صفحات

Thursday, March 31, 2016

بیگم ورژن 1۔0۔1


بیگم ورژن 1۔0۔1- ٹیکنکل سپورٹ

محترم جناب ٹیکنیکل ایکسپرٹ صاحب

آج سے کچھ عرصہ پہلے میں نے گرل فرینڈ ورژن 0۔7 کو اپ گریڈ کروا کر بیگم ورژن 1۔0۔1 لیا تھا۔لیکن کچھ عرصہ بعد ہی پراگروم نے unexpected error دینا کرنی شروع کردیں۔ اور ہر سال ایک عدد نیا سوفٹ ویر بے بی کیوٹ جنریٹ کرنا شروع کردیا۔ اسکے ساتھ بیگم 1۔0۔1 نامی اس پروگرام نے مزید کئ سوفٹ ویرخود بخود انسٹال کرلیے جیسے سالا 420، ساس 302 وغیرہ اور ہر پروگرام کی بہت کڑی نگرانی کا فریضہ بھی سرانجام دینا شروع کردیا ۔ جیسے دفتر1۔9، تاش2۔3، ہوٹل 5۔1، پارک6۔7، اور سرکاری دورہ8۔1
ان پروگرام کی موجودگی میں جو سب سے بڑی مشکل پیش آرہی ہے وہ یہ کہ موجود ہ سوفٹ ویر گرل فرینڈ وژن 7۔1 کو بالکل ایکسپٹ نہیں کر رہا۔ بلکہ ہر دفعہ لاگ ان ہونے پر سوفٹ ویر تمام ایسسیریز کو سکین کرتا ہے۔ اگر کہیں کوئی فائل جسکی ایکسٹیشن بال، لپ سٹک یا خوشبو ہو تو پوراسسٹم ہینگ ہو جاتا ہے اور پورے سسٹم کو نئے سرے سے ری سٹارٹ کرنا پڑتا ہے۔
مجھے اپنی پسندیدہ اپلی کیشن کو چلاتے وقت یہ بالکل پسند نہیں کہ بیک گراؤنڈ
میں بیگم وژن 1۔0۔1 نظر آئے ۔
میں دوبارہ گرل فرینڈ وژن 7۔0 میں جانا چاہتا ہوں 
آپ سے اس سلسلے میں ٹیکنیکل مدد درکار ہے۔۔
آپ کا مخلص
ایک پریشان حال استعمال کنندہ 

محترم جناب استعمال کنندہ صاحب

مردوں کی طرف سے ہماری کمپنی کو آنے والی یہ بہت عام سی شکایات ہیں
اسکی وجہ یہ ہے کہ بہت سارے یوزز اس پروگرام کے ساتھ دیے گئے مینئول کا بالکل مطالعہ نہیں کرتے ۔ حالانکہ وہاں تمام وضاحت کر دی گئی ہے

بہت سارے لوگ گرل فرینڈ وژن کو اس لئے بیگم وژن میں اپ گریڈ کرواتے ہیں کہ انکے خیال میں یہ بھی یوٹیلیٹیز اور انٹرٹینمنٹ پروگرام ہے
حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ پروگرام ان انسٹال کرنا یا واپس پچھلے وژن میں جاناانتہائی مشکل بلکہ بعض حالات میں ناممکن ہے۔ اس پروگرام کو ڈیلیٹ بھی نہیں کیا جا سکتا-۔ یہ پروگرام خوبصورت سیکریٹری کے کسی وژن کو سپورٹ نہیں کرتا۔
ہم آ پ کو یہی سجیسٹ کر یں گے کہ آپ اپنے موجودہ پروگرام کو نہ تبدیل کریں
اور پروگرام کو ایرر سے بچانے کے لئے " یس ڈیر" بیک گراؤنڈ انسٹال کرلیں

سسٹم ہینگ ہونے کی صورت میں مندرجہ کمانڈ دیں
C://Sorry I apologies
بیگم ورژن 1۔0۔1 بہت اعلی پروگرام ہے۔ تاہم اسکی مینٹی نینس پر بہت خرچہ ہے۔ اسکے ساتھ کئی اورسپورٹ پروگرام بھی آتے ہیں جیسے سویپ اینڈ کلین 2۔2، کک 3۔2، بل پیمنٹ 5۔3 وغیرہ۔
تاہم ضروری ہے کہ آپ اس پروگرام اور اسکے سپورٹ پروگرام کو احتیاط سے استعمال کریں بد احتیاطی کی صورت میں بہت شدید قسم کا وائرس پروگرام حملہ آور ہو سکتا ہے۔ 
جس کے لیے آپ کو انٹی وائر س پرگروم لینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے ہم آپ کو ڈنر7۔4، ڈائمنڈ سیٹ 11-7 ، اور گل دستہ 8۔9 ایدوائز کریں گے۔

اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو
منجانب
ٹیکنیکل ٹیم


(ماخوذ)

