صفحات

Sunday, March 17, 2013

مشکل کشا ہتھیار


 مشکل کشا ہتھیار


اررے ارررررے

گھبرائیں نہیں
میں کسی ایسے ہتھیار کی بات نہیں کر وں گا جس کیلئے لائسنس کی ضرورت پڑے
بس ایک سادہ سا ہتھیارہے
جو آپ کی بہت سی مشکلوں کو آسان کرنے میں فی زمانہ بہت کارآمد ہے

جی ہاں ۔۔ اور ہتھیار کا نام ہے
خوشامد
جی خوشامد گرچہ بہت پرانا ہتھیار ہے مگر اس جدید دور میں بھی بہت زبردست کام کرتا ہے۔
کوئی بھی کام نکلوانا ہو۔۔
فورا خوشامد شروع کر دیں۔ اور پھر دیکھیں اس کا کمال
لیکن اس کیلئے سب سے پہلے بندے کو
اپنی " میں" مارنی پڑتی ہے۔
تھوڑا سا ڈھیٹ‌ہو نا پڑتا ہے۔
اس اس مقولے پر عمل کرنا پڑتا ہے کہ
عزت آنے جانے والی چیز ہے
وہ اپنے اس سیاستدان کا قصہ آپ نے ضرور سنا ہوگا۔
جو سرکاری عہدیداروں کو گالی دے کر کہتا تھا۔
اس کی کیا مجال کہ میری بات ٹالے، میرا کام نہ کرے۔
میں ابھی اس سے ملتاہوں
اور پھر صاحب کے کمرے میں جا کر پاوں پڑ جا تا تھا ،
سرجی میری "عزت" کا سوال ہے۔
بس جب کام ہوجا تا تو اکڑ کر کہتا۔
ارے سالا کیسے نہ کام کرتا ۔میرے آگے اسکی حیثیت ہی کیا ہے

سو یہ خوشامد بڑے کام کا ہتھیار ہے۔
میں نے سرکاری دفتروں بہت سے نااہلوں کو اس ہتھیار سے بڑے بڑے افسر شکار کرتے دیکھا ہے۔
اور اہل ، ایماندار بندوں کو اس ہتھیار سے عدم واقفیت کی بنیاد پر رلتے دیکھا۔
کیا ظالم ہتھیار ہے

مس کالو جی۔ ایک نئی سائنس

مس کالو جی۔ ایک نئی سائنس
محترم قارئین
آپ نے بیا لوجی، سائیکا لو جی ، فزیالوجی وغیرہ تو پڑھا یا سنا ہو گا
یہ مس کا لوجی کیا ہے؟ 
یہ ہم آپ کو بتا تے ہیں 
یہ در اصل دو الفا ظ سے مل کر بنا ہے 
  مس کال اور لوجی 
 یعنی وہ علم جس میں مس کالوں کی سائنس کے بارے میں پڑھا یا جاتا ہے
جی ہاں یہ بالکل نئی سائنس ہے
اور اسکی دریافت بلکہ ایجا د کہئیے ، کا سہرا سب پاکستانیوں کے سر پر ہے
 سب سے پہلے کس نے مس کال ماری- اس کے بارے میں کوئی مصدقہ حوالہ 
موجود نہیں تاہم غیر معتبر راویوں کا بیان ہے اور اغلب یہی ہے کہ کسی عاشق نامراد نے حسب روائت تہی بیلنس ہونے کی صورت میں اپنی محبوبہ کو ماری ہوگی۔ 
راوی اس بارے میں خاموش ہے کہ آیا اسکی محبوبہ نے آگے سے کیا رسپانس دیا؟
مس کا ل ایک فن ہے ، ایک سائنس ہے
یہ ہر کسی کے بس کا کھیل نہیں ۔۔
بہت سارے سیدھے ، اس سائنس سے نا واقف لوگ 
مس کا لیں مارتے مارتے اپنا بیلنس زیر و کر بیٹھتے ہیں اور پھر حیران ، پریشان ہو کر کہتے ہیں
 یہ موبائل کمپنی والے بڑے بے ایمان ہیں ۔ ابھی کل ہی سوروپے بیلنس ڈلوایا تھا
ایک دفعہ بھی بات نہیں کی اور بیلنس زیرو۔ لعنت ہو ۔۔۔۔ کمپنی پر
اب ان سیدھے سادے ، مس کالوجی کے فن سے ناواقف لوگوں کو کون سمجھائے کہ
وہ تما م مس کا لیں جو انہوں نے مفت با ت کرنے کے چکر میں ماری تھیں وہ
 وصول" ہو چکی ہیں ۔ اب بیلنس زیر و تو ہو نا ہی ہے
۔۔۔۔
ہماری نوجوان نسل کے قربان ۔ مس کا لوجی کے فن میں اس قدر طاق اور 
اس سائنس کی باریکیوں سے اس قدر واقف ہیں کہ دس روپے سو دفعہ بات کرلیتے 
ہیں اور مجا ل ہے جو ایک پیسہ بھی ضا ئع ہو
اور مس کالوں کی مخصوص تھیوری پر انکی تحقیق تو کمال کی ہے
ایک نوجوان نسل کے نمائند ہ مس کا لو جسٹ سے پچھلے دنوں بات ہوئی
وہ وہ نکتے بتا ئے کہ الامان
مثلا ۔ اگر لڑکی کو ایک مس کال ماری جا ئے تو اس کا مطلب یہ ہو گا 
اور اگر دو کالیں ماری جا ئیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا
اسی طرح جو ابی کالوں کی تھیوری بھی بہت پر لطف تھی
۔۔۔
کہنے لگا " دیکھیں جی۔ ہم تو سدا سے جیب خرچ پر چلنے والے لو گ ہیں ۔
تو مس کا لوجی میں کمال حا صل کر کے ہم نے اس سا ئنس کو اپنی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔"
مس کالوجی کے فن سے ناواقف جہاں اپنا بیلنس بھی ضائع کر بیٹھتے ہیں اور بات بھی نہیں ہو پاتی ۔ وہیں اس کے سائنس کے ماہرین اس سے بے تحا شا فوائد بھی حا صل کررہے ہیں ۔ 

