صفحات

Monday, May 20, 2013

شادی ۔ ایک مذہبی فریضہ یا نمائش

شادی ۔ ایک مذہبی فریضہ یا نمائش
تحریر : محمد نور آسی

شادی ۔۔۔۔ شادی ۔۔۔۔
خانہ آبادی۔۔۔
ہر مذ ہب میں شادی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے - اسلام میں شادی حکم خداوندی کے ساتھ ساتھ سنت رسول بھی ہے۔
اسلام شادی کو معاشرے کی بنیا د کا پہلا پتھر قرار دیتا ہے ۔ اور قران میں بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ شادی، میاں بیوی کے تعلقات، اور طلاق جیسے معاملات کو بیان کیا گیا ہے۔
شادی جہان ایک مذہبی فریضہ ہے وہیں ایک اہم ذمہ داری بھی ہے۔
ایک مر د یا ایک عورت شا دی کے معاشرے میں عملی کردار ادا کرنے کی ابتدا کرتے ہیں۔
چنانچہ ضروری ہے کہ شادی سے پہلے ہی ہر دو افراد کو ان تمام ذمہ داریوں سے مکمل آگاہ کیا جائے جو ایک معاشرے کا فعال رکن بننے کی حیثیت سے ان پر نا فذ ہوتی ہیں۔
ہمارے ماحول میں شادی اب ایک مذہبی فریضے سے زیا دہ ایک نمائشی پروگرام اور ایک نام نہادثقافتی شو بن کر رہ گئی ہے - اسکے پیچھے ایک مکمل تاریخ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برصغیر پاک وہند کا علاقہ اسلام کی روشنی آنے سے پہلے بہت سارے من گھڑت مذاہب کی آماجگا ہ
رہاہے ۔ جن میں سر فہرست ہندو مت ہے۔ ہندو مت بنیادی طور کچھ رسومات اور کچھ توہمات کا ملغوبہ ہے- شادی کے حوالے سے جہیز کا معاملہ سر فہرست ہے۔ ہندووں میں وراثت کے جو قوانین ہیں- ان میں خواتین کو بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے۔ تاہم اس خامی کو جہیز کی روائت سے درست کرنے کی کو شش کی گئی ہے۔ چنانچہ ہندو معاشرے میں ایک لڑکی کے والدیں اسے وراثت میں حصے کے بجائے جہیز کی شکل میں متبادل دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اسی طرح لڑکی کے قریبی عزیز اقارب کو ایک نام نہاد رسم کے تحت لڑکی کو جہیز کیلئے حصہ ڈالنے کا پابند بنا یا گیا ہے۔ جسے مختلف علاقوں مختلف نام دیے گئے ہیں ۔ مثلا ننھال کا دین، دوھیال کا دین وغیرہ۔
شادی پر فضول اور بے معنی رسموں کے ذریعے اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنے کی لت بھی اسی ہیندوانہ معاشرے کی روائت ہے۔
چونکہ برصغیر میں لڑکی لڑکے کے آزادانہ ملاپ کو صدیوں پہلے سے قابل مذمت سمجھا جا تا تھا لہذا شادی کو لڑکی لڑکے آزادانہ اختلاط کا ذریعہ بھی بنایا گیا۔ اور شادی میں کچھ ایسی رسموں کا اضافہ کیا گیا جس میں ہردو جنس براہ راست شریک ہو سکے۔ اس میں میں مختلف علاقوں میں مختلف انداز اور مختلف ناموں کے ساتھ رسوم ملتی ہیں لیکن مقصد سب کا ایک ہی ہے۔
شادی پر ڈھول اور ناچ گانا بھی اہم رسم شمار کی جا تی ہے-اس میں پیسے کے ضیاع کو قابل فخر رسم سمجھا جاتا۔ ڈھول باجے بجانے والوں اور ناچ گانا کرنے والوں پر پیسے لٹانا اسی جاہلانہ معاشرےکی نفسیاتی احساس کمتری کا مظہر ہے۔
جہیز بنانا تو پھر بھی سمجھ میں آتا ہے۔ مگر خصوصی طور ایک دن مخصوص کرکے جہیز کی نمائش کرنا بھی صدیوں پرانی رسم ہے ۔ یہ رسم جہاں نام نہاد احساس تفاخر بلکہ تکبر کی نمائندہ ہے وہیں غریب افراد کی دل شکنی کا با عث بھی ہے۔
اسی طرح جہیز مانگ کر لینا، اپنی مطالباتی فہرست دلہن کے والدین کر پیش کرنا اور انکی مالی حیثیت سے بڑھ کر جہیز مانگنا انسانیت کی توہین ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں اسے معمولی بات سمجھا جا تا ہے۔یہ روائت بھی تاریخ نے دی ہے۔
اپنی حیثیت سے بڑھ کر بارات بنا کر دلہن کے گھر جانا، ویلیں دینا، اور راستوں میں ناچ گانا، ہلڑبازی کرنا کسی مہذب معاشرے میں رائج نہیں ۔ مگر ہمارے ہاں اسے شادی کا جزو لاینفک گردانا جاتا ہے۔
ولیمہ بھی ایک نمائشی رسم بنا دیا گیا ہے۔ یہاں بھی زیادہ سے زیادہ افراد کو مدعو کرنا، ہوٹلوں میں کھانے کا انتظام کرنا، کھانے کے دوران بے جا بے صبری ، ہلڑبازی، اور کھانے کا ضیا ع جیسی چیزیں ولیمہ کی تقریب کی اسلامی روح سے قطعا مماثلت نہیں رکھتیں۔
بات شادی تک محدود نہیں۔ شادی کے بعد بھی فضول رسومات کی ایک لمی فہرست ہے۔ جو خصوصی طور پر لڑکی کے والدین کو معا شی لحاظ مزید کمزور کرتی ہے۔
دیکھا جائے تو موجودہ رسم و رواج کے سا تھ شادی لڑکی کے والدین کیلئے انکے معاشی قتل کے مترادف ہے۔
مجھے سمجھائیے ہماری شادیوں میں سوائے نکاح کے کونسی چیز اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے؟






















Sunday, March 17, 2013

مشکل کشا ہتھیار


 مشکل کشا ہتھیار


اررے ارررررے

گھبرائیں نہیں
میں کسی ایسے ہتھیار کی بات نہیں کر وں گا جس کیلئے لائسنس کی ضرورت پڑے
بس ایک سادہ سا ہتھیارہے
جو آپ کی بہت سی مشکلوں کو آسان کرنے میں فی زمانہ بہت کارآمد ہے

جی ہاں ۔۔ اور ہتھیار کا نام ہے
خوشامد
جی خوشامد گرچہ بہت پرانا ہتھیار ہے مگر اس جدید دور میں بھی بہت زبردست کام کرتا ہے۔
کوئی بھی کام نکلوانا ہو۔۔
فورا خوشامد شروع کر دیں۔ اور پھر دیکھیں اس کا کمال
لیکن اس کیلئے سب سے پہلے بندے کو
اپنی " میں" مارنی پڑتی ہے۔
تھوڑا سا ڈھیٹ‌ہو نا پڑتا ہے۔
اس اس مقولے پر عمل کرنا پڑتا ہے کہ
عزت آنے جانے والی چیز ہے
وہ اپنے اس سیاستدان کا قصہ آپ نے ضرور سنا ہوگا۔
جو سرکاری عہدیداروں کو گالی دے کر کہتا تھا۔
اس کی کیا مجال کہ میری بات ٹالے، میرا کام نہ کرے۔
میں ابھی اس سے ملتاہوں
اور پھر صاحب کے کمرے میں جا کر پاوں پڑ جا تا تھا ،
سرجی میری "عزت" کا سوال ہے۔
بس جب کام ہوجا تا تو اکڑ کر کہتا۔
ارے سالا کیسے نہ کام کرتا ۔میرے آگے اسکی حیثیت ہی کیا ہے

سو یہ خوشامد بڑے کام کا ہتھیار ہے۔
میں نے سرکاری دفتروں بہت سے نااہلوں کو اس ہتھیار سے بڑے بڑے افسر شکار کرتے دیکھا ہے۔
اور اہل ، ایماندار بندوں کو اس ہتھیار سے عدم واقفیت کی بنیاد پر رلتے دیکھا۔
کیا ظالم ہتھیار ہے

مس کالو جی۔ ایک نئی سائنس

مس کالو جی۔ ایک نئی سائنس
محترم قارئین
آپ نے بیا لوجی، سائیکا لو جی ، فزیالوجی وغیرہ تو پڑھا یا سنا ہو گا
یہ مس کا لوجی کیا ہے؟ 
یہ ہم آپ کو بتا تے ہیں 
یہ در اصل دو الفا ظ سے مل کر بنا ہے 
  مس کال اور لوجی 
 یعنی وہ علم جس میں مس کالوں کی سائنس کے بارے میں پڑھا یا جاتا ہے
جی ہاں یہ بالکل نئی سائنس ہے
اور اسکی دریافت بلکہ ایجا د کہئیے ، کا سہرا سب پاکستانیوں کے سر پر ہے
 سب سے پہلے کس نے مس کال ماری- اس کے بارے میں کوئی مصدقہ حوالہ 
موجود نہیں تاہم غیر معتبر راویوں کا بیان ہے اور اغلب یہی ہے کہ کسی عاشق نامراد نے حسب روائت تہی بیلنس ہونے کی صورت میں اپنی محبوبہ کو ماری ہوگی۔ 
راوی اس بارے میں خاموش ہے کہ آیا اسکی محبوبہ نے آگے سے کیا رسپانس دیا؟
مس کا ل ایک فن ہے ، ایک سائنس ہے
یہ ہر کسی کے بس کا کھیل نہیں ۔۔
بہت سارے سیدھے ، اس سائنس سے نا واقف لوگ 
مس کا لیں مارتے مارتے اپنا بیلنس زیر و کر بیٹھتے ہیں اور پھر حیران ، پریشان ہو کر کہتے ہیں
 یہ موبائل کمپنی والے بڑے بے ایمان ہیں ۔ ابھی کل ہی سوروپے بیلنس ڈلوایا تھا
ایک دفعہ بھی بات نہیں کی اور بیلنس زیرو۔ لعنت ہو ۔۔۔۔ کمپنی پر
اب ان سیدھے سادے ، مس کالوجی کے فن سے ناواقف لوگوں کو کون سمجھائے کہ
وہ تما م مس کا لیں جو انہوں نے مفت با ت کرنے کے چکر میں ماری تھیں وہ
 وصول" ہو چکی ہیں ۔ اب بیلنس زیر و تو ہو نا ہی ہے
۔۔۔۔
ہماری نوجوان نسل کے قربان ۔ مس کا لوجی کے فن میں اس قدر طاق اور 
اس سائنس کی باریکیوں سے اس قدر واقف ہیں کہ دس روپے سو دفعہ بات کرلیتے 
ہیں اور مجا ل ہے جو ایک پیسہ بھی ضا ئع ہو
اور مس کالوں کی مخصوص تھیوری پر انکی تحقیق تو کمال کی ہے
ایک نوجوان نسل کے نمائند ہ مس کا لو جسٹ سے پچھلے دنوں بات ہوئی
وہ وہ نکتے بتا ئے کہ الامان
مثلا ۔ اگر لڑکی کو ایک مس کال ماری جا ئے تو اس کا مطلب یہ ہو گا 
اور اگر دو کالیں ماری جا ئیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا
اسی طرح جو ابی کالوں کی تھیوری بھی بہت پر لطف تھی
۔۔۔
کہنے لگا " دیکھیں جی۔ ہم تو سدا سے جیب خرچ پر چلنے والے لو گ ہیں ۔
تو مس کا لوجی میں کمال حا صل کر کے ہم نے اس سا ئنس کو اپنی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔"
مس کالوجی کے فن سے ناواقف جہاں اپنا بیلنس بھی ضائع کر بیٹھتے ہیں اور بات بھی نہیں ہو پاتی ۔ وہیں اس کے سائنس کے ماہرین اس سے بے تحا شا فوائد بھی حا صل کررہے ہیں ۔ 