Sunday, March 20, 2016

دو ٹانگوں والے کتے اور اخلاقی انقلاب


دو ٹانگوں والے کتے اور اخلاقی انقلاب


بچیاں سکول جانے لگیں تو میں نے کہا

" بیٹے ۔ سکول جاتے ہوئے ۔ دھیان رکھنا۔ راستے میں آوارہ کتے ہوتے ہیں "
بڑی بیٹی نے مجھے مسکرا کر دیکھا اور کہا
" ابو ۔ آٌپ تو جانتے ہیں یہ کینٹ کا علاقہ ہے۔ یہاں آوارہ کتے نہیں ہوتے"
" میں ان کتوں کی بات نہیں کر رہا بیٹے ۔ میں دوٹانگوں والے کتوں کی بات کررہا ہوں"
" دو ٹانگوں والے کتے" میری بیٹی چلتے چلتے ایک دم رک گئی اور حیرت سے مجھے دیکھنے لگی
" جی بیٹا"
وہ کچھ دیر سوچتی رہی پھر جھینپ کر بولی " جی ابو! وہ تو ہوتے ہیں"
" بس بیٹا ۔ ایسے کتے بھونکتے رہتے ہیں ۔ ان کی طرف دھیان نہ دینا"
یہ باتیں ویگن میں بیٹھا ایک بزرگ اپنے ساتھی کے ساتھ کر رہا تھا۔
دراصل بات کچھ شروع ایسے ہوئی کہ ایک سواری کنڈکٹر سے الجھ پڑی ۔ بات کرائے کی تھی۔ سواری کا موقف تھا کہ کرایہ کم بنتا ہے لیکن کنڈکٹر یہ بات سننے کو تیا ر نہ تھا۔
یوں باتوں باتوں میں ایک صاحب کہنے لگے " یہ اسلام آباد ہے یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا یہ حال ہے تو باقی شہروں کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے حمکران آنے چاہیں  جو پبلک ٹرانسپورٹ مکمل مفت فراہم کریں ۔ فری ٹرانسپورٹ ہوگی تو ہمارے کافی مسائل حل ہوسکتے ہیں "
ان کی اس تجویز پر کچھ لوگ مسکرا پڑے کچھ نے تائید کی ۔
ایسے میں وہ بزرگ بہت نفیس اور دھیمے لہجے میں بولے
" سچ پوچھیں ۔ تو ہمارے ملک کو کسی معاشی انقلاب کی ضرورت نہیں ۔ صرف اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں اخلاقی قدریں ناپید ہو چکی ہیں ۔ میرے نزدیک ہمارے بہت سارے مسائل کی جڑ ہمارے اند ر اخلاقیات کی کمی ہے۔
اگر ہم پیار سے بولنا سیکھ لیں ۔ اگر ہم شکریہ ادا کرنا سیکھ لیں ۔ اگر ہم عزت دینا سیکھ لیں ۔ جن سے ہم پیار کرتے ہیں ا ن سے پیار کا اظہار سیکھ لیں تو ہماری زندگی گل وگلزار بن سکتی ہے"
ایک صاحب بڑی خبیث سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے
" بزرگو! پیار کا اظہار کیسے سیکھیں۔ اور پیار کا اظہار کس سے کریں"
" ہر اس رشتے سے پیار کا اظہار کریں ۔ جس سے آپ کا پرخلوص رشتہ ہے۔ مثلا اپنی ماں سے ۔ اسے بتائیں ۔ اسے اپنے رویے سے ، اپنے افعال سے یہ باور کرائیں کہ آپ اس سے کتنا پیار کرتے ہیں ۔ اپنی ماں کو بولیں ۔ ماں آپ دنیا کی خوبصورت ترین عورت ہیں ۔ آپ میری کائنات کا ایسا قیمتی اثاثہ ہیں جس کے آگے سب چیزیں ہیچ ہیں ۔ اپنی ماں ، اپنی بہن ، اپنی بیوی ، اپنے بھائی ، اپنے دوست کی ہر اچھی بات کو سراہیں ۔ شکریہ ادا کریں ۔ مناسب مواقع پر تحائف دیں ۔ اور اس کے ساتھ اپنے خالق کے بھی شکر گذار بنیں ۔ یقین کریں آپ کی زندگی میں اتنی خوبصورتی ، اتنی طمانیت ، اتنی خوشی در آئے گی کہ آپ اپنے آپ کو خوش قسمت ترین افراد میں شمار کریں گے"
بزرگ کی گفتگو جاری تھی۔
کہ میرا سٹا پ آگیا ۔۔ میں ویگن سے اترتے ہوئے سوچ رہا تھا۔ میں اس بزرگ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے اتنی خوبصورت اور قیمتی گفتگو سے میری سوچ کو جلا بخشی ۔
مجھے سوچتے دیکھ کر کنڈکٹر زور سے بولا
" رستہ چھوڑو ۔ کیا دیوار بن کے کھڑے ہو گئے ہو۔ "
ایک دم میرا مغز گھوم گیا۔
میں ابھی منہ سے کچھ " ارشاد" کرنے ہی والا کہ ۔۔۔۔
یاد آیا
ہمیں اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہے



Saturday, March 5, 2016

قصہ قیس سے ملاقات اور پلاٹ کی بکنگ کا

قصہ قیس سے ملاقات اور پلاٹ کی بکنگ کا  
بہت عرصہ سے یہ شعر سن رکھا تھا
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
سو قیس کی تنہائی کا تصور ہمیں بھی جذباتی کرتا تھا کہ چلیں مل لیں اک بار۔ دیکھ لیں کس حال میں ہے۔ ایک دو دفعہ اسی خیال سے گھر سے نکل بھی پڑے تھے لیکن رستے میں بھوک اور پیا س نے ستایا تو پلٹ آئے ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب عمر کی ابتدائی سیڑھیوں پر تھے۔  پھر کچھ اور لوگوں سے پتہ چلا کہ جنگل میں صرف قیس نہیں کچھ جانور بھی ہوتے ہیں ۔  خوف محسو س ہوا ۔ ایسا نہ ہو قیس کے بجائے کسی لگڑ بھگے سے واسطہ پڑ جائے ۔ بچپن میں تو سوچ بھی خام تھی ۔ سو قیس سے ملاقات ایک خواہش تک محد ود رہی ۔
پھر وقت کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی اور قیس سے ملنے کی خواہش بھی کہیں خواہشوں کے انبار تلے دب گئی ۔
یہ آج سے کچھ دن پہلے کی با ت ہے ایک پرانے دوست سے ملاقات ہوئی اور بہت عرصہ بعد ہوئی سو ساری مصروفیات چھوڑ کر چند دن اس کی معیت میں گذارے کہ
اے داغ کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
چونکہ بچپن ایک ایسے علاقے میں گذرا ہے جہاں جنگل ، پہاڑ ، جھیلیں ، چھرنے ہمارے ہم راز رہے ہیں ۔ سو پروگرام بنا کہ کسی جنگل میں ایک دن گذارا جائے ۔ جنگل ایک الگ دنیا ہے ۔ اور اس کا ایک الگ ہی جادو ہے ۔ جس کو جنگل کا سحر جکڑ لیتا ہےوہ قیس بن جاتا ہے۔
ہم بھی شاید اندر سے قیس ہی ہوں بس جنگل سے دور ہونے کی وجہ سے اظہار نہ ہوسکا ہو
جنگل کا ذکر آیا تو اچانک اسی پرانی خواہش نے ایک دم سے انگڑائی لی کہ
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
اب کی بار خواہش کا بازو پکڑا اور اسے خواہشوں کی گٹھری سے باہر کھینچا ۔ جھاڑ پونچھ کر ساتھ لئے جنگل  کو نکل پڑے۔
جنگل کا حسن انسان کو اپنی طرف بلاتا نہیں مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتا ہے۔
خاموشی کا سحر سر چڑھ کر بولتا ہے۔
اور فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ آپ کے سامنےرقصاں  ہوتی ہے۔ فطرت کا بیلے ڈانس جس نے دیکھ لیا ، اسی کا ہو گیا۔
ہم اسی سحر میں گرفتا ر جنگل کی پگڈیوں پر جسیے تیرتے ہوئے جار تھے کہ اچانک ایک طرف سے کچھ آوازیں آنا شروع ہوگئیں ۔ یہ آوازیں جنگل کی سحر انگیز خاموشی میں جیسے ہل چل مچانے لگیں ۔ ہم ابھی الجھن میں ہی تھے کہ کیا کریں ۔ ایک دم سے پنٹ شرٹ میں ملبوس ایک نوجوان سامنے آگیا ۔
میں نے بے اختیار پوچھا
آپ کہیں قیس تو نہیں ہو
مسکرا کر بولا
بالکل درست پہچانا آپ نے۔ میں قیس ہی ہوں
یقین کریں دل کی دھک دھک نے ہمارے وجود میں دھما چوکڑی مچا دی
تو بالاخر آج ہماری ملاقات قیس سے ہوہی گئی۔
کچھ دیر بعد ہم ایک عارضی رہائش گا ہ میں موجود تھے جہاں ہماری خدمت میں ڈیو  پیش کی گئی ۔
گپ شپ بھی ساتھ چلتی رہی ۔ اتنی دیر میں کھانا آگیا ۔
کھانے میں بریانی۔ چکن فرائی ، سویٹ ڈش سمیت کافی لوازمات موجود تھے۔
آپ کو حیرت ہورہی ہوگی نا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے ۔
مجھے بھی ہورہی تھی لیکن کھانے کے وقت میں فضول باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتا ۔
کھانے سے فراغت کے بعد میں نے قیس پوچھا
میاں یہ سب کیا ہے؟ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ آپ کے حالا ت کافی خراب ہوں گے۔ اور آپ کی شکل کسی لگڑبھگے جسی ہو چکی ہوگی۔ کپڑے پھٹ چکے ہو ں گے بلکہ کپڑوں کی جگہ درختوں کے پتوں نے لے لی ہو گی۔
لیکن آپ تو ماشاء اللہ پپو پپو سے لگ رہے ہو
سوٹ بھی ایک دم نیا ہے۔
اور ۔۔ اور
قیس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے مزید بولنے سے روک دیا۔
دیکھوبھیا۔ آپ بھی انہی لوگوں کی طرح سوچ رہے ہوجویہاں پہلے آچکے ہیں ۔
دراصل یہ سب اس شاعر کا کیا دھرا ہے جس نے کہا تھا
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
بس لوگ جوق درجوق جنگل کی طرف آنا شروع ہوگئے ۔
پہلے پہل تو مجھے بہت غصہ آیا ۔ یہ سب کیوں ادھر آرہے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میں بھی بہت کچھ سیکھ گیا ۔
آبادی بڑھتی گئی اور ساتھ میں سہولیات بھی آتی گئیں ۔
میں نے آج سے کچھ سال پہلے " قیس ہاوسنگ سوسائٹی" کی بنیاد رکھی ۔ اب تک اس کے سات فیز کامیابی سے  مکمل  ہوچکے ہیں ۔ اوراس جگہ پر ہم آٹھویں فیز کی پلاننگ کر رہے ہیں ۔آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو فیز آٹھ میں  اپنی مرضی کا پلاٹ آسان اقساط پر مل جائے گا۔
دوستو ! میں نے تو اسی وقت دس مرلہ کا ایک کارنر پلاٹ  بک کروا لیا ہے۔
آپ میں سے کوئی دل چسپی رکھتا ہو۔ تو مجھ سے رابطہ کر سکتا ہے۔  پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیا د پر محدود پلاٹ باقی ہیں


Monday, February 29, 2016

بھٹکے ہوئے کیوں؟

بھٹکے ہوئے کیوں؟
چند دن پہلے کی بات ہے۔ ایک محترمہ مجھ سے ملنے آئیں ۔ ایک اچھےتعلیمی ادارے کی سربراہ ہیں اور کافی معروف شخصیت ہیں ۔ اب اتفاق کی بات کہ میرے پاس کچھ اورلوگ موجود تھے اور میں نے ان کے لئےکھانا منگوایا ہوا تھا۔ وہ محترمہ کہنے لگیں کہ وہ جلدی میں ہیں ۔ انہیں دو تین اہم باتیں کرنی ہیں ۔ میں نے اخلاقا انہیں بات کرنے کا موقع دیا ۔ اور ساتھ ہی کھانے کی بھی دعوت دی ۔ جو انہوں نے قبول نہیں کی اور کہنے لگیں کہ وہ بس دومنٹ اپنی بات کہ کر رخصت ہوتی ہیں ۔ میں نے مہمانوں سے معذرت کی کہ ذرا انتظار کریں میں ان کی بات سن لوں پھر کھانا کھاتے ہیں ۔ اب یہ تما م صورت حال ان محترمہ کے سامنے تھی  ۔ کہنے لگیں مجھے احسا س ہے کہ اپ کا کھانا لگا ہوا ہے۔ میں زیادہ ٹائم نہیں لیتی بس مختصر سی بات کرنی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کم وبیش آدھا گھنٹہ گفتگو کی ۔ پھر بھی ان کی تسلی نہ ہوئی کہنے لگیں مجھ جلدی نہ ہوتی تو بات مکمل کرتی ۔ خیر پھر سہی۔ میرےمہمان یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہے تھے۔ ان کے جانے کے بعد ایک صاحب نے کہا کہ ان کی گفتگو سوانے اپنی تعریف اور کچھ معاملات پر اپنی خواہشات کے مطابق پیش رفت کی فرمائش کے علاوہ کچھ بھی نہ تھی۔ کیا یہ ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ ہونے کی اہل ہیں ؟
میں خاموش رہا ۔ لیکن میرے ذہن میں کچھ سوال ضرور تھے۔
یہ سوالا ت کئی دن سے میرے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔
آج اس واقعے کو ابتدا بنا کرمیں کچھ باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔
میرے نقطہ نظر سے سب سے اہم شعبہ جو ہمارے ملک میں سب سے زیادہ تباہ کن حالات کا شکار ہے وہ تعلیم کا شعبہ ہے۔ ہمارے ملک میں  ایک استاد ، ایک مدرس اور روحانی باپ کی تباہی کی بنیاد لارڈ میکالے نے رکھی اور ہمارے معاشرے نے اسے حسب توفیق پروان چڑھایا ۔
تعلیمی نظام میں سب سے مشکل کا م ایک بچے کی ابتدائی تعلیم و تربیت کر نا ہے۔ ایک پرائمری ٹیچر اہم ترین کردار کا حامل ہوتا ہے۔ میرے ذاتی خیال میں ایک پرائمری آستاد کے انتخاب کا طریقہ کار ایسا وضع کرنا چاہیے کہ صرف وہ لوگ پرائمری استاد منتخب ہوں جو کم ازکم مندرجہ ذیل خوبیوں کے مالک ہوں
 اس کے کردار میں مضبوطی ہو۔ وہ اخلاقیات ، اقدار کے حوالے سے نہ صرف بہترین علم رکھتے ہوں بلکہ خود اس کا عملی نمونہ ہوں ۔ وہ بچے کی ذہنی ، نفسیاتی سطح کو سمجھتے ہوں ، بچے کے اندر مثبت سوچ پیدا کرنے، اسے خود اعتمادی سے بات کرنے ، اپنی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، اپنے جذبات کو بیان کرنے اور مختلف اشیاء ، واقعات کو اپنی ذہنی سطح کے مطابق تجزیہ کرنے کی صلاحیت سکھانے کے اہل ہوں ۔
انہیں کسی بھی سکول میں معلم  بنانے سے پہلے ایک سخت تربیتی پروگرام سے گذارا جائے ۔ پرائمری استاد کی تنخواہ سب سے زیادہ ہو ۔ کم ازکم 22 گریڈ کے افسر کے برابر ہو ۔
اسکی کارگردگی کو جانچنے کا معیار انتہائی سخت ہو ۔
پرائمری سطح کے استاد کو معاشرے کا ایک معزز رکن کا درجہ حاصل ہو۔
یہ اس لئے ضروری ہے کہ ہم جب ایک بچے کو بہتر ابتدا نہیں دیتے تو پھر اس سے معاشرہ کا ایک بہتر فرد ہونے کی توقع نہیں رکھ سکتے ۔
جس بچے کی ابتدائی تعلیم اچھے اساتذہ کے زیرنگرانی ہوگی وہ یقینا بڑے ہوکر ایک بہتر شہری ثابت ہو گا۔
ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں استاد کی اہلیت کا کوئی معیار نہیں ۔ جو کچھ نہیں کر سکتا کسی سکول میں استاد بن کر ہماری آنے والی نسل کو تباہ کرتا ہے۔
مجھے ایک صاحب بات بتا رہے تھے کہ وہ جاپان میں ایک کورس کرنے گئے ۔ وہاں ان کی ایک جاپانی خاندان سے ملاقات ہوئی اور ان کے گھر دوچار دفعہ آنا ہوا ۔ ایک دن وہ جاپانی کے گھر اس سے ملنے کے لئے گئے تو ان کا چھوٹا بیٹا باہر آیا ۔ انہوں نے پوچھا کہ ابو کدھر ہیں تو بچے نے کہا کہ وہ مارکیٹ گئے ہیں ۔ پاکستانی نے بچے سے کہا سچ کہ رہے ہونا۔ کہیں وہ گھرپر ہی ہوں اور تم جھوٹ بولنے کا کہ دیا ہو۔ ( وہ دراصل بچے کے ساتھ مذاق کرنا چاہ رہے تھے) بچہ چپ ہو گیا ۔ کچھ جواب نہ دیا ۔ اچانک دروازے کے پیچھے سے اس کی ماں آگئی اور اس نے کہا کہ آپ نے میرے اور میرے بچے کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ میرے بچے کو پتہ ہی نہیں کہ جھوٹ کیا ہو تا ہے؟ اب وہ مجھ سے جھوٹ کا مطلب پوچھے گا؟
خیر یہ تو ایک بات ہے جوممکن ہے  زیب داستان  ہو۔ لیکن یہ حقیقت بہرحال اپنی جگہ پر ہے کہ جاپان میں بچے کی ابتدائی تعلیم کا معیار بہت اعلی ہے ۔ وہاں بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی پڑھائی کے علاوہ کچھ ایسی تربیت دی جاتی ہے جو ان کے لئے ساری زندگی  مشعل راہ ہوتی ہے۔
بات ایک پرنسپل صاحبہ سے شروع ہوئی اور کہاں چلی گئی۔ دراصل ہم سب کے رویے ہماری تربیت اور ہماری تعلیم کی عکاسی کرتے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے کے لوگ بچے کی گفتگو ، نشستن و برخواستن سے اندازہ لگاتے تھے کہ بچہ کسی اچھے خاندان کا ہے۔ اچھا خون ہے۔
عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں
 اب خاندان کی روایات دم توڑ چکی ہیں ۔ اور رہی اساتذہ کی تو ہمارے اساتذہ بچے کو پڑھا نہیں رہے بلکہ انہیں ایک جنس سمجھتے ہیں جو ان کی کمائی کا ذریعہ ہے۔
ہمارے سامنے اصحاب صفہ سے لے کر جامعہ الاظہر تک کی مثالیں موجود ہیں ۔
میں سوچتا ہوں قوموں کو صدیاں گذر جاتی ہیں کوئی راستہ نہیں ملتا
ہمارے پاس راستہ بھی ہے۔ ہمارے پاس قرآن اور حدیث کی صورت میں ہر مسئلے کا حل  بھی موجودہے ۔
ہم کیوں بھٹکے ہوئے ہیں؟ 

Tuesday, December 29, 2015

دنیا کا سب سے بہتریں جوڑا

دنیا کا سب سے بہتریں جوڑا


آپ عنوان دیکھ کر چونکے ہوں گے
شاید کہ کسی میاں بیوی کے جوڑے کی بات ہوگی

لیکن میں تو ایک اور ہی جوڑے کی بات کررہا ہوں

جی ہاں ۔۔ 
آنسو اور مسکراہٹ دنیا کا بہترین جوڑا ہے
مگر آنسو کے ساتھ مسکراہٹ کا تصور کچھ عجیب سا ہے
بہت منفرد سا ہے

عام زندگی میں تو آنسو جب آتے ہیں تو مسکراہٹ کو غائب کردیتے ہیں 
اورمسکراہٹ چھلکتے آنسووں کو روک دیتی ہے

لیکن آپ نے کبھی وہ منظر دیکھا ہے 
جب آپ چھلکتے آنسووں کے ساتھ مسکراتے ہیں
وہ منظر ، وہ لمحہ دنیا کا خوبصورت ترین منظر ، یادگارترین لمحہ ہوتا ہے
آنسو اور مسکراہٹ کا بہترین امتزاج ، بہتر ین جوڑا

ایسے لمحے بہت کم ، بہت ہی شاذ ہو تے ہیں مگر بہت قیمتی ہو تے ہیں 

کیا آپ ایسے کسی لمحے سے واقف ہیں۔۔۔؟

Friday, December 25, 2015

ماں کی یا د کے 36 آنسو

ماں کی یا د کے 36 آنسو ............. ڈاکٹر نورً
آج میں آپ سے اپنے آنسو شیئر کرنا چاہتا ہوں

یہ آنسو میری ماں کی یا د کے آنسو ہیں
میں نے یہ اشعار اپنی ماں کی یا د میں لکھے ہیں۔
اور بہتے آنسووں کے ساتھ لکھےہیں ۔
یہ اشعار ان تمام بھائیوں ، بہنوں ، دوستوں کے نام جن کی مائیں
اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔
یقینا میرے آنسوان سب کو رلا دیں گے۔ جن کے غم میرے جیسے ہیں۔
یہ 36 مصرعے نہیں ، 36 آنسوہیں


بہت چھوٹا سا تھا جب میں، میری دنیا بھی چھوٹی تھی
میری ہستی کا کل سا ما ں ، تیری آغوش ہو تی تھی
تیرے سینے سے لگ کرمیں ہر اک غم بھول جا تا تھا
تیرے چہرے کو تک کرمیرے دل کی پیاس بجھتی تھی
تیری دنیا فقط میں تھا ، میری دنیا فقط تو تھی
میں تجھ کو دیکھ جیتا تھا، تو مجھ کو دیکھ جیتی تھی

تیرے وہ پھول سے بازو، مجھے خوابوں میں لے جاتے
تیرے چہرے پہ بکھرے نور سے ہو تی سحر میری
میں بھوکا ہوں کہ پیاسا ہوں، میں خوش ہوں یا کہ افسردہ
فقط اک تیری ہستی تھی، جسے سب تھی خبر میری
تیرا چہرہ جو ہوجاتا، اگر اک پل کہیں اوجھل
تو ہرآہٹ پہ چونک اٹھتی تھی یہ بے چیں نظر میری

تیرا رس گھولتا لہجہ ، میری تسکین کا ساماں
تیرا دستِ مسیحائی ، میرے ہر درد کا درماں
میرے پہلے قدم کی لرزشوں سے سیدھا چلنےتک
تیری چاہت بھری نظریں ہراک حرکت پہ تھیں درباں
بلائیں دور رہتی تھیں، ہمیشہ سوقدم مجھ سے
دعائے نیم شب سے میرے رستے روشن و تاباں

میں گھر سے جب نکلتا تھا، دعائیں ساتھ چلتی تھیں
جھلستی دھوپ میں ، ٹھنڈی ہوائیں ساتھ چلتی تھیں
کبھی پر پیچ رستوں پر قدم نہ ڈگمگائے تھے
ہمشہ ذکر کرتی وہ ، نگاہیں ساتھ چلتی تھیں
میرے حصے کے زخموں سے بدن چھلنی رہا تیرا
مجھے حلقے میں ڈالے، تیری بانہیں ساتھ چلتی تھیں

مگراب کسیے بتلاوں کہ وہ ہستی نہیں باقی
نہ وہ دست دعا باقی ، نہ وہ پاکیزہ صورت ہے
یہ آنسواب مقدر ہیں کہ ان کو پونچھنے والے
مشفق ہا تھ ہیں تیرے ، نہ چادر کی حرارت ہے
زمانے بھر کے غم ہیں اور اکیلا تیرا بیٹا ہے
مجھے تیری دعاوں کی بہت اب تو ضرورت ہے

میرے مولا، میری اک التجا ہے تیری رحمت سے
تیرے گلشن میں ہر سوپیارہی کے پھول کھل جائیں
ہے دنیا جب تلک باقی ، سدا مائیں رہیں زندہ
لگے جو زخم دل پر ہیں تو شاید یوں وہ سل جائیں
مجھے تسلیم ہے کہ موت بر حق ہے، مگر مالک
سبھی بیٹوں کی عمریں ، کاش ان ماوں کو مل جائیں

سب جھوٹے خواب دکھاتے ہیں۔



انسان ازل سے بہتری کی تلاش میں ہے

خوب سے خوب تر کی چاہ میں رہتا ہے۔
اس خوب سے خوب تر کی تلاش میں انسان جہاں
ترقی کی منازل طے کرتا رہا وہیں ہوس کی بیماری بھی
اسے لاحق ہوئی۔
ہوس نے انسانوں کو انسانوں کا دشمن بنا یا۔
ہوس نے منافقت، جھوٹ، بے وفائی سکھائی
ایک انسان کو دوسرے انسان پر فضیلت کی بنیاد
معاشی و معاشرتی حیثیت پر رکھی اور پھر
ہر اس فعل کو جائز قرار دے ڈالا جس سے ا س کی
معاشی و معاشرتی حیثیت کو تقویت پہچتی ہو
لالچ نے جب دلوں میں گھر کیا تو محبت، خلوص
وفا رخصت ہوئی ۔
انسان انسان کا دشمن بنا۔
آج کا انسان اور آج سے ہزاروں سال پہلے کا انسان
ایک جیسا ہی ہے۔
کچھ فرق نہیں۔
نام ، مقام، اور ظاہری اطوار بدل گئے ہیں لیکن
لالچ نے جو اصول اس وقت وضع کیے تھے
وہی آج تک چل رہے ہیں۔
وہی خواب جو آج سے لاکھوں سال پہلے کے انسان نے
دیکھے ہوں گے وہی آج کے انسان کے ہیں
کیا ہمیں صرف سر چھپانے کو ٹھکانہ، تن پر پہننے کو کپڑا
اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کو خوراک ہی چاہیےنا۔
لیکن ہم جب تک بھوکے رہتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ہمیں کچھ اور نہیں صرف
کھانا چاہیے ہوتا ہے۔
جب پیٹ بھرتا ہے تو پھر ہمیں سردی گرمی سے بچنے کے لئے
ٹھکانہ چاہیے ہوتا ہے۔
جب ٹھکانہ مل جاتا ہے تو ہمین نفسانی خواہشیں ستانے لگتی ہیں
پھر جب یہ بھوک بھی مٹ جائے تو معاشرے میں اپنی ناک اونچی رکھنے
کی فکر دامن گیر ہو جا تی ہے۔
جب معاشرے میں جھوٹی عزت ، شان و شوکت قائم ہو جاتی ہے۔
ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو احسا س ہو تا ہے۔
ہمارا دامن تو خالی ہے۔ ہم جو عزت کمائی وہ دوسروں کی پگڑی اچھال کر کمائی،
ہم نے دولت کمائی تو ہماری کم اور دوسروں کی زیادہ ہے
وہی دولت جس کو حاصل کرنے میں ہم اپنا ایمان بیچا، ضمیر کا سودا کیا
اپنے رب کو ناراض کیا۔ وہ دولت تو ہماری نہ نکلی ۔
پھر انسان جب اپنے اندر کی آواز سنتا ہے تو وقت بہت آگے نکل چکا ہوتا ہے
کچھ تو سنبھل جاتے ہیں۔ اپنی دولت ، اپنا سب کچھ معاشرے کو
لوٹانے کی ٹھان لیتے ہیں لیکن
کچھ اندر کی آواز کو دبا کر
مزید دولت کی ہوس میں پڑ جا تے ہیں۔
غریب جو صدیوں سے
تن کے کپڑوں
کی خاطر
تو کبھی
چار نوالوں کی خاطر
بکتا آیا ہے۔
وہ خاک نشیں زرق خا ک ہی ہوتا ہے۔
اس کے خواب کبھی پورے نہ ہوئے
ان کو کبھی تعبیر نہ ملی
کوئی انقلاب کے نعرے لگاتا ہے
تو کوئی انصاف کی آواز بلند کرتا ہے
کوئی مساوات کا درس دیتا ہے
تو ہر خوشہ گندم کو جلانے کی بات کرتا ہے
کیاکسی نے کبھی سوچا
جس نے کائنات بنائی
اس نے اس پر رہنے کے
اس کو برتنے کے
اس پر بسنے والوں کے
ساتھ برتاؤکے
اصول ازل سے وضع کر دیے ہیں
جس کی زمین ہے، وہ جب چاہے زمین کھینچ لے
جس کا دیا ہوا سب کھاتے ہیں وہ جب چاہیے واپس لے لے
سانسوں کی میعاد بخشنے والے کو ہی اختیار ہے
وہ زندگی کے کس موڑ پر شام کردے۔
دل کو بنانے والا ہی دلوں کے بھید بہتر جانتا ہے۔
دلوں کی بستیوں میں جب اس کے خالق کا نعرہ
گونجتا ہے تو دل آبا د ہوتا ہے۔
ہمیں خواب دکھانے والے کتنے جھوٹے ہیں ۔
سب جھوٹے خواب دکھاتے ہیں۔

Sunday, December 20, 2015

Part-1ایک سیاہ رات کی کہانی







Part-1ایک سیاہ رات کی کہانی




وہ ایک سیاہ اندھیر ی رات تھی۔

وہ سب دوست گاوں کے چوپال پر بیٹھے ہوئے تھے۔

گپوں میں جنوں بھوتوں کا ذکر نکل آیا۔

اسد کہنے لگا۔

میرے دادا جی بتاتے تھے کہ گاوں سے باہر پانی والی بھن (تالاب نما جگہ جہاں بارش کا پانی اکٹھا ہو جائے) کے پاس جنوں کا ڈیرہ ہے ۔ وہ ایک رات کو بہت دیرسے وہاں سے گذرے تو وہاں ڈھول بجانے کی آوازیں آرہی تھی۔ شاید کسی جن کی شادی تھی۔ دادا بہت مشکل سے جان بچاکر آئےتھے۔

شہباز بولا

بکواس ۔ میں کئی مرتبہ وہاں گیا ۔ وہاں کچھ بھی نہیں ۔ یہ محض گھڑی ہوئی بات ہے-

اسد بولا۔

تم دن کے وقت جاتے ہو۔ دن کو سب ہی لوگ جاتے ہیں۔ جن تو وہاں رات کو ہوتے ہیں۔

اکرم بھی نے ہاں میں ہاں ملائی

شہباز ٹھیک کہتاہے۔ جن تو وہاں رات کو ہی ہو تے ہیں۔ دن کو وہ جگہ خالی کر دیتے ہیں ۔

