صفحات

Sunday, December 13, 2015

فرشتہ

فرشتہ
محمد نور آسی
آج صبح اچانک ہی آنکھ کھل گئی ۔ وقت دیکھا تو ابھی رات کے ساڑھے تین بجے تھے۔ حیرت سی ہوئی کہ ایسے کبھی پہلے نہیں ہوا۔ ہمیشہ موبائل کے الارم بجنے سے آنکھ کھلتی تھی۔ دوبارہ سونے کی کوشش کی لیکن نیند کوسوں دور بھاگ گئی۔ ایسے ہی سوچنے لگا ۔ اتنی جلدی آنکھ کھلنے کا سسب کیا ہے؟ کیا خواب میں کچھ ایسا دیکھ لیا۔ ذہن پہ زور دینے پر بھی کوئی خواب یا خواب سے متعلقہ کوئی منظر ذہن میں نہ آیا۔ بس الجھن سی ہونے لگی۔
کروٹ پہ کروٹ لیتا رہا نہ نیند آئی نہ بے چینی اور الجھن ختم ہوئی ۔ اتنے میں اذان کی آواز آئی ۔ سوچا جاگ تو رہا ہوں نماز پڑھ لوں۔ پلنک سے اٹھا اور جوتے پہن کر واش روم گیا ۔ وضو کرکے باہر نکلا تو بیگم بھی جاگتی نظر آئی۔
اس نے حیرت، غصے اور الجھن بھری نظروں سے مجھے دیکھا
میں نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا اور کمرے سے باہر نکلنے لگا تو پیچھے سے بیگم نے پوچھا
کہاں چلے
نماز کے لئے مسجد جا رہا ہوں۔
میں نے پلٹ کر جواب دیا۔
اور اسے حیرت اور الجھن میں ہی چھوڑ کر باہر آگیا۔
جب میں مسجد سے نماز پڑھ کر باہر نکلا تو محلے کے ایک صاحب نے سلام کیا اور حال احوال پوچھا ۔
میں نے اپنی خیریت سے آگاہ کرنے کے بعد اخلاقا اس سے خیریت دریافت کی تو اس نے بتا یا کہ اس کی بیگم پچھلے کئی دن سے ہسپتا ل میں داخل ہیں اور ڈاکٹر نے آپریشن کی تاریخ دی ہوئی ہے لیکن اس کی بیگم کے خون کا گروپ او نیگیٹو ہے ۔ جو کہ ایک کم باب گروپ ہے۔ ڈاکٹر ز نے کہا ہے کہ آپ کم از کم چھ بوتل او نیگیٹو گروپ کا انتظام کرلیں۔ ورنہ آپریشن مقررہ تاریخ کو نہ ہو سکے گا۔ اس نے اپنی سی پوری کوشش کر لی لیکن انتظام نہ ہو سکا۔ ہسپتال انتظامیہ نے کہا کہ وہ دو بوتل اس گروپ کے خون کی دے سکتے ہیں لیکن اس کے لئے اسے آٹھ بوتل کسی دوسرے گروپ کے خون کی دینی ہوں گی۔
وہ اسی پریشانی میں تھا اور اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے ۔
مجھے چند سال پہلے کا ایک منظر یا د آگیا۔
میں بھی اسی کی طرح پریشان ایک مشہور ہسپتال کے سامنے کھڑا اور تقریبا اسی طرح کی پریشانی سے دوچار تھا۔ تب ایک نوجوان نے مجھے سلام کیا اور کہا
سر آپ یہاں ؟ خیریت تو ہے۔
میں نے اسے جب بتایا کہ میری والدہ اسی ہسپتال میں ہیں اور انہیں فوری طور پر خون کی ضرورت ہے تو اس نوجوان نے میں مجھے کہا
اگرتو ایک بوتل چاہیے تو میں ابھی حاضر ہوں سر ورنہ مجھے صرف ایک گھنٹہ دیں ۔ میں اپنے سب دوستوں کو بلا لیتاہوں۔
میں نے اس دن پہلی بار ایک فرشتے کو انسانی شکل میں دیکھا تھا۔
مجھے سوچوں میں گم دیکھ کر وہ صاحب بولے
لگتا ہے آپ خود کسی پریشانی میں ہیں
نہیں نہیں۔ الحمدللہ ایسی بات نہیں ۔
آپ صرف یہ بتائیں کہ آپ کی بیگم کس ہسپتال میں ہیں۔ وارڈ اور بیڈ نمبر کیا ہے ۔
آپ کے لئے خون کا انتظام ہو جائے گا۔
وہ ایک دم سے جھٹکا کھا کر رک گیا۔
سچ کہ رہے ہیں آپ ؟
میں نے اسے مکمل تفصیل سے بتا یا کہ میں اس کے لئے کیسے خون کا انتظام کر سکتا ہوں اور یہ کا م میرے لئے کوئی مشکل نہیں ۔ تو اس کی آنکھیں بے اختیار نم ہو گئیں۔
اور اس نے ایک مجھے گلے لگا لیا۔
اور کہا
قسم کھا کر کہ رہاہوں ۔ میں نے آج زندگی میں پہلی بار ایک فرشتے کو انسانی شکل میں دیکھا ہے۔
میں چپ تھا ۔ لیکن مجھے صبح سویرے آنکھ کھلنے کی وجہ سمجھ میں آگئی