ایک ماہر مس کا لوجسٹ نے بتا یا کہ مس کال مارنے کے اہم نکا ت درج ذیل ہیں
  وقت
مس کال مارنے کا وقت موزوں ہو نا چا ہیے ۔ یعنی ایسا وقت جب مس کال " وصولی" کا امکان نہ ہو۔ ورنہ مس کال مسٹر کا ل ہو جا ئے گی ۔ یعنی لینے کے دینے پڑ جا ئیں گے۔ 
ماہر مس کا لوجسٹ کے بقول جس بندے یا بندی کو مس کال مارنی ہو اسکے معمولات سے واقفیت بہت ضروری ہے
مس کا ل کا دورانیہ 
یہ بہت اہم ہے۔ مس کال مارتے وقت ایک انگلی ریڈ بٹن پر رکھنی چائیے ۔ جیسے ہی بیل بجے ٹھک سے کال کا ٹ دیجیئے ۔ ایک لمحے کی تا خیر گلے پڑ سکتی ہے۔
اس کے لئے پہلے ریا ضت بہت ضروری ہے۔ 
اپنے گھر کے افراد یا دوستوں کے ساتھ اسکی بار بار پریکٹس کر نے سے ہی کمال حا صل ہو گا۔
مس کا ل میں وقفہ کا استعمال
یہ ایک پر لطف سائنس ہے۔ جس سے آپ مس کا ل وصول کرنے والے کو جوابی کال کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
مس کا ل کبھی ایک ساتھ دوبار ہ نہیں مارنی چا ہیے ۔ اس طرح مسٹر کا ل ہونے کا احتمال بڑھ جا تا ہے
وقفے کا استعمال بھی ایک فن ہے
اس کے لیے ایک مس کا ل مارنے کے بعد لمبا وقفہ دینا چا یئے ۔
تاکہ اگر مخالف پارٹی آپ کے خلاف جا رحا نہ عزائم رکھتی ہو تو اسے انتظار کی مار دیں ۔ یہاں تک کہ وہ مایوس ہو کر مو بائل پاکٹ، پرس میں ڈال دے۔ 
پھر دوبارہ مس کا ل دیں ۔ 
یوں وقفوں وقفوںسے دی گئی مس کا لیں ۔ وصول کرنے والے کو زچ کر دیں گی اور اسکے پاس اس کے علا وہ چارہ نہ ہو گا کہ آپ کو کال کرے
 یہ صورت حال کا فی خطرناک نظر آرہی تھی ۔
کیونکہ مس کا لوجسٹ سے بات کرنے کے بعد جب میں نے غور کیا تو 
یہ بات واضح ہو ئی کہ میں ان معصوم شہریوں میں شا مل ہوں جو اس سائنس کا شکا ر ہو چکے ہیں
میں خود کئی ایسے پیشنٹس کو کال کرچکا ہوں جنہوں نے مس کا ل مارکر 
دس دس منٹ بات کی ۔
کئی واقفت کا ر میرے خرچے پر آدھا آدھا گھنٹہ بات کرتے رہے۔ اور میں سمجھتا رہا
کہ وہ میری ہمدردی میں بات کررہے ہیں ۔ حالانکہ انہوں نے مس کالوجی کی سا ئنس استعمال کی تھی۔
میں اس صورت حال پر کا فی پریشان ہو ا تو ایک ماہر مس کا لیا ت سے رابطہ کیا 
جنہوں نے کچھ نکتے سمجھا ئے 
آپ بھی سنئے ، سر دھنئے ، اور عمل کیجیئے
 مس کال سے بچنے کیلئے اپنا موبا ئل ہا تھ میں رکھیں۔انگلی یس بٹن پر ہو۔ 
 موبائل وائبریشن پر رکھیں ۔
جیسے ہی وائبر یشن ہو ۔ نمبر دیکھے بغیر یس کا بٹن پر یس کر دیں۔
منا سب ہو کہ موبا ئل پر لائٹ سسٹم لگوا لیں ۔ 
جیسے لائٹ جلے ۔ یس کا بٹن دبا دیں۔
امید ہےدوچار کا لیں بجایے مس کال کے مسٹر کا ل ہو نے سے دشمن کا دماغ اور بیلنس ٹھکا نےپر آ جا ئے گا۔
تو یہ تھا مس کا لوجی کا تعارف ۔
امید ہے آپ کو نئے سائنسی اور فنی مضمون سے دلچسپی پیدا ہو ئی گی ۔
آج ہی کسی ماہر مس کا لو جسٹ سے رابطہ کریں۔


