آج کی سوچ
ہم ایک ایسے وقت میں سانس لے رہے ہیں جہاں رفتار نے معنی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بات مکمل ہونے سے پہلے رائے دے دی جاتی ہے، خبر سمجھے بغیر پھیلا دی جاتی ہے، اور انسان کو دیکھنے سے پہلے اس پر لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ شاید مسئلہ سوچ و فکر کی کمی نہیں، توجہ کی کمی ہے۔ ہم نے سننا کم اور بولنا زیادہ سیکھ لیا ہے، محسوس کرنا چھوڑ کر فیصلہ کرنا اپنا لیا ہے۔
اس ہنگامہ خیز منظرنامے میں بھی امید کی چند کرنیں خاموشی سے موجود ہیں۔ وہ لوگ جو جلدی کے بجائے ٹھہراؤ کو ترجیح دیتے ہیں، جو اختلاف میں بھی شائستگی ڈھونڈ لیتے ہیں، اور جو خود احتسابی کو کمزوری نہیں بلکہ طاقت سمجھتے ہیں۔ معاشرے میں مثبت تبدیلی نعروں سے نہیں، رویّوں سے ہوتی ہے۔ اور رویّے تب بدلتے ہیں جب انسان آئینہ باہر نہیں، اندر رکھتا ہے۔
اگر ہم روزمرہ کی دوڑ میں ایک لمحہ سچ کے لیے، ایک لمحہ برداشت کے لیے، اور ایک لمحہ انسان ہونے کے لیے نکال لیں، تو شاید شور کم اور معنی زیادہ ہو جائیں۔
آخرکار، دنیا تب بدلتی ہے جب ہم خود کو بدلنے کی ہمت کر لیتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment