صفحات

Sunday, November 22, 2015

مختصر سی زندگی

مختصر سی زندگی
محمد نور آسی


زندگی بہت مختصر ہے یہ فقرہ تو ہم دن میں شاید کئی بار سنتے ہیں ۔ لیکن کبھی غور نہیں کیا ۔ مختصر کیوں ، کیسے؟ اگر کسی کی عمراللہ کریم نے 50 سال لکھی ہے ، 70 سال لکھی ہے یا 100 سال- تو وہ دنیا میں اتنے ہی سال گذار کر جائے گا۔ پھر مختصر کیوں ہے زندگی ؟ میں کوئی مذہبی سکالر نہیں ۔ لیکن ایک بات جو اپنی کم علمی کے اعتراف کے باوجود جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم جب اپنی گذشتہ زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے گذارے گئے دس ، بیس ، تیس سال تو گویا کل کی بات ہے۔ یوں گذرے گئے جیسے اک لمحہ گذرا ہو۔ اسی سے قیاس کرکے جب یہ سوچ ذہن میں آتی ہے کہ جب نزع کا عالم ہو گا تو ممکن ہے اس وقت ہمیں یہی محسوس ہو کہ ہماری 60، 70 زندگی یوں پلک چھپکتے گذر گئی کہ پتہ بھی نہ چلا۔ تو پھر شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ زندگی مختصر ہے۔ ہاں سچ ہی تو کہتے ہیں۔ ذرا ایک لمحے کے لئے تصور کیجئے ۔ وہ پہلا دن جب آپ اسکول گئے۔ کل کی بات لگتی ہے نا۔ بے شک سر کے بال سفید ہوگئے یا سفیدی کی جانب سرک رہے ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے ابھی تو ہم جوان ہیں۔ کوئی انکل بولے یا آنٹی تو حیرت سی ہوتی ہے۔ ہوتی ہے نا؟ اصل میں یہ زندگی کیا ، دنیا کی ہر چیز ہی گویا دھوکہ ہے۔ جیسے دن ، مہینے، سال ہمیں دھوکہ دیتے ہیں ، دنیا میں ہر چیز ویسے ہی نظر کا دھوکہ ہی ہے۔ جو بات کل ناممکن تھی آج ہمارے لئے ایک عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے۔ ذرا سوچیئے ۔۔۔ کیا کچھ سال پہلے تک کوئی سوچ سکتا تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھے ، بناکسی تار، کسی ظاہری وسیلے کے ہزاروں میل دور بسنے والوں سے نہ صرف بات کی جا سکتی ہے بلکہ ا ن کو دیکھا بھی سکتا ہے۔ سچ پوچھیئے تو اگر کوئی سو سال پہلے کا فرد آج اگر زندہ ہو جائے تو شاید یہ سب کچھ دیکھ کر حیرت سے دوبارہ مرجائے۔ یہ سب کیا ہے؟ کیونکر ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو ہماری آواز کو ، تصویر کو ہزاروں میل دور ایک چھوٹی سی ڈیوائس یا موبائل فون تک پہنچادیتی ہے۔ سائنس کہتی ہے۔فضائے بسیط جو عام نظر کو خالی نظر آتی ہے ۔ یہ سب ایک مخصوص مادے سے بھری ہے۔ ہم جہاں بیٹھتے ہیں ، کھڑے ہوتے ہیں ۔ کچھ دیر تک اس فضا میں ہمارے چلے جانے کے باوجود ہمارا عکس موجود رہتا ہے۔ کیوں؟ ہماری آوازیں اسی کائنات کے کسی بڑے ڈیٹآ سٹوریج میں محفوظ ہو رہی ہیں۔ بلکہ جو کچھ اب تک کہا گیا، بولا گیا وہ لفظ ، وہ آوازیں اسی کائنات میں موجود اور محفوظ ہیں۔ ہم دھوکے پہ دھوکہ کھار ہے ہیں ۔ تو پھر اس زندگی کا کیا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ایسا کریں نا کہ جو محفوظ ہو وہ باعث شرمندگی نہ ہو۔ زندگی دھوکہ سہی اس کا ماحصل دھوکہ نہیں ۔ ایک بہت چھوٹا سا لیکن بہت گہرا نقطہ ہے۔ دھوکہ کھانے والے جب جان بوجھ کر دھوکہ کھاتے ہیں تو اس کے پیچھے کوئی مقصد ہوتا ہے۔ دھوکہ ہی کھانا ہے نا تو جان بوجھ کر کیوں نہ کھائیں۔
ایک دوست کے ساتھ کہیں جارہا تھا۔ راستے میں ایک ٹھیلے والے کے پاس پڑے پھل اچھے لگے تو رک گئے۔ ریٹ پوچھا تو میں نے بھاؤ تاؤ کرنے کی کوشش کی۔ مجھے دوست نے روک دیا ۔ کہا ۔" بس جو بھی بھاؤ لگائے اس سے پھل لے لو" میں نے ایسا ہی کیا لیکن پھر اس سے پوچھا کہ کیوں؟ کہنے لگا" اس ٹھیلے والے کے پاس کل سامان ہی ہزار پندرہ سو کا ہے۔ اس نے اسی سامان سے اپنے گھروالوں کے لئے کچھ روٹی کا بندوبست کرنا ہے۔ ہم اس سے بھی بھاؤ تاؤ کر کے خریدیں گے تو اس کو کیا بچے گا؟۔ ہم روزانہ کتنے خرچ کرتے ہیں کبھی حساب نہیں کیا۔ لیکن اس ٹھیلے والے سے دو دو روپے کے لئے کیوں بحث کرتے ہیں"
کیوں؟ واقعی کیوں؟