Saturday, March 16, 2013

جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے ہوگئے


جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے ہوگئے

بالاخر حکومت نے اپنے پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرلی۔ کیسے کر لی۔ اور اس آئینی مدت میں عوام کے ساتھ کیا ہوا۔ یہ ایک الگ قصہ ہے تاہم حکومت اور اپوزیش دونوں خوش ہیں۔ اور بہت باچھین کھلا کھلا کر اس بات کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بیان کر رہے ہیں گویا انہوں نے یہ کارنامہ سرانجام دے کر قوم پر احسان عظیم کیا ہے۔ اور قوم کو شکر گذار ہونا چاہیے کہ ہم اب ایک مکمل جمہوری ملک ہیں۔ سبحان اللہ ۔ کیا واقعی ۔ قوم کو خوش ہونا چاہیے۔
آئیے ذرا اس سوال کا جائزہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے لیتے ہیں۔
کیا عام آدمی کا معیار زندگی اس جمہوری حکومت کے سنہری پانچ سالہ دور میں بلند ہوا
کیا عام آدمی کو امن ، سکون اور اطمینان نصیب ہوا
کیا عام آدمی کو روزگار کے باعزت مواقع ملے۔
کیا ضروریات زندگی تک رسائی آسان ہوئی۔
کیا عام آدمی زندہ رہنے کے بنیادی  ضروریات جیسے پانی، بجلی ، گیس، ذرائع آمدورفت
اور اس جیسی دیگر سہولیا ت کی آسان اور سستی فراہمی ممکن ہوئی
کیا عام آدمی کو رہنے کے لئے چھت ، پہننے کے لئے کپڑے اور کھانے کے لئے خوراک حاصل کرنا کیا اس جمہوری حکومت نے آسان بنایا
ہر سوال کا جواب نفی میں ہے۔
آج کل کے دور میں زندگی کو اک عذاب بنانے والی اس جمہوری حکومت کو واقعی شاباش ملنی چاہیے؟
آپ خود ہی بتائیں۔

نسبت کی بات ہے


 نسبت کی بات ہے


ایک بچے نے دیکھا کہ ایک بزرگ گلیوں میں بکھرے ہوئے کچھ کاغذ اکٹھے کر رہا ہے
اور انہیں جھاڑ پونچھ کر تہ کرتاہے اور اپنے پا س موجود ایک لفافے میں ڈالتا جا تا ہے۔
وہ شکل سے کافی معزز نظر آرہا تھا اور کپڑے بھی بہت صاف ستھر ے پہنے ہوئے تھا۔

بچے کو تجسس ہوا کہ یہ کیا کر رہا ہے۔
وہ بزرگ کے پاس گیا اور پوچھا
"با با جی آپ یہ کیا کر رہے ہیں"
بزرگ نے بچے کو دیکھا اور بہت دردنا ک لہجے میں بولا
"بیٹے۔ میں اپنے پیارے وطن کے جھنڈے اٹھا رہا ہوں۔ جو لوگوں نے بھینک دیے ہیں"
بچے نے دیکھا اسکے ہا تھ میں کاغذ کی جھنڈیاں تھیں جو لوگ 14 اگست کو گھروں پر لگاتے ہیں۔ اور بارش یا ہوا سے وہ گلیوں میں بکھر جا تی ہیں۔
بچے نے کہا
" بابا جی 14 اگست تو گذر گیا ۔اب آپ ان جھنڈیوں کا جو پھٹ چکی ہیں۔ کیا کریں گے۔"
باباجی کے منہ سے ایک سرد آہ نکلی
"بیٹے میں انہیں کسی محفوظ جگہ پر رکھوں گا ۔ تا کہ ان کی بے ادبی نہ ہو"
"بے ادبی" بچے نے حیرت سے کہا " مگر یہ تو کاغذ کے ٹکڑے ہیں"
" جی ہا ں بیٹے۔ یہ کاغذ کے ٹکڑے ہیں ۔" بزرگ نے کہا" مگر ان پر پاکستان کا جھنڈا چھپا ہو ا ہے۔
اب ان کو میرے ملک سے نسبت ہو گئی ہے۔ اب یہ کاغذ کے ٹکڑے معزز اور مقدس ہو گئے ہیں۔
بیٹے ساری بات نسبت کی ہے"
بچہ نے بزرگ کی بات سمجھ لی اور کہا
"آئیں بابا جی۔ ہم دونوں مل جھنڈیا ں اکٹھی کرتے ہیں۔ واقعی یہ مقدس ہیں۔ انکی بے ادبی نہیں ہو نی چا ہیے"

دنیا کی سب سے خوبصورت عورت


دنیا کی سب سے خوبصورت عورت



جی ہاں دنیا کی سب سے خوبصورت عورت کون ہو سکتی ہے؟
مجھے نہیں پتہ آ پ کیا جواب دیں گے۔
میرے نزدیک دینا کی سب سے خوبصورت عورت " میری ماں " ہے۔
میری ماں میرا سب کچھ
میری دنیا
میری جنت
میرے ذہن میں محفوظ اپنی ماں کا سب سے پہلا عکس جو ابھر تا ہے وہ ایک شفیق، مہربان ، اور خوبصورت چہرے کا ہے
جو میری آنکھو ں کو ٹھنڈ ک بخشتا ہے۔ جو میری روح تک کو سرشار کر دیتا ہے۔
میری یاداشت میں مجفوظ ایک منظر صبح دم آنکھ کھلنے اور " گھوں گھوں" کی ایک مسحورکن آواز کا ہے
یہ آواز پتھر کی بنی چکی سے نکلتی تھی۔ اور صبح دم میرے بچپن میں مجھے بیدار کر تی تھی میں جب سردیوں کی صبح کو اپنا سر رضاتی سے با ہر نکالتا تو مجھے سامنے اپنی ماں چکی کو گھماتے نظر آتی ۔ میں پتہ نہیں کتنی دیر تک اپنی ماں کو دیکھتا رہتا اور چکی کی " گھوں گھوں" کو سنتے سنتے پتہ نہیں کب میری آنکھ دوبارہ لگ جا تی۔
اس دور میں ہمارے گھر میں گھر کی گندم کے روزانہ تازہ پسے ہوئے آٹے سےاور اپنے ماں کے مہربان ہاتھوں سے پکے ہوئےپراٹھے ملتے ۔ ان پراٹھوں جیسی لذت بھر زند گی بھر کسی پراٹھے میں نہ ملی۔
میری ماں صبح سویرے اٹھتی ۔ نمار پڑھتی اور پھر روزانہ کی ضرورت کا آٹا خود پیستی ۔ گاوں میں مشینی چکی تھی مگر میری ماں نے ہمیشہ اپنے ہاتھ سے پسے ہوئے آٹے کو ترجیح دی۔

