صفحات

Thursday, December 4, 2014

تکیہ کلام

تکیہ کلام
از محمد نو آسی
یہ تکیہ کلام بھی کیا عجب چیز ہے۔ جس بندے سے چپک جائے پھر جان نہیں چھوڑتا۔ عمومی تکیہ کلام تو خیر پھربھی قابل برداشت ہوتے ہیں  جیسے " اور سنائیں" یا پھر " تو میں کہ رہا تھا"ٗ لیکن کچھ لوگوں کا تکیہ بہت الجھاؤ پیدا کرتا ہے۔
میرے ایک دوست ہیں جن کا تکیہ کلا م ہے " اچھا پھر کیا ہوا؟" ۔ اب آ پ کوئی بھی بات کریں اور وہ مکمل بھی ہوجائے تو موصوف ضرور بولیں گے اچھا پھر کیا ہوا۔ ایک دفعہ ان سے بات ہورہی تھی کہ اپنے فلاں کلاس فیلو کا انتقال ہو گیا ۔
حسب عادت بولے" پھر کیا ہوا"
 بھئی مرحوم کا جنازہ  ہوا اور میں جنازے میں شریک ہوا ۔
بولے اچھا پھر کیا ہوا؟
"بس جنازے کے بعد میت کو قبرستان لے گئے اور دفنایا"
اچھا پھر کیا ہوا
میں بھنا کر رہ گیا۔
اب میں انہیں قبر کا احوال تو بتانے سے رہا۔
ایک اور مہربان ہیں۔ جن کا تکیہ کلام ہے " بس مت پوچھو"
جب  بھی ملتے ہیں بدحواسی چہرے پر ایسے جلوہ فرما ہوتی ہے۔  جیسے خواتین کے چہرے پہ میک اپ
حال پوچھو تو وہی جواب
بس مت پوچھو ۔
کئی دفعہ جھنجھلا کر اگر کہ کہ اچھا نہیں پوچھتے تو
بنا پوچھے وہ رام لیلا چھیڑتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔
بیگم کی پنڈلی میں ہونے والی خارش سے لے کر دودھ پیتے منے کے منہ کے چھالوں تک ساری تفصیل بتاکر ہی دم لیں گے۔ اور آخر میں یہ ضرور فرمائیں گے
بس مت پوچھو
ایک اور مہربان کا تکیہ کلا م کو بندے کو زچ کرکے رکھ دیتا ہے
جی ہاں ان کا تکیہ کلام ہے " معاملہ اس سے بھی خراب ہوسکتا تھا"
اب آپ ان سے دنیا جہاں کے کسی موضوع پر بات کرلیں۔ان کے مرغے کی ایک ٹانگ ہوگی۔
کسی دوست نے بتایا کہ بیٹے کو بخار ہوگیا ہے۔ کسی دوائی سے اتر نہیں رہا
تو بولے ۔ شکرکرو۔ معاملہ اس سے بھی خراب ہوسکتاتھا۔
دوست چڑ کر بولا
کیاخراب ہوسکتاتھا۔
بھئی دیکھو نا۔ بخار کا کیا ہے اتر ہی جائے گا لیکن خدانخواستہ بچے کو ہیپاٹائٹس بھی تو ہوسکتا تھا
اب وہ مارنے کو ہی دوڑے۔
ایک دوست کے بیٹے کا موٹر سے ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ۔
وہاں گئے تو حسب عادت بول دیا