کائنات کی ہر چیز دوسروں کےلئے ہے۔ یہ نکتہ جس جس کو سمجھ آیا وہ کامیاب ہوا۔لیکن  زندگی میں کچھ  کرنے کے لئے ، دوسروں کو کچھ دینے کے لئے بھی تو کسی مرشد، کسی استاد ، کسی بزرگ سے وابستگی ضروری ہے۔
بعض اوقات سامنے کی بات سمجھ نہیں آتی ۔ سینکڑوں کتابوں، ہزاروں فلسفوں کے بیچ الجھنے والے سادہ سی بات بھی نہیں سمجھ پاتے۔
بجلی کا کام کرنے والا بتا تا ہے ۔ صاحب بلب تب روشنی دیتا ہے جب وہ کسی تار سے وابستہ ہوتا ہے، تار کسی بورڈ سے جڑی ہوتی ہے۔ بورڈ کسی لائن سے اور لائن کسی گرڈ سٹیشن سے۔
سامنے کی ہی بات ہے۔ لیکن سمجھ بہت دیر میں کیوں آتی ہے۔
خود کو عقل کل سمجھنا ہی سب سے بڑی نادانی ہے۔ سرنڈر کرنا سیکھنا ہوتا ہے۔ تب کچھ ملتا ہے۔ صاحب جی ابلیس کی کہانی تو یاد ہے نا۔ سرنڈر کرنے سے انکار کیا۔ تو سب کچھ ضائع کر بیٹھا۔
کسی استاد ، کسی مرشد، کسی بزرگ کے آگے سرنڈر کرو۔جو آپ کی تاریں کسی بورڈ سے جوڑ دے۔ آپ کا رابطہ گرڈ اسٹیشن سے ہوگا تو کرنٹ آئے گا ۔ورنہ دھوکے پہ دھوکہ کھاؤ گے۔
گذرے پل اور آنے والے پل کے بیچ میں کچھ ایسا ہے جو ہم سمجھ نہیں پاتے۔
بس ذرا غور کرنے پڑتا ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھنا پڑتا ہے