ایک ماہر مس کا لوجسٹ نے بتا یا کہ مس کال مارنے کے اہم نکا ت درج ذیل ہیں
  وقت
مس کال مارنے کا وقت موزوں ہو نا چا ہیے ۔ یعنی ایسا وقت جب مس کال " وصولی" کا امکان نہ ہو۔ ورنہ مس کال مسٹر کا ل ہو جا ئے گی ۔ یعنی لینے کے دینے پڑ جا ئیں گے۔ 
ماہر مس کا لوجسٹ کے بقول جس بندے یا بندی کو مس کال مارنی ہو اسکے معمولات سے واقفیت بہت ضروری ہے
مس کا ل کا دورانیہ 
یہ بہت اہم ہے۔ مس کال مارتے وقت ایک انگلی ریڈ بٹن پر رکھنی چائیے ۔ جیسے ہی بیل بجے ٹھک سے کال کا ٹ دیجیئے ۔ ایک لمحے کی تا خیر گلے پڑ سکتی ہے۔
اس کے لئے پہلے ریا ضت بہت ضروری ہے۔ 
اپنے گھر کے افراد یا دوستوں کے ساتھ اسکی بار بار پریکٹس کر نے سے ہی کمال حا صل ہو گا۔
مس کا ل میں وقفہ کا استعمال
یہ ایک پر لطف سائنس ہے۔ جس سے آپ مس کا ل وصول کرنے والے کو جوابی کال کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
مس کا ل کبھی ایک ساتھ دوبار ہ نہیں مارنی چا ہیے ۔ اس طرح مسٹر کا ل ہونے کا احتمال بڑھ جا تا ہے
وقفے کا استعمال بھی ایک فن ہے
اس کے لیے ایک مس کا ل مارنے کے بعد لمبا وقفہ دینا چا یئے ۔
تاکہ اگر مخالف پارٹی آپ کے خلاف جا رحا نہ عزائم رکھتی ہو تو اسے انتظار کی مار دیں ۔ یہاں تک کہ وہ مایوس ہو کر مو بائل پاکٹ، پرس میں ڈال دے۔ 
پھر دوبارہ مس کا ل دیں ۔ 
یوں وقفوں وقفوںسے دی گئی مس کا لیں ۔ وصول کرنے والے کو زچ کر دیں گی اور اسکے پاس اس کے علا وہ چارہ نہ ہو گا کہ آپ کو کال کرے
 یہ صورت حال کا فی خطرناک نظر آرہی تھی ۔
کیونکہ مس کا لوجسٹ سے بات کرنے کے بعد جب میں نے غور کیا تو 
یہ بات واضح ہو ئی کہ میں ان معصوم شہریوں میں شا مل ہوں جو اس سائنس کا شکا ر ہو چکے ہیں
میں خود کئی ایسے پیشنٹس کو کال کرچکا ہوں جنہوں نے مس کا ل مارکر 
دس دس منٹ بات کی ۔
کئی واقفت کا ر میرے خرچے پر آدھا آدھا گھنٹہ بات کرتے رہے۔ اور میں سمجھتا رہا
کہ وہ میری ہمدردی میں بات کررہے ہیں ۔ حالانکہ انہوں نے مس کالوجی کی سا ئنس استعمال کی تھی۔
میں اس صورت حال پر کا فی پریشان ہو ا تو ایک ماہر مس کا لیا ت سے رابطہ کیا 
جنہوں نے کچھ نکتے سمجھا ئے 
آپ بھی سنئے ، سر دھنئے ، اور عمل کیجیئے
 مس کال سے بچنے کیلئے اپنا موبا ئل ہا تھ میں رکھیں۔انگلی یس بٹن پر ہو۔ 
 موبائل وائبریشن پر رکھیں ۔
جیسے ہی وائبر یشن ہو ۔ نمبر دیکھے بغیر یس کا بٹن پر یس کر دیں۔
منا سب ہو کہ موبا ئل پر لائٹ سسٹم لگوا لیں ۔ 
جیسے لائٹ جلے ۔ یس کا بٹن دبا دیں۔
امید ہےدوچار کا لیں بجایے مس کال کے مسٹر کا ل ہو نے سے دشمن کا دماغ اور بیلنس ٹھکا نےپر آ جا ئے گا۔
تو یہ تھا مس کا لوجی کا تعارف ۔
امید ہے آپ کو نئے سائنسی اور فنی مضمون سے دلچسپی پیدا ہو ئی گی ۔
آج ہی کسی ماہر مس کا لو جسٹ سے رابطہ کریں۔