کوئی بات نہیں۔ معاملہ اس بھی خراب ہوسکتا تھا۔
وہ دوست تو خیر چپ رہے لیکن ان کی بیوی چٹخ کر بولی
میرے بیٹے کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور آپ بول رہے ہیں کہ معاملہ اس سے بھی خراب ہوسکتا تھا۔
گڑبڑا کر بولے
جی جی۔ میرا مطلب تھا کہ دونوں ٹانگیں بھی تو ٹوٹ سکتی تھیں نا۔
پھر اس کے بعد حالات کیا بتائیں۔ ہم اس کی جگہ بھابی سے معافیاں مانگتے رہے۔
اور پینے کو پانی بھی نہ ملا
موصوف کئی مرتبہ مار کھا چکے ہیں لیکن مجال ہے جو اپنے تکیہ کلام سے پیچھے ہٹے ہوں
ہم نے کئی بار سوچا کہ کوئی ایسی صورت حال ہو کہ یہ صاحب اپنا فقرہ نہ بول پائیں ۔ لیکن انوکھی سے انوکھی صورت حال میں یہ موصوف اپنا راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔
لیکن آخرِکا ایک دن ایک ایسا اندوہناک واقعہ پیش آیا کہ ہم دوستو﷽ں کا خیال ہوا کہ اس واقعے پر وہ اپنا تکیہ بھول جائیںگے ۔
واقعہ کچھ یوں تھا کہ ہمارے محلے میں ایک صاحب عزیزالدین نامی رہتے تھے۔ جنہوں نے پچھلی عمر میں ایک نوجوان دوشیزہ سے شادی کی تھی۔ طبیعت کے انتہائی تیز اور شکی مزاج تھے۔ بازار میں پان کی دوکان تھی۔ دن میں دو سے تین بار گھر کا چکر لگاتے تھے۔ ان کی بیگم کافی کھلی ڈلی طبیعت کی تھیں۔ اورمحلے کے کئی افراد موقع پاکر ان کے گھرآیا جایا کرتے تھے۔
ایک دن پہلے وہ اپنے معمول سے ہٹ کر گھر آئے تو کسی اجنبی کو اپنے بیوی کے پاس بیٹھے دیکھ کر شدید غصے میں آگئے اور گھرمیں پڑے پسٹل سے دونوں کو بھون ڈالا۔ بعد میں خود بھی خودکشی کرلی۔
واقعہ اتنا اندوہناک تھا کہ اس پر سوائے افسوس کے اور کہا جا سکتا تھا۔ چنانچہ ہم نے یہ بات جب اپنے اسی دوست کو بتائی تو
یاحیرت۔۔۔ ٹھک سے بولے
اوہ۔۔ معاملہ اس بھی خراب ہوسکتا تھا۔
ہم ہکے بکے رہ گئے۔
کیسے؟؟؟؟
ان کا پورا گھر اجڑ گیا ۔ اب معاملہ اس سے زیادہ کیا خراب ہوسکتا تھا؟؟؟
بہت پرسکون ہو کر بولے
اچھا یہ بتاو۔ یہ واقعہ کب پیش آیا۔
ہم نے کہا کہ کل
بولے
اگر عزیزالدین پرسوں اسی ٹائم پر گھر آجاتے تو یہ خاکسار زندہ آپ کے سامنے کھڑا نہ ہوتا۔
اب بتاؤ معاملہ اس سے زیادہ خراب ہو سکتا تھا کہ نہیں
ہم تو گنگ ہو کر رہ گئے۔



