تعجب ہے کہ جو سردار بھی ہے
تعجب
ہے کہ جو سردار بھی ہے
قبیلے کا
وہی غدار بھی ہے
عداوت
سے بہت بےزار بھی ہے
مگر وہ برسرِ پیکار بھی ہے
محبت
وادی ء پرخار بھی ہے
کرم
ہوجائے تو گل زار بھی ہے
اسی
سے زندگی میں رنگ سارے
تعلق
باعث آزار بھی ہے
لبوں
پر "ہاں" نگاہوں میں
"نہیں" ہے
"بہم
انکار بھی اقرار بھی ہے"
کنارے
میری قسمت میں کہاں ہیں
کوئی
دریا ہی دریا پار بھی ہے
تیرے
لہجے میں جھرنوں کا ترنم
مگر
تلوار سی اک دھار بھی ہے
کس و
ناکس کی جو کرتا ہو عزت
وہی
تعظیم کا حق دار بھی ہے
وہی
ہے دل کی راحت کا سبب بھی
مگر
وہ باعثِ آزار بھی ہے
میرا
وجدان آسی کہ رہا ہے
کوئی
روزن پسِ دیوار بھی ہے
محمد نور آسی
27 جولائی 2020