 یعنی وہ علم جس میں مس کالوں کی سائنس کے بارے میں پڑھا یا جاتا ہے
جی ہاں یہ بالکل نئی سائنس ہے
اور اسکی دریافت بلکہ ایجا د کہئیے ، کا سہرا سب پاکستانیوں کے سر پر ہے
 سب سے پہلے کس نے مس کال ماری- اس کے بارے میں کوئی مصدقہ حوالہ 
موجود نہیں تاہم غیر معتبر راویوں کا بیان ہے اور اغلب یہی ہے کہ کسی عاشق نامراد نے حسب روائت تہی بیلنس ہونے کی صورت میں اپنی محبوبہ کو ماری ہوگی۔ 
راوی اس بارے میں خاموش ہے کہ آیا اسکی محبوبہ نے آگے سے کیا رسپانس دیا؟
مس کا ل ایک فن ہے ، ایک سائنس ہے
یہ ہر کسی کے بس کا کھیل نہیں ۔۔
بہت سارے سیدھے ، اس سائنس سے نا واقف لوگ 
مس کا لیں مارتے مارتے اپنا بیلنس زیر و کر بیٹھتے ہیں اور پھر حیران ، پریشان ہو کر کہتے ہیں
 یہ موبائل کمپنی والے بڑے بے ایمان ہیں ۔ ابھی کل ہی سوروپے بیلنس ڈلوایا تھا
ایک دفعہ بھی بات نہیں کی اور بیلنس زیرو۔ لعنت ہو ۔۔۔۔ کمپنی پر
اب ان سیدھے سادے ، مس کالوجی کے فن سے ناواقف لوگوں کو کون سمجھائے کہ
وہ تما م مس کا لیں جو انہوں نے مفت با ت کرنے کے چکر میں ماری تھیں وہ
 وصول" ہو چکی ہیں ۔ اب بیلنس زیر و تو ہو نا ہی ہے
۔۔۔۔
ہماری نوجوان نسل کے قربان ۔ مس کا لوجی کے فن میں اس قدر طاق اور 
اس سائنس کی باریکیوں سے اس قدر واقف ہیں کہ دس روپے سو دفعہ بات کرلیتے 
ہیں اور مجا ل ہے جو ایک پیسہ بھی ضا ئع ہو
اور مس کالوں کی مخصوص تھیوری پر انکی تحقیق تو کمال کی ہے
ایک نوجوان نسل کے نمائند ہ مس کا لو جسٹ سے پچھلے دنوں بات ہوئی
وہ وہ نکتے بتا ئے کہ الامان
مثلا ۔ اگر لڑکی کو ایک مس کال ماری جا ئے تو اس کا مطلب یہ ہو گا 
اور اگر دو کالیں ماری جا ئیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا
اسی طرح جو ابی کالوں کی تھیوری بھی بہت پر لطف تھی
۔۔۔
کہنے لگا " دیکھیں جی۔ ہم تو سدا سے جیب خرچ پر چلنے والے لو گ ہیں ۔
تو مس کا لوجی میں کمال حا صل کر کے ہم نے اس سا ئنس کو اپنی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔"
مس کالوجی کے فن سے ناواقف جہاں اپنا بیلنس بھی ضائع کر بیٹھتے ہیں اور بات بھی نہیں ہو پاتی ۔ وہیں اس کے سائنس کے ماہرین اس سے بے تحا شا فوائد بھی حا صل کررہے ہیں ۔ 

