صفحات

Friday, April 1, 2016

ایڈونچر۔ ناولٹ حصہ اول

ایڈونچر

ناولٹ از ایم نور آسی
حصہ اول 

پتہ نہیں رات کا کون سا پہرتھا۔۔۔
اچانک ہی میری آنکھ کھل گئی ۔۔۔
چند لمحے تو پتہ ہی نہ چلا کہ میں کہاں ہوں۔۔۔
پھر
بے اختیار میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔
ابھی آنکھیں پوری نہ کھلیں تھیں۔۔
ذہن بھی سن سا تھا۔۔۔
خیال آیا اٹھ کر پانی پی لوں۔۔۔
اماں نے جگ بھر کر ساتھ ہی میز پر رکھا ہوگا۔۔
نیم وا آنکھوں سے ۔۔۔
ہاتھ دائیں طرف بڑھا یا۔۔۔
تو ایک دم جھٹکا لگا۔۔۔۔
میرے ہاتھ کسی سخت چیز سے ٹکرائے ۔۔۔
آنکھیں پوری کھل گئیں۔۔۔

یا مظہرالعجائب یہ کیا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔ ایک بہت کھلے صحن میں ۔۔۔۔
چاروں اور ہلکی چاندنی کی روشنی۔۔۔
بالکل نئی اور انوکھی جگہ۔۔۔
کچھ یاد نہ آیا ۔۔۔۔ یہ میں کہاں ہوں؟
آنکھیں تو کھل گئی تھیں۔۔۔ لیکن ذہن ابھی نیم خوابیدہ سا تھا۔۔۔۔۔

پھر اچانک ہی چند لمحے پہلے ٹوٹے ہوئے خواب کا منظر ذہن میں ابھرا۔۔۔
امی میرے پیچھے دوڑ رہی ہیں۔۔۔ انکی اشکوں سےبرستی آنکھوں میں
ایک التجا تھی۔۔۔ اور وہ روتے روتے کہ رہی تھیں
"
جمیل بیٹے کیوں مجھ سے دور بھاگ رہے ہو۔۔۔ جمیل بیٹے رکو۔۔"
اور میں بھاگ رہا ہوں۔۔۔۔بھاگ رہا ہوں۔۔۔۔
پھر اچانک ہی کہیں ٹھوکر لگی۔۔۔
زور سے گرا۔۔۔۔۔
تو آنکھ کھل گئی۔۔۔۔

اس کے ساتھ ہی فلیش بیک کے ساتھ ساری باتیں یاد آگئیں۔۔۔۔

یہ تو داتا دربار ہے ۔۔۔ جہاں میں سویا ہوں کھلے صحن کے ایک کونے میں
ایک ستون کے قریب۔۔
میرے ساتھ ہی میرا دوست
اکمل بھی سویا ہوا ہے۔۔۔۔
پھر
پتہ نہیں کیوں امی کا روتا چہرہ سامنے آنے لگا۔۔۔۔
اور آنسو میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ برسنے لگے۔۔۔
یوں جیسے ساون کی جھڑی سی لگ گئی ہو۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
میں شروع سے بہت لاڈلا تھا ۔۔۔
گھر میں سب ہی تو پیار کرنے والے تھے۔۔۔
کیا بہنیں کیا بھائی ۔۔
کیاامی کیا ابو ۔۔۔ خالائیں، پھوپھیاں ، چچا اور ماموں۔۔
پھر انکے بیٹے اور بیٹیاں۔۔
اتنا لمبا چوڑا خاندان
اتنی محبتیں اور اتنی توجہ ملی۔۔۔ کہ
میں تو بچپن ہی سے ضدی اور خود سرہو گیا تھا۔۔۔
لیکن کہانیاں پڑھنے کا شوق بہت شروع سے تھا۔
میری فرمائش پوری کرنا گویا ایک اہم کا م تھا 
سو گھرمیں کہانیاں اور رسائل ۔۔
میرے ذوق کی تسکین کرتے تھے
یہ بھی نہ تھا کہ بس کہانیاں ہی پڑھنا میرا مشغلہ تھا ۔۔
میں اپنی پڑھائی میں بہت تیز تھا۔۔۔
ہمیشہ فرسٹ آتا۔۔۔
میرا ایک بہت پیارا پیارا دوست تھا اکمل ۔۔۔
یہ اکمل میرا کلاس فیلو بھی تھا، محلے دار بھی تھا۔۔۔
اور میرا ہم ذوق بھی۔۔
اسے بھی کہانیاں اور رسالے پڑھنے کی لت تھی۔۔۔
ذرا سا بڑے ہوئے تو کسی نے جاسوسی ٹائپ رسالے پکڑا دیے
پھر کیا تھا۔۔۔
ساری کہانیاں پھینک دیں اور صرف جاسوسی رسالے اور عمران سیریز کی
طرف دھیان ہوگیا۔۔۔
ان جاسوسی کہانیوں کا ہر ہیرو گویا میں خود ہی ہوتا۔۔۔
اور اکمل کے ساتھ جب بھی ملاقات ہوتی تو
انہی کرداروں کے بارے میں بات ہوتی ۔۔۔
یہ جاسوسی کردار گویا ذہن پر سوار ہوگئے۔۔
سوتے جاگتے انہی کرداروں میں گھومتے رہتے۔۔۔

ماں کو مجھ سے بے انتہا محبت تھی۔۔۔ بے انتہا
میں بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا بھی تھا۔۔۔ اور شاید بہت پیارا بھی

لیکن کم عمری میں انسانی ذہن محبت کو پہچانتا تو ہے شاید اس کی قدر نہیں کر پاتا
ماں کی محبت تو اولاد کی سانس میں مہکتی ہے، خون میں دوڑتی ہے۔
احسا س میں جھلکتی ہے۔۔۔ لیکن
اولاد کو اس کی قدر تب ہوتی ہے ۔۔۔ جب یہ محبت سانسوں سے اپنی مہک اڑا لے جائے
جب خون میں اسکی روانی تھم جائے۔۔۔

میں بھی تو اتنی محبتیں سمیٹ رہاتھا کہ محبت کی قدر ہی بھول گیا۔۔۔

میٹرک کرلیا توگھروالوں نے کہا اب یہاں اس قصبے میں تو مزید پڑھائی ممکن نہیں
اسے کیوں نہ بڑے ماموں کے ہاں پشاور بھیج دیں۔۔۔

یہ باتیں میرے کانوں میں پڑیں تو میں چوکنا ہوگیا۔۔۔۔

اکمل سے بات کی تووہ کہنے لگا
"
کبھی پشاور نہ جانا۔۔۔ تمھیں میری قسم۔۔۔
تم نے وہ ناول پڑھا ہے نا جس دودوست ایڈونچر کی خاطر گھر بار چھوڑ دیتے ہیں"

"
ہاں ہاں۔۔ کیوں نہیں ۔۔۔۔ وہ حامد اور واجد۔۔۔
واہ کیا دوستی تھی یار انکی۔۔۔ اور کیا حیرت انگیز ایڈونچر تھا ان کا۔۔۔
سچی مجھے تو کبھی کبھی لگتا ہے۔۔۔ وہ حامد میں تھا۔۔۔"

اکمل تو اچھل ہی پڑا ۔۔۔

"
سوفی صد اور واجد میں۔۔۔۔"

ہم دونوں کے مشترکہ قہقہے نے تو گویا درودیوار ہلا دیے۔۔۔

پھر ہم دونوں نے یہ ناول پھر سے پڑھا۔۔۔
اور اس ناول کی ہر بات کو ایک دوسرے سے شیئر کیا۔۔۔

یہ ناول دوبارہ پڑھ کر باربار ایک ہی خیال ذہن میں گونجتا تھا۔۔۔
کاش  حامد اور واجد کی جگہ ہم ہوتے۔۔۔
اکمل کے ساتھ میرایارانہ تو اتنا پکا تھا۔۔۔ کہ گویا یک جان دو قالب ہوں
گھروالے سبہی جانتے تھے۔۔۔کہ اکمل میں میری جان ہے تو مجھ میں اکمل کی

اکمل ایک نسبتا غریب گھر سے تعلق رکھتا تھا۔
پڑھائی میں بھی درمیانہ سا تھا ۔۔۔
لیکن ویسے بہت پھرتیلا اور ہوشیار تھا۔۔

وہ کئی دفعہ شہر بھی جا چکا تھا۔۔۔
اور کئی فلمیں بھی اس نے دیکھ رکھی تھیں۔۔۔
یہ الگ بات کہ اس نے کرائے اور فلموں کےلئے پیسے مجھ سے لئے تھے

اب جناب ادھر میرے گھر میں یہ کچھڑی اب بہت زور شور سے پک رہی تھی
کہ مجھے پشاور اپنے ماموں کے ہاں بھیجا جائے
امی اس کے حق میں نہ تھیں ۔۔۔ کہ انہیں اپنے لاڈلے کی جدائی گوارا نہ تھی
پھر ایک اور بات جو وہ باربار کہتیں
میرے لاڈلے جمیل نے تو کبھی اپنے ہاتھ سے نوالا توڑ کرنہیں کھایا ۔۔۔ تو
وہاں ممانی اس کی خدمت کر سکے گی؟ وہ تو طبیعت کی بھی بڑی تیز ہے۔۔۔

ہاں یہ بات تو میں بھی جانتا تھا۔۔۔ ممانی تو ممانی بڑے ماموں بھی ذرا سخت مزاج کے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ میں نہ بڑے ماموں کو پسند کرتا تھا نہ ممانی کو

اندر ہی اندر میں ذہن بنا چکا تھا۔۔ میں نے پشاور نہیں جانا۔۔۔ چاہے جو بھی ہو جائے

میرے خوابوں کا شہر لاہور تھا۔۔۔

لاہور جہاں حامد اور واجد رہتے تھے۔۔۔۔۔ وہی ناول کے مرکزی کردار

پھر رہی سہی کسر اکمل کی قسم نے پوری کردی ۔۔۔

اب میں نے پوری سنجیدگی سے اکمل سے یہ بات کرنی شروع کردی کہ
ہم کیوں نہ لاہور جائیں۔۔۔
گھرسے بھاگ کر ۔۔۔
اور ایڈونچر سے لطف اندوز ہوں
اس کچی عمر میں ایڈونچر کے نام پرہی خون میں سنسنی سی دوڑنے لگتی تھی
اکمل تو پہلے ہی ذہن بنائے بیٹھا تھا۔۔۔

سو اب ہم نے تفصیلات طے کر نا شروع کردیں

اکمل نے کہا۔۔
سب سے پہلے پیسوں کا بندوبست کرنا ہے۔۔۔
میں نے اپنی بچت اس کے پاس جمع کروا دی جو کہ
کل مبلغ 3000 روپے تھی
اکمل کے پاس بھی 500 روپے تھے یوں کل رقم 3500 روپے ہوگئی۔۔
مزید پیسے جمع کرنے کا مشورہ اکمل کا ہی تھا
وہ تجربہ کار تھا۔۔
اس نے کہا۔۔۔ ہمیں کم ازکم پانچ ہزار روپے لے کر گھر سے نکلنا چاہیے ۔۔۔

کپڑوں کے چار پانچ جوڑے ۔۔۔
زیادہ سامان اس نے منع کیا۔۔۔

ہم روزانہ سارا دن یہی پروگرام بناتے رہتے ۔۔
اکمل کا ایک رشتہ دار فوجی لاہور میں تعینات تھا۔۔۔
وہ چھٹی آیا تو اکمل نے اس سے مفید معلومات لیں

اب اکمل کے گھر کی بات بھی سن لیجیئے

اکمل کے دو بھائی اور بھی تھے ۔۔۔ دونوں بڑے۔۔
ماں فوت ہو چکی تھی ۔۔
باپ ایک چھوٹا سا زمیندار تھا۔۔
بھائی بھی باپ کے ساتھ ہی کام کرتے تھے۔۔۔

اکمل کو اس کا ابو مزید پڑھا نا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن ان کے مالی حالات اس کی اجازت نہ
دیتے تھے۔۔
چنانچہ اکمل کی قسمت کا فیصلہ بھی تقریبا آخری مراحل میں تھا۔۔۔
اسے اس کے ایک دور کے رشتہ دار نے کراچی کی کسی فیکٹری میں ملازمت دلوانے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔۔۔
اس نے اگلے ماہ چھٹی آنا تھا۔۔۔ اور اکمل کو ساتھ لے جانا تھا۔۔۔۔

نہ اکمل کراچی جانے اور فیکٹری میں کام کرنے کے حق میں تھا
نہ میں پشاور جاکر ممانی کی کڑوی باتیں سننا چاہتا تھا۔۔۔
سو دونوں
کا خواب ایک ہی تھا۔۔

شہرلاہور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
لاہور کا نام آتے ہی۔۔۔ ہمارے ذہنوں میں ناول کےکردار
گھومنے لگتے ۔۔۔

ہمارے گھر سے بھاگنے اور لاہور جانے کی تیاریاں عروج پر تھیں

میں نےآج تک کبھی گھروالوں کی اجازت کے بغیر اپنے قصبے سے باہر قدم نہیں نکالا تھا۔ یہ بھی نہیں تھا کہ کبھی دوسرے علاقے میں نہیں گیا۔۔
میں نے اپنے والدین یا بڑے بھائیوں کے ساتھ مختلف شہر دیکھے لیکن کبھی اپنی تنہا سفرنہیں کیا تھا۔۔۔
اکمل نے مجھے بتا یا کہ ہمارے قصبے سے صبح سویرے ساڑھے پانچ بجے ایک گاڑی سیالکوٹ تک جاتی ہے۔۔۔ہم اس پر صبح سویرے نکل جائیں گے۔۔۔
صبح کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔۔۔کیونکہ اندھیرا ہوگا۔۔۔

لیکن میرے ساتھ ایک مسئلہ تھا۔۔۔
میں گھروالوں کے اٹھانے کے باوجود صبح آٹھ بجے سے پہلے نہ اٹھتا تھا۔۔۔

اب اتنے سویرے مجھے اٹھائے گا کون؟
امی جان تو پانچ بجے سے بھی پہلے اٹھ جاتی تھیں۔۔تہجد پڑھتی تھیں۔۔۔

ایک سکیم زہن میں آئی۔۔
میں نے امی سے کہا۔۔۔ امی جی ۔۔میں کل سے صبح کی نماز پڑھوں گا۔۔ آپ مجھے جلدی اٹھا دیا کریں ۔۔
امی تو وارے وارے گئی۔۔
دودن تو میں واقعی نماز پڑھتا رہا۔۔۔
پھر تیسرے دن اکمل اور میں نے لاہور نکل جانا تھا۔۔۔

جس دن ہم نے لاہور کے لئے نکلنا تھا۔۔۔ اس رات مجھے نیند ہی نہیں آرہی تھی
دل میں کچھ ہورہا تھا۔۔۔
کبھی کبھی خیال آتا ۔۔۔ کہیں کچھ غلط نہ ہو جائے۔۔۔کوئی انجانا سا خوف ذہن کو جکڑ لیتا پھر ایڈونچر کا خیال آتا تو خوف جھٹک دیتا۔۔۔

اسی کش مکش پتہ نہیں رات کب نیند آئی ۔۔۔
صبح جب امی نے جگایا تو
میں بہت دیرتک امی کو دیکھتا رہا۔۔۔
امی پریشان ہوگئیں ۔۔
"
کیا ہوا ہے میرے لال کو۔۔ کیوں ایسے دیکھ رہے ہو۔۔۔"
'
بس ویسے ہی ۔۔۔ آج آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں"
امی ہنس پڑی
بولی کچھ نہیں بس مجھے گلے سے لگا لیا۔۔۔اور بہت دیرتک لگائے رکھا
مجھے نظر تو نہیں آرہا تھا ۔۔پر امی کے ہلتے وجود سے لگتا تھا۔۔۔وہ رورہی ہیں۔۔۔
یہ ہنستے ہنستے رونا۔۔۔ بھی کیا عجب ہوتا ہے
پھراچانک ہی
میری بھی آنکھیں چھلکنے کو آگئیں۔۔۔
بہت مشکل سے اپنے آنسوؤں کو روکا۔۔۔

پھر جب گھرسے نکلنے لگا تو دل چاہا ۔۔۔۔
ایک بارمڑکر پھراپنی امی کو دیکھ لوں۔۔۔
لیکن
ڈرگیا ۔۔۔ کہیں امی میرے آنکھوں کے کٹورے میں
چھلکتے آنسو نہ دیکھ لیں۔۔۔

جب میرے قدم بس اڈے کی طرف بڑھ رہے تھے تو مجھے
ایسے لگا۔۔۔
میری بائیں طرف سینے میں
ایک ٹیس سی اٹھی ہے۔۔۔

پھرایک ہلکے درد کی لہر پورے وجود میں پھیل گئی
میرے قدم ڈگمگانے لگے۔۔۔
آنکھوں کے آگے باربار ایک ہی چہرہ آرہا تھا
امی کا چہرہ۔۔۔
بہت ممکن تھا کہ واپس گھر کی طرف پلٹ جاتا۔۔۔
اچانک دوسری گلی سے اکمل آتا ہوا دکھائی دیا ۔۔
اس کے ہاتھ میں بیگ تھا۔۔ اس میں میرے اور اسکے کپڑے تھے۔۔

وہ ایک دم میرے قریب آیا ۔۔۔ اور مجھے بازؤں سے کھینچتے ہوئے کہنے لگا
"
شاباش میرے دوست
میں سوچ رہاتھا کہیں تم ہمت نہ ہار جاؤ
تم تو شیر نکلے شیر۔۔۔ چل اب جلدی چل کہیں بس نہ نکل جائے

اڈے پر بس نکلنےکے لئے تیار تھی۔۔
ابھی ہلکا اندھیرا تھا۔۔۔ ہم دونوں بس میں بیٹھ گئے
چند ایک سواریاں بیٹھی تھیں ۔۔۔ کسی نے ہماری طرف توجہ نہ دی
بس کے چلنے تک میرا دل زور زور سے دھڑکتا رہا۔۔۔

جب بس نے دھیرے دھیرے چلنا شروع کیا
تو گویا میرے وجود میں سے خون کنچھنا شروع ہوگیا۔۔
میرا دل ڈوبنے لگا۔۔۔
اکمل نے میری طرف دیکھا تو
پریشان ہوگیا ۔۔۔
کیوں جمیل کیا ہوا ہے۔۔
مجھ سے بولا ہی نہ گیا۔۔۔
اس نے فورا ہی بیگ سے ایک بسکٹ کا پیکٹ نکالا
اور میری طرف بڑھایا۔۔
میں اپنے اندر اتنی کمزوری محسوس کررہا تھا گویا کسی نے جان نکال دی ہو
اکمل نے زبردستی میرے منہ میں بسکٹ ڈالا
اور مجھے حوصلہ دینے لگا۔۔۔
کافی دیر بعد میری حالت سنبھلی

راستے میں کیا ہوتا رہا ۔۔۔ میری دل چسپی بالکل نہ تھی
حالانکہ مجھے اتنا شوق تھا۔۔۔
گاڑی میں سفر کرنے کا۔۔
اور راستے میں آنے والی ہر چیز کو دیکھنے کا۔۔۔

کب سیالکوٹ آگیا مجھے پتہ ہی نہ چلا۔ وہاں ایک ہوٹل سے ناشتہ کیا
سیالکوٹ سے ہم نے دوسری گاڑی پکڑی اور دن کے تقریبا دوبجے ہم لاہور پہنچ گئے
لاہور پہنچتے ہی میری طبیعت ہشاش بشاش ہو گئی۔۔
ہم بہت دیر تک مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں بیٹھے رہے۔۔۔ وہاں سے ہم نے کچھ فروٹ بھی لیا۔ ناشتہ لیٹ کیا تھا ۔۔۔ سو بھوک ہی نہ تھی۔۔۔ پھر اکمل مجھے بادشاہی مسجد لے گیا۔ پھر ہم پیدل ہی گھومتے گھومتے انارکلی پہنچ گئے۔۔۔
ہم اتنے خوش تھے کہ تھکن ہی محسوس نہیں ہورہی تھی۔۔
شام کے سات بجے تو مجھے بھوک نے ستا نا شروع کردیا ۔۔
ایک جگہ ہوٹل دیکھا تو میں نے اکمل سے کہا
مجھے سخت بھوک لگی ہے۔۔۔ کھانا کھاتے ہیں
اکمل بھی شاید بھوک محسوس کررہا تھا ۔۔
ہم ہوٹل میں چلے گئے ۔۔
اکمل نے ایک پلیٹ چنے کا آرڈر دیا۔۔
کہنے لگا۔۔۔ بچت کرنی ہے۔۔
خیر ہم دونوں نے ڈٹ کر کھایا۔۔۔
چنے بہت مزیدار تھے۔۔
جب بل آیا تو 100 روپے۔۔
اکمل تو حیران ہوگیا۔۔
میں نے پہلے ریٹ پوچھا تھا ۔۔۔
وہ کہ رہاتھا فی پلیٹ 35 روپے۔۔۔ پھر اتنا بل
اکمل بیرے سے جھگڑنے لگا۔۔۔
بیرے نے کہا۔۔۔ میں نے تو سنگل پلیٹ کا ریٹ بتا یا تھا۔۔
آپ نے فل پلیٹ لی ہے۔۔۔ اور نان اس کے علاوہ تھے۔۔ سلاد کے بھی پیسے ہیں
اکمل بحث کرتا رہا ۔۔
مجھے پتہ نہیں کیوں ڈر لگ رہا تھا۔۔
میں بار بار اکمل کو منع کر رہا تھا۔۔
لیکن وہ باز نہ آیا ۔۔
آخر بڑی مشکل سے اس نے 80 روپے دیے۔۔
اور ساتھ میں بہت گالیاں بھی۔۔
ہم باہر نکل آئے ۔۔۔
کہنے لگا۔۔۔
یہاں بہت فراڈ کرتے ہیں۔۔۔
ہمیں یہاں کھانا نہیں کھانا چاہیے تھا۔۔۔

میرا لاہور سے یہ پہلا تعارف تھا۔۔۔
پھر ہم پیدل چلتے ہوئے۔۔۔ داتا دربار چلے گئے۔۔
وہاں لنگر بٹ رہا تھا۔۔۔
اکمل مجھے غصہ ہونے لگا ۔۔۔
تمھیں بہت بھوک لگ رہی تھی نا۔۔۔
خواہ مخواہ اسی روپے ضائع کروادیے۔۔
یہاں مفت کھانا مل جاتا۔۔۔
میں روہانسا ہوگیا" تو مجھے کیا پتہ تھا یار"
"
اچھا اچھا خیر۔۔ چھوڑو ان باتوں کو۔۔۔
اب خرچہ بچانا ہے۔۔۔ رات داتا دربار پر ہی گذاریں گے۔۔۔"

"
وہ کیسے ؟"
بس تم دیکھتے جاؤ۔۔
اس نے ایک ستون کے ساتھ ہی جگہ منتخب کی ۔۔۔
میرے کیڑے نکال کر مجھے دیے
اور کہا ان کو سر کے نیچے رکھو اور سو جاؤ
میری تو بہت عجیب کیفیت تھی
یہ فرش پر میں بھلا کیسے سوؤں گا۔۔۔
میں تو ڈرتا تھا کہیں کوئی سانپ ، کیڑا مجھے کاٹ نہ لے
اکمل نے لا پرواہی سے کہا
فکر نہ کر
ادھر داتا دربار میں سانپ اور کیڑے مکوڑے بندوں کو نہیں کاٹتے
تم بس آنکھیں بند کرو اور سوجاؤ
نیند تو واقعی زوروں کی آرہی تھی۔۔
لیکن یہاں تو حالت ہی عجیب تھی
کوئی ادھر آرہا ہے تو کوئی ادھر سے جارہا ہے۔۔
آوازیں ، شور
میں لیٹ گیا۔۔۔
تھکاوٹ بھی بہت زیادہ محسوس ہورہی تھی۔۔۔
صبح سے اب تک کا سفر ایک خواب لگ رہا تھا۔۔۔
کبھی بہن کا چہرہ ، کبھی بھائی کا چہرہ، کبھی امی کا چہرہ
کبھی ابو کا چہرہ سامنے آتے جارہے تھے۔۔۔
اور میری آنکھیں بھیگتی جارہی تھیں۔۔۔
جی چاہ رہا تھا۔۔۔
امی کو بولوں ۔۔
امی جی میری ٹانگیں تو دبا دیں۔۔۔۔۔
امی جی ۔۔۔ میرا سر تو دبا دیں۔۔۔
میں بہت تھک گیا ہوں۔۔۔
پھرروتے روتے میں سوگیا۔۔۔

پتہ نہیں رات کا کون سا پہرتھا۔۔۔
اچانک ہی میری آنکھ کھل گئی ۔۔۔
تھوڑی دیر کے بعد جب ذہن سے نیند کا غبار اترا تو آہستہ آہستہ
یاد آگیا۔۔
یہ تو داتا دربار ہے ۔۔۔ جہاں میں سویا ہوں کھلے صحن کے ایک کونے میں
ایک ستون کے قریب۔۔
میرے ساتھ ہی میرا دوست
اکمل بھی سویا ہوا ہے۔۔۔۔
پھر
پتہ نہیں کیوں امی کا روتا چہرہ سامنے آنے لگا۔۔۔۔
اور آنسو میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ برسنے لگے۔۔۔
یوں جیسے ساون کی جھڑی سی لگ گئی ہو۔۔

میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو ایسے لگا گویا
میرا جسم اکڑ گیا ہو۔۔۔
فرش پر پتہ نہیں کیسے نیند آگئی ۔۔۔
بہت مشکلوں سے اٹھا ۔۔
ہلکا ہلکا چلا۔۔۔ خون کی روانی تیز ہوئی تو
جسم کی اکڑاہٹ کم ہوئی
ایک دھیمی سی نورانی روشنی ہر سو پھیلی ہوئی تھی
ایسے میں داتا دربار اور اسکے ساتھ ملحقہ مسجد نے کا منظر
مسحور کردینے والا تھا۔۔
اکمل تو گھوڑے بیچ کر سویا ہوا تھا ۔۔
میں نے اپنے کپڑے اس کے سر کے نیچے دبائے اور وضو کی جگہ تلاش کرنے
لگا۔۔
وضوکرنے کے بعد میں مسجد میں چلا گیا۔۔۔
اور سجدے میں گر کر بہت رویا ۔۔
بہت ہی رویا۔۔
پتہ نہیں کتنا ٹائم گذر گیا۔۔۔
پھر اذان ہونے لگی ۔۔۔
تو آنکھیں صاف کیں۔۔۔ اور نماز باجماعت اداکی۔۔۔
اتنا سکون ملا۔۔۔

نماز سے فارغ ہوکر باہر صحن میں آیا تو اکمل جاگ چکا تھا۔۔
اور مجھے تلاش کررہا تھا۔۔۔
داتا صاحب کے مزار پر فاتحہ خوانی کی۔۔
اور باہر آگئے۔۔
ناشتہ کیا ۔۔ چائے پی۔۔
تو اکمل کہنے لگا۔۔۔
آج سے ایڈونچر شروع۔۔
آج ہم سب سے پہلے اپنے لئے کوئی نوکری تلاش کریں گے۔۔۔
جیسے کہ واجد اور حامد ۔۔۔
میں اپنے جسم میں ایک نئی امنگ اور ترنگ محسوس کرنے لگا

ہم نے پیدل ہی چلنا شروع کر دیا۔۔۔
اکمل اس معاملے میں بہت کنجوسی کر رہا تھا۔۔
کہنے لگا ۔۔
پہلے ہی اخراجات توقع سے زیادہ ہو گئے ہیں۔۔۔
اب کھانا صرف داتا دربار پرہی ہوگا۔۔
اورکرایہ بچانے کے لئے پیدل چلا جائے گا۔۔۔
میں اگرچہ نازک مزاج تو تھا۔۔
لیکن دیہاتی ہونے کی وجہ سے پیدل چلنے سے نہ گھبراتا تھا۔۔
پھر یہاں تو معاملہ ایڈونچر کا تھا۔۔
خوابوں کے شہر لاہور کا تھا۔۔۔
سو پیدل چلنا برا نہ لگا۔۔۔
اکمل نے راستے میں چلتے چلتے کئی جگہوں پر بات کی۔۔
ایک دو ہوٹل والوں سے، ایک دودیگر دوکان داروں سے۔۔۔
لیکن
مایوسی ہوئی ۔۔
سب سے پہلا سوال یہی ہو تا تھا۔۔۔ کون ہو،،
کہاں سے آئے ہو۔۔
گھرسے بھاگے ہوئے تو نہیں ہو۔۔۔
یا پھر
اپنے کسی بڑے کے ساتھ آؤ۔۔۔
وغیرہ

ہم چلتے چلتے یادگار چوک پہنچے پھر وہاں سے مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں
بیٹھ کر ارد گرد کا نظارہ کرنے لگے
مجھے صبح صبح مینارپاکستان
شاندار دِکھ رہاتھا۔۔ کیا تمکنت تھی کیا شان تھی۔۔
چارسو سر سبز میدان ۔۔۔
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا۔۔۔
بہت دیر تک ۔۔۔
ارد گرد کی فضا میں کھویا رہا۔۔
اکمل بھی خاموش تھا۔۔
لیکن تھا گہری سوچ میں۔۔۔
کافی دیر بعد اکمل کہنے لگا
یار جمیل میں سوچ رہا تھا۔۔۔
نوکری کے بغیر کے ہمارا لاہور میں ٹھہرنا بہت مشکل ہو جائے گا
ہمیں جیسے بھی ہو اپنے لئے نوکری اور رہائش کا بندوبست ہر صورت میں
کرنا پڑے گا۔۔
اس کے لئے میں کوئی متاثر کن کہانی سوچ رہا تھا۔۔۔
لو تم بھی سنو اور بتاؤ کیسی رہے گی۔۔

اس نے جھوٹ موٹ کی جو کہانی گھڑی اس کے مطابق اس کے گھروالے
ایک حادثے میں فوت ہوگئے ہیں۔۔۔ اور اسکی چھوٹی چھوٹی تین بہنیں ہیں
جنہیں پالنے کی تمام تر ذمہ داری اب اسی کے سر ہے کہ سارے رشتہ دار اب
پیچھے ہٹ گئے ہیں ۔۔ وہ اپنے اس غریب دوست کے ساتھ لاہور نوکری کی تلاش میں
مارا مارا پھر رہا ہے۔۔۔۔
میں جھوٹ کا قائل تو نہ تھا۔۔ پر اب مجبوری تھی۔۔
اس کہانی کو مزید بہتر بنایا۔۔۔
اکمل بہت ہوشیار بھی تھا اور خود اعتماد بھی
اسے بولنے پر بھی عبور تھا۔۔
اس نے ایک دفعہ پھر مکمل کہانی مجھے بہت دردناک انداز میں سنائی
ساتھ میں بوقت ضرورت وہ آنکھ میں آنسو بھی بھر لاتا تھا۔۔۔
میں ہنس ہنس کر دہرا ہو گیا۔۔۔
اکمل کہنے لگا۔۔۔
یار دیکھنا ۔۔۔
میں کبھی نہ کبھی فلموں میں کام کروں گا۔۔۔ اداکاری تو میں کرہی لیتا ہوں
بس ذرا شکل سے مار کھا نے کا خطرہ ہے۔۔۔
کاش میں تیرے جیسا پرکشش چہرے ، اور مسحورکردینے والی آنکھوں کا مالک ہوتا

سچ ہی تو کہ رہا تھا وہ۔۔۔
مجھے خدا نے بہت پیار بنایا تھا۔۔۔
تبھی تو ہمارے گا ؤں کی کئی لڑکیاں آتے جاتے میرے ساتھ
بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتی تھیں
پر میں تو شرماتا ہی رہتا تھا۔۔۔
اور لڑکیوں سے بات کرنے کی تو مجھ ہمت ہی نہ تھی۔۔

ہم اس کے بعد سارا دن لاہور شہر کی پیدل خاک چھانتے رہے۔۔
تقریبا عصر کا وقت تھا۔۔۔ہم پرانی انارکلی میں گھوم رہےتھے

ابھی تک ہم نے بے شمار جگہوں پر کوشش کی ۔۔ لیکن کہیں کوئی نوکری کا
آسرا نہ ملا۔۔۔
اچانک اکمل مجھے کہنے لگا۔۔
وہ سامنے جوبندہ ٹیبل رکھ کر بیٹھا ہے۔۔ آؤ آج اس نے بات کرکے آخری کوشش کرتے
ہیں۔۔
بندہ کافی باتونی نکلا ۔۔۔ اور اس نے اکمل سے بہت سی باتیں کیں
لیکن اکمل جو کہ دن میں پندرہ بیس مرتبہ اپنی گھڑی ہوئی کہانی دہرا چکا تھا۔۔
بہت اعتماد سے اس کی باتوں کا جواب دیتا رہا۔۔
وہ آدمی کہنے لگا
میں بھی ایک ہوٹل کا ملازم ہوں
ہمارا ہوٹل اندر کی طرف ہے۔۔۔
تم اس ہوٹل کے مالک سے ملو۔۔۔
وہ اچھا آدمی ہے۔۔۔ شاید تمھارا کام بن جائے۔۔
پھر اس نے ایک لڑکے کو آواز دی اور کہا
ناصر۔۔۔ ان لوگوں کو آغاجی کے پاس لے جاؤ

لڑکا ہمیں چھوٹی سی دوتین گلیوں سے گھماکر
ایک ہوٹل میں لے گیا۔۔۔ وہاں ایک کمرے میں ایک بزرگ بیٹھے تھے
جو ٹیلی فون پرکسی سے بات کررہے تھے ۔۔
ہمیں اس نے سامنے لگی کرسیوں پر بیٹھنے کو کہا اور خود کھڑا رہا
جب وہ بزرگ فون سے فارغ ہوئے تو بہت ادب سے کہنے لگا
"
آغا جی۔۔۔ یہ لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔۔ باہر سے فاروق نے بھیجے ہیں"
آغاجی نے بہت غور سے ہمیں دیکھا اور اسے کہا
"
ٹھیک ہے۔۔ "
وہ لڑکا اجازت لے کر باہر چلا گیا۔۔
مجھے آغا جی کا چہرہ بہت اچھا لگا۔۔۔
بہت شفیق سا۔۔
انہوں نے ہم سے پوچھا کہ ہم کون ہیں اور انہیں کیوں ملنا چاہتے ہیں
بس جی پھر تو اکمل نے
کہانی شروع کردی ۔۔ ساتھ ساتھ آنسو بھی بہانے لگا۔۔۔
سچی بات ہے۔۔
اکمل کی باتیں سن کرمیں بھی متاثر ہوگیا تھا۔۔۔
اور مجھے بھی رونا آرہاتھا۔۔۔
حالانکہ مجھے پتہ تھا۔۔۔ یہ سب جھوٹ ہے۔۔۔
آغا جی بہت صبر سے اکمل کی باتیں سنتے رہے۔۔
پھر انہوں نے تفصیل سے بہت پوچھا۔۔
ہمارے باپ کا نام ، گاؤں کا نام، تعلیم
اور بہت کچھ۔۔۔
اکمل کچھ سچ کچھ جھوٹ بتا تا رہا۔۔۔
اس دوران آغا جی نے ہمارے لئے چائے اور بسکٹ بھی منگوائے۔۔
اکمل نے مجھے کان میں کہا" یہ بسکٹ ڈٹ کر کھاؤ۔۔سمجھو رات کا کھانا ہے"

آخرکار آغا جی نے ہمیں کہا
"
بچو۔۔ ۔۔ میں تمھاری ساری باتوں کو سوفی صد سچ نہیں سمجھتا ۔۔۔
لیکن ایک وجہ سے میں تم لوگوں کو یہاں اس ہوٹل میں آزمائشی مدت کے لئے ملازمت
دے رہا ہوں۔۔ اور وہ وجہ یہ ہے کہ کہیں تم ۔۔
غلط لوگوں کے ہتھے نہ چڑھ جاؤ۔۔۔ میں بھی بچوں‌والا ہوں۔۔۔
لیکن میں تمھاری باتوں کی تصدیق کرواؤں گا۔۔۔"
ہم تو خوشی سے پھول گئے۔۔

مجھے انہوں نے ہوٹل کے اندر ہی کاؤنٹر پر زمہ داری دی۔۔اورکہا
کل سے تم کاؤنٹر کلرک سے کام سیکھو۔۔اور اکمل کو کہا کہ تم ناصر کے ساتھ
باہر کے گاہک ادھر لاؤ گے۔۔ اس سلسلے میں ناصر تمھیں سارا کا م سمجھا دے گا
اور ہاں ذہن میں‌رکھنا۔۔۔
میں ابھی تم لوگوں کو کوئی تنخواہ نہیں دوں گا ۔۔۔
کھا نا اور دیگر ملازمین کے ساتھ مشرکہ رہائش البتہ مل جائے گی۔۔۔
ابھی دوہفتے کام کرو ۔۔۔ پھر دیکھتے ہیں ۔۔ کیا ہو سکتا ہے۔۔

اکمل نے فوری ہی ہر بات پر آمین کہ دیا۔۔۔
لیکن اس نے کہا ۔۔۔ ہمیں رہائش آج سے ہی دے دیں۔۔
کیونکہ ہمارے پاس ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلے ایک گھنٹے میں ہم ایک بڑے کمرے میں موجود چارپائیوں پر لیٹے ہوئے تھے
اور حامد اور واجد والے ناول کے بارے میں باتیں کررہے تھے۔۔۔

کھانا وغیرہ کھانے کے بعد ہم فارغ تھے۔۔
اکمل کہنے لگا۔۔۔ آج لاہور کی رنگینیاں دیکھتے ہیں۔۔۔
رات کو لاہور ایک اور انداز سے جاگتا ہے۔۔۔
میں نے اپنے عزیزسے کچھ معلومات لی تھیں۔۔ سو اب کچھ انجوائے کرتے ہیں۔ اب کھانے پینے اور رہائش کی تو فکر ختم ہوگئی۔۔ ۔۔ اب ایڈونچر شروع۔۔۔

کپڑوں کے نئے جوڑے پہن کر تیاری کرکے ہم ہوٹل سے باہر نکل آئے۔۔
باہرجگمگا تی روشنیاں میرے لئے ایک نیا اور خوش کن نظارہ تھا
ہم پیدل ہی چل رہے تھے۔۔۔
سچی بہت مزا آرہا تھا۔۔۔ اس وقت نہ گھر یا د تھا، نہ اس کے مکین
سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔۔
اکمل گنگتا تا جا رہا تھا۔۔۔
راستے میں ایک جگہ سینما آیا ۔۔۔ وہاں کافی دیرگھومتے رہے۔۔
لیکن اکمل کہنے لگا ۔۔۔
آج فلم نہیں دیکھیں گے۔۔۔
آج کچھ اور ہی دیکھیں گے۔۔۔
میں نے حیرانی سے پوچھا
اور ہی کیا؟
کہنے لگا۔۔
بس تم چلتے رہو۔۔۔
راستے میں ایک جگہ قلفی کھائی ۔۔۔
بہت ٹیسٹی۔۔۔
طیبعت میں جولانی در آئی
چلتے چلتے ایک ایسی بستی میں پہنچے جہاں کا نظارہ
بالکل مختلف لگا۔۔۔
پرانے مکان ، دو منزلہ ، سہ منزلہ ،
چھوٹی چھوٹی گلیاں، گلیوں میں دوکانیں،
اور دوکانوں پر آلات موسیقی ،
یہ کونسی جگہ ہے۔۔۔
میں نے اکمل سے پوچھا۔۔۔
اکمل کچھ نہیں بولا ۔۔۔
بس مسکراتا رہا۔۔۔
میں بہت غور سے ارد گرد دیکھ رہا تھا۔۔۔ کچھ انوکھا سا لگ رہا تھا۔۔۔
پھر اچانک ہی
میرے دائیں طرف ایک مکان کے دروازے کا ایک پٹ کھلا،،،

میں نے دیکھا ۔۔۔ایک حسین چہرہ۔۔۔باہر جھانک رہاتھا
پھر اسکی دلنواز آنکھیں میری طرف آئیں
اور گویا میرے چہرے سے چپک گئیں

اور میرا دل
میرا دل تودھڑکنا بھول گیا۔۔۔۔
پاؤں چلنا بھول گئے۔۔۔
ایک چاند چہرے اور ستارہ آنکھوں والی لڑکی
مجھے دیکھ رہی تھی۔۔۔
میں تو مبہوت ہوگیا
پھروہ دھیمے سی مسکرائی اور مجھے
ہاتھ سے اشارہ دے کراپنے طرف بلایا۔۔۔
اکمل شاید آگے نکل گیا تھا۔۔۔
مجھے تو ایسے لگا۔۔۔
اس پوری کائنات میں صر ف میں ہوں اور
میرے سامنے ایک حسین چہرہ ہے۔۔۔
اور بس ۔۔۔ اور کچھ بھی نہیں۔۔۔

چہرہ میرا تھا نگاہیں اس کی
خامشی میں بھی باتیں اس کی
میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اس کی

