صفحات

Sunday, July 5, 2015

پہلا روزہ

پہلا روزہ
محمد نور آسی

ہمیں نہ تو کسی نے مجبور کیا ، بہت ضد کی یا منت سماجت کی کہ خدا کے اپنے پہلے روزے کے بارے میں  اپنا ایک ادبی  شاہکار  اپنے "زورقلم اور زیادہ " والے قلم  سے  عنائت کریں  اور نہ ہی کسی نے ان باکس میں کوئی مسیج کیا نہ کسی نے ٹیک کیا۔  پھربھی پتہ نہیں کیوں ہم نے یہ تحریرلکھی ہے بلکہ اپنے ایک عدد بوسیدہ بلکہ خزان رسیدہ  بلاگ پر بھی ڈال دی ۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلاروزہ رکھے ویسے تو اب اتنے سال بیت گئے ہیں کہ بہت ساری تفصیلات ذہن میں نہیں تاہم ماہ رمضان سے جڑے اپنے بچپن کے کچھ ایسے واقعات ضرور یاد ہیں جو کل کی طرح تازہ لگتے ہیں۔  پہلا روزہ جب رکھا تو یہ یاد نہیں کہ کیا کھایا کیا پیا البتہ شام کو جو آؤ بھگت ہوئی وہ نہیں بھولتی ۔  گھروالوں کے علاوہ خصوصا خالہ ، پھوپھو اور کزن نے جو تحائف پھلوں اور دیگر کھانے کی اشیاء اور نقدی  کی صورت میں دیے تو  دل کرتا تھا اب روزانہ روزہ ہی رکھیں گے ۔ وہ تو امی آڑے آ جاتی کہ معصوم جان اور سخت گرمی ۔ بس ایک روزہ کافی ہے ۔ ہاں جس دن موسم ٹھیک ہو گا اس دن رکھ لینا ۔
جمعے کا روزہ ضد کرکے رکھتے تھے۔ ایک دفعہ روزہ رکھنے کے بعد شام کو دوستوں کے ساتھ جھیل پر گئے وہاں کافی دیر کھیلتے رہے اور واپسی پر دوستوں کے ساتھ ٹافیاں کھالیں ۔ بالکل خیال نہ آیا کہ روزہ ہے۔ جب گھر آیا تو بڑی بہن نے پوچھا کہ ابھی تک روزہ قائم ہے یا کچھ کھا پی لیا تھا۔ ایک دم خیال آیا کہ ٹافی کھائی تھی۔ بس رو رو کر برا حال ہو گیا۔ میرا روزہ ٹوٹ گیا میرا روزہ ٹوٹ گیا۔ سب چپ کرواتے رہے بہلاتے رہے اور سمجھا تے رہے کہ بھول چوک کر کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا مگر میں ماننے کو تیار نہ تھا۔ ۔۔دکھ اور افسوس اتنا شدید تھا کہ  افطاری تک روتا ہی رہا ۔
ماں جی کے ہاتھوں سے سحری میں  بنے پراٹھوں کی لذت دوپہر کو اور سوا ہوجاتی تھی اور جو مزہ دوپہر کو ان پراٹھوں کو کھا کر آتا تھا وہ ابھی تک بھول نہیں پایا۔ ماہ رمضان واقعی بہت رونقوں بھرا مہینہ ہوتا تھا۔ صبح سے شام تک ایک الگ ہی ماحول ہوتا تھا۔خصوصا تراویح ایک ایسی پرکشش عبادت لگتی تھی کہ رمضان کے بعد  بھی اس کا ذکر اپنے سکول کے دوستوں میں ہوتا رہتا کیونکہ تراویح میں شرارتیں بھی ہوتی تھی اور برزگوں سے ماربھی کھاتے تھے۔ تراویح پڑھنے کا انداز بھی مختلف تھا۔ جب امام تراویح کے لئے کھڑا ہوتا تو ہم سب بیٹھے رہتے جونہی امام رکوع پر جاتا سب بھاگ کر نیت کرتے اور رکعت میں شامل ہوتے ۔
محلے ، مسجد میں افطاری بھجوانا ایک معمول تھا اور یہ افطاری بہت شوق سے تقسیم کرنا اپنا مشعلہ تھا۔ کیوں کہ اکثر اس سامان میں سے کچھ نہ کچھ اڑا بھی لیا جاتا تھا۔
گڑ کا شربت اب تو معدوم ہو چکا ہے لیکن یہ شربت میرے بچپن میں بہت شوق سے پیا جاتا تھا۔ اس میں بادام ، خسخاش بھی پیس کر ملایا جاتا ۔ تو لذت اور بڑھ جاتی تھی۔افطاری میں نمک سے افطار کرنا باعث ثواب سمجھا جاتا تھا۔ بعد نمک کی جگہ کھجور نے لے لی۔
تو یہ تھیں کچھ یا دیں کچھ باتیں

