نسبت کی بات ہے
ایک بچے نے دیکھا کہ ایک بزرگ گلیوں میں بکھرے ہوئے کچھ کاغذ اکٹھے کر رہا ہے
اور انہیں جھاڑ پونچھ کر تہ کرتاہے اور اپنے پا س موجود ایک لفافے میں ڈالتا جا تا ہے۔
وہ شکل سے کافی معزز نظر آرہا تھا اور کپڑے بھی بہت صاف ستھر ے پہنے ہوئے تھا۔
بچے کو تجسس ہوا کہ یہ کیا کر رہا ہے۔
وہ بزرگ کے پاس گیا اور پوچھا
"با با جی آپ یہ کیا کر رہے ہیں"
بزرگ نے بچے کو دیکھا اور بہت دردنا ک لہجے میں بولا
"بیٹے۔ میں اپنے پیارے وطن کے جھنڈے اٹھا رہا ہوں۔ جو لوگوں نے بھینک دیے ہیں"
بچے نے دیکھا اسکے ہا تھ میں کاغذ کی جھنڈیاں تھیں جو لوگ 14 اگست کو گھروں پر لگاتے ہیں۔ اور بارش یا ہوا سے وہ گلیوں میں بکھر جا تی ہیں۔
بچے نے کہا
" بابا جی 14 اگست تو گذر گیا ۔اب آپ ان جھنڈیوں کا جو پھٹ چکی ہیں۔ کیا کریں گے۔"
باباجی کے منہ سے ایک سرد آہ نکلی
"بیٹے میں انہیں کسی محفوظ جگہ پر رکھوں گا ۔ تا کہ ان کی بے ادبی نہ ہو"
"بے ادبی" بچے نے حیرت سے کہا " مگر یہ تو کاغذ کے ٹکڑے ہیں"
" جی ہا ں بیٹے۔ یہ کاغذ کے ٹکڑے ہیں ۔" بزرگ نے کہا" مگر ان پر پاکستان کا جھنڈا چھپا ہو ا ہے۔
اب ان کو میرے ملک سے نسبت ہو گئی ہے۔ اب یہ کاغذ کے ٹکڑے معزز اور مقدس ہو گئے ہیں۔
بیٹے ساری بات نسبت کی ہے"
بچہ نے بزرگ کی بات سمجھ لی اور کہا
"آئیں بابا جی۔ ہم دونوں مل جھنڈیا ں اکٹھی کرتے ہیں۔ واقعی یہ مقدس ہیں۔ انکی بے ادبی نہیں ہو نی چا ہیے"
No comments:
Post a Comment