صفحات

Sunday, February 18, 2024

میں ہار جاؤں محبت میں کب گوارا ہے

 میں ہار جاؤں محبت میں کب گوارا ہے

عجیب کھیل ہے یہ جیت بھی خسارا ہے

ہر ایک شخص سے ملتا ہے اس تپاک کیساتھ

ہر ایک شخص سمجھتا ہےوہ ہمارا پے

بچھڑنے والے تجھے وہ بھی سونپ دیتا ہوں

جو چشم نم میں مری آخری ستارا ہے

عجب گلی ہے جہاں روشنی نہیں جاتی

کہیں پہ اشک کہیں پر کوئی ستارہ ہے

کہیں سمٹنے میں آئے تو سانس لیں ہم بھی

یہ زندگی ہے کہ دکھ درد کا کھلارا ہے

قدم قدم نئے لہجے ہیں اپنی مٹی کے

ہراک زباں میں الگ ذائقہ ہمارا ہے

یہ چاند تارے توہیں صرف میرا عکس جمال

یہ آسماں میری مٹی کا استعارہ ہے

گذر کے ایا ہے کس کرب سے یہ سوچ ذرا

ہمارا اشک اگر ذائقے میں کھارا ہے

بھنور مزاج ہیں ہم اور ہمیں بتایا گیا

کہ اس طرف نہ چلیں جس طرف کنارا ہے

تمھارا سانحہ تاریکیوں میں لٹنا تھا

ہمارا المیہ ہےیہ ،روشنی نے مارا ہے

Tuesday, February 13, 2024

جسے سناتے ہوئے عمر کاٹ دی میں نے


جسے سناتے ہوئے عمر کاٹ دی میں نے 


جسے سناتے ہوئے عمر کاٹ دی میں نے

وہ ایک بات بھی  پوری کہاں کہی میں نے

یوں حرف و لفظ کی سیکھی ہے ساحری میں نے

کہ بات کہنے سے پہلے ،بہت سنی میں نے

محال سانس بھی لینا جہاں کیا گیا تھا

یہ کم نہیں ہے وہاں عمر کاٹ دی میں نے

نہیں ہے کوئی سزاوار اب سماعت کا

صدا لگا کے بھی دیکھا گلی گلی میں نے

ملے گا وقت تو جانیں گے کیا نواح میں ہے

ابھی تو اس کو بھی دیکھا ہے سرسری میں نے

اداس بیٹھا تھا ، پھر ایک بسرے لمحے کو

بہت لطیف سی کردی ہے گدگدی میں نے

روئیں روئیں میں دکھوں سے ہراک کٹاؤ بھرا

اور ایک شال بھی اوڑھی ہے ساحلی میں نے

تمارے شہر میں چشمے کہاں سے لا تا میں

سو اپنے اندر ہی کھودی ہے باؤلی میں نے

ملائمت سی جو لہجے میں ہے ، جواز تو ہے

زمانے بھر سے سنی ہے جلی کٹی میں نے

عجب نہیں ہے کہ جنگل میں وہ سنائی دے

وہ  بات جو کبھی پہلے نہیں سنی میں نے

مرے دروں میں کوئی لو ہے جو جھلکتی ہے

کہاںکسی سے بھی مانگی ہے روشنی میں نے

میں پہلے  سانس کی آری سے ریاض کرتا رہا

پھر اس کے بعد خریدی تھی بانسری میں نے

کہاں یہ چھاؤں سی ٹھنڈک مرے وجود میں تھی

بہت رکھی ہے درختوں سے دوستی میں نے

میں اپنی ساری سپہ ، سارے خوف چھوڑ آیا 

کہ اب کے لڑنی تھی اک جنگ آخری میں نے

وہ گھر میں آیا اچانک ، سو ایسی عجلت میں

کہیں چراغ، کہیں چاندنی دھری میں نے

Monday, July 27, 2020

تعجب ہے کہ جو سردار بھی ہے

 تعجب ہے کہ جو سردار بھی ہے


تعجب ہے کہ جو سردار بھی ہے
 قبیلے کا وہی غدار بھی ہے
عداوت سے بہت بےزار بھی ہے
 مگر وہ برسرِ پیکار بھی ہے
محبت وادی ء پرخار بھی ہے
کرم ہوجائے تو گل زار بھی ہے
اسی سے زندگی میں رنگ سارے
تعلق باعث آزار بھی ہے
لبوں پر "ہاں"  نگاہوں میں "نہیں" ہے
"بہم انکار بھی اقرار بھی ہے"
کنارے میری قسمت میں کہاں ہیں
کوئی دریا ہی دریا پار بھی ہے
تیرے لہجے میں جھرنوں کا ترنم
مگر تلوار سی اک دھار بھی ہے
 کس و ناکس کی جو کرتا ہو عزت
وہی تعظیم کا حق دار بھی ہے
وہی ہے دل کی راحت کا سبب بھی
مگر وہ باعثِ آزار بھی ہے
میرا وجدان آسی کہ رہا ہے
کوئی روزن پسِ دیوار بھی ہے
محمد نور آسی
27 جولائی 2020