لنگر کے چاول

لنگر کے چاول
محمد نور آسی

اس دن صبح سے ہی ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے اور موسم بہت دلفریب ہورہا تھا۔ ایسے میں سفر کا مزہ اور دوبالا ہو جاتا 
ہے لیکن میرے لئے وہ شخص بہت الجھن کا باعث بن رہا تھا۔ میں نے اپنے ایک عزیز کو ملنے کے لئے لاہور جانا تھا۔ اسلام آباد سے ایک معروف کمپنی کی بس میں سوار ہوا تو موسم کی منا سبت سے ایک دھن خود بخود میرے ہونٹوں پر تھرکنے لگی ۔ بہت خوشگوار موڈ کے ساتھ جب اپنی سیٹ پر بیٹھا تو کچھ ہی دیر بعد جو صاحب میرے ساتھ آکر بیٹھے وہی میرے لئے کوفت اور الجھن کا سبب بن گئے۔جھٹ سے آتے ہی فرمانے لگے " آپ کہاں جارہے ہیں"
نہ سلام نہ دعا  ۔ مجھے نجانے کیوں ایک دم غصہ آگیا ۔
"ظاہر ہے بس لاہور جارہی ہے تو میں پشاور جانے سے تو رہا۔ لاہور ہی جارہا ہوں"
" گڈ۔ اس کا مطلب ہے آپ کے ساتھ سفر کافی اچھا گذرے گا۔ "
"کیا مطلب؟ "
" سادہ سی بات ہے۔ آپ بہت خوش مزاج لگ رہے ہیں سو آپ کے ساتھ اگلے کچھ گھنٹے بات چیت کرکے مزا آئے گا"
میں تو تلملا کر رہ گیا۔ اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی واقف کار نظر آئے تو سیٹ بدل لوں ۔ لیکن سب چہرے اجنبی تھے۔ بس ہوسٹس سے مد د لینے کا خیال آیا پھر اپنی فطری روادری اور جھجھک  آڑے آگئی ۔  سو چپ ہی رہا۔
میں دراصل دوران سفر خاموش رہنا ہی  پسند کرتا ہوں ۔ جو صاحب میرے ہم سفر بنے پہلے فقرے سے ہی مجھے اچھے نہ لگے ۔ اور وہ تھے کہ مسلسل سوال کیے جارہے تھے۔
اچھا آپ کہاں سے ہیں۔ کیا کرتے ہیں۔ لاہور کیوں جارہے ہیں۔ ؟
میں مختصر جواب دیتا رہا ۔ اور رواداری میں جب یہی سوال ان سے  پوچھے توگویا وہ جیسے انتظار میں تھے ۔ اپنے حوالے سے جو گفتگو شروع کی تو لاہور جا کر دم لیا۔ وہ صاحب دراصل بہت بڑے بزنس مین تھے ۔ اور ان کا بزنس پاکستا ن کے کئی شہروں میں پھیلا ہوا تھا۔ ان کے بزنس میں گاڑیوں کے سپیئر پارٹس سے لے کر لیپ ٹاپ تک شامل تھے ۔ کئی شہروں میں ان کے ذاتی محل نما گھر تھے۔ میں تو حیرت اور مرعوبیت کی کیفیت میں ان کی گفتگو سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ کسی کے بارے میں بھی فوری رائے نہیں قائم کرنی چاہیے ۔ اس کی گفتگو اس کے بزنس، دولت ، محلوں، گاڑیوں اور رنگ برنگی محفلوں  کے گرد گھومتی رہی۔ اور میں اس کی گفتگو کے دوران ایک تصوراتی دنیا میں اس کے ساتھ قدم بہ قد م چلتا رہا۔ یہاں تک کہ لاہور آگیا۔ ۔۔۔۔۔۔
وہ ایک دم اٹھ کر نیچے اترا اور پھر غائب ہو گیا ۔ میں نے اسے آگے پیچھے بہت دیکھا لیکن وہ نہ ملا ۔ حالانکہ میں تو سوچ رہا تھا کہ وہ مجھے اپنا محل دیکھنے کی دعوت دے گا۔
خیر میں  باہر آکر داتا دربار جانے والی ویگن میں بیٹھا ۔ یہ میرا معمول تھا ۔ جب بھی لاہور آ تا سب سے پہلے داتا حاضری لگواتا ۔ راستے میں مجھے ایک دفعہ شک ہوا کہ ایک گذرتی ویگن میں وہی میرا ہم سفر بیٹھا ہوا ہے۔ لیکن میں نے اسے ایک وہم سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ داتا دربار پہنچا تو نماز کا ٹائم ہو چکا تھا۔ نماز ادا کی اور باہر نکلنے لگا تو اچانک میری نظر ایک طر ف بیٹھے ایک بندے پر پڑی جو ایک شاپنگ بیگ پکڑے اس میں سے لنگر کے چاول ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ ۔۔ یہ بندہ وہی میرا ارب پتی ہم سفر تھا

