اندر کی آواز
آج کل کی دوڑ میں ہم نے وقت تو بچا لیا ہے، مگر لمحوں کا حسن کہیں گم کر دیا ہے۔ نگاہیں اسقدر اسکرینوں میں جکڑی ہیں کہ سامنے بیٹھے انسان کی آنکھوں میں اترنے کی فرصت ہی نہیں۔
یہ المیہ نہیں، آزمائش ہے۔ جب بے حسی عام ہو تو حساسیت انقلاب بن جاتی ہے۔ جب جلدبازی قابض ہو تو ایک گہری سانس بغاوت بن جاتی ہے۔ جب سچ تلخ لگے تو ایک مہربان لہجہ شہد بن جاتا ہے۔
ہر صبح کی پہلی کرن یہ پیغام لے کر آتی ہے کہ اندھیرا ہمیشہ کا مہمان نہیں ہوتا۔ ہمارے اندر کی روشنی، باہر کے سناٹے کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بس اپنے وجود کے چراغ کو پہچاننے کی دیر ہے۔
آج اپنے اندر کی آواز سنیں، شاید وہی دوسروں کے لیے امید کی پکار بن جائے۔
No comments:
Post a Comment