ماں کی یا د کے 36 آنسو
محمد نور آسی
آج میں آپ سے اپنے آنسو شیئر کرنا چاہتا ہوں
یہ آنسو میری ماں کی یا د کے آنسو ہیں
میں نے یہ اشعار اپنی ماں کی یا د میں لکھے ہیں۔
اور بہتے آنسووں کے ساتھ لکھےہیں ۔
یہ اشعار ان تمام بھائیوں ، بہنوں ، دوستوں کے نام جن کی مائیں
اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔
یقینا میرے آنسوان سب کو رلا دیں گے۔ جن کے غم میرے جیسے ہیں۔
یہ 36 مصرعے نہیں ، 36 آنسوہیں
بہت چھوٹا سا تھا جب میں، میری دنیا بھی چھوٹی تھی
میری ہستی کا کل سا ما ں ، تیری آغوش ہو تی تھی
تیرے سینے سے لگ کرمیں ہر اک غم بھول جا تا تھا
تیرے چہرے کو تک کرمیرے دل کی پیاس بجھتی تھی
تیری دنیا فقط میں تھا ، میری دنیا فقط تو تھی
میں تجھ کو دیکھ جیتا تھا، تو مجھ کو دیکھ جیتی تھی
تیرے وہ پھول سے بازو، مجھے خوابوں میں لے جاتے
تیرے چہرے پہ بکھرے نور سے ہو تی سحر میری
میں بھوکا ہوں کہ پیاسا ہوں، میں خوش ہوں یا کہ افسردہ
فقط اک تیری ہستی تھی، جسے سب تھی خبر میری
تیرا چہرہ جو ہوجاتا، اگر اک پل کہیں اوجھل
تو ہرآہٹ پہ چونک اٹھتی تھی یہ بے چیں نظر میری
تیرا رس گھولتا لہجہ ، میری تسکین کا ساماں
تیرا دستِ مسیحائی ، میرے ہر درد کا درماں
میرے پہلے قدم کی لرزشوں سے سیدھا چلنےتک
تیری چاہت بھری نظریں ہراک حرکت پہ تھیں درباں
بلائیں دور رہتی تھیں، ہمیشہ سوقدم مجھ سے
دعائے نیم شب سے میرے رستے روشن و تاباں
میں گھر سے جب نکلتا تھا، دعائیں ساتھ چلتی تھیں
جھلستی دھوپ میں ، ٹھنڈی ہوائیں ساتھ چلتی تھیں
کبھی پر پیچ رستوں پر قدم نہ ڈگمگائے تھے
ہمشہ ذکر کرتی وہ ، نگاہیں ساتھ چلتی تھیں
میرے حصے کے زخموں سے بدن چھلنی رہا تیرا
مجھے حلقے میں ڈالے، تیری بانہیں ساتھ چلتی تھیں
مگراب کسیے بتلاوں کہ وہ ہستی نہیں باقی
نہ وہ دست دعا باقی ، نہ وہ پاکیزہ صورت ہے
یہ آنسواب مقدر ہیں کہ ان کو پونچھنے والے
مشفق ہا تھ ہیں تیرے ، نہ چادر کی حرارت ہے
زمانے بھر کے غم ہیں اور اکیلا تیرا بیٹا ہے
مجھے تیری دعاوں کی بہت اب تو ضرورت ہے
میرے مولا، میری اک التجا ہے تیری رحمت سے
تیرے گلشن میں ہر سوپیارہی کے پھول کھل جائیں
ہے دنیا جب تلک باقی ، سدا مائیں رہیں زندہ
لگے جو زخم دل پر ہیں تو شاید یوں وہ سل جائیں
مجھے تسلیم ہے کہ موت بر حق ہے، مگر مالک
سبھی بیٹوں کی عمریں ، کاش ان ماوں کو مل جائیں
یہ آنسو میری ماں کی یا د کے آنسو ہیں
