صفحات

Monday, May 20, 2013

شادی ۔ ایک مذہبی فریضہ یا نمائش

شادی ۔ ایک مذہبی فریضہ یا نمائش
تحریر : محمد نور آسی

شادی ۔۔۔۔ شادی ۔۔۔۔
خانہ آبادی۔۔۔
ہر مذ ہب میں شادی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے - اسلام میں شادی حکم خداوندی کے ساتھ ساتھ سنت رسول بھی ہے۔
اسلام شادی کو معاشرے کی بنیا د کا پہلا پتھر قرار دیتا ہے ۔ اور قران میں بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ شادی، میاں بیوی کے تعلقات، اور طلاق جیسے معاملات کو بیان کیا گیا ہے۔
شادی جہان ایک مذہبی فریضہ ہے وہیں ایک اہم ذمہ داری بھی ہے۔
ایک مر د یا ایک عورت شا دی کے معاشرے میں عملی کردار ادا کرنے کی ابتدا کرتے ہیں۔
چنانچہ ضروری ہے کہ شادی سے پہلے ہی ہر دو افراد کو ان تمام ذمہ داریوں سے مکمل آگاہ کیا جائے جو ایک معاشرے کا فعال رکن بننے کی حیثیت سے ان پر نا فذ ہوتی ہیں۔
ہمارے ماحول میں شادی اب ایک مذہبی فریضے سے زیا دہ ایک نمائشی پروگرام اور ایک نام نہادثقافتی شو بن کر رہ گئی ہے - اسکے پیچھے ایک مکمل تاریخ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برصغیر پاک وہند کا علاقہ اسلام کی روشنی آنے سے پہلے بہت سارے من گھڑت مذاہب کی آماجگا ہ
رہاہے ۔ جن میں سر فہرست ہندو مت ہے۔ ہندو مت بنیادی طور کچھ رسومات اور کچھ توہمات کا ملغوبہ ہے- شادی کے حوالے سے جہیز کا معاملہ سر فہرست ہے۔ ہندووں میں وراثت کے جو قوانین ہیں- ان میں خواتین کو بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے۔ تاہم اس خامی کو جہیز کی روائت سے درست کرنے کی کو شش کی گئی ہے۔ چنانچہ ہندو معاشرے میں ایک لڑکی کے والدیں اسے وراثت میں حصے کے بجائے جہیز کی شکل میں متبادل دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اسی طرح لڑکی کے قریبی عزیز اقارب کو ایک نام نہاد رسم کے تحت لڑکی کو جہیز کیلئے حصہ ڈالنے کا پابند بنا یا گیا ہے۔ جسے مختلف علاقوں مختلف نام دیے گئے ہیں ۔ مثلا ننھال کا دین، دوھیال کا دین وغیرہ۔
شادی پر فضول اور بے معنی رسموں کے ذریعے اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنے کی لت بھی اسی ہیندوانہ معاشرے کی روائت ہے۔
چونکہ برصغیر میں لڑکی لڑکے کے آزادانہ ملاپ کو صدیوں پہلے سے قابل مذمت سمجھا جا تا تھا لہذا شادی کو لڑکی لڑکے آزادانہ اختلاط کا ذریعہ بھی بنایا گیا۔ اور شادی میں کچھ ایسی رسموں کا اضافہ کیا گیا جس میں ہردو جنس براہ راست شریک ہو سکے۔ اس میں میں مختلف علاقوں میں مختلف انداز اور مختلف ناموں کے ساتھ رسوم ملتی ہیں لیکن مقصد سب کا ایک ہی ہے۔
شادی پر ڈھول اور ناچ گانا بھی اہم رسم شمار کی جا تی ہے-اس میں پیسے کے ضیاع کو قابل فخر رسم سمجھا جاتا۔ ڈھول باجے بجانے والوں اور ناچ گانا کرنے والوں پر پیسے لٹانا اسی جاہلانہ معاشرےکی نفسیاتی احساس کمتری کا مظہر ہے۔
جہیز بنانا تو پھر بھی سمجھ میں آتا ہے۔ مگر خصوصی طور ایک دن مخصوص کرکے جہیز کی نمائش کرنا بھی صدیوں پرانی رسم ہے ۔ یہ رسم جہاں نام نہاد احساس تفاخر بلکہ تکبر کی نمائندہ ہے وہیں غریب افراد کی دل شکنی کا با عث بھی ہے۔
اسی طرح جہیز مانگ کر لینا، اپنی مطالباتی فہرست دلہن کے والدین کر پیش کرنا اور انکی مالی حیثیت سے بڑھ کر جہیز مانگنا انسانیت کی توہین ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں اسے معمولی بات سمجھا جا تا ہے۔یہ روائت بھی تاریخ نے دی ہے۔
اپنی حیثیت سے بڑھ کر بارات بنا کر دلہن کے گھر جانا، ویلیں دینا، اور راستوں میں ناچ گانا، ہلڑبازی کرنا کسی مہذب معاشرے میں رائج نہیں ۔ مگر ہمارے ہاں اسے شادی کا جزو لاینفک گردانا جاتا ہے۔
ولیمہ بھی ایک نمائشی رسم بنا دیا گیا ہے۔ یہاں بھی زیادہ سے زیادہ افراد کو مدعو کرنا، ہوٹلوں میں کھانے کا انتظام کرنا، کھانے کے دوران بے جا بے صبری ، ہلڑبازی، اور کھانے کا ضیا ع جیسی چیزیں ولیمہ کی تقریب کی اسلامی روح سے قطعا مماثلت نہیں رکھتیں۔
بات شادی تک محدود نہیں۔ شادی کے بعد بھی فضول رسومات کی ایک لمی فہرست ہے۔ جو خصوصی طور پر لڑکی کے والدین کو معا شی لحاظ مزید کمزور کرتی ہے۔
دیکھا جائے تو موجودہ رسم و رواج کے سا تھ شادی لڑکی کے والدین کیلئے انکے معاشی قتل کے مترادف ہے۔
مجھے سمجھائیے ہماری شادیوں میں سوائے نکاح کے کونسی چیز اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے؟






