Thursday, December 4, 2014

تکیہ کلام

تکیہ کلام
از محمد نو آسی
یہ تکیہ کلام بھی کیا عجب چیز ہے۔ جس بندے سے چپک جائے پھر جان نہیں چھوڑتا۔ عمومی تکیہ کلام تو خیر پھربھی قابل برداشت ہوتے ہیں  جیسے " اور سنائیں" یا پھر " تو میں کہ رہا تھا"ٗ لیکن کچھ لوگوں کا تکیہ بہت الجھاؤ پیدا کرتا ہے۔
میرے ایک دوست ہیں جن کا تکیہ کلا م ہے " اچھا پھر کیا ہوا؟" ۔ اب آ پ کوئی بھی بات کریں اور وہ مکمل بھی ہوجائے تو موصوف ضرور بولیں گے اچھا پھر کیا ہوا۔ ایک دفعہ ان سے بات ہورہی تھی کہ اپنے فلاں کلاس فیلو کا انتقال ہو گیا ۔
حسب عادت بولے" پھر کیا ہوا"
 بھئی مرحوم کا جنازہ  ہوا اور میں جنازے میں شریک ہوا ۔
بولے اچھا پھر کیا ہوا؟
"بس جنازے کے بعد میت کو قبرستان لے گئے اور دفنایا"
اچھا پھر کیا ہوا
میں بھنا کر رہ گیا۔
اب میں انہیں قبر کا احوال تو بتانے سے رہا۔
ایک اور مہربان ہیں۔ جن کا تکیہ کلام ہے " بس مت پوچھو"
جب  بھی ملتے ہیں بدحواسی چہرے پر ایسے جلوہ فرما ہوتی ہے۔  جیسے خواتین کے چہرے پہ میک اپ
حال پوچھو تو وہی جواب
بس مت پوچھو ۔
کئی دفعہ جھنجھلا کر اگر کہ کہ اچھا نہیں پوچھتے تو
بنا پوچھے وہ رام لیلا چھیڑتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔
بیگم کی پنڈلی میں ہونے والی خارش سے لے کر دودھ پیتے منے کے منہ کے چھالوں تک ساری تفصیل بتاکر ہی دم لیں گے۔ اور آخر میں یہ ضرور فرمائیں گے
بس مت پوچھو
ایک اور مہربان کا تکیہ کلا م کو بندے کو زچ کرکے رکھ دیتا ہے
جی ہاں ان کا تکیہ کلام ہے " معاملہ اس سے بھی خراب ہوسکتا تھا"
اب آپ ان سے دنیا جہاں کے کسی موضوع پر بات کرلیں۔ان کے مرغے کی ایک ٹانگ ہوگی۔
کسی دوست نے بتایا کہ بیٹے کو بخار ہوگیا ہے۔ کسی دوائی سے اتر نہیں رہا
تو بولے ۔ شکرکرو۔ معاملہ اس سے بھی خراب ہوسکتاتھا۔
دوست چڑ کر بولا
کیاخراب ہوسکتاتھا۔
بھئی دیکھو نا۔ بخار کا کیا ہے اتر ہی جائے گا لیکن خدانخواستہ بچے کو ہیپاٹائٹس بھی تو ہوسکتا تھا
اب وہ مارنے کو ہی دوڑے۔
ایک دوست کے بیٹے کا موٹر سے ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ۔
وہاں گئے تو حسب عادت بول دیا