میں نے یہ اشعار اپنی ماں کی یا د میں لکھے ہیں۔
اور بہتے آنسووں کے ساتھ لکھےہیں ۔
یہ اشعار ان تمام بھائیوں ، بہنوں ، دوستوں کے نام جن کی مائیں
اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔
یقینا میرے آنسوان سب کو رلا دیں گے۔ جن کے غم میرے جیسے ہیں۔
یہ 36 مصرعے نہیں ، 36 آنسوہیں
بہت چھوٹا سا تھا جب میں، میری دنیا بھی چھوٹی تھی
میری ہستی کا کل سا ما ں ، تیری آغوش ہو تی تھی
تیرے سینے سے لگ کرمیں ہر اک غم بھول جا تا تھا
تیرے چہرے کو تک کرمیرے دل کی پیاس بجھتی تھی
تیری دنیا فقط میں تھا ، میری دنیا فقط تو تھی
میں تجھ کو دیکھ جیتا تھا، تو مجھ کو دیکھ جیتی تھی
تیرے وہ پھول سے بازو، مجھے خوابوں میں لے جاتے
تیرے چہرے پہ بکھرے نور سے ہو تی سحر میری
میں بھوکا ہوں کہ پیاسا ہوں، میں خوش ہوں یا کہ افسردہ
فقط اک تیری ہستی تھی، جسے سب تھی خبر میری
تیرا چہرہ جو ہوجاتا، اگر اک پل کہیں اوجھل
تو ہرآہٹ پہ چونک اٹھتی تھی یہ بے چیں نظر میری
تیرا رس گھولتا لہجہ ، میری تسکین کا ساماں
تیرا دستِ مسیحائی ، میرے ہر درد کا درماں
میرے پہلے قدم کی لرزشوں سے سیدھا چلنےتک
تیری چاہت بھری نظریں ہراک حرکت پہ تھیں درباں
بلائیں دور رہتی تھیں، ہمیشہ سوقدم مجھ سے
دعائے نیم شب سے میرے رستے روشن و تاباں
میں گھر سے جب نکلتا تھا، دعائیں ساتھ چلتی تھیں
جھلستی دھوپ میں ، ٹھنڈی ہوائیں ساتھ چلتی تھیں
کبھی پر پیچ رستوں پر قدم نہ ڈگمگائے تھے
ہمشہ ذکر کرتی وہ ، نگاہیں ساتھ چلتی تھیں
میرے حصے کے زخموں سے بدن چھلنی رہا تیرا
مجھے حلقے میں ڈالے، تیری بانہیں ساتھ چلتی تھیں
مگراب کسیے بتلاوں کہ وہ ہستی نہیں باقی
نہ وہ دست دعا باقی ، نہ وہ پاکیزہ صورت ہے
یہ آنسواب مقدر ہیں کہ ان کو پونچھنے والے
مشفق ہا تھ ہیں تیرے ، نہ چادر کی حرارت ہے
زمانے بھر کے غم ہیں اور اکیلا تیرا بیٹا ہے
مجھے تیری دعاوں کی بہت اب تو ضرورت ہے
میرے مولا، میری اک التجا ہے تیری رحمت سے
تیرے گلشن میں ہر سوپیارہی کے پھول کھل جائیں
ہے دنیا جب تلک باقی ، سدا مائیں رہیں زندہ
لگے جو زخم دل پر ہیں تو شاید یوں وہ سل جائیں
مجھے تسلیم ہے کہ موت بر حق ہے، مگر مالک
سبھی بیٹوں کی عمریں ، کاش ان ماوں کو مل جائیں
ماشااللہ
ReplyDeleteبہت درد بھری تحریر لکھی ہے آپ نے ماں کی یاد دلادی. زندگی کے نشیب و فراز میں ماں کی یاد بہت تڑپاتی ہے. آپ نے تو واقعئی رلادیا.
نازنین خان
بہت بہت شکریہ نازنین خان
ReplyDelete