Sunday, August 17, 2014

محبت سب کے لئے

محبت سب کے لئے

میری یہ تحریر آج سے کچھ سال پہلے پاک نیٹ پہ شائع ہوئی ۔ اور اس کے بعد یہ مختلف فورمز اور پیجز پر کاپی پیسٹ ہوتی 
  رہی۔ آج اتفاق سے کسی نے فیس بک پہ پوسٹ کی  تو میں اسے محفوظ رکھنے کی خاطر اپنے بلاگ پر لگا یا  ہے۔محمد نور آسی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

ایک ٹیچر اپنی کلاس کے معصوم بچوں کو محبت اور نفرت کا فرق سمجھا نا چاہ رہی تھی ۔ اس نے بچوں کو ایک کھیل کے
 ذریعے یہ سبق سکھا نے کا فیصلہ کیا ۔ اور بہت سوچنے کے بعد اس نے بچوں کو کہا
" بچو ہم ایک کھیل کھیلنے جا رہے ہیں ۔ جس کے آخر میں آپ کو ایک بہت شاندار سبق بھی حا صل ہو گا۔ کیا آپ سب یہ کھیل کھیلنے کیلئے تیار ہیں"
بچوں نے یک زبان ہو کر کہا" جی ۔ بالکل"
" تو بچو۔ آپ کو کرنا یہ ہے کہ کل جب آپ سکول آئیں تو اپنے ساتھ ایک شاپنگ بیگ میں اتنے ٹماٹر ڈال کرلائیں جتنے لوگوں سے آپ نفرت کرتے ہیں"
ٹیچر نے کہا
سب بچوں نے بڑے جوش و خروش سے ٹیچر سے وعدہ کیا کہ کل وہ ایسا ہی کریں گے۔
چنانچہ دوسرے دن ہر بچے کے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا۔ کسی میں ایک ٹماٹر ، کسی میں دو اور کسی میں پانچ ٹماٹرتھے۔ غرضیکہ ٹماٹڑوں کی تعداد ان لوگوں کی تعداد ظاہر کررہی تھی جتنے لوگوں سے وہ نفرت کرتے تھے۔
اب ٹیچر نے سب بچوں سے کہا۔" بچو۔ آپ سب لوگ اپنے اپنے شاپنگ بیگز کو
بند کرلیں اور ان کو ہر وقت اپنے پاس رکھنا ہے۔ چاہے آپ کلاس میں ہوں ، گھر میں ہوں، سورہے ہوں، کھانا کھا رہے ہوں۔ بس یہ شاپنگ بیگ آپ کے پاس رہے۔ اور ہاں یہ کھیل ایک ہفتہ کیلئے ہے۔ ایک ہفتے کے بعد اس کھیل کا اختتام ہوگا"
سب بچوں نے کہا" جی ۔ ہم سمجھ گئے۔ یہ تو بڑا آسان سا کھیل ہے"
لیکن یہ آسان کھیل بچوں کیلئے بہت مشکل ثابت ہوا۔ دوسرے ہی دن ٹماٹروں سے بد بو آنا شروع ہوگئ۔ مزید یہ کہ جن کے پاس زیادہ ٹماٹر تھے یعنی جو بچے زیادہ لوگوں سے نفرت کرتے تھے۔ ان کیلئے دہری مصیبت تھی۔ بدبو کے ساتھ وزن بھی اٹھانا، ہر وقت اپنے پاس رکھنا، ایک عذاب بن گیا ۔
جلد ہی بچے تنگ آگئے۔ لیکن کھیل تو ایک ہفتے کا تھا۔
تیسرے چوتھے دن ہی بچوں کی ہمت جواب دینے لگی۔ بد بو سے سب کا برا حال تھا۔ انہوں نے ٹیچر سے کہا" میڈم یہ کھیل جلدی ختم کریں ورنہ ہم بیمار ہو جائیں گے"
ٹیچر نے جو بچوں کی پریشانی دیکھی تو کہا" ٹھیک کھیل آج ہی ختم کردیتے ہیں- آپ لوگ جلدی اپنے اپنے شاپنگ بیگ متعلقہ جگہ پر ڈال کر ، ہاتھ دھو کر آئیں – پھر اس کھیل کے بارے میں بات کرتے ہیں"
بچے تو خوشی سے اچھل پڑے اور فورا باہر بھاگے۔ تھوڑی دیر جب سب بچے واپس کلاس میں آئے تو انکے چہروں پر تازگی کے ساتھ تجسس کے تاثرات موجود تھے اور وہ منتظر تھے کہ اس کھیل کا مقصد اور نتیجہ جان سکیں۔
ٹیچر نے سب بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
" بچو۔ آپ نے دیکھا کہ آپ جتنے لوگوں سے نفرت کرتے تھے ۔ انکی علامت کے طور پر ٹماٹر ساتھ رکھنا کتنا مشکل اور تکلیف دہ کام تھا۔
ہم جب کسی سے نفرت کرتے ہیں تو اس کا احساس ہمارے دل میں رہتا ہے۔
یہ احساس، یہ سوچ دماغ میں رہتی ہے۔ اور
یہ سوچ، یہ احساس ان ٹماٹروں کی طرح جب کئی دنوں تک پڑی رہتی ہے تو
بدبو پیدا کردیتی ہے، تعفن پھیلا دیتی ہے۔ ذرا سوچئے ہم کتنے مہینوں، سالوں سے یہ بدبو بھرا تعفن زدہ احساس اپنے دل میں رکھے ہوئے ہیں ۔ کیا ہمارا دل اس سے تنگ نہیں ہوتا؟
اس گندگی سے ہمارا دل اور دماغ میلے نہیں ہو جاتے ۔؟
اگر ہم اس بدبو اور گندگی کی جگہ محبت جیسا خوشبو انگیز احساس دل میں رکھیں تو ہمارا دل خوش نہیں ہوگا۔"
بچوں کو اب احسا س ہو رہا تھا۔ کہ میڈم کتنی بڑی سچائی بیان کررہی ہیں۔
تو بھائیو- بہنو
کیا ہم نفرت نہیں چھوڑ سکتے ۔
کیاہم اپنےدل و دماغ صاف نہیں رکھ سکتے ؟
صرف ایک احساس ، ایک جذبہ
محبت سب کیلئے