میں گنگ کھڑا تھا

لڑکی نے پھر اشارے سے مجھے اپنی طرف بلایا ۔۔
میں جیسے سحرزدہ ہوکر اس کی طرف چل پڑا۔۔
جیسے ہی اسکے قریب پہنچا تو وہ بولی
"
کیوں جی سوہنیو
کدھر جانا ہے۔۔۔"
مجھے جھٹکا لگا۔۔۔
اورمیں گویا ہوش میں آگیا۔۔
"
وہ ۔۔وہ مم مم میں ۔۔۔تو۔۔۔ وہ مم میرا دوست۔۔۔"
میری زبان لڑکھڑانے لگی۔۔
وہ مہ جمال ہنس پڑی ۔۔
اور ایک طرف دیکھا۔۔
"
لوجی ۔۔ آپ کا دوست وہی تو نہیں۔۔جو ادھر ہی آرہا ہے۔۔"
میں نےپلٹ کر دیکھا
اکمل ہماری طرف ہی آرہا تھا۔۔
قریب پہنچ کروہ کبھی مجھے کبھی اس حسینہ کو دیکھنے لگا۔۔
لڑکی بولی
"
آؤ اندر آجاؤ"
پھراس نے پیچھے ہٹ کر دروازہ پورا کھول دیا۔۔۔
میںتو سوچے سمجھے بغیر ہی اندر چلا گیا ۔۔۔
اکمل بھی پیچھے پیچھے اندر آگیا۔۔
ایک سادہ سا کمرہ تھا۔ ۔۔ جس میں کچھ کرسیا ں اور ایک دو ٹیبل تھے
اس لڑکی نے مجھے اور اکمل کو اشارے سے کرسی پربیٹھنے کو کہا
ہم بیٹھ گئے
"
کون ہو۔۔ اور اس گلی میں کیسے پھر رہے ہو"
لڑکی نے پوچھا
مجھے لڑکی کی بے باکی حیران کئے جارہی تھی
ایک دم خیال آیا۔۔
اس کے گھروالے کہاں ہیں۔۔۔۔ یہ تو گھروالوں سے ڈر بھی نہیں رہی
اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا
اکمل بول اٹھا
"
ہم یہاں گانا سننے آئے ہیں"
لڑکی کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔۔۔
ایسے لگا۔۔۔جلترنگ بج اٹھاہو۔۔

"
ذرا پھرسے تو کہو۔ کس لئے آئے ہو"
وہ جلترنگ بجاتی رہی۔۔
اکمل نے کہا
"
بتا یا تو ہے۔۔۔ گانا سننے آئے ہیں"
اب کے بار لڑکی سنجیدہ ہوئی
"
تم لوگ بہت سادہ اور بھولے لگتے ہو۔۔ پہلی دفعہ اس گلی میں آئے ہو۔۔
یہاں گانا سننا تم لوگوں کے بس کی بات نہیں ۔۔۔۔۔نہ تمھاری عمر ہے۔۔
اس گلی میں آنے کی ۔۔"

میرا تو دل ٹوٹ گیا۔۔۔
سچ تو یہ ہے۔ یہ پری چہرہ لڑکی پہلی ہی نظر میں میرے دل میں کھب گئی تھی۔
مجھے اتنا اچھا لگ رہا تھا۔۔ اس کا ہنسنا۔۔ باتیں کرنا۔۔۔
ساتھ ہی ساتھ ڈر بھی رہا تھا۔۔۔کہیں اس کے گھر والے نہ آجائیں۔۔

لڑکی شاید میری کیفیت کو محسو س کرگئی۔۔
کہنے لگی
"
لیکن میں اس کے لئے(اس نے میری طرف اشارہ کیا) آج تم دونوں کی یہ خواہش
ضرور پوری کروں گی۔۔"
پھروہ مجھے کہنے لگی۔۔۔
کیا نام ہے تمھارا۔۔
"
جج جی جمیل۔۔۔۔" میں اٹک کر بولا
"
صرف جمیل۔۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔ حسین وجمیل۔۔اور تمھاری آنکھیں ۔۔
للہ قیامت ہیں قیامت ۔۔"
وہ کس بے باکی سے بولے جارہی تھی۔۔ مجھے اتنی شرم آئی۔۔
یہ اکمل بھی کیا سوچے گا۔۔۔ ؟ میں خواہ مخواہ گھبرا رہا تھا۔۔
لیکن دل ہی دل میں خوش بھی بہت ہورہا تھا۔۔۔

اچانک ہی کہیں اندر سے آواز آئی
"
شہلا بیٹی ۔۔۔ آجاؤ۔۔آپ کا کھانا لگ چکا ہے" آواز کسی عورت کی لگتی تھی
میں تو ڈر ہی گیا۔۔
جی چاہا۔۔۔ فورا باہر بھاگوں ۔۔
لیکن اکمل بیٹھا رہا۔۔ میں بھی کسمکا کر رہ گیا۔۔۔


لڑکی نے اس عورت کی بات سنی ان سنی کردی
کہنے لگی" آپ نے لوگوں نےکھانا کھایا ہے"
جی ہم تو کھانا کھا چکے ہیں۔۔اکمل ہی بولا
اچھا ٹھیک ہے تم لوگ ادھر بیٹھو میں چائے بجھواتی ہوں۔۔۔

اتنے میں آواز پھرآئی
"
شہلا بٹیا ۔۔۔ آجاؤ جانی۔۔۔ کھانا ٹھنڈا ہو رہاہے۔۔۔۔"
اس سے پہلے شہلا کچھ جواب دیتی ایک اڈھیرعمر کی عورت کمرے میں آگئی
شہلا ایک دم اٹھی
"
جی امی ۔۔۔ میں آتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک ہی وہ عورت ہم دونوں کو دیکھ کر گویا لال پیلی ہو گئی
"
یہ کون ہیں ؟"
اس نے درشت لہجے میں شہلا سے پوچھا
"
یہ دو۔۔ سادہ لوگ۔۔۔ گانا سننے آئے ہیں امی جی۔۔۔"
وہ کھکھلا کر ہنسنے لگی۔۔
عورت کے چہرے کے تاثرات اچانک بدل گئے۔۔
"
اچھا ۔۔۔ ۔۔۔۔" اس نے لفظ اچھا کو کافی کھینچ کر بولا
"
ہاں امی جی۔۔۔ پر ہمیں یہ جمیل بہت اچھا لگا ہے۔۔۔ ویسے تو ہم انہیں شاید اندر بھی نہ
آنے دیتے ۔۔ بس اس کی آنکھیں ہمیں اپنی طرف کھینچنے لگیں"

ہائے اللہ ۔۔۔ کتنی بے شرم ہے یہ شہلا ۔۔۔
میں تو لال ٹماٹر ہوگیا۔۔۔۔۔ آنکھیں اٹھ ہی نہ رہی ۔۔تھی۔۔۔
دل اتنے زور سے دھک دھک کرنے لگا۔۔۔

"
ہاں ۔۔۔ کہتی تو تم سچ ہو۔۔۔ ۔۔۔ " عورت بولی
"
امی جی یہ لوگ کھانا کھا چکے ہیں۔۔۔ انہیں چائے پلائیں ۔۔۔ میں اتنی دیر میں کھانا کھا لیتی ہو" شہلا نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔
اور پھر دونوں باہر نکل گئیں۔۔۔

اچانک ہی اکمل اٹھا اور مجھے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر گھمانے لگا
"
بلے او جمیل ۔۔۔۔۔۔تو تو چھاگیا میرے یار۔۔"
وہ خوشی سے مجھے اورگھمانے لگا۔۔۔

"
او چھوڑو ۔۔ چھوڑومجھے۔۔۔" میں نے کہا۔۔
"
یار آج تونے وہ کمال دکھا ہے کہ بس لڈیاں ڈالنے کو دل کررہا ہے۔۔۔
آج سمجھو ۔۔۔ ہم وہ کچھ دیکھیں گے جو اس سے پہلے کہانیوں میں پڑھا اور فلموں میں
دیکھا ہے"
میں حیرت سے اسے تک رہا تھا۔۔
میں اسے کیا بتا تا۔۔
میرے اندر کیا ہورہا ہے۔۔۔
جذبات کی ایک پھوارپورے جسم کو سرشار کررہی تھی۔۔۔
لڑکیاں تو گاؤں میں بھی بہت تھیں
پر شہلاجیسی کوئی نہ تھی۔۔۔
پھران کی باتیں بھی تو ایسی نہ ہوتی تھیں ۔۔
شہلا تو میرے حسن کی ، میری آنکھوں کی کتنی تعریفیں کر رہی تھی
مجھے لگ رہا تھا ۔۔
میں ہواؤں میں اڑرہاہوں۔۔

اتنے میں ایک درمیانی عمر کا مرد اندر آیا ۔۔
اس کےہاتھ میں ٹرے کے اندر چائے اور دیگر لوازمات تھے
اس نے خاموشی سے وہ ٹرے ہمارے سامنے ٹیبل پر رکھی
اور چلاگیا۔۔۔