ایک ماہر مس کا لوجسٹ نے بتا یا کہ مس کال مارنے کے اہم نکا ت درج ذیل ہیں
  وقت
مس کال مارنے کا وقت موزوں ہو نا چا ہیے ۔ یعنی ایسا وقت جب مس کال " وصولی" کا امکان نہ ہو۔ ورنہ مس کال مسٹر کا ل ہو جا ئے گی ۔ یعنی لینے کے دینے پڑ جا ئیں گے۔ 
ماہر مس کا لوجسٹ کے بقول جس بندے یا بندی کو مس کال مارنی ہو اسکے معمولات سے واقفیت بہت ضروری ہے
مس کا ل کا دورانیہ 
یہ بہت اہم ہے۔ مس کال مارتے وقت ایک انگلی ریڈ بٹن پر رکھنی چائیے ۔ جیسے ہی بیل بجے ٹھک سے کال کا ٹ دیجیئے ۔ ایک لمحے کی تا خیر گلے پڑ سکتی ہے۔
اس کے لئے پہلے ریا ضت بہت ضروری ہے۔ 
اپنے گھر کے افراد یا دوستوں کے ساتھ اسکی بار بار پریکٹس کر نے سے ہی کمال حا صل ہو گا۔
مس کا ل میں وقفہ کا استعمال
یہ ایک پر لطف سائنس ہے۔ جس سے آپ مس کا ل وصول کرنے والے کو جوابی کال کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
مس کا ل کبھی ایک ساتھ دوبار ہ نہیں مارنی چا ہیے ۔ اس طرح مسٹر کا ل ہونے کا احتمال بڑھ جا تا ہے
وقفے کا استعمال بھی ایک فن ہے
اس کے لیے ایک مس کا ل مارنے کے بعد لمبا وقفہ دینا چا یئے ۔
تاکہ اگر مخالف پارٹی آپ کے خلاف جا رحا نہ عزائم رکھتی ہو تو اسے انتظار کی مار دیں ۔ یہاں تک کہ وہ مایوس ہو کر مو بائل پاکٹ، پرس میں ڈال دے۔ 
پھر دوبارہ مس کا ل دیں ۔ 
یوں وقفوں وقفوںسے دی گئی مس کا لیں ۔ وصول کرنے والے کو زچ کر دیں گی اور اسکے پاس اس کے علا وہ چارہ نہ ہو گا کہ آپ کو کال کرے
 یہ صورت حال کا فی خطرناک نظر آرہی تھی ۔
کیونکہ مس کا لوجسٹ سے بات کرنے کے بعد جب میں نے غور کیا تو 
یہ بات واضح ہو ئی کہ میں ان معصوم شہریوں میں شا مل ہوں جو اس سائنس کا شکا ر ہو چکے ہیں
میں خود کئی ایسے پیشنٹس کو کال کرچکا ہوں جنہوں نے مس کا ل مارکر 
دس دس منٹ بات کی ۔
کئی واقفت کا ر میرے خرچے پر آدھا آدھا گھنٹہ بات کرتے رہے۔ اور میں سمجھتا رہا
کہ وہ میری ہمدردی میں بات کررہے ہیں ۔ حالانکہ انہوں نے مس کالوجی کی سا ئنس استعمال کی تھی۔
میں اس صورت حال پر کا فی پریشان ہو ا تو ایک ماہر مس کا لیا ت سے رابطہ کیا 
جنہوں نے کچھ نکتے سمجھا ئے 
آپ بھی سنئے ، سر دھنئے ، اور عمل کیجیئے
 مس کال سے بچنے کیلئے اپنا موبا ئل ہا تھ میں رکھیں۔انگلی یس بٹن پر ہو۔ 
 موبائل وائبریشن پر رکھیں ۔
جیسے ہی وائبر یشن ہو ۔ نمبر دیکھے بغیر یس کا بٹن پر یس کر دیں۔
منا سب ہو کہ موبا ئل پر لائٹ سسٹم لگوا لیں ۔ 
جیسے لائٹ جلے ۔ یس کا بٹن دبا دیں۔
امید ہےدوچار کا لیں بجایے مس کال کے مسٹر کا ل ہو نے سے دشمن کا دماغ اور بیلنس ٹھکا نےپر آ جا ئے گا۔
تو یہ تھا مس کا لوجی کا تعارف ۔
امید ہے آپ کو نئے سائنسی اور فنی مضمون سے دلچسپی پیدا ہو ئی گی ۔
آج ہی کسی ماہر مس کا لو جسٹ سے رابطہ کریں۔


Saturday, March 16, 2013

جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے ہوگئے


جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے ہوگئے

بالاخر حکومت نے اپنے پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرلی۔ کیسے کر لی۔ اور اس آئینی مدت میں عوام کے ساتھ کیا ہوا۔ یہ ایک الگ قصہ ہے تاہم حکومت اور اپوزیش دونوں خوش ہیں۔ اور بہت باچھین کھلا کھلا کر اس بات کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بیان کر رہے ہیں گویا انہوں نے یہ کارنامہ سرانجام دے کر قوم پر احسان عظیم کیا ہے۔ اور قوم کو شکر گذار ہونا چاہیے کہ ہم اب ایک مکمل جمہوری ملک ہیں۔ سبحان اللہ ۔ کیا واقعی ۔ قوم کو خوش ہونا چاہیے۔
آئیے ذرا اس سوال کا جائزہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے لیتے ہیں۔
کیا عام آدمی کا معیار زندگی اس جمہوری حکومت کے سنہری پانچ سالہ دور میں بلند ہوا
کیا عام آدمی کو امن ، سکون اور اطمینان نصیب ہوا
کیا عام آدمی کو روزگار کے باعزت مواقع ملے۔
کیا ضروریات زندگی تک رسائی آسان ہوئی۔
کیا عام آدمی زندہ رہنے کے بنیادی  ضروریات جیسے پانی، بجلی ، گیس، ذرائع آمدورفت
اور اس جیسی دیگر سہولیا ت کی آسان اور سستی فراہمی ممکن ہوئی
کیا عام آدمی کو رہنے کے لئے چھت ، پہننے کے لئے کپڑے اور کھانے کے لئے خوراک حاصل کرنا کیا اس جمہوری حکومت نے آسان بنایا
ہر سوال کا جواب نفی میں ہے۔
آج کل کے دور میں زندگی کو اک عذاب بنانے والی اس جمہوری حکومت کو واقعی شاباش ملنی چاہیے؟
آپ خود ہی بتائیں۔

یہ سب نسبت کی بات ہے


یہ سب نسبت کی بات ہے


ایک بچے نے دیکھا کہ ایک بزرگ گلیوں میں بکھرے ہوئے کچھ کاغذ اکٹھے کر رہا ہے
اور انہیں جھاڑ پونچھ کر تہ کرتاہے اور اپنے پا س موجود ایک لفافے میں ڈالتا جا تا ہے۔
وہ شکل سے کافی معزز نظر آرہا تھا اور کپڑے بھی بہت صاف ستھر ے پہنے ہوئے تھا۔

بچے کو تجسس ہوا کہ یہ کیا کر رہا ہے۔
وہ بزرگ کے پاس گیا اور پوچھا
"با با جی آپ یہ کیا کر رہے ہیں"
بزرگ نے بچے کو دیکھا اور بہت دردنا ک لہجے میں بولا
"بیٹے۔ میں اپنے پیارے وطن کے جھنڈے اٹھا رہا ہوں۔ جو لوگوں نے بھینک دیے ہیں"
بچے نے دیکھا اسکے ہا تھ میں کاغذ کی جھنڈیاں تھیں جو لوگ 14 اگست کو گھروں پر لگاتے ہیں۔ اور بارش یا ہوا سے وہ گلیوں میں بکھر جا تی ہیں۔
بچے نے کہا
" بابا جی 14 اگست تو گذر گیا ۔اب آپ ان جھنڈیوں کا جو پھٹ چکی ہیں۔ کیا کریں گے۔"
باباجی کے منہ سے ایک سرد آہ نکلی
"بیٹے میں انہیں کسی محفوظ جگہ پر رکھوں گا ۔ تا کہ ان کی بے ادبی نہ ہو"
"بے ادبی" بچے نے حیرت سے کہا " مگر یہ تو کاغذ کے ٹکڑے ہیں"
" جی ہا ں بیٹے۔ یہ کاغذ کے ٹکڑے ہیں ۔" بزرگ نے کہا" مگر ان پر پاکستان کا جھنڈا چھپا ہو ا ہے۔
اب ان کو میرے ملک سے نسبت ہو گئی ہے۔ اب یہ کاغذ کے ٹکڑے معزز اور مقدس ہو گئے ہیں۔
بیٹے ساری بات نسبت کی ہے"
بچہ نے بزرگ کی بات سمجھ لی اور کہا
"آئیں بابا جی۔ ہم دونوں مل جھنڈیا ں اکٹھی کرتے ہیں۔ واقعی یہ مقدس ہیں۔ انکی بے ادبی نہیں ہو نی چا ہیے"

دنیا کی سب سے خوبصورت عورت


دنیا کی سب سے خوبصورت عورت



جی ہاں دنیا کی سب سے خوبصورت عورت کون ہو سکتی ہے؟
مجھے نہیں پتہ آ پ کیا جواب دیں گے۔
میرے نزدیک دینا کی سب سے خوبصورت عورت " میری ماں " ہے۔
میری ماں میرا سب کچھ
میری دنیا
میری جنت
میرے ذہن میں محفوظ اپنی ماں کا سب سے پہلا عکس جو ابھر تا ہے وہ ایک شفیق، مہربان ، اور خوبصورت چہرے کا ہے
جو میری آنکھو ں کو ٹھنڈ ک بخشتا ہے۔ جو میری روح تک کو سرشار کر دیتا ہے۔
میری یاداشت میں مجفوظ ایک منظر صبح دم آنکھ کھلنے اور " گھوں گھوں" کی ایک مسحورکن آواز کا ہے
یہ آواز پتھر کی بنی چکی سے نکلتی تھی۔ اور صبح دم میرے بچپن میں مجھے بیدار کر تی تھی میں جب سردیوں کی صبح کو اپنا سر رضاتی سے با ہر نکالتا تو مجھے سامنے اپنی ماں چکی کو گھماتے نظر آتی ۔ میں پتہ نہیں کتنی دیر تک اپنی ماں کو دیکھتا رہتا اور چکی کی " گھوں گھوں" کو سنتے سنتے پتہ نہیں کب میری آنکھ دوبارہ لگ جا تی۔
اس دور میں ہمارے گھر میں گھر کی گندم کے روزانہ تازہ پسے ہوئے آٹے سےاور اپنے ماں کے مہربان ہاتھوں سے پکے ہوئےپراٹھے ملتے ۔ ان پراٹھوں جیسی لذت بھر زند گی بھر کسی پراٹھے میں نہ ملی۔
میری ماں صبح سویرے اٹھتی ۔ نمار پڑھتی اور پھر روزانہ کی ضرورت کا آٹا خود پیستی ۔ گاوں میں مشینی چکی تھی مگر میری ماں نے ہمیشہ اپنے ہاتھ سے پسے ہوئے آٹے کو ترجیح دی۔

