اندر کا میلہ
دیکھئے، خاموشی کی بھی تہیں ہوتی ہیں۔ پہلی
تہہ وہ ہے جو دروازہ بند کرتے ہی ہوا میں جمنے لگتی ہے۔ دوسری تہہ دل کی لاشعوری
گہرائیوں میں گونجتی ہے، جہاں شور بھی ہے مگر سنائی نہیں دیتا۔ تیسری تہہ وجودی
ہے—وہ مقام جہاں آدمی اپنی اصل سے آمنے سامنے ہوتا ہے۔ بچپن میں یہ خاموشی کھیل کے
بیچ اچانک آ جاتی تھی، جیسے دنیا نے سانس روک لیا ہو۔ جوانی میں یہی چبھتی ہوئی ہو
گئی، جیسے اندر کہیں خراب سائلنٹ موڈ والا الارم بج رہا ہو۔ اور اب، یہ ایک تھکی
ہوئی دوست کی طرح میرے پاس بیٹھ جاتی ہے اور کہتی ہے: "پہلے مجھے تھوڑا سن
لو۔ باتیں بعد میں بھی ہو جائیں گی۔"
شہر کا شور ایک فریب ہے۔ وہ بسوں کے ہارن،
گاڑیوں کی چیخیں، فون کی گھنٹیاں یہ سب بیرونی ہنگامہ ہے جو اندر کے سمندر کو چھو
ہی نہیں سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم سب کے اندر ایک دوسرا شہر آباد ہے: بے آواز مگر
مکمل۔ یہاں خاموشی اپنا جغرافیہ بدلتی رہتی ہے—کبھی پہاڑ بن کر، کبھی وادی بن کر،
کبھی ایک ایسا سمندر بن کر جس کی تہہ میں زخم تیرتے ہیں اور خواب سانس لیتے ہیں۔
میں نے ایک عجیب سفر کیا ہے خاموشی کے ساتھ۔
کبھی یہ میری دشمن تھی، میرے ٹوٹے ہوئے دل کے ہر کونے میں چھری کی نوک رکھ دیتی
تھی۔ پھر وقت نے سکھایا کہ یہی خاموشی زخموں پر مرہم بھی رکھ سکتی ہے۔ کب دشمن
دوست بن گئی، پتہ ہی نہ چلا۔ اب تو جب آوازیں زیادہ ہونے لگتی ہیں، میں خود خاموشی
کو پکارتا ہوں—جیسے کوئی پرانا رفیق دروازہ کھٹکھٹا رہا ہو۔
اور شاید اسی لیے تخلیق خاموشی کا محتاج
ہے۔ الفاظ ہجوم میں پیدا نہیں ہوتے۔ وہ تب جنم لیتے ہیں جب اندر کی گیلری میں صرف
ایک ہلکی سی گونج باقی رہ جاتی ہے، جب باہر کے شور اور اندر کے شور میں صلح ہو
جاتی ہے۔ کاغذ پر اترنے والا پہلا لفظ اسی صلح کا دستخط ہے۔ یہ ڈوبنے کا عمل
ہے—سمندر کی تہہ میں اتر کر خزانے تلاش کرنا۔ کیونکہ سطح پر تو صرف لہریں ہیں،
حقیقت تو گہرائی میں سوئی ہوئی ہے۔
آج، اس رات کے پچھلے پہر میں، میں نے یہ
دریافت کیا ہے کہ خاموشی دراصل خود سے ملاقات کا دوسرا نام ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جو
ہمیں ہماری اصل آواز سناتا ہے۔ باہر کے شور میں تو ہم دوسروں کی آوازوں کی گونج بن
جاتے ہیں۔ اندر کی خاموشی میں ہم اپنی زبان سیکھتے ہیں۔
تو آؤ، اپنے اندر کے اس شور سے دوستی کر
لو۔ یہ تمہارا اپنا میلہ ہے۔ اس میں تمہارے ہی رنگ ہیں، تمہاری ہی سُر ہے۔ اور جب
یہ میلہ لگتا ہے، تو خاموشی کی گونج میں ایک میٹھی سی آواز کہتی ہے: "تم ہو
بس۔ اور بس تم ہی ہو۔ یہی کافی ہے۔" یہی وہ سکون ہے جس کی تلاش میں ہماری
تمام خاموشیاں سانس لیتی ہیں۔

No comments:
Post a Comment