دوسرا منظر جو میری یا داشت میں محفو ظ ہے وہ قران کی تلاوت کا ہے۔ جیسے ہی سورج کی پہلی کرن نکلتی ہمارے صحن میں سب سے پہلے داخل ہوئی۔ کھلا صحن جس میں ایک دیوار کے ساتھ چار پانچ چار پائیاں رکھی ہوتیں- محلے بھر کے بچے ، بچیاں آتے اور ان چارپائیوں پر بیٹھ جاتے۔ میری ماںگھر کے کا موں سے فارغ ہوتیں اور بچوں کے پاس آجا تیں۔ میں بھی ہاتھ میں قاعدہ پکڑے انہی بچوں کے بیچ بیٹھ جاتا۔ پھر میری بہت دیر تک ان بچوں کو پڑھاتی رہتیں۔

تیسرا منظر ماں کے کندھے پر سر رکھے گاوں کی گلیوں میں گھومنے کا ہے۔ میری ماں جب " نا لے پار" محلے میں اپنے رشتہ داروں کے پاس جاتی تو میں ضد کر کے انکے ساتھ جاتا اور راستے میں تھک جانے کا بہانہ کر تا۔ میری ماں مجھے اٹھا کر کندھے سے لگا لیتیں۔ اور میں اپنے گاوں کو اپنی ماں کے کندھے سے دیکھتا اور لوگوں کو ، ڈھور ڈنگروں کو ایسے چلتے پھرتے دیکھنا بہت اچھا لگتا۔

میں نے پہلی بار دینا کو ماں کے کندھوں سے دیکھا۔

اور اسکے بعد تو مناظر اتنے ہیں کہ کیا کیا بیان کریں۔۔۔
میری ماں نے مجھے اتنا پیار دیا ، اتنی دعائیں دیں کہ دنیا کی کوئی ماں کیا دے گی۔؟
اسی لئے میری ماں مجھے دنیا کی سب سے خوبصورت عورت دکھائی دیتی ہے۔

میری جب شادی ہوئی تو میں اسلام آبا د میں جاب کر رہا تھا۔ والد صاحب میری شادی سے دوسال پہلے فوت ہو گئے تھے۔
مجھے ماں نے کہا " اپنی بیگم کو اسلام آبا د لے جائو۔"
میں نے کہا " صرف ایک شرط ہے کہ آپ بھی ہمارے ساتھ آئیں گی"
بہت دلائل دیے میری ماں نے۔ کہا تمہارے بڑے بھا ئی کی فیملی ادھر ہے۔ میری ساری رشتہ داری ادھر ہے۔ گھر بار حویلی ، ڈنگر سب کچھ تو ادھر ہے۔ میری بوڑھی ہڈیوں میں اب اتنا دم نہیں کہ اسلام آباد جاوں۔
مگر میری ضد کے آگے بالا خر ہار مان لی ۔اور ایسی مانی کہ سالوں گذ ر گئے ابھی تک میرے پاس ہی ہیں۔
میرے بچوں کو دیکھ کر جیتی ہیں اور میں انکو دیکھ کر
چند سال پہلے سیڑھیوں سے گریں تو ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔ بہت تکلیف دیکھی۔ الحمد للہ ہڈی جڑگئی اور چلنے بھرنے کے قا بل ہو گئیں۔ انکی عمر 90 سال کے لگ بھگ ہے ۔ کہتی ہیں چلنے پھر تے موت آ ئے یہی رب سے دعا ہے۔
مجھے انکی خد مت کا اتنا موقع ملا کہ رب العالمین کا شکر گذار ہوں۔
روزانہ صبح جب گھر سے نکلتا ہوں ۔ زیا رت کرکے ، دعائیں لے کے نکلتا ہوں

میں کئی دفعہ انکے سامنے بیٹھ کے انہیں دیکھتا رہتا ہوں ۔ انکے جھریوں بھر ے چہرے کا حسش مجھے مسحور کردیتا ہے۔
انکے سلوٹوں بھرے ہاتھ اتنے نفیس ہیں کہ میں چوم کر آنکھو ں کو لگا تا ہوں۔
تومیں کیوں نہ کہوں
دنیا کی سب سے خوبصورت عورت " میری ماں" ہے

گندے کپڑے


گندے کپڑے

ایک نئے شادی شدہ میاں بیوی کرایہ دار کی حیثیت سے ایک نئے محلے میں آئے۔ 
صبح جب خاتون خانہ اٹھی تو اسکی نظر سامنے والے بلا ک کی طر ف گئی۔ اس نے دیکھا کہ سامنے والوں نے گندے کپٹرے دھوکر ٹیرس میں لٹکا ئے ہوئے تھے ۔ لیکن کیڑے میلے میلے نطر آرہے تھے۔
خاتون نے اپنے شوہر سے کہا " لگتا ہے سامنے والی خا تون کو کیڑے اچھی طرح دھونے نہیں آتے ۔ یا پھر وہ جو ڈٹرجنٹ استعما ل کررہی ہے وہ غیرمعیا ری ہے۔ "
خاوند بو لا " ممکن ہے"
دوسرے دن پھر خاتون کو سامنے ٹیرس میں کپڑے لٹکے نظر آئے تو اس نے پھر وہی تبصرہ کیا کہ
یا تو خاتون کو کیڑے دھونے نہیں آتے یا پھر ڈٹرجنٹ صحیح نہیں۔
خاوند خاموش رہا۔
تیسرے دن اسکے خاوند کو دفتر سے چٹھی تھی ۔
وہ لوگ لیٹ اٹھے ۔
خا تون جب جا گی تو اسکی نظر سا منے کی طر ف گئی ۔ لیکن وہ یہ دیکھ کر اچھل پڑی کہ آج
سامنے ٹیرس میں لٹکے ہوئے کپڑے بہت صاف ستھرے نظر آرہے تھے۔ بلکہ ان کے رنگ بھی بہت نما یا ں تھے۔
خاتون نے بہت جوشیلے انداز میں اپنے شوہر کو مخاطب کیا
" لگتا ہے سامنے والی عورت کو کپڑے دھونے کا ڈھنگ آگیا ہے یا اس نے معیاری ڈٹر جنٹ استعمال کر نا شروع کیا ہے۔ وہ دیکھو کپڑے کتنے صاف نظر آرہے ہیں "
شوہر نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور مسکر ا کر کہا
" دراصل آج میں ذرا جلدی اٹھ گیا تھا۔ اور میں نے وہ سامنے والی
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
کھڑکی
۔
۔
کا شیشہ صاف کر دیا تھا۔