Sunday, July 5, 2015

پہلا روزہ

پہلا روزہ
محمد نور آسی

ہمیں نہ تو کسی نے مجبور کیا ، بہت ضد کی یا منت سماجت کی کہ خدا کے اپنے پہلے روزے کے بارے میں  اپنا ایک ادبی  شاہکار  اپنے "زورقلم اور زیادہ " والے قلم  سے  عنائت کریں  اور نہ ہی کسی نے ان باکس میں کوئی مسیج کیا نہ کسی نے ٹیک کیا۔  پھربھی پتہ نہیں کیوں ہم نے یہ تحریرلکھی ہے بلکہ اپنے ایک عدد بوسیدہ بلکہ خزان رسیدہ  بلاگ پر بھی ڈال دی ۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلاروزہ رکھے ویسے تو اب اتنے سال بیت گئے ہیں کہ بہت ساری تفصیلات ذہن میں نہیں تاہم ماہ رمضان سے جڑے اپنے بچپن کے کچھ ایسے واقعات ضرور یاد ہیں جو کل کی طرح تازہ لگتے ہیں۔  پہلا روزہ جب رکھا تو یہ یاد نہیں کہ کیا کھایا کیا پیا البتہ شام کو جو آؤ بھگت ہوئی وہ نہیں بھولتی ۔  گھروالوں کے علاوہ خصوصا خالہ ، پھوپھو اور کزن نے جو تحائف پھلوں اور دیگر کھانے کی اشیاء اور نقدی  کی صورت میں دیے تو  دل کرتا تھا اب روزانہ روزہ ہی رکھیں گے ۔ وہ تو امی آڑے آ جاتی کہ معصوم جان اور سخت گرمی ۔ بس ایک روزہ کافی ہے ۔ ہاں جس دن موسم ٹھیک ہو گا اس دن رکھ لینا ۔
جمعے کا روزہ ضد کرکے رکھتے تھے۔ ایک دفعہ روزہ رکھنے کے بعد شام کو دوستوں کے ساتھ جھیل پر گئے وہاں کافی دیر کھیلتے رہے اور واپسی پر دوستوں کے ساتھ ٹافیاں کھالیں ۔ بالکل خیال نہ آیا کہ روزہ ہے۔ جب گھر آیا تو بڑی بہن نے پوچھا کہ ابھی تک روزہ قائم ہے یا کچھ کھا پی لیا تھا۔ ایک دم خیال آیا کہ ٹافی کھائی تھی۔ بس رو رو کر برا حال ہو گیا۔ میرا روزہ ٹوٹ گیا میرا روزہ ٹوٹ گیا۔ سب چپ کرواتے رہے بہلاتے رہے اور سمجھا تے رہے کہ بھول چوک کر کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا مگر میں ماننے کو تیار نہ تھا۔ ۔۔دکھ اور افسوس اتنا شدید تھا کہ  افطاری تک روتا ہی رہا ۔
ماں جی کے ہاتھوں سے سحری میں  بنے پراٹھوں کی لذت دوپہر کو اور سوا ہوجاتی تھی اور جو مزہ دوپہر کو ان پراٹھوں کو کھا کر آتا تھا وہ ابھی تک بھول نہیں پایا۔ ماہ رمضان واقعی بہت رونقوں بھرا مہینہ ہوتا تھا۔ صبح سے شام تک ایک الگ ہی ماحول ہوتا تھا۔خصوصا تراویح ایک ایسی پرکشش عبادت لگتی تھی کہ رمضان کے بعد  بھی اس کا ذکر اپنے سکول کے دوستوں میں ہوتا رہتا کیونکہ تراویح میں شرارتیں بھی ہوتی تھی اور برزگوں سے ماربھی کھاتے تھے۔ تراویح پڑھنے کا انداز بھی مختلف تھا۔ جب امام تراویح کے لئے کھڑا ہوتا تو ہم سب بیٹھے رہتے جونہی امام رکوع پر جاتا سب بھاگ کر نیت کرتے اور رکعت میں شامل ہوتے ۔
محلے ، مسجد میں افطاری بھجوانا ایک معمول تھا اور یہ افطاری بہت شوق سے تقسیم کرنا اپنا مشعلہ تھا۔ کیوں کہ اکثر اس سامان میں سے کچھ نہ کچھ اڑا بھی لیا جاتا تھا۔
گڑ کا شربت اب تو معدوم ہو چکا ہے لیکن یہ شربت میرے بچپن میں بہت شوق سے پیا جاتا تھا۔ اس میں بادام ، خسخاش بھی پیس کر ملایا جاتا ۔ تو لذت اور بڑھ جاتی تھی۔افطاری میں نمک سے افطار کرنا باعث ثواب سمجھا جاتا تھا۔ بعد نمک کی جگہ کھجور نے لے لی۔
تو یہ تھیں کچھ یا دیں کچھ باتیں

لنگر کے چاول

لنگر کے چاول
محمد نور آسی

اس دن صبح سے ہی ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے اور موسم بہت دلفریب ہورہا تھا۔ ایسے میں سفر کا مزہ اور دوبالا ہو جاتا 
ہے لیکن میرے لئے وہ شخص بہت الجھن کا باعث بن رہا تھا۔ میں نے اپنے ایک عزیز کو ملنے کے لئے لاہور جانا تھا۔ اسلام آباد سے ایک معروف کمپنی کی بس میں سوار ہوا تو موسم کی منا سبت سے ایک دھن خود بخود میرے ہونٹوں پر تھرکنے لگی ۔ بہت خوشگوار موڈ کے ساتھ جب اپنی سیٹ پر بیٹھا تو کچھ ہی دیر بعد جو صاحب میرے ساتھ آکر بیٹھے وہی میرے لئے کوفت اور الجھن کا سبب بن گئے۔جھٹ سے آتے ہی فرمانے لگے " آپ کہاں جارہے ہیں"
نہ سلام نہ دعا  ۔ مجھے نجانے کیوں ایک دم غصہ آگیا ۔
"ظاہر ہے بس لاہور جارہی ہے تو میں پشاور جانے سے تو رہا۔ لاہور ہی جارہا ہوں"
" گڈ۔ اس کا مطلب ہے آپ کے ساتھ سفر کافی اچھا گذرے گا۔ "
"کیا مطلب؟ "
" سادہ سی بات ہے۔ آپ بہت خوش مزاج لگ رہے ہیں سو آپ کے ساتھ اگلے کچھ گھنٹے بات چیت کرکے مزا آئے گا"
میں تو تلملا کر رہ گیا۔ اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی واقف کار نظر آئے تو سیٹ بدل لوں ۔ لیکن سب چہرے اجنبی تھے۔ بس ہوسٹس سے مد د لینے کا خیال آیا پھر اپنی فطری روادری اور جھجھک  آڑے آگئی ۔  سو چپ ہی رہا۔
میں دراصل دوران سفر خاموش رہنا ہی  پسند کرتا ہوں ۔ جو صاحب میرے ہم سفر بنے پہلے فقرے سے ہی مجھے اچھے نہ لگے ۔ اور وہ تھے کہ مسلسل سوال کیے جارہے تھے۔
اچھا آپ کہاں سے ہیں۔ کیا کرتے ہیں۔ لاہور کیوں جارہے ہیں۔ ؟
میں مختصر جواب دیتا رہا ۔ اور رواداری میں جب یہی سوال ان سے  پوچھے توگویا وہ جیسے انتظار میں تھے ۔ اپنے حوالے سے جو گفتگو شروع کی تو لاہور جا کر دم لیا۔ وہ صاحب دراصل بہت بڑے بزنس مین تھے ۔ اور ان کا بزنس پاکستا ن کے کئی شہروں میں پھیلا ہوا تھا۔ ان کے بزنس میں گاڑیوں کے سپیئر پارٹس سے لے کر لیپ ٹاپ تک شامل تھے ۔ کئی شہروں میں ان کے ذاتی محل نما گھر تھے۔ میں تو حیرت اور مرعوبیت کی کیفیت میں ان کی گفتگو سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ کسی کے بارے میں بھی فوری رائے نہیں قائم کرنی چاہیے ۔ اس کی گفتگو اس کے بزنس، دولت ، محلوں، گاڑیوں اور رنگ برنگی محفلوں  کے گرد گھومتی رہی۔ اور میں اس کی گفتگو کے دوران ایک تصوراتی دنیا میں اس کے ساتھ قدم بہ قد م چلتا رہا۔ یہاں تک کہ لاہور آگیا۔ ۔۔۔۔۔۔
وہ ایک دم اٹھ کر نیچے اترا اور پھر غائب ہو گیا ۔ میں نے اسے آگے پیچھے بہت دیکھا لیکن وہ نہ ملا ۔ حالانکہ میں تو سوچ رہا تھا کہ وہ مجھے اپنا محل دیکھنے کی دعوت دے گا۔
خیر میں  باہر آکر داتا دربار جانے والی ویگن میں بیٹھا ۔ یہ میرا معمول تھا ۔ جب بھی لاہور آ تا سب سے پہلے داتا حاضری لگواتا ۔ راستے میں مجھے ایک دفعہ شک ہوا کہ ایک گذرتی ویگن میں وہی میرا ہم سفر بیٹھا ہوا ہے۔ لیکن میں نے اسے ایک وہم سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ داتا دربار پہنچا تو نماز کا ٹائم ہو چکا تھا۔ نماز ادا کی اور باہر نکلنے لگا تو اچانک میری نظر ایک طر ف بیٹھے ایک بندے پر پڑی جو ایک شاپنگ بیگ پکڑے اس میں سے لنگر کے چاول ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ ۔۔ یہ بندہ وہی میرا ارب پتی ہم سفر تھا