اسد اپنی بات پر اڑا رہا۔
اتنے میں تنویر بولا۔

یارو کیوں بحث کرتے ہو۔ یہ جن ون سب سنی سنائی باتیں ہیں۔ کیا آپ میں سے کسی کا جن سے سامنا ہوا ہے۔؟


اس کا جواب تو نفی میں تھا- لیکن شہباز کب ہار ماننے والا تھا۔


اگر ایسی بات ہے۔ تو پھر آپ لوگ ابھی وہاں بھن پر جائیں اور وہاں چکر لگا کر آئیں- تو میں آپ کی بات مان لوں گا۔

اسد اور تنویر نے کہا-
لو جی۔ یہ کونسی بڑی بات ہے۔ لیکن اگر ہم وہاں سے چکر لگا آجائیں تو تمھیں
500 روپے دینا ہوں گے۔
شہباز نے کہا
ڈن۔۔۔۔
لیکن اس بات کا یقین کیسے کیا جائےگا کہ آپ لوگ بھن پر گئے ہیں یا نہیں۔۔
اکرام نے تجویز پیش کی
اس کا بھی حل ہے۔ ہم ایک لکڑی کا ڈنڈا ان کو دیتے ہیں - یہ وہاں بھن کے شمال میں بیس قدم کے فاصلے یہ ڈنڈا زمین میں گاڑ کر آئیں گے۔ ہم صبح سویرے سب جاکر چیک کریںگے۔ اگر ڈنڈا گڑا ہوا پایا گیا تو اسد اور تنویر شرط جیت جائیں گے۔

فیصلہ ہو گیا۔اسد اور تنویرکو لکڑی کا ایک ڈنڈا جس پر مخصوص نشانی لگی ہوئی تھی۔ دے دیا گیا۔ اوروہ اپنی مہم پر روانہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک گھنٹے میں واپس آجائیں گے۔

لیکن ایک کے بجائے دوگھنٹے گذر گئے اسد اور تنویر واپس نہ آئے

……………………………………….

لیکن ایک کے بجائے دوگھنٹے گذر گئے اسد اور تنویر واپس نہ آئے

شہباز پریشان ہو گیا۔
یار یہ لوگ تو واپس نہیں آئے۔ کہیں جنوں کے ہتھے نہ چڑھ گئے ہوں۔
اکرم کو بھی یقین تھا کہ بھن کے پاس جن ہیں۔
وہ بھی خوفزدہ آواز میں بولا۔
ہاں یا ر۔ پتہ نہیں ان کے ساتھ کیا ہو ا ہو گا۔۔
پھر سوچ کر بولا۔
ہم آدھا گھنٹہ اور انتظار کرتے ہیں پھرکچھ اور سوچتے ہیں۔

آدھا گھنٹہ بھی گذر گیا ۔ مگراسد اور تنویر واپس نہ آئے۔

اب تو اکرم اور شہباز ایک دوسرے پرالزام لگانے لگے۔
یہ تم کہاتھا، نہیں یہ تم نے کہاتھا۔

بہرحال بہت سی بحث کے بعد فیصلہ ہو ا کہ دونوں مل کر جاتے ہیں اور گاوں سے باہر تک اسد اور تنویر کو دیکتھے ہیں شاید وہ آرہے ہوں۔
وہ گاوں سے ذرا باہر تک گئے تو خوف نے ان کے قدم روک دیے۔

واپسی پر شہباز کا بڑا بھائی انہیں ڈھونڈتا ہوا مل گیا۔
تم لوگ کہاں گئے تھے -
اب شہباز نے ڈرتے ڈرتے ساری بات بتا دی۔
شہباز کے بھائی نے کہا۔
آپ لوگوں نے بہت برا کیا۔ پتہ نہیں وہ لوگ اب زندہ بھی ہوں گے یا نہیں- بہرحال میں ابو سے بات کرتاہوں۔


تھوڑی دیر بعدپندرہ بیس بندوں کا قافلہ ہاتھوں میں لالٹینیں، لاٹھیاں، کلہاڑیاں وغیرہ اٹھانے گاوں سے باہر بھن کی طرف روانہ ہوگیا۔
شہباز اور تنویر کے گھر کہرام مچا ہوا تھا۔ گاوں کی عورتیں اکٹھی تھیں اور مختلف تبصرے کررہی تھیں۔

گاوں کے مسجد کے امام کو بلا لیا گیا تھا۔

اور قرانی آیا ت کا ورد جاری تھا۔

ادھر قافلہ جوں جوں بھن کے قریب پہنچ رہا تھا۔ لوگوں کے اندر بے چینی ، تجسس، اور ایک نامعلوم خوف بڑھتا جا رہا تھا۔
جیسے وہ لوگ بھن کے پاس پہنچے ۔

انہیں دور ہی سے دو افراد ساتھ ساتھ زمین پر گرے ہوئے نظر آئے۔

وہ اسد اور تنویر ہی تھے۔ لیکن دونوں بے ہوش تھے۔

لوگوں کی نظریں خوف سے ان کا طواف کر رہی تھیں-


…………………………………………………………………..


وہ اسد اور تنویر ہی تھے۔ لیکن دونوں بے ہوش تھے۔

لوگوں کی نظریں خوف سے ان کا طواف کر رہی تھیں-
شاید وہ آس پاس کہیں جن کی موجودگی کے آثار تلاش کررہے تھے۔

کسی کی ہمت نہ ہورہی تھی کہ وہ لڑکوں کے پاس جائے۔

اچانک چچا سلطان کا بیٹا کاشف جو چند دن پہلے ہی شہر سے آیا تھا۔ وہ آگے بڑھا اور ایک لڑکے کو سیدھا کیا۔ وہ تنویر تھا ۔ اس نے اسکی نبض چیک کی۔ دل پر ہاتھ رکھا۔ اور زور سے کہا۔

یہ صرف بے ہوش ہے۔ اسے اٹھا لیں۔

گاوں والے اپنے ساتھ ایک چارپا ئی بھی لائے تھے ۔ فورا ہی تنویر کو اٹھا کر چارپا ئی پر ڈال دیا گیا۔ لیکن سب بہت خوفزدہ سے انداز میں کام کر رہے تھے۔ کچھ لوگ کلمہ کا ورد کررہے تھے۔

اب کاشف اسد کی طرف بڑھا۔

وہ تھوڑا آگے تھا۔ اس کو سیدھا کیا اور اٹھانے کی کوشش کی۔

لیکن کاشف کو ایسے لگا جیسے پیچھے سے کسی نے اسد کو پکڑا ہو ا ہو۔۔

خوف کی ایک سرد لہر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاشف کے جسم سے سرسراتی ہوئی گذری۔۔

گرچہ لالٹینوں کی روشنی تھی مگروہ لوگ پیچھے ذرا فاصلے پر تھے۔ ویسے بھی روشنی صرف ایک رخ یعنی سامنے سے تھی۔

پیچھے کی طرف تو کچھ بھی نظرنہیں آتا تھا۔

کاشف پہلی مرتبہ خوف زدہ ہوا۔

لیکن ہمت کرکے اس نے اسد کو پھر اٹھانے کی کوشش کی ۔۔۔

اسے پھر ایسے لگا جیسے کسی نے اسد کو پیچھے سے پکڑ رکھا ہو۔۔

وہ اپنی خوف کی کیفیت کا اظہار نہیں کر نا چاہتا تھا۔

اسے پتہ تھا۔
یہ دیہاتی لوگ توہم پر ست ہیں۔۔
یہ اور بھی خوف زدہ ہو جائیں گے۔۔
اس کا ذہن بہت تیزی سے سوچ رہا تھا۔۔۔
اسکے ماتھے پر پسینے کے قطرے ابھر آئے۔۔۔


…………………………………………………….


