سحر سے پوچھتے کیوں ہیں کہ میرا اک دیا کم ہے
Tuesday, February 20, 2024
Monday, February 19, 2024
Sunday, February 18, 2024
میں ہار جاؤں محبت میں کب گوارا ہے
میں ہار جاؤں محبت میں کب گوارا ہے
عجیب کھیل ہے یہ جیت بھی خسارا ہے
ہر ایک شخص سے ملتا ہے اس تپاک کیساتھ
ہر ایک شخص سمجھتا ہےوہ ہمارا پے
بچھڑنے والے تجھے وہ بھی سونپ دیتا ہوں
جو چشم نم میں مری آخری ستارا ہے
عجب گلی ہے جہاں روشنی نہیں جاتی
کہیں پہ اشک کہیں پر کوئی ستارہ ہے
کہیں سمٹنے میں آئے تو سانس لیں ہم بھی
یہ زندگی ہے کہ دکھ درد کا کھلارا ہے
قدم قدم نئے لہجے ہیں اپنی مٹی کے
ہراک زباں میں الگ ذائقہ ہمارا ہے
یہ چاند تارے توہیں صرف میرا عکس جمال
یہ آسماں میری مٹی کا استعارہ ہے
گذر کے ایا ہے کس کرب سے یہ سوچ ذرا
ہمارا اشک اگر ذائقے میں کھارا ہے
بھنور مزاج ہیں ہم اور ہمیں بتایا گیا
کہ اس طرف نہ چلیں جس طرف کنارا ہے
تمھارا سانحہ تاریکیوں میں لٹنا تھا
ہمارا المیہ ہےیہ ،روشنی نے مارا ہے
Tuesday, February 13, 2024
جسے سناتے ہوئے عمر کاٹ دی میں نے
جسے سناتے ہوئے عمر کاٹ دی میں نے
جسے سناتے ہوئے عمر کاٹ دی میں نے
وہ ایک بات بھی پوری کہاں کہی میں نے
یوں حرف و لفظ کی سیکھی ہے ساحری میں نے
کہ بات کہنے سے پہلے ،بہت سنی میں نے
محال سانس بھی لینا جہاں کیا گیا تھا
یہ کم نہیں ہے وہاں عمر کاٹ دی میں نے
نہیں ہے کوئی سزاوار اب سماعت کا
صدا لگا کے بھی دیکھا گلی گلی میں نے
ملے گا وقت تو جانیں گے کیا نواح میں ہے
ابھی تو اس کو بھی دیکھا ہے سرسری میں نے
اداس بیٹھا تھا ، پھر ایک بسرے لمحے کو
بہت لطیف سی کردی ہے گدگدی میں نے
روئیں روئیں میں دکھوں سے ہراک کٹاؤ بھرا
اور ایک شال بھی اوڑھی ہے ساحلی میں نے
تمارے شہر میں چشمے کہاں سے لا تا میں
سو اپنے اندر ہی کھودی ہے باؤلی میں نے
ملائمت سی جو لہجے میں ہے ، جواز تو ہے
زمانے بھر سے سنی ہے جلی کٹی میں نے
عجب نہیں ہے کہ جنگل میں وہ سنائی دے
وہ بات جو کبھی پہلے نہیں سنی میں نے
مرے دروں میں کوئی لو ہے جو جھلکتی ہے
کہاںکسی سے بھی مانگی ہے روشنی میں نے
میں پہلے سانس کی آری سے ریاض کرتا رہا
پھر اس کے بعد خریدی تھی بانسری میں نے
کہاں یہ چھاؤں سی ٹھنڈک مرے وجود میں تھی
بہت رکھی ہے درختوں سے دوستی میں نے
میں اپنی ساری سپہ ، سارے خوف چھوڑ آیا
کہ اب کے لڑنی تھی اک جنگ آخری میں نے
وہ گھر میں آیا اچانک ، سو ایسی عجلت میں
کہیں چراغ، کہیں چاندنی دھری میں نے