ممکن تو سب کچھ ہے


ممکن تو سب کچھ ہے

کون سا فرد ایسا ہے دنیا میں جس نے اچھے دن تو دیکھے ہوں لیکن برے دن کبھی نہ دیکھے ہوں

جسے آسانیاں تو حاصل ہوئی ہوں لیکن مشکلات سے کبھی واسطہ نہ پڑا ہو
ہمیشہ رات کے بعد دن کی روشنی ضرور آتی ہے۔
ہمیشہ دکھ کے سوگوار لمحات کے بعد سکھ کے خوشگوار دن ضرور آتے ہیں
خوشیاں ہمیشہ نہیں رہیتیں
غم ان کے پیچھے ہی ہوتے ہیں
لیکن مشکلات سے گھبرانا زیب نہیں دیتا
مشکلات کا سامنا کرنے سے ہی آسانیاں مل سکتی ہیں
قدرت نے دکھ کا پردہ لگا کر سکھ کو چھپا یا ہوتا ہے
ضرورت ہے تو صرف راستہ تلاش کرنے کی ۔
مشکل حالات میں بہتر طریقہ کار اور بہتر رویہ اپنانے کی
ٹھہریے
ایک مثال سے بات زیادہ بہتر سمجھ آجائے گی
اتوار کا دن تھا۔ خاتون خانہ اپنے ضروری کام نبٹا کر ایک میگزین پڑھ رہی تھیں۔ لیکن ان کی بچی انہیں پڑھنے ہی دے رہی تھی۔ کبھی ان کے ایک طرف تو کبھی دوسری طرف۔
کبھی انکی گود میں تو کبھی انہیں کسی چیز کی طرف متوجہ کرنے لگتی۔
خاتون جھنجھلا ئی ہوئی لگ رہی تھی۔ میگزین میں کہانی بہت دلچسپ موڑ پر تھی لیکن وہ پڑھ نہ پارہی تھیں۔
بچی کو باربار روکنے، سمجھانے کے باوجود بچی شرارتوں پر آمادہ تھی۔
اچانک ایک خیال کے تحت خاتون نے میگزین کو الٹنا شروع کیا ۔
پھر ایک صفحہ علیحدہ کیا ۔ اس پر ایک بڑا سا نقشہ تھا۔ اس نے یہ نقشہ اپنی بچی کو دکھایا۔اور کہا
"آؤ میں تمھیں ایک دل چسپ کھیل بتاتی ہوں۔"
بچی نے غور سے اس نقشے کو دیکھا اور بہت استعجاب سے پوچھا
"کیسا کھیل مما"
اس کی ماں بولی
"ابھی بتا تی ہوں"
پھراس نے اس صفحے کو پھاڑ کر کئی ٹکڑے کیے اور بچی کو پچکار کر کہا
بیٹے یہ دیکھو۔
"اس صفحے پرموجود نقشے کو واپس صحیح ترتیب سے جوڑ دو"
بچی نے خوشی سے اچھلتے ہو کہا
"اوہ یس ۔
میں ابھی جوڑتی ہوں"
پھر وہ ان کاغذ کے ٹکروں کو لے کرایک کونے میں چلی گئی
ماں نے سکون کا سانس لیا
اس کا خیال تھا اب بچی شام تک اسے جوڑ نہ پائے گی۔
اس نے دوبارہ میگزین کھولا اور اطمینان سے پڑھنے لگی
لیکن زیادہ سے زیادہ دو منٹ گذرے ہوں گے کہ
بچی خوشی سے دوڑتی ہوئی امی کے پاس آئی
"مما یہ دیکھو
میں نے نقشہ جوڑ دیا ہے۔"
ماں نے حیرت سے دیکھا
واقعی نقشہ اپنی صحیح ترتیب کے مطابق مکمل تھا
"یہ تم نے اتنی جلدی کیسے کر لیا"
اس نے اپنی بیٹی سے پوچھا
بچی نے انتہائی معصومیت سے کہا
"مما میں نے دیکھا تھا اس صفحے کے دوسری طرف
قائداعظم کی تصویر تھی ۔
بس میں نے وہ تصویر جوڑ دی "

جی جناب کچھ سمجھے
ہم نقشہ جوڑتے رہتے ہیں
اور تصویر کا دوسرا رخ نہیں دیکھتے

اگر دکھ کا دوسرا رخ دیکھ لیں تو دکھ اتنا دکھ نہیں دیتا۔۔۔۔
مشکلات کا حل مشکلات میں ہی ہو تا ہے۔