Monday, May 20, 2013

شادی ۔ ایک مذہبی فریضہ یا نمائش

شادی ۔ ایک مذہبی فریضہ یا نمائش
تحریر : محمد نور آسی

شادی ۔۔۔۔ شادی ۔۔۔۔
خانہ آبادی۔۔۔
ہر مذ ہب میں شادی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے - اسلام میں شادی حکم خداوندی کے ساتھ ساتھ سنت رسول بھی ہے۔
اسلام شادی کو معاشرے کی بنیا د کا پہلا پتھر قرار دیتا ہے ۔ اور قران میں بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ شادی، میاں بیوی کے تعلقات، اور طلاق جیسے معاملات کو بیان کیا گیا ہے۔
شادی جہان ایک مذہبی فریضہ ہے وہیں ایک اہم ذمہ داری بھی ہے۔
ایک مر د یا ایک عورت شا دی کے معاشرے میں عملی کردار ادا کرنے کی ابتدا کرتے ہیں۔
چنانچہ ضروری ہے کہ شادی سے پہلے ہی ہر دو افراد کو ان تمام ذمہ داریوں سے مکمل آگاہ کیا جائے جو ایک معاشرے کا فعال رکن بننے کی حیثیت سے ان پر نا فذ ہوتی ہیں۔
ہمارے ماحول میں شادی اب ایک مذہبی فریضے سے زیا دہ ایک نمائشی پروگرام اور ایک نام نہادثقافتی شو بن کر رہ گئی ہے - اسکے پیچھے ایک مکمل تاریخ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برصغیر پاک وہند کا علاقہ اسلام کی روشنی آنے سے پہلے بہت سارے من گھڑت مذاہب کی آماجگا ہ
رہاہے ۔ جن میں سر فہرست ہندو مت ہے۔ ہندو مت بنیادی طور کچھ رسومات اور کچھ توہمات کا ملغوبہ ہے- شادی کے حوالے سے جہیز کا معاملہ سر فہرست ہے۔ ہندووں میں وراثت کے جو قوانین ہیں- ان میں خواتین کو بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے۔ تاہم اس خامی کو جہیز کی روائت سے درست کرنے کی کو شش کی گئی ہے۔ چنانچہ ہندو معاشرے میں ایک لڑکی کے والدیں اسے وراثت میں حصے کے بجائے جہیز کی شکل میں متبادل دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اسی طرح لڑکی کے قریبی عزیز اقارب کو ایک نام نہاد رسم کے تحت لڑکی کو جہیز کیلئے حصہ ڈالنے کا پابند بنا یا گیا ہے۔ جسے مختلف علاقوں مختلف نام دیے گئے ہیں ۔ مثلا ننھال کا دین، دوھیال کا دین وغیرہ۔
شادی پر فضول اور بے معنی رسموں کے ذریعے اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنے کی لت بھی اسی ہیندوانہ معاشرے کی روائت ہے۔
چونکہ برصغیر میں لڑکی لڑکے کے آزادانہ ملاپ کو صدیوں پہلے سے قابل مذمت سمجھا جا تا تھا لہذا شادی کو لڑکی لڑکے آزادانہ اختلاط کا ذریعہ بھی بنایا گیا۔ اور شادی میں کچھ ایسی رسموں کا اضافہ کیا گیا جس میں ہردو جنس براہ راست شریک ہو سکے۔ اس میں میں مختلف علاقوں میں مختلف انداز اور مختلف ناموں کے ساتھ رسوم ملتی ہیں لیکن مقصد سب کا ایک ہی ہے۔
شادی پر ڈھول اور ناچ گانا بھی اہم رسم شمار کی جا تی ہے-اس میں پیسے کے ضیاع کو قابل فخر رسم سمجھا جاتا۔ ڈھول باجے بجانے والوں اور ناچ گانا کرنے والوں پر پیسے لٹانا اسی جاہلانہ معاشرےکی نفسیاتی احساس کمتری کا مظہر ہے۔
جہیز بنانا تو پھر بھی سمجھ میں آتا ہے۔ مگر خصوصی طور ایک دن مخصوص کرکے جہیز کی نمائش کرنا بھی صدیوں پرانی رسم ہے ۔ یہ رسم جہاں نام نہاد احساس تفاخر بلکہ تکبر کی نمائندہ ہے وہیں غریب افراد کی دل شکنی کا با عث بھی ہے۔
اسی طرح جہیز مانگ کر لینا، اپنی مطالباتی فہرست دلہن کے والدین کر پیش کرنا اور انکی مالی حیثیت سے بڑھ کر جہیز مانگنا انسانیت کی توہین ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں اسے معمولی بات سمجھا جا تا ہے۔یہ روائت بھی تاریخ نے دی ہے۔
اپنی حیثیت سے بڑھ کر بارات بنا کر دلہن کے گھر جانا، ویلیں دینا، اور راستوں میں ناچ گانا، ہلڑبازی کرنا کسی مہذب معاشرے میں رائج نہیں ۔ مگر ہمارے ہاں اسے شادی کا جزو لاینفک گردانا جاتا ہے۔
ولیمہ بھی ایک نمائشی رسم بنا دیا گیا ہے۔ یہاں بھی زیادہ سے زیادہ افراد کو مدعو کرنا، ہوٹلوں میں کھانے کا انتظام کرنا، کھانے کے دوران بے جا بے صبری ، ہلڑبازی، اور کھانے کا ضیا ع جیسی چیزیں ولیمہ کی تقریب کی اسلامی روح سے قطعا مماثلت نہیں رکھتیں۔
بات شادی تک محدود نہیں۔ شادی کے بعد بھی فضول رسومات کی ایک لمی فہرست ہے۔ جو خصوصی طور پر لڑکی کے والدین کو معا شی لحاظ مزید کمزور کرتی ہے۔
دیکھا جائے تو موجودہ رسم و رواج کے سا تھ شادی لڑکی کے والدین کیلئے انکے معاشی قتل کے مترادف ہے۔
مجھے سمجھائیے ہماری شادیوں میں سوائے نکاح کے کونسی چیز اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے؟






