اکمل اور میں چائے اور بسکٹ کے ساتھ انصاف کرنے لگے۔۔۔

ایک کافی کھلے کمرے میں محفل سجی تھی۔۔۔
ایک طرف سفید چاندنیاں بچھی تھیں۔۔۔ جہاں مختلف سازندے اپنے اپنے
ساز لے کر بیٹھے تھے۔۔۔
انہی کے قریب ہی شہلا کی امی اور دو اور لڑکیا ں بیٹھی تھی۔۔۔
کافی سارے مرد سامنے گاؤ تکیوں کے سہارے موجود تھے۔۔
ہمیں بھی ایک کونے میں بیٹھنے کو کہا گیا تھا۔۔۔

اس پوری بزم میں سب سے عجیب وغریب چیزیں میں اور اکمل ہی لگ رہے تھے۔۔
کچھ دیربعد جب شہلا پوری سج دھج کے ساتھ آئی تو
اس کے حسن کی تاب لانا کارے دارد نہ تھا۔۔۔
اس نے جھک کر سلام کیا۔۔۔
اور پروین شاکرکی ایک غزل گانی شروع کی ۔۔


اپنی رسوائی، تیرے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

شام بھی ہوگئ،دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بھولنے والے، میں ‌کب تک ترا رستہ دیکھوں

رات کا سماں، روشنیوں کی جھل مل، شہلا کا حسن،
اور اس کی مدھر آواز ۔۔۔۔۔
میں تو کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا۔۔۔

کانوں میں شہلا کی آواز رس گھول رہی تھی

کاش صندل سے مری مانگ اجالے آ کر
اتنے غیروں میں‌ وہی ہاتھ جو اپنا دیکھوں

تو مرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات
جانے کیوں تیرے لیئے دل کو دھڑکتا دیکھوں


سب ضدیں اس کی میں پوری کروں، ہر بات سنوں
ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں

کئی سال پہلے میں اپنے گھروالوں کے ساتھ مری گیا تھا۔۔۔
سردیوں کا موسم تھا۔۔۔ مری میں ہر سو بادل چھائے تھے۔۔۔
بادل کیا چھائے تھے۔۔بادل زمین پر اتر آئے تھے۔۔ برف کے گالے۔۔
ہر سو یوں تیر رہے تھے گویا۔۔۔۔ کسی بچے نے ہوا میں بلبلے چھوڑ دیے ہوں
میں نے اپنی زندگی کا ایک انوکھا تجربہ مری میں کیا تھا کہ
بادلوں کو چھوا بھی تھا اور بادلوں کو محسوس بھی کیا تھا۔۔

بادلوں کے آوارہ ٹکرے جب میرے چہرے سے ٹکراتے تو انکی نرماہٹ بھی بھلی لگتی
اور ٹھنڈک سے انکے چھونے کا احسا س ہوتا۔۔۔
آج شہلا کی آواز میرے لئے
انہی بادلوں کی صورت تھی۔۔
میری سماعتوں پر دھیرے دھیرے اتر رہی تھی
میں گویا اسکی آواز کو چھو بھی سکتا تھا۔۔۔ محسوس بھی کر سکتا تھا۔۔۔۔

مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں

پھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی ان ہونٹوں کا سایہ دیکھوں

میں نے جس لمحے کو پوجا ہے، اسے بس اک بار
خواب بن کر تری آنکھوں میں اترتا دیکھوں

ٹوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں

میں جس کیفیت سے گذر رہا تھا اسے بیان کرنا شاید الفاظ ساتھ نہ دے سکیں
بس میں تھا۔۔۔ شہلا کی آواز تھی ۔۔۔ اور کچھ نہیں۔۔

پتہ نہیں وہ کب تک گاتی رہی ۔۔۔
پتہ نہیں کسی اور نے بھی گایا۔۔۔
مجھے کچھ یا د نہیں۔۔۔
بس میں تو کسی اور ہی دنیا میں کھویا ہواتھا۔۔۔

ہوش اس وقت آیا جب اکمل مجھے کھینچتا ہوا۔۔۔ مکان سے باہر لے آیا۔۔
گلی میں پہنچ کر میں چونک گیا۔۔
اکمل کدھر جارہے ہو۔۔۔
میں نے اس سے پوچھا۔۔
ہوش میں آؤمیرے دوست آؤ
اور ٹائم دیکھو ۔۔ رات کےدو بج چکے ہیں۔۔۔
واقعی ۔۔؟

ہم نے گلی سے باہر آکر ایک رکشہ پکڑا ۔۔
اور سیدھا ہوٹل آگئے ۔۔۔
میں تو ڈر رہا تھا کہ شاید آغا جی ناراض ہوں گے۔۔
اتنی رات گئے تک کہاں تھے؟
لیکن ہوٹل میں سب ہی جاگ رہے تھے۔۔ اور اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے
ہم چپکے سے سٹاف کے رہاہشی کمرے کی طرف آئے اور آکر چارپائیوں پر لیٹ گئے

اکمل تو شاید سر رکھتے ہی نیند کی وادیوں میں پہنچ گیا۔۔۔
لیکن میں بہت دیر تک جا گتا رہا۔۔
ذہن میں شہلا سے ملاقات اور پھر بزم غزل کی فلم چلتی رہی
کانوں میں اسی کی آواز بار بار سنائی دیتی ۔۔
لگتا کوئی خواب دیکھا ہے۔۔۔
پھر اسی کشمکش میں سچ مچ خواب کی وادیوں میں گم ہوگیا۔۔۔

دوسرےروز بہت دیرتک سوئے رہے کوئی جگانے والا ہی تھا۔۔
شاید دن گیارہ بجے کا ٹائم تھا۔۔
کہ مجھے جاگ آئی ۔۔۔
اکمل ابھی تک سویا ہوا تھا۔۔
میں ہاتھ منہ دھوکر آیا تو اسے جگایا۔۔۔
اور پھر دونوں باہر کاؤئنٹر آگئے ۔۔
کاؤنٹر پر موجود لڑکے نے خوش دلی سے ہمیں بلایا اور اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا
اور بتا یا کہ آغا جی نے مجھے آپ کے بارے میں بتا دیا ہے
آج سے آپ کی ڈیوٹی شروع
پھر ہمیں وہ کام سمجھانے لگا۔۔
مجھے آج اس کے ساتھ ہی کاؤنٹر پر کام کرنا تھا۔۔۔
اکمل کو کہا گیا کہ وہ فاروق سے مل لے ۔۔
اس نے باہر سے لوگوں کو ہوٹل میں لانا ہے۔۔
ہم سارا دن اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہے۔۔
دن کو تو خاص کام نہیں تھا لیکن میں کام سمجھتا رہا۔۔
رجسٹر میں اندراج کیسے کرنا ہے۔
کون کون سے کمرے کے کیا کیا ریٹس ہیں۔۔۔
کیسے ڈیل کرنا ہے۔۔
وغیرہ وغیرہ
شام کو کام میں تیزی آگئی ۔۔
اور رات گئے تک ہم کاؤنٹر پر ہی کام کرتے رہے۔۔
اس دوران کھانا وغیرہ بھی کھایا اور کچھ دیر ریسٹ بھی کی۔۔
اکمل بھی وقتا فوقتا آتا رہا۔۔۔
کام کے رش میں بھی میرے ذہن شہلا کا تصور بار بار آتا رہا۔۔
لیکن ہوٹل کا کام دیکھ کر لگتا تھا۔۔
یہاں تو شاید ساری رات ہی جاگنا پڑے گا۔۔
جیسے جیسے رات ہوتی گئی۔۔
لوگ کا آنا بڑھ گیا۔۔۔
رات کے بارہ بجے میری حالت غیر ہونا شروع ہوگئی
سچی بات تو یہ ہے کہ
کبھی کام تو کجا ۔۔۔
اپنے ہاتھ سے پانی نہ پیا تھا۔۔
اور یہاں سارا دن لوگوں سے جھک جھک

اچانک آغاجی آگئے ۔۔
مجھے کام کرتے دیکھتے رہے۔۔
پھر کہنے لگے ۔۔
تم بہت تھک گئے ہو۔۔
چلو جا کے سو جاؤ۔۔۔۔۔

میں نے شکرکیا ۔۔۔ اور
فورا ہی کاؤنٹر چھوڑ دیا۔۔۔
کمرے میں آکر لیٹا تو۔۔۔۔۔۔
شہلا پھرسے میرے ذہن میں در آئی۔۔
جی چاہا۔۔
ابھی بھاگ کر جاؤں اور اس کے پا س پہنچ جاؤں۔۔۔
لیکن اجنبی راستوں کی مجھے پہچان نہ تھی۔۔
اکمل شاید ابھی تک نہ لوٹا تھا۔۔۔
جی بہت گھبرا رہا تھا۔۔۔
لیکن کچھ نہ کر سکتا تھا۔۔۔