اس کا ذہن بہت تیزی سے سوچ رہا تھا۔۔۔
اسکے ماتھے پر پسینے کے قطرے ابھر آئے۔۔۔

اس نے ایک بند ے کو لالٹین قریب لانے کو کہا۔۔

پھر لالٹین اسکے کے ہاتھ سے لے کر اسد کے پیچھے لے گیا۔۔۔

چند لمحے بعدہی وہ سب معمہ حل ہو گیا ۔۔

اوہ۔۔۔
تو یہ بات ہے۔۔

آدھے گھنٹہ بعد وہ سب اسد کے گھر میں بیٹھے ہو ئے ۔۔ تھے۔

اسد اور تنویر کو ہوش آگیا تھا۔ ۔۔

پہلے تو وہ بہت خوف زدہ تھے۔ بلکہ جب اسد کو ہوش آیا تو اس نے با قاعدہ دوڑنے کی کوشش کی۔۔

اور چیخنے لگا۔۔ جن نے مجھے پکڑ لیا ہے۔۔۔جن نے مجھے پکڑ لیا ہے۔۔۔

مولوی صاحب نے سورہ یٰسین پڑھ کر دم کی۔۔۔لوگوں نے حوصلہ دیا۔۔

اسکی ماں آب زم زم لے آئی۔۔

اور کچھ دیر بعد وہ پرسکون ہوا۔۔۔

رات تو تقریبا گذر ہی چکی تھی۔۔۔

اسد کے باپ نے اپنے گھر میں سب افراد کو

چائے پلائی ۔۔۔
موسم اتنا سردتو نہیں تھا۔ ۔
مگر رات نے خنکی بڑھا دی تھی

چائے کا دور ختم ہو نے کے باوجود

لوگ اسد کے پاس موجود تھے۔۔۔
سبھی کو تجسس تھا۔۔
اسد اور تنویر کے ساتھ ہوا کیا تھا۔۔۔

وہ کیسے بے ہوش ہوئے۔۔

کیا انہوں نے جن دیکھے۔۔

یہ اور اس ملتے جلتے سوالوں نے سب لوگوں کو وہاں روک رکھا ۔۔

یہ اس چھوٹے سے دیہات کی
بریکنگ نیوز تھی۔۔ بلکہ بریکنگ سٹوری تھی۔۔۔
جو شاید اگلے کئی ہفتے زیربحث آنی تھی۔۔
اس سٹوری کے اصل کردار ان کے سامنے تھے۔
وہ ان کے منہ سے ۔۔۔۔
سنسی خیزانکشافات سننے کے انتظار میں تھے۔

جاری ہے ۔۔۔ پارٹ ٹو.. 
………………………………………………….

Part-2ایک سیاہ رات کی کہانی



Part-2ایک سیاہ رات کی کہانی 


اس سٹوری کے اصل کردار ان کے سامنے تھے۔
وہ ان کے منہ سے ۔۔۔۔

سنسی خیزانکشافات سننے کے انتظار میں تھے۔۔

بالاخر مولوی صاحب بولے۔۔ 
فجر کی نماز میں تھوڑا سا وقت ہے۔۔
یہ سب لوگ۔۔
اسد اور تنویر کے منہ سے واقعات کی تفصیل سننا چاہتے ہیں۔۔

اگر اسد بیٹا اب بہتر محسوس کررہا ہے تو
ساری بات بتائے تاکہ لوگ گھر جائیں اور نماز کی تیاری کریں

اسد سے پہلے تنویر بولا
جی مولوی صاحب
میں بتاتاہوں۔۔


ہم لوگ جب اکرم اور شہباز کو بتا کر نکلے تو ہمارے ذہن خوف سے خالی تھے۔
ہم بہت پر اعتماد انداز سے بھن پر پہنچ گئے۔۔۔
وہاں پہنچے تو ایک ہولناک۔۔خاموشی کا سحر
ہرسو طاری تھا۔۔
بھن کے ساتھ ہی واقع پہاڑی بہت بڑی ،
اپنے حجم سے بہت بڑی لگ رہی تھی۔۔
پھر ہوا چلنے لگی۔۔


سرسراتی ہوا۔۔
پھراچانک ہمیں ایسا لگا ۔۔۔
جیسے کچھ آوازیں آ رہی ہوں۔۔۔۔

جیسے کوئی بول رہا ہو-۔۔

پتہ نہیں کیوں ہمیں کچھ کچھ خوف محسوس ہوا۔۔

لیکن اسد نے بھن سے بیس قدم گن کر ڈنڈے کو زمین میں ایک پتھر لے کر دبا نا شروع کیا ۔۔۔

میں بھی اسد کے پاس ہی تھا۔۔

ہر سوگھپ اندھیرا۔۔۔

ہوا چل رہی تھی۔۔ اور
پتہ نہیں کیوں ایسے لگ رہا تھا۔۔ جیسے کوئی بول رہا ہے۔۔
کچھ کہ رہا ہے۔۔

میں نےاسد کو کہا ۔۔۔
جلدی کرو ۔۔ مجھے خوف محسو س ہو رہا ہے۔۔

اسد بولا۔۔۔
ہاں یا ر ۔۔۔ کچھ ایسا ہی مجھے بھی لگ رہا ہے۔۔۔

میں ڈنڈے کو زمیں میں گاڑ رہاہوں ۔۔۔ لیکن بہت مشکل ہورہی ہے۔
کچھ نظرہی نہیں آ رہا۔۔

میں نے کہا
زور زور سے پتھر کو ڈنڈے کے سر پر مارو۔۔۔

پھراسد نے ایسے ہی کیا۔۔

اور بولا
چلواب بھاگو یہاں سے

جیسے ہی میں نےقدم اٹھایا۔۔
اسد چیخا۔۔

تنویر۔۔۔ تنویر۔۔

مجھے کسی نے پیچھے سے پکڑ لیا ہے۔۔

مجھے جن نے پکڑ لیا ہے۔۔

مجھے۔۔۔مجھ۔۔۔

اور پھروہ خاموش ہوگیا۔۔

مجھے ایسے لگا۔۔

میرے پاوں کسی نے زمین سے باندھ دیے ہوں۔۔

اور پھر ۔۔

شاید میں بھی خوف سے بے ہو ش ہوگیا۔۔

………………………………..