Thursday, December 4, 2014

تکیہ کلام

تکیہ کلام
از محمد نو آسی
یہ تکیہ کلام بھی کیا عجب چیز ہے۔ جس بندے سے چپک جائے پھر جان نہیں چھوڑتا۔ عمومی تکیہ کلام تو خیر پھربھی قابل برداشت ہوتے ہیں  جیسے " اور سنائیں" یا پھر " تو میں کہ رہا تھا"ٗ لیکن کچھ لوگوں کا تکیہ بہت الجھاؤ پیدا کرتا ہے۔
میرے ایک دوست ہیں جن کا تکیہ کلا م ہے " اچھا پھر کیا ہوا؟" ۔ اب آ پ کوئی بھی بات کریں اور وہ مکمل بھی ہوجائے تو موصوف ضرور بولیں گے اچھا پھر کیا ہوا۔ ایک دفعہ ان سے بات ہورہی تھی کہ اپنے فلاں کلاس فیلو کا انتقال ہو گیا ۔
حسب عادت بولے" پھر کیا ہوا"
 بھئی مرحوم کا جنازہ  ہوا اور میں جنازے میں شریک ہوا ۔
بولے اچھا پھر کیا ہوا؟
"بس جنازے کے بعد میت کو قبرستان لے گئے اور دفنایا"
اچھا پھر کیا ہوا
میں بھنا کر رہ گیا۔
اب میں انہیں قبر کا احوال تو بتانے سے رہا۔
ایک اور مہربان ہیں۔ جن کا تکیہ کلام ہے " بس مت پوچھو"
جب  بھی ملتے ہیں بدحواسی چہرے پر ایسے جلوہ فرما ہوتی ہے۔  جیسے خواتین کے چہرے پہ میک اپ
حال پوچھو تو وہی جواب
بس مت پوچھو ۔
کئی دفعہ جھنجھلا کر اگر کہ کہ اچھا نہیں پوچھتے تو
بنا پوچھے وہ رام لیلا چھیڑتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔
بیگم کی پنڈلی میں ہونے والی خارش سے لے کر دودھ پیتے منے کے منہ کے چھالوں تک ساری تفصیل بتاکر ہی دم لیں گے۔ اور آخر میں یہ ضرور فرمائیں گے
بس مت پوچھو
ایک اور مہربان کا تکیہ کلا م کو بندے کو زچ کرکے رکھ دیتا ہے
جی ہاں ان کا تکیہ کلام ہے " معاملہ اس سے بھی خراب ہوسکتا تھا"
اب آپ ان سے دنیا جہاں کے کسی موضوع پر بات کرلیں۔ان کے مرغے کی ایک ٹانگ ہوگی۔
کسی دوست نے بتایا کہ بیٹے کو بخار ہوگیا ہے۔ کسی دوائی سے اتر نہیں رہا
تو بولے ۔ شکرکرو۔ معاملہ اس سے بھی خراب ہوسکتاتھا۔
دوست چڑ کر بولا
کیاخراب ہوسکتاتھا۔
بھئی دیکھو نا۔ بخار کا کیا ہے اتر ہی جائے گا لیکن خدانخواستہ بچے کو ہیپاٹائٹس بھی تو ہوسکتا تھا
اب وہ مارنے کو ہی دوڑے۔
ایک دوست کے بیٹے کا موٹر سے ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ۔
وہاں گئے تو حسب عادت بول دیا
