صفحات

Saturday, July 25, 2020

جھیل کا مدعا سمجھتے ہیں


جھیل کا مدعا سمجھتے ہیں

غزل 
دل کا ہر رابطہ سمجھتے ہیں
ہم تیرا دیکھنا سمجھتے ہیں
اس لئے ہم برے ہیں بتلاؤ
ہم برے کو برا سمجھتے ہیں
ہم پرندوں کو ساتھ لے آئے
جھیل کا مدعا سمجھتے ہیں
وہ عمودی ہو یا کہ افقی ہو
ترا ہر زاویہ سمجھتے ہیں
عشق تھا، صبر تھا کہ قربانی
ہم کہاں کربلا سمجھتے ہیں
وصل کیا ہے ؟ تمھیں نہیں معلوم؟
چل، کسی روز آ، سمجھتے ہیں
یہ محبت ردیف ہے صاحب
آپ کیوں قافیہ سمجھتے ہیں
قربتیں تو اسی کا پرتو ہیں
ہم جسے فاصلہ سمجھتے ہیں
اب بھی یوسف کے کچھ برادر ہیں
"دوستی کو برا سمجھتے ہیں"
ہم فقط شعر ہی تو کہتے ہیں
لوگ ہیں کیا سے کیا سمجھتے ہیں
لوگ منزل سمجھ کے بیٹھے ہیں
ہم جسے راستہ سمجھتے ہیں
تیرے قدموں کی لڑکھڑاہٹ کو
ہم ترے زیر پا سمجھتے ہیں
گرچہ ہم جانتے ہیں عاصی ہیں
لوگ ہیں! پارسا سمجھتے ہیں
محمد نورآسی
14-09-2019 

No comments:

Post a Comment