Sunday, November 22, 2015

غلطی کہاں ہوئی

غلطی کہاں ہوئی
محمد نور آسی

آج صبح بیگم کو اٹھایا اور اس سے پوچھا جان! واک کیلئے میرے ساتھ چلو گی؟ 
بیگم نے نیم غنودگی میں جواب دیا " کیا مطلب؟ تمھارا خیال ہے میں موٹی ہو گئی ہوں؟
" نہیں ، نہیں۔۔ واک صحت کے لئے اچھی ہے"
 بیگم: اوہ۔۔۔ اس کا مطلب ہے میں بیمار ہوں 
میں: قطعا نہیں۔۔ میری جان اگر تم واک پہ نہیں جانا چاہتی تو کوئی بات نہیں۔ 
بیگم: تو تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ میں سست ہوں۔ ہیں؟ 
میں: بالکل نہیں ۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا ۔ تم بلاوجہ الجھ رہی ہو 
بیگم: واہ واہ۔۔۔ ۔۔تو گویا میں لڑاکا بیوی ہوں۔بس لڑنے کا بہانہ ڈھوندتی ہوں ۔ ہیں نا؟
 میں: اچھا چھوڑو۔ بہتر یہی ہے کہ میں بھی واک پہ نہ جاؤں
 بیگم: ہوں ں ں ۔۔۔ تو یوں کہو نا ۔ تم خود واک پہ جانا نہیں چاہ رہے۔ پھر مجھے کیوں الزام دے رہے ہو
 میں: اچھا بابا۔ تم پھر آرام سے سوتی رہو۔ میں واک پہ جا رہا ہوں 
بیگم: روہانسے انداز میں ۔ تم ہمیشہ اکیلے ہی ہر جگہ جاتے ہو۔ تم تو چاہتے ہی یہی ہو
 میں: افوہ۔۔۔ میر ا تو دم گھٹنے لگا ہے صبح صبح ۔
 بیمگم: دیکھا؟ میں ٹھیک کہتی ہوں ۔ تم خود غرض ہو۔ صرف اپنی فکر رہتی ہے۔ میری صحت کا تمھیں ذرا خیال نہیں
 ای ای ای ای ۔۔۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ 
میں ابھی تک ٹی وی روم میں بیٹھا ہوں ۔ سوچ رہا ہوں ۔ واک پہ جاؤں کہ نہ جاؤں ویسے بائی داوے آپ بتائیے ۔۔۔ مجھ سے کیا اور کہاں غلطی ہوئی ہے؟