بس گھبرانا نہیں چاہیے- حالا ت کا مقابلہ کرنا سیکھ لیں
سب کچھ ممکن ہے۔۔

انسانی مزاج کی تشکیل میں غذائی عادات کا حصہ



انسانی مزاج کی تشکیل میں غذائی عادات کا حصہ

بابائے طب حکیم بقراط نے اپنے مریضوں کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا لے کہ لوگوں نے بحالت تندرستی درندوں کی طرح کھا کر اپنے آپ کو بیمار کر ڈالا اور ہم نے ان کا علاج کیا تو انہیں چڑیوں کی غذا دی اور تندرست بنا دیا
شیخ سعدی اگرچہ طببیت نہ تھے مگر بات نہائت معقول فرماگئے
خوردن برائے زیستن است
نہ کہ زیستن برائے خوردن
یعنی کھانا زندہ رہنے کے کھاؤ نہ کہ کھانے کے لئے زندہ رہو
حکیم ابو بکر محمد بن زکریارازی نے یہ سمجھتے ہوئے کہ عامتہ الناس اپنی غلط غذائی عادات سے بیمار ہوتے ہیں ۔ فرمایا
اگرطبیب دواؤں سے کام لینے کے بجائے محض اغذیہ کے ذریعے سے علاج کی توفیق پاجائے تو نہائت اعلی درجے کا طبیب اور سعید ہے۔
حکیم ثابت بن قرت کا قول ہے۔ جسم کا آرام کم کھانے پر، نفس کی راحت کم گناہ پر، قلب کی آسائش کم فکر کرنے پر اور زبان کی راحت تھوڑی باتیں کرنے پر منحصر ہے۔
صوفیائے کرام کا مسلک ہے۔ قلت طعام، قلت منام اور قلت کلام
ایک سرسری سا مطالعہ بھی یہ حقیقت واضح کر دیتا ہے کہ اسلام میں پاک صاف ، حلال و مطہر اور پاکیزہ غذا کی بہت اہمیت ہے۔ غذائیں انسانی جذبات و کردار پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ لقمہ حلال ، اچھے اخلاق اور نیک کردار کا سامان پیدا کرتا ہے۔ لقمہ حرام اور گندی ، ناپاک اور ناقص غذا سے روح اپنی لطافت اور طاقت پرواز کھو دیتی ہے۔
علامہ ان سیرین نے اپنی مشہور زمانہ کتاب تعبیر الرویاء میں تحریر کیا ہے کہ جو لوگ متوحش قسم کے خواب دیکھنے کے عادی ہوں ، انہیں حرام یا متشبہ غذا، غیبت اور کذب بیانی سے قطعا اجتناب لازم ہے۔
تصوف و سلوک میں نفلی روزوں کے علاوہ روح کی بالیدگی کے لئے بعض حالات میں مختلف غذاؤں سے پرہیز بھی تجویز کیا جاتا ہے مثلا حیوانی اور سفلی جذبات میں کمی کے لئے ضرورت پڑے تو ترک حیوانات کی ہدائت کی جاتی ہے۔ یعنی گوشت، مچھلی وغیرہ کے استعمال سے وقتی طور پر روک دیا جاتا ہے۔۔ ہر سال رمضان میں روزہ رکھ کر مسلمان تقلیل غذا کا اہتمام کرتے ہیں، روحانی اور اخلاقی طور پر خود کو بہت توانا پاتے ہیں۔
انسانی عادات وا طوار پر غذاؤں کے اثرات کا مطالعہ روز بروز وسیع ہوتا جارہا ہے۔ طب میں ثقیل و دیر ہضم  قرار دی جانے ولی غذائیں شریانوں اور قلب کے لئے مضر تسلیم کی گئ ہیں۔صدیوں سے سبزیوں کے مسلمہ فوائد کی دنیا معترف رہی ہے۔ گوشت خوری کی کثرت ہر جگہ مضر قرار دی جارہی ہے۔
مولانا حالی نے کہا تھا۔ افلاس میں سفلہ پن کی بو ہے۔ بھوک اور پیٹ انسان کو شرافت اور اخلاق سے محروم کردیتے ہیں۔
غریب ملکوں میں تو فقر وفاقہ جرائم کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہو تی ہے کہ امریکہ جیسے نہائت خوش حال اور ترقی یافتہ ملک میں بھی جرائم کا گراف مسلسل بلند ہو رہا ہے۔ اعلی غذاؤ ں کے باوجود خاص طور وہاں کے نوجوانوں میں برائیاں کیوں بڑھ رہی ہیں۔ قتل ڈاکے اور آبروریزی کے واقعات میں کیوں اضافہ ہورہا ہے۔
امریکی تہذیب کے لئے یہ ایک نیا پہلو تھا کہ غذائی عادات کا جرائم سے بھی تعلق ہو سکتا ہے۔ وہاں اب اس حوالے سے بہت سنجیدگی سے غوروخوص ہورہا ہے۔ کیلی فورنیا یونیورسٹی کے سماجیا ت کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور جرائم کے مطالعے کے ڈاکٹر اسٹیفن شوئینتھا نے اس پہلو کا بہت تفصیل سے جائزہ لے کر گویا تحقیق کا ایک نیا باب کھول دیا ہے۔
وہاں بہت دلچسپ تحقیقات کا ایک سلسلہ چل رہا ہے۔ نوجوانوں میں شکر کے زیادہ استعمال ، غذاؤں میں شامل کئے جانے والے رنگ اور مصنوعی ذائقہ پیدا کرنے والے مختلف کیمیکل کیسے نوجوانوں کی ذہنی رو میں تبدیلی کی تشکیل کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ سب مختلف مطالعاتی ٹیموں نے بے شمار جرائم پیشہ افراد، جیلوں میں بند بچے کی غذائی عادات سے اخذ کیا ہے۔
اور اس حوالے سے کیے گئے تجربات نے بہت ہی کامیاب نتائج دیے۔ جب بچوں اور جرائم پیشہ افراد کی غذاؤں میں مناسب تبدیلیاں کی گئیں تو ان کے رویوں میں بہت مثبت فرق نظر آیا۔
اسی طرح تحقیقات نے ثابت کیا کہ جہاں غذا میں کئی نقائص سامنے آئے ہیں وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ امریکی انڈے بہت کھاتے ہیں ۔ انڈہ قوت حیات بہت پیدا کرتا ہے۔ اس لئے حرکات میں تیزی اور طبیعت میں جلدبازی اور بے صبرا پن پیدا ہو تا ہے۔
جرائم پیشہ افرا د کی اکثریت میں جن غذائی اجزاء کی کمی پائی گئی وہ یہ ہیں
وٹامن بی، بی 2، بی 3، بی 6، فولک ایسڈ، کیلشیم ، میگنیشیم ، جست یعنی زنک اور فولاد
جو لوگ ان غذائی اجزاء کی کمی کا شکار رہتے ہیں ان میں 90 فی صد جرائم کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔

مذکورہ تحقیقات کی روشنی میں ہمیں بھی اپنی غذائی عادات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں گوشت، شکر، میدے سے بنی اشیائ جیسے مٹھائیاں وغیرہ، چیونگم، بوتلوں اور ڈبوں میں مشروبات و خوراک
کا غیرضروری استعمال بہت بڑھ رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمارے بچوں اور نوجوانوں میں بد تمیزی، بے صبرا پن، ضد، اور جرائم کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔
بحثیت مسلمان اعلی اخلاق اختیار کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔ ان کی ناکامی میں ہماری غذائی عادات کا بھی دخل ہو سکتا ہے۔
غذائی عادات میں بگاڑ اور ناقص اور غیرضروری غذا کا استعمال جسمانی اور روحانی بیماریوں کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

ماخوذ۔ روحانی ڈائجسٹ 

سب جھوٹے خواب دکھاتے ہیں


سب جھوٹے خواب دکھاتے ہیں

انسان ازل سے بہتری کی تلاش میں ہے
خوب سے خوب تر کی چاہ میں رہتا ہے۔
 اس خوب سے خوب تر کی تلاش میں انسان جہاں
ترقی کی منازل طے کرتا رہا وہیں ہوس کی بیماری بھی
اسے لاحق ہوئی۔
ہوس نے انسانوں کو انسانوں کا دشمن بنا یا۔
ہوس نے منافقت، جھوٹ، بے وفائی سکھائی
ایک انسان کو دوسرے انسان پر فضیلت کی بنیاد
معاشی و معاشرتی حیثیت پر رکھی اور پھر
ہر اس فعل کو جائز قرار دے ڈالا جس سے ا س کی
معاشی و معاشرتی حیثیت کو تقویت پہچتی ہو
لالچ نے جب دلوں میں گھر کیا تو محبت، خلوص
وفا رخصت ہوئی ۔
انسان انسان کا دشمن بنا۔
آج کا انسان اور آج سے ہزاروں سال پہلے کا انسان
ایک جیسا ہی ہے۔
کچھ فرق نہیں۔
نام ، مقام، اور ظاہری اطوار بدل گئے ہیں لیکن
لالچ نے جو اصول اس وقت وضع کیے تھے
وہی آج تک چل رہے ہیں۔
وہی خواب جو آج سے لاکھوں سال پہلے کے انسان نے
دیکھے ہوں گے وہی آج کے انسان کے ہیں
کیا ہمیں صرف سر چھپانے کو ٹھکانہ، تن پر پہننے کو کپڑا
اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کو خوراک ہی چاہیےنا۔
لیکن ہم جب تک بھوکے رہتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ہمیں کچھ اور نہیں صرف
کھانا چاہیے ہوتا ہے۔
جب پیٹ بھرتا ہے تو پھر ہمیں سردی گرمی سے بچنے کے لئے
ٹھکانہ چاہیے ہوتا ہے۔
جب ٹھکانہ مل جاتا ہے تو ہمین نفسانی خواہشیں ستانے لگتی ہیں
پھر جب یہ بھوک بھی مٹ جائے تو معاشرے میں اپنی ناک اونچی رکھنے
کی فکر دامن گیر ہو جا تی ہے۔
جب معاشرے میں جھوٹی عزت ، شان و شوکت قائم ہو جاتی ہے۔
ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو احسا س ہو تا ہے۔
ہمارا دامن تو خالی ہے۔ ہم جو عزت کمائی وہ دوسروں کی پگڑی اچھال کر کمائی،
ہم نے دولت کمائی تو ہماری کم اور دوسروں کی زیادہ ہے
وہی دولت جس کو حاصل کرنے میں ہم اپنا ایمان بیچا، ضمیر کا سودا کیا
اپنے رب کو ناراض کیا۔ وہ دولت تو ہماری نہ نکلی ۔
پھر انسان جب اپنے اندر کی آواز سنتا ہے تو وقت بہت آگے نکل چکا ہوتا ہے
کچھ تو سنبھل جاتے ہیں۔ اپنی دولت ، اپنا سب کچھ معاشرے کو
لوٹانے کی ٹھان لیتے ہیں لیکن
کچھ اندر کی آواز کو دبا کر
مزید دولت کی ہوس میں پڑ جا تے ہیں۔
غریب جو صدیوں سے
تن کے کپڑوں
کی خاطر
تو کبھی
چار نوالوں کی خاطر
بکتا آیا ہے۔
وہ خاک نشیں زرق خا ک ہی ہوتا ہے۔
اس کے خواب کبھی پورے نہ ہوئے
ان کو کبھی تعبیر نہ ملی
کوئی انقلاب کے نعرے لگاتا ہے
تو کوئی انصاف کی آواز بلند کرتا ہے
کوئی مساوات کا درس دیتا ہے
تو ہر خوشہ گندم کو جلانے کی بات کرتا ہے
کیاکسی نے کبھی سوچا
جس نے کائنات بنائی
اس نے اس پر رہنے کے
اس کو برتنے کے
اس پر بسنے والوں کے
ساتھ برتاؤکے
اصول ازل سے وضع کر دیے ہیں
جس کی زمین ہے، وہ جب چاہے زمین کھینچ لے
جس کا دیا ہوا سب کھاتے ہیں وہ جب چاہیے واپس لے لے
سانسوں کی میعاد بخشنے والے کو ہی اختیار ہے
وہ زندگی کے کس موڑ پر شام کردے۔
دل کو بنانے والا ہی دلوں کے بھید بہتر جانتا ہے۔
دلوں کی بستیوں میں جب اس کے خالق کا نعرہ
گونجتا ہے تو دل آبا د ہوتا ہے۔
ہمیں خواب دکھانے والے کتنے جھوٹے ہیں ۔
سب جھوٹے خواب دکھاتے ہیں۔