کوئی بات نہیں۔ معاملہ اس بھی خراب ہوسکتا تھا۔
وہ دوست تو خیر چپ رہے لیکن ان کی بیوی چٹخ کر بولی
میرے بیٹے کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور آپ بول رہے ہیں کہ معاملہ اس سے بھی خراب ہوسکتا تھا۔
گڑبڑا کر بولے
جی جی۔ میرا مطلب تھا کہ دونوں ٹانگیں بھی تو ٹوٹ سکتی تھیں نا۔
پھر اس کے بعد حالات کیا بتائیں۔ ہم اس کی جگہ بھابی سے معافیاں مانگتے رہے۔
اور پینے کو پانی بھی نہ ملا
موصوف کئی مرتبہ مار کھا چکے ہیں لیکن مجال ہے جو اپنے تکیہ کلام سے پیچھے ہٹے ہوں
ہم نے کئی بار سوچا کہ کوئی ایسی صورت حال ہو کہ یہ صاحب اپنا فقرہ نہ بول پائیں ۔ لیکن انوکھی سے انوکھی صورت حال میں یہ موصوف اپنا راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔
لیکن آخرِکا ایک دن ایک ایسا اندوہناک واقعہ پیش آیا کہ ہم دوستو﷽ں کا خیال ہوا کہ اس واقعے پر وہ اپنا تکیہ بھول جائیںگے ۔
واقعہ کچھ یوں تھا کہ ہمارے محلے میں ایک صاحب عزیزالدین نامی رہتے تھے۔ جنہوں نے پچھلی عمر میں ایک نوجوان دوشیزہ سے شادی کی تھی۔ طبیعت کے انتہائی تیز اور شکی مزاج تھے۔ بازار میں پان کی دوکان تھی۔ دن میں دو سے تین بار گھر کا چکر لگاتے تھے۔ ان کی بیگم کافی کھلی ڈلی طبیعت کی تھیں۔ اورمحلے کے کئی افراد موقع پاکر ان کے گھرآیا جایا کرتے تھے۔
ایک دن پہلے وہ اپنے معمول سے ہٹ کر گھر آئے تو کسی اجنبی کو اپنے بیوی کے پاس بیٹھے دیکھ کر شدید غصے میں آگئے اور گھرمیں پڑے پسٹل سے دونوں کو بھون ڈالا۔ بعد میں خود بھی خودکشی کرلی۔
واقعہ اتنا اندوہناک تھا کہ اس پر سوائے افسوس کے اور کہا جا سکتا تھا۔ چنانچہ ہم نے یہ بات جب اپنے اسی دوست کو بتائی تو
یاحیرت۔۔۔ ٹھک سے بولے
اوہ۔۔ معاملہ اس بھی خراب ہوسکتا تھا۔
ہم ہکے بکے رہ گئے۔
کیسے؟؟؟؟
ان کا پورا گھر اجڑ گیا ۔ اب معاملہ اس سے زیادہ کیا خراب ہوسکتا تھا؟؟؟
بہت پرسکون ہو کر بولے
اچھا یہ بتاو۔ یہ واقعہ کب پیش آیا۔
ہم نے کہا کہ کل
بولے
اگر عزیزالدین پرسوں اسی ٹائم پر گھر آجاتے تو یہ خاکسار زندہ آپ کے سامنے کھڑا نہ ہوتا۔
اب بتاؤ معاملہ اس سے زیادہ خراب ہو سکتا تھا کہ نہیں
ہم تو گنگ ہو کر رہ گئے۔