مختصر سی زندگی

مختصر سی زندگی
محمد نور آسی


زندگی بہت مختصر ہے یہ فقرہ تو ہم دن میں شاید کئی بار سنتے ہیں ۔ لیکن کبھی غور نہیں کیا ۔ مختصر کیوں ، کیسے؟ اگر کسی کی عمراللہ کریم نے 50 سال لکھی ہے ، 70 سال لکھی ہے یا 100 سال- تو وہ دنیا میں اتنے ہی سال گذار کر جائے گا۔ پھر مختصر کیوں ہے زندگی ؟ میں کوئی مذہبی سکالر نہیں ۔ لیکن ایک بات جو اپنی کم علمی کے اعتراف کے باوجود جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم جب اپنی گذشتہ زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے گذارے گئے دس ، بیس ، تیس سال تو گویا کل کی بات ہے۔ یوں گذرے گئے جیسے اک لمحہ گذرا ہو۔ اسی سے قیاس کرکے جب یہ سوچ ذہن میں آتی ہے کہ جب نزع کا عالم ہو گا تو ممکن ہے اس وقت ہمیں یہی محسوس ہو کہ ہماری 60، 70 زندگی یوں پلک چھپکتے گذر گئی کہ پتہ بھی نہ چلا۔ تو پھر شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ زندگی مختصر ہے۔ ہاں سچ ہی تو کہتے ہیں۔ ذرا ایک لمحے کے لئے تصور کیجئے ۔ وہ پہلا دن جب آپ اسکول گئے۔ کل کی بات لگتی ہے نا۔ بے شک سر کے بال سفید ہوگئے یا سفیدی کی جانب سرک رہے ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے ابھی تو ہم جوان ہیں۔ کوئی انکل بولے یا آنٹی تو حیرت سی ہوتی ہے۔ ہوتی ہے نا؟ اصل میں یہ زندگی کیا ، دنیا کی ہر چیز ہی گویا دھوکہ ہے۔ جیسے دن ، مہینے، سال ہمیں دھوکہ دیتے ہیں ، دنیا میں ہر چیز ویسے ہی نظر کا دھوکہ ہی ہے۔ جو بات کل ناممکن تھی آج ہمارے لئے ایک عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے۔ ذرا سوچیئے ۔۔۔ کیا کچھ سال پہلے تک کوئی سوچ سکتا تھا کہ اپنے گھر میں بیٹھے ، بناکسی تار، کسی ظاہری وسیلے کے ہزاروں میل دور بسنے والوں سے نہ صرف بات کی جا سکتی ہے بلکہ ا ن کو دیکھا بھی سکتا ہے۔ سچ پوچھیئے تو اگر کوئی سو سال پہلے کا فرد آج اگر زندہ ہو جائے تو شاید یہ سب کچھ دیکھ کر حیرت سے دوبارہ مرجائے۔ یہ سب کیا ہے؟ کیونکر ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو ہماری آواز کو ، تصویر کو ہزاروں میل دور ایک چھوٹی سی ڈیوائس یا موبائل فون تک پہنچادیتی ہے۔ سائنس کہتی ہے۔فضائے بسیط جو عام نظر کو خالی نظر آتی ہے ۔ یہ سب ایک مخصوص مادے سے بھری ہے۔ ہم جہاں بیٹھتے ہیں ، کھڑے ہوتے ہیں ۔ کچھ دیر تک اس فضا میں ہمارے چلے جانے کے باوجود ہمارا عکس موجود رہتا ہے۔ کیوں؟ ہماری آوازیں اسی کائنات کے کسی بڑے ڈیٹآ سٹوریج میں محفوظ ہو رہی ہیں۔ بلکہ جو کچھ اب تک کہا گیا، بولا گیا وہ لفظ ، وہ آوازیں اسی کائنات میں موجود اور محفوظ ہیں۔ ہم دھوکے پہ دھوکہ کھار ہے ہیں ۔ تو پھر اس زندگی کا کیا کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ایسا کریں نا کہ جو محفوظ ہو وہ باعث شرمندگی نہ ہو۔ زندگی دھوکہ سہی اس کا ماحصل دھوکہ نہیں ۔ ایک بہت چھوٹا سا لیکن بہت گہرا نقطہ ہے۔ دھوکہ کھانے والے جب جان بوجھ کر دھوکہ کھاتے ہیں تو اس کے پیچھے کوئی مقصد ہوتا ہے۔ دھوکہ ہی کھانا ہے نا تو جان بوجھ کر کیوں نہ کھائیں۔
ایک دوست کے ساتھ کہیں جارہا تھا۔ راستے میں ایک ٹھیلے والے کے پاس پڑے پھل اچھے لگے تو رک گئے۔ ریٹ پوچھا تو میں نے بھاؤ تاؤ کرنے کی کوشش کی۔ مجھے دوست نے روک دیا ۔ کہا ۔" بس جو بھی بھاؤ لگائے اس سے پھل لے لو" میں نے ایسا ہی کیا لیکن پھر اس سے پوچھا کہ کیوں؟ کہنے لگا" اس ٹھیلے والے کے پاس کل سامان ہی ہزار پندرہ سو کا ہے۔ اس نے اسی سامان سے اپنے گھروالوں کے لئے کچھ روٹی کا بندوبست کرنا ہے۔ ہم اس سے بھی بھاؤ تاؤ کر کے خریدیں گے تو اس کو کیا بچے گا؟۔ ہم روزانہ کتنے خرچ کرتے ہیں کبھی حساب نہیں کیا۔ لیکن اس ٹھیلے والے سے دو دو روپے کے لئے کیوں بحث کرتے ہیں"
کیوں؟ واقعی کیوں؟