کوئی بات نہیں۔ معاملہ اس بھی خراب ہوسکتا تھا۔
وہ دوست تو خیر چپ رہے لیکن ان کی بیوی چٹخ کر بولی
میرے بیٹے کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور آپ بول رہے ہیں کہ معاملہ اس سے بھی خراب ہوسکتا تھا۔
گڑبڑا کر بولے
جی جی۔ میرا مطلب تھا کہ دونوں ٹانگیں بھی تو ٹوٹ سکتی تھیں نا۔
پھر اس کے بعد حالات کیا بتائیں۔ ہم اس کی جگہ بھابی سے معافیاں مانگتے رہے۔
اور پینے کو پانی بھی نہ ملا
موصوف کئی مرتبہ مار کھا چکے ہیں لیکن مجال ہے جو اپنے تکیہ کلام سے پیچھے ہٹے ہوں
ہم نے کئی بار سوچا کہ کوئی ایسی صورت حال ہو کہ یہ صاحب اپنا فقرہ نہ بول پائیں ۔ لیکن انوکھی سے انوکھی صورت حال میں یہ موصوف اپنا راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔
لیکن آخرِکا ایک دن ایک ایسا اندوہناک واقعہ پیش آیا کہ ہم دوستو﷽ں کا خیال ہوا کہ اس واقعے پر وہ اپنا تکیہ بھول جائیںگے ۔
واقعہ کچھ یوں تھا کہ ہمارے محلے میں ایک صاحب عزیزالدین نامی رہتے تھے۔ جنہوں نے پچھلی عمر میں ایک نوجوان دوشیزہ سے شادی کی تھی۔ طبیعت کے انتہائی تیز اور شکی مزاج تھے۔ بازار میں پان کی دوکان تھی۔ دن میں دو سے تین بار گھر کا چکر لگاتے تھے۔ ان کی بیگم کافی کھلی ڈلی طبیعت کی تھیں۔ اورمحلے کے کئی افراد موقع پاکر ان کے گھرآیا جایا کرتے تھے۔
ایک دن پہلے وہ اپنے معمول سے ہٹ کر گھر آئے تو کسی اجنبی کو اپنے بیوی کے پاس بیٹھے دیکھ کر شدید غصے میں آگئے اور گھرمیں پڑے پسٹل سے دونوں کو بھون ڈالا۔ بعد میں خود بھی خودکشی کرلی۔
واقعہ اتنا اندوہناک تھا کہ اس پر سوائے افسوس کے اور کہا جا سکتا تھا۔ چنانچہ ہم نے یہ بات جب اپنے اسی دوست کو بتائی تو
یاحیرت۔۔۔ ٹھک سے بولے
اوہ۔۔ معاملہ اس بھی خراب ہوسکتا تھا۔
ہم ہکے بکے رہ گئے۔
کیسے؟؟؟؟
ان کا پورا گھر اجڑ گیا ۔ اب معاملہ اس سے زیادہ کیا خراب ہوسکتا تھا؟؟؟
بہت پرسکون ہو کر بولے
اچھا یہ بتاو۔ یہ واقعہ کب پیش آیا۔
ہم نے کہا کہ کل
بولے
اگر عزیزالدین پرسوں اسی ٹائم پر گھر آجاتے تو یہ خاکسار زندہ آپ کے سامنے کھڑا نہ ہوتا۔
اب بتاؤ معاملہ اس سے زیادہ خراب ہو سکتا تھا کہ نہیں
ہم تو گنگ ہو کر رہ گئے۔