Sunday, March 17, 2013

مشکل کشا ہتھیار


 مشکل کشا ہتھیار


اررے ارررررے

گھبرائیں نہیں
میں کسی ایسے ہتھیار کی بات نہیں کر وں گا جس کیلئے لائسنس کی ضرورت پڑے
بس ایک سادہ سا ہتھیارہے
جو آپ کی بہت سی مشکلوں کو آسان کرنے میں فی زمانہ بہت کارآمد ہے

جی ہاں ۔۔ اور ہتھیار کا نام ہے
خوشامد
جی خوشامد گرچہ بہت پرانا ہتھیار ہے مگر اس جدید دور میں بھی بہت زبردست کام کرتا ہے۔
کوئی بھی کام نکلوانا ہو۔۔
فورا خوشامد شروع کر دیں۔ اور پھر دیکھیں اس کا کمال
لیکن اس کیلئے سب سے پہلے بندے کو
اپنی " میں" مارنی پڑتی ہے۔
تھوڑا سا ڈھیٹ‌ہو نا پڑتا ہے۔
اس اس مقولے پر عمل کرنا پڑتا ہے کہ
عزت آنے جانے والی چیز ہے
وہ اپنے اس سیاستدان کا قصہ آپ نے ضرور سنا ہوگا۔
جو سرکاری عہدیداروں کو گالی دے کر کہتا تھا۔
اس کی کیا مجال کہ میری بات ٹالے، میرا کام نہ کرے۔
میں ابھی اس سے ملتاہوں
اور پھر صاحب کے کمرے میں جا کر پاوں پڑ جا تا تھا ،
سرجی میری "عزت" کا سوال ہے۔
بس جب کام ہوجا تا تو اکڑ کر کہتا۔
ارے سالا کیسے نہ کام کرتا ۔میرے آگے اسکی حیثیت ہی کیا ہے

سو یہ خوشامد بڑے کام کا ہتھیار ہے۔
میں نے سرکاری دفتروں بہت سے نااہلوں کو اس ہتھیار سے بڑے بڑے افسر شکار کرتے دیکھا ہے۔
اور اہل ، ایماندار بندوں کو اس ہتھیار سے عدم واقفیت کی بنیاد پر رلتے دیکھا۔
کیا ظالم ہتھیار ہے