Sunday, August 17, 2014

محبت سب کے لئے

محبت سب کے لئے

میری یہ تحریر آج سے کچھ سال پہلے پاک نیٹ پہ شائع ہوئی ۔ اور اس کے بعد یہ مختلف فورمز اور پیجز پر کاپی پیسٹ ہوتی 
  رہی۔ آج اتفاق سے کسی نے فیس بک پہ پوسٹ کی  تو میں اسے محفوظ رکھنے کی خاطر اپنے بلاگ پر لگا یا  ہے۔محمد نور آسی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

ایک ٹیچر اپنی کلاس کے معصوم بچوں کو محبت اور نفرت کا فرق سمجھا نا چاہ رہی تھی ۔ اس نے بچوں کو ایک کھیل کے
 ذریعے یہ سبق سکھا نے کا فیصلہ کیا ۔ اور بہت سوچنے کے بعد اس نے بچوں کو کہا
" بچو ہم ایک کھیل کھیلنے جا رہے ہیں ۔ جس کے آخر میں آپ کو ایک بہت شاندار سبق بھی حا صل ہو گا۔ کیا آپ سب یہ کھیل کھیلنے کیلئے تیار ہیں"
بچوں نے یک زبان ہو کر کہا" جی ۔ بالکل"
" تو بچو۔ آپ کو کرنا یہ ہے کہ کل جب آپ سکول آئیں تو اپنے ساتھ ایک شاپنگ بیگ میں اتنے ٹماٹر ڈال کرلائیں جتنے لوگوں سے آپ نفرت کرتے ہیں"
ٹیچر نے کہا
سب بچوں نے بڑے جوش و خروش سے ٹیچر سے وعدہ کیا کہ کل وہ ایسا ہی کریں گے۔
چنانچہ دوسرے دن ہر بچے کے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا۔ کسی میں ایک ٹماٹر ، کسی میں دو اور کسی میں پانچ ٹماٹرتھے۔ غرضیکہ ٹماٹڑوں کی تعداد ان لوگوں کی تعداد ظاہر کررہی تھی جتنے لوگوں سے وہ نفرت کرتے تھے۔
اب ٹیچر نے سب بچوں سے کہا۔" بچو۔ آپ سب لوگ اپنے اپنے شاپنگ بیگز کو
بند کرلیں اور ان کو ہر وقت اپنے پاس رکھنا ہے۔ چاہے آپ کلاس میں ہوں ، گھر میں ہوں، سورہے ہوں، کھانا کھا رہے ہوں۔ بس یہ شاپنگ بیگ آپ کے پاس رہے۔ اور ہاں یہ کھیل ایک ہفتہ کیلئے ہے۔ ایک ہفتے کے بعد اس کھیل کا اختتام ہوگا"
سب بچوں نے کہا" جی ۔ ہم سمجھ گئے۔ یہ تو بڑا آسان سا کھیل ہے"
لیکن یہ آسان کھیل بچوں کیلئے بہت مشکل ثابت ہوا۔ دوسرے ہی دن ٹماٹروں سے بد بو آنا شروع ہوگئ۔ مزید یہ کہ جن کے پاس زیادہ ٹماٹر تھے یعنی جو بچے زیادہ لوگوں سے نفرت کرتے تھے۔ ان کیلئے دہری مصیبت تھی۔ بدبو کے ساتھ وزن بھی اٹھانا، ہر وقت اپنے پاس رکھنا، ایک عذاب بن گیا ۔
جلد ہی بچے تنگ آگئے۔ لیکن کھیل تو ایک ہفتے کا تھا۔
تیسرے چوتھے دن ہی بچوں کی ہمت جواب دینے لگی۔ بد بو سے سب کا برا حال تھا۔ انہوں نے ٹیچر سے کہا" میڈم یہ کھیل جلدی ختم کریں ورنہ ہم بیمار ہو جائیں گے"
ٹیچر نے جو بچوں کی پریشانی دیکھی تو کہا" ٹھیک کھیل آج ہی ختم کردیتے ہیں- آپ لوگ جلدی اپنے اپنے شاپنگ بیگ متعلقہ جگہ پر ڈال کر ، ہاتھ دھو کر آئیں – پھر اس کھیل کے بارے میں بات کرتے ہیں"
بچے تو خوشی سے اچھل پڑے اور فورا باہر بھاگے۔ تھوڑی دیر جب سب بچے واپس کلاس میں آئے تو انکے چہروں پر تازگی کے ساتھ تجسس کے تاثرات موجود تھے اور وہ منتظر تھے کہ اس کھیل کا مقصد اور نتیجہ جان سکیں۔
ٹیچر نے سب بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
" بچو۔ آپ نے دیکھا کہ آپ جتنے لوگوں سے نفرت کرتے تھے ۔ انکی علامت کے طور پر ٹماٹر ساتھ رکھنا کتنا مشکل اور تکلیف دہ کام تھا۔
ہم جب کسی سے نفرت کرتے ہیں تو اس کا احساس ہمارے دل میں رہتا ہے۔
یہ احساس، یہ سوچ دماغ میں رہتی ہے۔ اور
یہ سوچ، یہ احساس ان ٹماٹروں کی طرح جب کئی دنوں تک پڑی رہتی ہے تو
بدبو پیدا کردیتی ہے، تعفن پھیلا دیتی ہے۔ ذرا سوچئے ہم کتنے مہینوں، سالوں سے یہ بدبو بھرا تعفن زدہ احساس اپنے دل میں رکھے ہوئے ہیں ۔ کیا ہمارا دل اس سے تنگ نہیں ہوتا؟
اس گندگی سے ہمارا دل اور دماغ میلے نہیں ہو جاتے ۔؟
اگر ہم اس بدبو اور گندگی کی جگہ محبت جیسا خوشبو انگیز احساس دل میں رکھیں تو ہمارا دل خوش نہیں ہوگا۔"
بچوں کو اب احسا س ہو رہا تھا۔ کہ میڈم کتنی بڑی سچائی بیان کررہی ہیں۔
تو بھائیو- بہنو
کیا ہم نفرت نہیں چھوڑ سکتے ۔
کیاہم اپنےدل و دماغ صاف نہیں رکھ سکتے ؟
صرف ایک احساس ، ایک جذبہ
محبت سب کیلئے