آنے والے تین چاردن اسی مصروفیت میں ہی گذرے ۔۔۔۔
میرے لئے اب اپنے آپ پر قابورکھنا مشکل ہو گیا تھا۔۔۔
میں نے اکمل کو کہ دیا۔۔۔
"
میں شہلا سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔لیکن اس ہوٹل میں کام کرتے ہوئے تو اب یہ ممکن
نہیں رہا ۔ رات کو بارہ ایک بجے تک فارغ ہوتے ہیں۔۔۔
ایسے میں شہلا سے ملن کیسے ممکن ہو۔۔"

اکمل بہت دیرتک میری صورت دیکھتا رہا۔۔
پھر کہنے لگا
"
یارجمیل میں تیری حالت کو سمجھتا ہوں۔۔۔ لیکن تو حالات کو نہیں سمجھتا
ابھی اس ہوٹل کا ہمیں بہت سہارا ہے۔۔
اب میں اس کام کو چھوڑنا عقلمندی نہیں سمجھتا ۔۔۔
تو کچھ دن صبر کر۔۔۔
شہلا کی بھی حالت تجھ سے مختلف نہ ہوگی ۔۔۔۔ میں جانتا۔۔۔ ہوں"

"
سچی۔۔؟
تمھیں کیسے پتہ "۔۔ میں نے حیرانی سے پوچھا۔۔

"
یار اسکی آنکھوں تیرے لئے محبت کی جھلک میں نے دیکھ لی تھی۔۔"

"
اکمل خدا کے لئے ۔۔۔ مجھے شہلا کے پاس لے چل ۔۔۔"
میں روہانسا ہورہا تھا۔۔۔

اکمل سوچ میں پڑ گیا ۔۔ پھر کہنے لگا
"
ایسا ہے۔۔
کل میں عصر کے وقت تجھے لے کے وہاں جاؤں گا۔۔
پر اس کے لئے آغا جی سے کچھ جھوٹ بولنا پڑے گا۔۔"

"
بس یار جو بھی کر ۔۔ ۔۔ مجھے اس سے ایک بار ملا دے۔۔"
میری حالت دیدنی تھی
شہلا میرے خیالوں پر چھاگئی تھی۔۔۔
خوابوں میں خواب اس کے یادوں میں یا د اس کی

اسی شام ہم نے آغا جی سے بات کی۔۔
اکمل نے کہا
"
آغا جی ہم پچھلے تین چار دنوں سے یہاں کام کررہے ہیں
آپ بے شک ہربندے سے پوچھ لیں ۔۔۔ ہم پوری محنت سے کام کر تے ہیں۔۔"

آغا جی مسکرائے اور کہا
"
بیٹے میں یہ کاروبار چلا رہا ہوں ۔۔۔ ہرآدمی کی مکمل رپورٹ میرے پاس روز آتی ہےمیں اب تک تم دونوں کے کام سے مطمئن ہوں۔۔۔
خصوصا تمھارے کام سے۔۔۔
تم بہت اچھے طریقے سے گاہکوں اس ہوٹل کی طر ف راغب کرتے ہو۔۔۔

بہرحال اب بتاؤ کس کا م سے آئے ہو۔۔؟"

اکمل نے کہا" آغا جی۔۔ میں ہر قسم کی سختی میں کام کرسکتا ہوں ۔۔ پر میرا یہ دوست
بہت نازک مزاج ہے۔۔۔ اگر آپ اجازت دیں تو ہم کچھ وقت سیروتفریح کر لیا کریں۔۔۔
اس کی صحت متاثر ہورہی ہے۔۔۔
میں چاہتاہوں آپ ہمیں ایک شفٹ میں کام دے دیں۔۔ یعنی شام آٹھ بجے سے رات گئے تک
آغا جی سوچ میں پڑ گئے ۔۔۔
دیکھو بچو۔۔۔ میں ہمیشہ اپنے ملازموں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہوں۔۔ یہی وجہ ہے کہ
سب لوگ میرے سا تھ خوش ہیں۔۔ لیکن کام کے حوالے سے میرے اصول بہت سخت ہیں ۔ تم دونوں کو ہفتے میں ایک چھٹی ہوگی۔۔۔
ہاں جمیل کے لئے یہ رعائت ہوگی کہ وہ شام کو سات بجے ڈیوٹی پر آجایا کرے۔۔
لیکن تم نہیں۔۔۔
اکمل نے بہرحال منت ترلےکرکے ۔۔۔ آغا جی سے یہ منوا لیا کہ ہفتے میں دودن ہم
شام آٹھے بجے سے کام کریں گے۔۔۔ اور چھٹی بھی ایک دن ہوگی۔۔۔

دوسرے دن ہم نے عصر کے وقت شہلا کے پاس جانے کا پروگرام بنایا


وہ دن اور رات کیسے گذری ۔۔۔
یہ وہی جان سکتا ہے جو میرے جیسے حالا ت سے گذرا ہو
بس یہی کہ سکتا ہوں۔۔۔۔۔
ایک ایک سیکنڈ میرے لئے بھاری تھا۔۔۔
دوسرے دن جب ہم شہلا کے مکان پر پہنچے تو دروازہ بند تھا۔۔۔
کھٹکھٹانے کے با وجود کوئی نہ آیا۔۔۔۔
تو اکمل مجھے وہیں رکنے کا کہ کر مکان کی پچھلی طرف نکل گیا۔۔۔
کافی دیربعد دروازہ کھلا ۔۔۔۔۔
اور مجھے اندر بلالیا گیا۔۔۔
اکمل واپس نہ آیا تھا۔۔۔۔ کچھ دیرمجھے اوپر والے حصے میں بلایا گیا۔۔۔
وہاں ۔۔۔
شہلا اور اکمل موجود تھے۔۔۔
شہلا مجھے دیکھ کر اور میں شہلا کو دیکھ کر کن کیفیات سے گذرے
جذبات کا اظہار کیسے ہوا۔۔۔ وہ سب خواب کی مانند تھا۔۔
شہلا اور میں بہت دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔۔۔
گرچہ میں کم ہی بولا شہلا ہی بولتی رہی۔۔۔
اکمل اس دوران کسی اور کمرے میں چلا گیا تھا۔۔۔
پھرشہلا کی امی بھی آگئی۔۔۔
اس نے مجھ سے کافی سوالات کیے۔۔۔
اسے خصوصی طور پر اس بات میں زیادہ دل چسپی تھی کہ میرا ابوکون ہے۔۔
ان کے مالی حالا ت کیسے ہیں۔۔۔۔
یہ باتیں تو میں نے سچ ہی بتائیں۔۔۔۔
میرے ابو اپنے علاقے کے دوتین بڑے زمین داروں میں سے تھے۔۔۔
لیکن ایک جھوٹ میں نے بولا ۔۔۔
میں نے انہیں بتا یا کہ میں یہاں کالج میں پڑھتا ہوں ۔۔۔ اور ہوسٹل میں رہتا ہوں۔۔
یہ جھوٹ مجھے اکمل نے سکھایا تھا۔۔۔
دوچاردن ہوٹل کے کاؤنٹر پر کام کرنے سے ، لوگوں کو ڈیل کرنے سے
میں بھی اب اعتماد سے جھوٹ بولنا سیکھ ہی گیا تھا۔۔۔
ہماری بہت خدمت ہوئی ۔۔۔
شہلا کی امی کا رویہ بھی بہت اچھا تھا۔۔۔
اور شہلا تو مجھ دیکھ دیکھ کر ہی خوش ہو رہی تھی۔۔۔
باربار وعدہ لے رہی تھی ۔۔۔
کہ میں ہرروز اسے ملنے آؤں گا۔۔۔
اب کچھ کچھ میں سمجھ گیا۔۔۔
شہلا کون ہے۔۔۔ اور یہ گلی کن شریفوں کی ہے۔۔۔
لیکن یہ سمجھنے کے باوجود شہلا کے بارے میں جذبات میں ،
کچھ کمی نہ آئی ۔۔۔ بلکہ سچ پوچھیے تو آج کی ملاقات نے
آتش شوق کو کچھ تیز کردیا۔۔۔

رات آٹھ کے لگ بھگ واپسی ہوئی ۔۔۔
تو ایسے لگا۔۔۔
میرا وجود۔۔شہلا کے گھرمیں ہی رہ گیا ہے۔۔۔
وہ بھی بہت دورتک مجھے دیکھتی رہی

No comments:

Post a Comment