مس کالو جی۔ ایک نئی سائنس

مس کالو جی۔ ایک نئی سائنس
محترم قارئین
آپ نے بیا لوجی، سائیکا لو جی ، فزیالوجی وغیرہ تو پڑھا یا سنا ہو گا
یہ مس کا لوجی کیا ہے؟ 
یہ ہم آپ کو بتا تے ہیں 
یہ در اصل دو الفا ظ سے مل کر بنا ہے 
  مس کال اور لوجی 
 یعنی وہ علم جس میں مس کالوں کی سائنس کے بارے میں پڑھا یا جاتا ہے
جی ہاں یہ بالکل نئی سائنس ہے
اور اسکی دریافت بلکہ ایجا د کہئیے ، کا سہرا سب پاکستانیوں کے سر پر ہے
 سب سے پہلے کس نے مس کال ماری- اس کے بارے میں کوئی مصدقہ حوالہ 
موجود نہیں تاہم غیر معتبر راویوں کا بیان ہے اور اغلب یہی ہے کہ کسی عاشق نامراد نے حسب روائت تہی بیلنس ہونے کی صورت میں اپنی محبوبہ کو ماری ہوگی۔ 
راوی اس بارے میں خاموش ہے کہ آیا اسکی محبوبہ نے آگے سے کیا رسپانس دیا؟
مس کا ل ایک فن ہے ، ایک سائنس ہے
یہ ہر کسی کے بس کا کھیل نہیں ۔۔
بہت سارے سیدھے ، اس سائنس سے نا واقف لوگ 
مس کا لیں مارتے مارتے اپنا بیلنس زیر و کر بیٹھتے ہیں اور پھر حیران ، پریشان ہو کر کہتے ہیں
 یہ موبائل کمپنی والے بڑے بے ایمان ہیں ۔ ابھی کل ہی سوروپے بیلنس ڈلوایا تھا
ایک دفعہ بھی بات نہیں کی اور بیلنس زیرو۔ لعنت ہو ۔۔۔۔ کمپنی پر
اب ان سیدھے سادے ، مس کالوجی کے فن سے ناواقف لوگوں کو کون سمجھائے کہ
وہ تما م مس کا لیں جو انہوں نے مفت با ت کرنے کے چکر میں ماری تھیں وہ
 وصول" ہو چکی ہیں ۔ اب بیلنس زیر و تو ہو نا ہی ہے
۔۔۔۔
ہماری نوجوان نسل کے قربان ۔ مس کا لوجی کے فن میں اس قدر طاق اور 
اس سائنس کی باریکیوں سے اس قدر واقف ہیں کہ دس روپے سو دفعہ بات کرلیتے 
ہیں اور مجا ل ہے جو ایک پیسہ بھی ضا ئع ہو
اور مس کالوں کی مخصوص تھیوری پر انکی تحقیق تو کمال کی ہے
ایک نوجوان نسل کے نمائند ہ مس کا لو جسٹ سے پچھلے دنوں بات ہوئی
وہ وہ نکتے بتا ئے کہ الامان
مثلا ۔ اگر لڑکی کو ایک مس کال ماری جا ئے تو اس کا مطلب یہ ہو گا 
اور اگر دو کالیں ماری جا ئیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا
اسی طرح جو ابی کالوں کی تھیوری بھی بہت پر لطف تھی
۔۔۔
کہنے لگا " دیکھیں جی۔ ہم تو سدا سے جیب خرچ پر چلنے والے لو گ ہیں ۔
تو مس کا لوجی میں کمال حا صل کر کے ہم نے اس سا ئنس کو اپنی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔"
مس کالوجی کے فن سے ناواقف جہاں اپنا بیلنس بھی ضائع کر بیٹھتے ہیں اور بات بھی نہیں ہو پاتی ۔ وہیں اس کے سائنس کے ماہرین اس سے بے تحا شا فوائد بھی حا صل کررہے ہیں ۔ 