مجھے ایسے لگا۔۔
میرے پاوں کسی نے زمین سے باندھ دیے ہوں۔۔
اور پھر ۔۔
شاید میں بھی خوف سے بے ہو ش ہوگیا۔۔۔


اب آگے کی کہانی بلکہ اصل کہانی میں سناتا ہوں۔۔۔ 
اچانک چچا سلطان کا بیٹا کاشف بولا۔۔۔

تم۔۔۔
تنویر، اسد کے ساتھ تقریبا سب ہی لوگ چونک کر بولے۔۔۔
مگر تم تو ہمارے ساتھ ہی وہاں گئے تھے۔۔

جی ہاں ۔۔۔۔ 
میں آپ لوگوں کے ساتھ ہی گیا تھا۔۔۔
اور ایک لمحے کو تو ۔۔۔۔ سچی بات ہے۔۔۔ میں بھی بہت ڈر گیا تھا۔۔۔

مگرپھر اللہ نے مجھے ہمت دی۔۔۔

اور میں بات کی تہ تک پہنچ گیا۔۔۔

کاشف نے بہت پرسکون انداز میں جواب دیا۔۔

اب لوگ کاشف کی طرف متوجہ ہوگئے۔۔۔

سب کی آنکھیں ۔۔

تجسس سے جیسے پھٹ رہی تھیں۔۔۔

--
کاشف دھیما سا مسکرایا۔۔۔ اور کہا۔۔


آپ سب لوگوں کے سامنے میں پہلے تنویر کو جو کہ اسد سے چند قدم پہلے گرا ہوا تھا۔۔ چیک کیا ۔۔ اور آپ لوگوں کو اٹھا نے کا کہا۔۔

پھر

جب میں نےاسد کو اٹھانے کی کوشش کی تو مجھے ایسے لگا

جیسے اسے پیچھے سے کسی نے پکڑا ہوا ہو۔۔

میں لالٹین منگوائی اور جب دیکھا۔۔

تو

اسد کی قمیص ڈنڈے کے ساتھ ہی زمیں میں گڑی ہوئی ۔۔

دراصل اندھیرے میں اسے پتہ نہ چلا۔۔ہوگا۔۔

یوں جب اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو اسے لگا کہ

اسے کسی نے پکڑ لیا۔۔۔

حالانکہ ایسی کوئی بات نہ تھی۔۔

یہ ذہن میں جاگزیں خوف تھا ۔۔۔

جس نے انہیں بے ہوش کردیا۔۔۔۔

سب حیرت سے منہ پھاڑے کاشف کو دیکھے جارہے تھے۔۔۔

-----------------------------------------

THE END

Sunday, December 13, 2015

فرشتہ

آج صبح اچانک ہی آنکھ کھل گئی ۔ وقت دیکھا تو ابھی رات کے ساڑھے تین بجے تھے۔ حیرت سی ہوئی کہ ایسے کبھی پہلے نہیں ہوا۔ ہمیشہ موبائل کے الارم بجنے سے آنکھ کھلتی تھی۔ دوبارہ سونے کی کوشش کی لیکن نیند کوسوں دور بھاگ گئی۔ ایسے ہی سوچنے لگا ۔ اتنی جلدی آنکھ کھلنے کا سسب کیا ہے؟ کیا خواب میں کچھ ایسا دیکھ لیا۔ ذہن پہ زور دینے پر بھی کوئی خواب یا خواب سے متعلقہ کوئی منظر ذہن میں نہ آیا۔ بس الجھن سی ہونے لگی۔
کروٹ پہ کروٹ لیتا رہا نہ نیند آئی نہ بے چینی اور الجھن ختم ہوئی ۔ اتنے میں اذان کی آواز آئی ۔ سوچا جاگ تو رہا ہوں نماز پڑھ لوں۔ پلنک سے اٹھا اور جوتے پہن کر واش روم گیا ۔ وضو کرکے باہر نکلا تو بیگم بھی جاگتی نظر آئی۔
اس نے حیرت، غصے اور الجھن بھری نظروں سے مجھے دیکھا
میں نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا اور کمرے سے باہر نکلنے لگا تو پیچھے سے بیگم نے پوچھا
کہاں چلے
نماز کے لئے مسجد جا رہا ہوں۔
میں نے پلٹ کر جواب دیا۔
اور اسے حیرت اور الجھن میں ہی چھوڑ کر باہر آگیا۔
جب میں مسجد سے نماز پڑھ کر باہر نکلا تو محلے کے ایک صاحب نے سلام کیا اور حال احوال پوچھا ۔
میں نے اپنی خیریت سے آگاہ کرنے کے بعد اخلاقا اس سے خیریت دریافت کی تو اس نے بتا یا کہ اس کی بیگم پچھلے کئی دن سے ہسپتا ل میں داخل ہیں اور ڈاکٹر نے آپریشن کی تاریخ دی ہوئی ہے لیکن اس کی بیگم کے خون کا گروپ او نیگیٹو ہے ۔ جو کہ ایک کم باب گروپ ہے۔ ڈاکٹر ز نے کہا ہے کہ آپ کم از کم چھ بوتل او نیگیٹو گروپ کا انتظام کرلیں۔ ورنہ آپریشن مقررہ تاریخ کو نہ ہو سکے گا۔ اس نے اپنی سی پوری کوشش کر لی لیکن انتظام نہ ہو سکا۔ ہسپتال انتظامیہ نے کہا کہ وہ دو بوتل اس گروپ کے خون کی دے سکتے ہیں لیکن اس کے لئے اسے آٹھ بوتل کسی دوسرے گروپ کے خون کی دینی ہوں گی۔
وہ اسی پریشانی میں تھا اور اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے ۔
مجھے چند سال پہلے کا ایک منظر یا د آگیا۔
میں بھی اسی کی طرح پریشان ایک مشہور ہسپتال کے سامنے کھڑا اور تقریبا اسی طرح کی پریشانی سے دوچار تھا۔ تب ایک نوجوان نے مجھے سلام کیا اور کہا
سر آپ یہاں ؟ خیریت تو ہے۔
میں نے اسے جب بتایا کہ میری والدہ اسی ہسپتال میں ہیں اور انہیں فوری طور پر خون کی ضرورت ہے تو اس نوجوان نے میں مجھے کہا
اگرتو ایک بوتل چاہیے تو میں ابھی حاضر ہوں سر ورنہ مجھے صرف ایک گھنٹہ دیں ۔ میں اپنے سب دوستوں کو بلا لیتاہوں۔
میں نے اس دن پہلی بار ایک فرشتے کو انسانی شکل میں دیکھا تھا۔
مجھے سوچوں میں گم دیکھ کر وہ صاحب بولے
لگتا ہے آپ خود کسی پریشانی میں ہیں
نہیں نہیں۔ الحمدللہ ایسی بات نہیں ۔
آپ صرف یہ بتائیں کہ آپ کی بیگم کس ہسپتال میں ہیں۔ وارڈ اور بیڈ نمبر کیا ہے ۔
آپ کے لئے خون کا انتظام ہو جائے گا۔
وہ ایک دم سے جھٹکا کھا کر رک گیا۔
سچ کہ رہے ہیں آپ ؟
میں نے اسے مکمل تفصیل سے بتا یا کہ میں اس کے لئے کیسے خون کا انتظام کر سکتا ہوں اور یہ کا م میرے لئے کوئی مشکل نہیں ۔ تو اس کی آنکھیں بے اختیار نم ہو گئیں۔
اور اس نے ایک مجھے گلے لگا لیا۔
اور کہا
قسم کھا کر کہ رہاہوں ۔ میں نے آج زندگی میں پہلی بار ایک فرشتے کو انسانی شکل میں دیکھا ہے۔
میں چپ تھا ۔ لیکن مجھے صبح سویرے آنکھ کھلنے کی وجہ سمجھ میں آگئی