Sunday, March 17, 2013

مشکل کشا ہتھیار


 مشکل کشا ہتھیار


اررے ارررررے

گھبرائیں نہیں
میں کسی ایسے ہتھیار کی بات نہیں کر وں گا جس کیلئے لائسنس کی ضرورت پڑے
بس ایک سادہ سا ہتھیارہے
جو آپ کی بہت سی مشکلوں کو آسان کرنے میں فی زمانہ بہت کارآمد ہے

جی ہاں ۔۔ اور ہتھیار کا نام ہے
خوشامد
جی خوشامد گرچہ بہت پرانا ہتھیار ہے مگر اس جدید دور میں بھی بہت زبردست کام کرتا ہے۔
کوئی بھی کام نکلوانا ہو۔۔
فورا خوشامد شروع کر دیں۔ اور پھر دیکھیں اس کا کمال
لیکن اس کیلئے سب سے پہلے بندے کو
اپنی " میں" مارنی پڑتی ہے۔
تھوڑا سا ڈھیٹ‌ہو نا پڑتا ہے۔
اس اس مقولے پر عمل کرنا پڑتا ہے کہ
عزت آنے جانے والی چیز ہے
وہ اپنے اس سیاستدان کا قصہ آپ نے ضرور سنا ہوگا۔
جو سرکاری عہدیداروں کو گالی دے کر کہتا تھا۔
اس کی کیا مجال کہ میری بات ٹالے، میرا کام نہ کرے۔
میں ابھی اس سے ملتاہوں
اور پھر صاحب کے کمرے میں جا کر پاوں پڑ جا تا تھا ،
سرجی میری "عزت" کا سوال ہے۔
بس جب کام ہوجا تا تو اکڑ کر کہتا۔
ارے سالا کیسے نہ کام کرتا ۔میرے آگے اسکی حیثیت ہی کیا ہے

سو یہ خوشامد بڑے کام کا ہتھیار ہے۔
میں نے سرکاری دفتروں بہت سے نااہلوں کو اس ہتھیار سے بڑے بڑے افسر شکار کرتے دیکھا ہے۔
اور اہل ، ایماندار بندوں کو اس ہتھیار سے عدم واقفیت کی بنیاد پر رلتے دیکھا۔
کیا ظالم ہتھیار ہے