ایک ماہر مس کا لوجسٹ نے بتا یا کہ مس کال مارنے کے اہم نکا ت درج ذیل ہیں
  وقت
مس کال مارنے کا وقت موزوں ہو نا چا ہیے ۔ یعنی ایسا وقت جب مس کال " وصولی" کا امکان نہ ہو۔ ورنہ مس کال مسٹر کا ل ہو جا ئے گی ۔ یعنی لینے کے دینے پڑ جا ئیں گے۔ 
ماہر مس کا لوجسٹ کے بقول جس بندے یا بندی کو مس کال مارنی ہو اسکے معمولات سے واقفیت بہت ضروری ہے
مس کا ل کا دورانیہ 
یہ بہت اہم ہے۔ مس کال مارتے وقت ایک انگلی ریڈ بٹن پر رکھنی چائیے ۔ جیسے ہی بیل بجے ٹھک سے کال کا ٹ دیجیئے ۔ ایک لمحے کی تا خیر گلے پڑ سکتی ہے۔
اس کے لئے پہلے ریا ضت بہت ضروری ہے۔ 
اپنے گھر کے افراد یا دوستوں کے ساتھ اسکی بار بار پریکٹس کر نے سے ہی کمال حا صل ہو گا۔
مس کا ل میں وقفہ کا استعمال
یہ ایک پر لطف سائنس ہے۔ جس سے آپ مس کا ل وصول کرنے والے کو جوابی کال کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
مس کا ل کبھی ایک ساتھ دوبار ہ نہیں مارنی چا ہیے ۔ اس طرح مسٹر کا ل ہونے کا احتمال بڑھ جا تا ہے
وقفے کا استعمال بھی ایک فن ہے
اس کے لیے ایک مس کا ل مارنے کے بعد لمبا وقفہ دینا چا یئے ۔
تاکہ اگر مخالف پارٹی آپ کے خلاف جا رحا نہ عزائم رکھتی ہو تو اسے انتظار کی مار دیں ۔ یہاں تک کہ وہ مایوس ہو کر مو بائل پاکٹ، پرس میں ڈال دے۔ 
پھر دوبارہ مس کا ل دیں ۔ 
یوں وقفوں وقفوںسے دی گئی مس کا لیں ۔ وصول کرنے والے کو زچ کر دیں گی اور اسکے پاس اس کے علا وہ چارہ نہ ہو گا کہ آپ کو کال کرے
 یہ صورت حال کا فی خطرناک نظر آرہی تھی ۔
کیونکہ مس کا لوجسٹ سے بات کرنے کے بعد جب میں نے غور کیا تو 
یہ بات واضح ہو ئی کہ میں ان معصوم شہریوں میں شا مل ہوں جو اس سائنس کا شکا ر ہو چکے ہیں
میں خود کئی ایسے پیشنٹس کو کال کرچکا ہوں جنہوں نے مس کا ل مارکر 
دس دس منٹ بات کی ۔
کئی واقفت کا ر میرے خرچے پر آدھا آدھا گھنٹہ بات کرتے رہے۔ اور میں سمجھتا رہا
کہ وہ میری ہمدردی میں بات کررہے ہیں ۔ حالانکہ انہوں نے مس کالوجی کی سا ئنس استعمال کی تھی۔
میں اس صورت حال پر کا فی پریشان ہو ا تو ایک ماہر مس کا لیا ت سے رابطہ کیا 
جنہوں نے کچھ نکتے سمجھا ئے 
آپ بھی سنئے ، سر دھنئے ، اور عمل کیجیئے
 مس کال سے بچنے کیلئے اپنا موبا ئل ہا تھ میں رکھیں۔انگلی یس بٹن پر ہو۔ 
 موبائل وائبریشن پر رکھیں ۔
جیسے ہی وائبر یشن ہو ۔ نمبر دیکھے بغیر یس کا بٹن پر یس کر دیں۔
منا سب ہو کہ موبا ئل پر لائٹ سسٹم لگوا لیں ۔ 
جیسے لائٹ جلے ۔ یس کا بٹن دبا دیں۔
امید ہےدوچار کا لیں بجایے مس کال کے مسٹر کا ل ہو نے سے دشمن کا دماغ اور بیلنس ٹھکا نےپر آ جا ئے گا۔
تو یہ تھا مس کا لوجی کا تعارف ۔
امید ہے آپ کو نئے سائنسی اور فنی مضمون سے دلچسپی پیدا ہو ئی گی ۔
آج ہی کسی ماہر مس کا لو جسٹ سے رابطہ کریں۔


Saturday, March 16, 2013

جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے ہوگئے


جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے ہوگئے

بالاخر حکومت نے اپنے پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرلی۔ کیسے کر لی۔ اور اس آئینی مدت میں عوام کے ساتھ کیا ہوا۔ یہ ایک الگ قصہ ہے تاہم حکومت اور اپوزیش دونوں خوش ہیں۔ اور بہت باچھین کھلا کھلا کر اس بات کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بیان کر رہے ہیں گویا انہوں نے یہ کارنامہ سرانجام دے کر قوم پر احسان عظیم کیا ہے۔ اور قوم کو شکر گذار ہونا چاہیے کہ ہم اب ایک مکمل جمہوری ملک ہیں۔ سبحان اللہ ۔ کیا واقعی ۔ قوم کو خوش ہونا چاہیے۔
آئیے ذرا اس سوال کا جائزہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے لیتے ہیں۔
کیا عام آدمی کا معیار زندگی اس جمہوری حکومت کے سنہری پانچ سالہ دور میں بلند ہوا
کیا عام آدمی کو امن ، سکون اور اطمینان نصیب ہوا
کیا عام آدمی کو روزگار کے باعزت مواقع ملے۔
کیا ضروریات زندگی تک رسائی آسان ہوئی۔
کیا عام آدمی زندہ رہنے کے بنیادی  ضروریات جیسے پانی، بجلی ، گیس، ذرائع آمدورفت
اور اس جیسی دیگر سہولیا ت کی آسان اور سستی فراہمی ممکن ہوئی
کیا عام آدمی کو رہنے کے لئے چھت ، پہننے کے لئے کپڑے اور کھانے کے لئے خوراک حاصل کرنا کیا اس جمہوری حکومت نے آسان بنایا
ہر سوال کا جواب نفی میں ہے۔
آج کل کے دور میں زندگی کو اک عذاب بنانے والی اس جمہوری حکومت کو واقعی شاباش ملنی چاہیے؟
آپ خود ہی بتائیں۔