کائنات کی ہر چیز دوسروں کےلئے ہے۔ یہ نکتہ جس جس کو سمجھ آیا وہ کامیاب ہوا۔لیکن  زندگی میں کچھ  کرنے کے لئے ، دوسروں کو کچھ دینے کے لئے بھی تو کسی مرشد، کسی استاد ، کسی بزرگ سے وابستگی ضروری ہے۔
بعض اوقات سامنے کی بات سمجھ نہیں آتی ۔ سینکڑوں کتابوں، ہزاروں فلسفوں کے بیچ الجھنے والے سادہ سی بات بھی نہیں سمجھ پاتے۔
بجلی کا کام کرنے والا بتا تا ہے ۔ صاحب بلب تب روشنی دیتا ہے جب وہ کسی تار سے وابستہ ہوتا ہے، تار کسی بورڈ سے جڑی ہوتی ہے۔ بورڈ کسی لائن سے اور لائن کسی گرڈ سٹیشن سے۔
سامنے کی ہی بات ہے۔ لیکن سمجھ بہت دیر میں کیوں آتی ہے۔
خود کو عقل کل سمجھنا ہی سب سے بڑی نادانی ہے۔ سرنڈر کرنا سیکھنا ہوتا ہے۔ تب کچھ ملتا ہے۔ صاحب جی ابلیس کی کہانی تو یاد ہے نا۔ سرنڈر کرنے سے انکار کیا۔ تو سب کچھ ضائع کر بیٹھا۔
کسی استاد ، کسی مرشد، کسی بزرگ کے آگے سرنڈر کرو۔جو آپ کی تاریں کسی بورڈ سے جوڑ دے۔ آپ کا رابطہ گرڈ اسٹیشن سے ہوگا تو کرنٹ آئے گا ۔ورنہ دھوکے پہ دھوکہ کھاؤ گے۔
گذرے پل اور آنے والے پل کے بیچ میں کچھ ایسا ہے جو ہم سمجھ نہیں پاتے۔
بس ذرا غور کرنے پڑتا ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھنا پڑتا ہے