دوسرا منظر جو میری یا داشت میں محفو ظ ہے وہ قران کی تلاوت کا ہے۔ جیسے ہی سورج کی پہلی کرن نکلتی ہمارے صحن میں سب سے پہلے داخل ہوئی۔ کھلا صحن جس میں ایک دیوار کے ساتھ چار پانچ چار پائیاں رکھی ہوتیں- محلے بھر کے بچے ، بچیاں آتے اور ان چارپائیوں پر بیٹھ جاتے۔ میری ماںگھر کے کا موں سے فارغ ہوتیں اور بچوں کے پاس آجا تیں۔ میں بھی ہاتھ میں قاعدہ پکڑے انہی بچوں کے بیچ بیٹھ جاتا۔ پھر میری بہت دیر تک ان بچوں کو پڑھاتی رہتیں۔

تیسرا منظر ماں کے کندھے پر سر رکھے گاوں کی گلیوں میں گھومنے کا ہے۔ میری ماں جب " نا لے پار" محلے میں اپنے رشتہ داروں کے پاس جاتی تو میں ضد کر کے انکے ساتھ جاتا اور راستے میں تھک جانے کا بہانہ کر تا۔ میری ماں مجھے اٹھا کر کندھے سے لگا لیتیں۔ اور میں اپنے گاوں کو اپنی ماں کے کندھے سے دیکھتا اور لوگوں کو ، ڈھور ڈنگروں کو ایسے چلتے پھرتے دیکھنا بہت اچھا لگتا۔

میں نے پہلی بار دینا کو ماں کے کندھوں سے دیکھا۔

اور اسکے بعد تو مناظر اتنے ہیں کہ کیا کیا بیان کریں۔۔۔
میری ماں نے مجھے اتنا پیار دیا ، اتنی دعائیں دیں کہ دنیا کی کوئی ماں کیا دے گی۔؟
اسی لئے میری ماں مجھے دنیا کی سب سے خوبصورت عورت دکھائی دیتی ہے۔

میری جب شادی ہوئی تو میں اسلام آبا د میں جاب کر رہا تھا۔ والد صاحب میری شادی سے دوسال پہلے فوت ہو گئے تھے۔
مجھے ماں نے کہا " اپنی بیگم کو اسلام آبا د لے جائو۔"
میں نے کہا " صرف ایک شرط ہے کہ آپ بھی ہمارے ساتھ آئیں گی"
بہت دلائل دیے میری ماں نے۔ کہا تمہارے بڑے بھا ئی کی فیملی ادھر ہے۔ میری ساری رشتہ داری ادھر ہے۔ گھر بار حویلی ، ڈنگر سب کچھ تو ادھر ہے۔ میری بوڑھی ہڈیوں میں اب اتنا دم نہیں کہ اسلام آباد جاوں۔
مگر میری ضد کے آگے بالا خر ہار مان لی ۔اور ایسی مانی کہ سالوں گذ ر گئے ابھی تک میرے پاس ہی ہیں۔
میرے بچوں کو دیکھ کر جیتی ہیں اور میں انکو دیکھ کر
چند سال پہلے سیڑھیوں سے گریں تو ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔ بہت تکلیف دیکھی۔ الحمد للہ ہڈی جڑگئی اور چلنے بھرنے کے قا بل ہو گئیں۔ انکی عمر 90 سال کے لگ بھگ ہے ۔ کہتی ہیں چلنے پھر تے موت آ ئے یہی رب سے دعا ہے۔
مجھے انکی خد مت کا اتنا موقع ملا کہ رب العالمین کا شکر گذار ہوں۔
روزانہ صبح جب گھر سے نکلتا ہوں ۔ زیا رت کرکے ، دعائیں لے کے نکلتا ہوں

میں کئی دفعہ انکے سامنے بیٹھ کے انہیں دیکھتا رہتا ہوں ۔ انکے جھریوں بھر ے چہرے کا حسش مجھے مسحور کردیتا ہے۔
انکے سلوٹوں بھرے ہاتھ اتنے نفیس ہیں کہ میں چوم کر آنکھو ں کو لگا تا ہوں۔
تومیں کیوں نہ کہوں
دنیا کی سب سے خوبصورت عورت " میری ماں" ہے