Saturday, March 16, 2013

جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے ہوگئے


جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے ہوگئے

بالاخر حکومت نے اپنے پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرلی۔ کیسے کر لی۔ اور اس آئینی مدت میں عوام کے ساتھ کیا ہوا۔ یہ ایک الگ قصہ ہے تاہم حکومت اور اپوزیش دونوں خوش ہیں۔ اور بہت باچھین کھلا کھلا کر اس بات کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بیان کر رہے ہیں گویا انہوں نے یہ کارنامہ سرانجام دے کر قوم پر احسان عظیم کیا ہے۔ اور قوم کو شکر گذار ہونا چاہیے کہ ہم اب ایک مکمل جمہوری ملک ہیں۔ سبحان اللہ ۔ کیا واقعی ۔ قوم کو خوش ہونا چاہیے۔
آئیے ذرا اس سوال کا جائزہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے لیتے ہیں۔
کیا عام آدمی کا معیار زندگی اس جمہوری حکومت کے سنہری پانچ سالہ دور میں بلند ہوا
کیا عام آدمی کو امن ، سکون اور اطمینان نصیب ہوا
کیا عام آدمی کو روزگار کے باعزت مواقع ملے۔
کیا ضروریات زندگی تک رسائی آسان ہوئی۔
کیا عام آدمی زندہ رہنے کے بنیادی  ضروریات جیسے پانی، بجلی ، گیس، ذرائع آمدورفت
اور اس جیسی دیگر سہولیا ت کی آسان اور سستی فراہمی ممکن ہوئی
کیا عام آدمی کو رہنے کے لئے چھت ، پہننے کے لئے کپڑے اور کھانے کے لئے خوراک حاصل کرنا کیا اس جمہوری حکومت نے آسان بنایا
ہر سوال کا جواب نفی میں ہے۔
آج کل کے دور میں زندگی کو اک عذاب بنانے والی اس جمہوری حکومت کو واقعی شاباش ملنی چاہیے؟
آپ خود ہی بتائیں۔

نسبت کی بات ہے


 نسبت کی بات ہے


ایک بچے نے دیکھا کہ ایک بزرگ گلیوں میں بکھرے ہوئے کچھ کاغذ اکٹھے کر رہا ہے
اور انہیں جھاڑ پونچھ کر تہ کرتاہے اور اپنے پا س موجود ایک لفافے میں ڈالتا جا تا ہے۔
وہ شکل سے کافی معزز نظر آرہا تھا اور کپڑے بھی بہت صاف ستھر ے پہنے ہوئے تھا۔

بچے کو تجسس ہوا کہ یہ کیا کر رہا ہے۔
وہ بزرگ کے پاس گیا اور پوچھا
"با با جی آپ یہ کیا کر رہے ہیں"
بزرگ نے بچے کو دیکھا اور بہت دردنا ک لہجے میں بولا
"بیٹے۔ میں اپنے پیارے وطن کے جھنڈے اٹھا رہا ہوں۔ جو لوگوں نے بھینک دیے ہیں"
بچے نے دیکھا اسکے ہا تھ میں کاغذ کی جھنڈیاں تھیں جو لوگ 14 اگست کو گھروں پر لگاتے ہیں۔ اور بارش یا ہوا سے وہ گلیوں میں بکھر جا تی ہیں۔
بچے نے کہا
" بابا جی 14 اگست تو گذر گیا ۔اب آپ ان جھنڈیوں کا جو پھٹ چکی ہیں۔ کیا کریں گے۔"
باباجی کے منہ سے ایک سرد آہ نکلی
"بیٹے میں انہیں کسی محفوظ جگہ پر رکھوں گا ۔ تا کہ ان کی بے ادبی نہ ہو"
"بے ادبی" بچے نے حیرت سے کہا " مگر یہ تو کاغذ کے ٹکڑے ہیں"
" جی ہا ں بیٹے۔ یہ کاغذ کے ٹکڑے ہیں ۔" بزرگ نے کہا" مگر ان پر پاکستان کا جھنڈا چھپا ہو ا ہے۔
اب ان کو میرے ملک سے نسبت ہو گئی ہے۔ اب یہ کاغذ کے ٹکڑے معزز اور مقدس ہو گئے ہیں۔
بیٹے ساری بات نسبت کی ہے"
بچہ نے بزرگ کی بات سمجھ لی اور کہا
"آئیں بابا جی۔ ہم دونوں مل جھنڈیا ں اکٹھی کرتے ہیں۔ واقعی یہ مقدس ہیں۔ انکی بے ادبی نہیں ہو نی چا ہیے"