ابھی بے چہرگی مکمل نہیں
محمد نور آسی
٭٭٭٭٭
کتاب آج بھی موجود ہے
مگر وہ اب کسی میز پر نہیں رکھی
وہ اسکرین کے ایک کونے میں
خاموش فائل کی طرح پڑی ہے
جسے کھولنے سے پہلے
ہم کئی آوازوں سے اجازت لیتے ہیں
بارش برستی ہے
تو شہر کا شور ذرا دیر کو دھل جاتا ہے
سڑکیں سانس لیتی ہیں
اور انسان
چھتری کے نیچے
اپنے آپ سے بچنے کی کوشش کرتا ہے
ہر قطرہ کچھ کہنا چاہتا ہے
مگر ہم اسے
محض موسم سمجھ کر گزر جاتے ہیں
جنگیں اب اعلان کے بغیر آتی ہیں
وہ خبروں میں داخل ہوتی ہیں
اور دلوں سے گزرتی نہیں
ایک بٹن دبتا ہے
نقشہ بدل جاتا ہے
اور انسان
اعداد و شمار میں منتقل ہو جاتا ہے
موت اب چیختی نہیں
اپ ڈیٹ ہو جاتی ہے
افراتفری کسی حادثے کا نام نہیں
یہ ہماری روزمرہ حالت ہے
ہم تیز چلتے ہیں
کیونکہ رُکنے کا وقت نہیں
ہم بولتے ہیں
کیونکہ سننے کا حوصلہ نہیں
اور سوچنا
اب ایک پرانی عادت سمجھا جاتا ہے
چہرے ہر طرف ہیں
مگر آنکھیں خالی
آئینے سچ نہیں دکھاتے
صرف وہی لوٹاتے ہیں
جو ہم دکھانا چاہتے ہیں
انسان
پہچان سے زیادہ
پروفائل بن چکا ہے
یہ دنیا بدل نہیں رہی
یہ ہمیں بدل رہی ہے
آہستہ
خاموشی سے
ہمیں انسان سے
خبر بنا رہی ہے
اور پھر بھی
کہیں کسی کونے میں
ایک کتاب ہے
جو اب بھی سوال پوچھتی ہے
اور ایک بارش ہے
جو اب بھی فرق نہیں کرتی
کہ کون بھیگ رہا ہے
اور کون صرف موجود ہے
شاید
اسی سوال اور اسی بارش میں
انسان کا چہرہ
ابھی پوری طرح مٹا نہیں
مزید پڑھیں
No comments:
Post a Comment