Sunday, July 5, 2015

پہلا روزہ

پہلا روزہ
محمد نور آسی

ہمیں نہ تو کسی نے مجبور کیا ، بہت ضد کی یا منت سماجت کی کہ خدا کے اپنے پہلے روزے کے بارے میں  اپنا ایک ادبی  شاہکار  اپنے "زورقلم اور زیادہ " والے قلم  سے  عنائت کریں  اور نہ ہی کسی نے ان باکس میں کوئی مسیج کیا نہ کسی نے ٹیک کیا۔  پھربھی پتہ نہیں کیوں ہم نے یہ تحریرلکھی ہے بلکہ اپنے ایک عدد بوسیدہ بلکہ خزان رسیدہ  بلاگ پر بھی ڈال دی ۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلاروزہ رکھے ویسے تو اب اتنے سال بیت گئے ہیں کہ بہت ساری تفصیلات ذہن میں نہیں تاہم ماہ رمضان سے جڑے اپنے بچپن کے کچھ ایسے واقعات ضرور یاد ہیں جو کل کی طرح تازہ لگتے ہیں۔  پہلا روزہ جب رکھا تو یہ یاد نہیں کہ کیا کھایا کیا پیا البتہ شام کو جو آؤ بھگت ہوئی وہ نہیں بھولتی ۔  گھروالوں کے علاوہ خصوصا خالہ ، پھوپھو اور کزن نے جو تحائف پھلوں اور دیگر کھانے کی اشیاء اور نقدی  کی صورت میں دیے تو  دل کرتا تھا اب روزانہ روزہ ہی رکھیں گے ۔ وہ تو امی آڑے آ جاتی کہ معصوم جان اور سخت گرمی ۔ بس ایک روزہ کافی ہے ۔ ہاں جس دن موسم ٹھیک ہو گا اس دن رکھ لینا ۔
جمعے کا روزہ ضد کرکے رکھتے تھے۔ ایک دفعہ روزہ رکھنے کے بعد شام کو دوستوں کے ساتھ جھیل پر گئے وہاں کافی دیر کھیلتے رہے اور واپسی پر دوستوں کے ساتھ ٹافیاں کھالیں ۔ بالکل خیال نہ آیا کہ روزہ ہے۔ جب گھر آیا تو بڑی بہن نے پوچھا کہ ابھی تک روزہ قائم ہے یا کچھ کھا پی لیا تھا۔ ایک دم خیال آیا کہ ٹافی کھائی تھی۔ بس رو رو کر برا حال ہو گیا۔ میرا روزہ ٹوٹ گیا میرا روزہ ٹوٹ گیا۔ سب چپ کرواتے رہے بہلاتے رہے اور سمجھا تے رہے کہ بھول چوک کر کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا مگر میں ماننے کو تیار نہ تھا۔ ۔۔دکھ اور افسوس اتنا شدید تھا کہ  افطاری تک روتا ہی رہا ۔
ماں جی کے ہاتھوں سے سحری میں  بنے پراٹھوں کی لذت دوپہر کو اور سوا ہوجاتی تھی اور جو مزہ دوپہر کو ان پراٹھوں کو کھا کر آتا تھا وہ ابھی تک بھول نہیں پایا۔ ماہ رمضان واقعی بہت رونقوں بھرا مہینہ ہوتا تھا۔ صبح سے شام تک ایک الگ ہی ماحول ہوتا تھا۔خصوصا تراویح ایک ایسی پرکشش عبادت لگتی تھی کہ رمضان کے بعد  بھی اس کا ذکر اپنے سکول کے دوستوں میں ہوتا رہتا کیونکہ تراویح میں شرارتیں بھی ہوتی تھی اور برزگوں سے ماربھی کھاتے تھے۔ تراویح پڑھنے کا انداز بھی مختلف تھا۔ جب امام تراویح کے لئے کھڑا ہوتا تو ہم سب بیٹھے رہتے جونہی امام رکوع پر جاتا سب بھاگ کر نیت کرتے اور رکعت میں شامل ہوتے ۔
محلے ، مسجد میں افطاری بھجوانا ایک معمول تھا اور یہ افطاری بہت شوق سے تقسیم کرنا اپنا مشعلہ تھا۔ کیوں کہ اکثر اس سامان میں سے کچھ نہ کچھ اڑا بھی لیا جاتا تھا۔
گڑ کا شربت اب تو معدوم ہو چکا ہے لیکن یہ شربت میرے بچپن میں بہت شوق سے پیا جاتا تھا۔ اس میں بادام ، خسخاش بھی پیس کر ملایا جاتا ۔ تو لذت اور بڑھ جاتی تھی۔افطاری میں نمک سے افطار کرنا باعث ثواب سمجھا جاتا تھا۔ بعد نمک کی جگہ کھجور نے لے لی۔
تو یہ تھیں کچھ یا دیں کچھ باتیں