صفحات

Saturday, March 16, 2013

سب جھوٹے خواب دکھاتے ہیں


سب جھوٹے خواب دکھاتے ہیں

انسان ازل سے بہتری کی تلاش میں ہے
خوب سے خوب تر کی چاہ میں رہتا ہے۔
 اس خوب سے خوب تر کی تلاش میں انسان جہاں
ترقی کی منازل طے کرتا رہا وہیں ہوس کی بیماری بھی
اسے لاحق ہوئی۔
ہوس نے انسانوں کو انسانوں کا دشمن بنا یا۔
ہوس نے منافقت، جھوٹ، بے وفائی سکھائی
ایک انسان کو دوسرے انسان پر فضیلت کی بنیاد
معاشی و معاشرتی حیثیت پر رکھی اور پھر
ہر اس فعل کو جائز قرار دے ڈالا جس سے ا س کی
معاشی و معاشرتی حیثیت کو تقویت پہچتی ہو
لالچ نے جب دلوں میں گھر کیا تو محبت، خلوص
وفا رخصت ہوئی ۔
انسان انسان کا دشمن بنا۔
آج کا انسان اور آج سے ہزاروں سال پہلے کا انسان
ایک جیسا ہی ہے۔
کچھ فرق نہیں۔
نام ، مقام، اور ظاہری اطوار بدل گئے ہیں لیکن
لالچ نے جو اصول اس وقت وضع کیے تھے
وہی آج تک چل رہے ہیں۔
وہی خواب جو آج سے لاکھوں سال پہلے کے انسان نے
دیکھے ہوں گے وہی آج کے انسان کے ہیں
کیا ہمیں صرف سر چھپانے کو ٹھکانہ، تن پر پہننے کو کپڑا
اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کو خوراک ہی چاہیےنا۔
لیکن ہم جب تک بھوکے رہتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ہمیں کچھ اور نہیں صرف
کھانا چاہیے ہوتا ہے۔
جب پیٹ بھرتا ہے تو پھر ہمیں سردی گرمی سے بچنے کے لئے
ٹھکانہ چاہیے ہوتا ہے۔
جب ٹھکانہ مل جاتا ہے تو ہمین نفسانی خواہشیں ستانے لگتی ہیں
پھر جب یہ بھوک بھی مٹ جائے تو معاشرے میں اپنی ناک اونچی رکھنے
کی فکر دامن گیر ہو جا تی ہے۔
جب معاشرے میں جھوٹی عزت ، شان و شوکت قائم ہو جاتی ہے۔
ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو احسا س ہو تا ہے۔
ہمارا دامن تو خالی ہے۔ ہم جو عزت کمائی وہ دوسروں کی پگڑی اچھال کر کمائی،
ہم نے دولت کمائی تو ہماری کم اور دوسروں کی زیادہ ہے
وہی دولت جس کو حاصل کرنے میں ہم اپنا ایمان بیچا، ضمیر کا سودا کیا
اپنے رب کو ناراض کیا۔ وہ دولت تو ہماری نہ نکلی ۔
پھر انسان جب اپنے اندر کی آواز سنتا ہے تو وقت بہت آگے نکل چکا ہوتا ہے
کچھ تو سنبھل جاتے ہیں۔ اپنی دولت ، اپنا سب کچھ معاشرے کو
لوٹانے کی ٹھان لیتے ہیں لیکن
کچھ اندر کی آواز کو دبا کر
مزید دولت کی ہوس میں پڑ جا تے ہیں۔
غریب جو صدیوں سے
تن کے کپڑوں
کی خاطر
تو کبھی
چار نوالوں کی خاطر
بکتا آیا ہے۔
وہ خاک نشیں زرق خا ک ہی ہوتا ہے۔
اس کے خواب کبھی پورے نہ ہوئے
ان کو کبھی تعبیر نہ ملی
کوئی انقلاب کے نعرے لگاتا ہے
تو کوئی انصاف کی آواز بلند کرتا ہے
کوئی مساوات کا درس دیتا ہے
تو ہر خوشہ گندم کو جلانے کی بات کرتا ہے
کیاکسی نے کبھی سوچا
جس نے کائنات بنائی
اس نے اس پر رہنے کے
اس کو برتنے کے
اس پر بسنے والوں کے
ساتھ برتاؤکے
اصول ازل سے وضع کر دیے ہیں
جس کی زمین ہے، وہ جب چاہے زمین کھینچ لے
جس کا دیا ہوا سب کھاتے ہیں وہ جب چاہیے واپس لے لے
سانسوں کی میعاد بخشنے والے کو ہی اختیار ہے
وہ زندگی کے کس موڑ پر شام کردے۔
دل کو بنانے والا ہی دلوں کے بھید بہتر جانتا ہے۔
دلوں کی بستیوں میں جب اس کے خالق کا نعرہ
گونجتا ہے تو دل آبا د ہوتا ہے۔
ہمیں خواب دکھانے والے کتنے جھوٹے ہیں ۔
سب جھوٹے خواب دکھاتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment