صفحات

Monday, July 27, 2020

تعجب ہے کہ جو سردار بھی ہے

 تعجب ہے کہ جو سردار بھی ہے


تعجب ہے کہ جو سردار بھی ہے
 قبیلے کا وہی غدار بھی ہے
عداوت سے بہت بےزار بھی ہے
 مگر وہ برسرِ پیکار بھی ہے
محبت وادی ء پرخار بھی ہے
کرم ہوجائے تو گل زار بھی ہے
اسی سے زندگی میں رنگ سارے
تعلق باعث آزار بھی ہے
لبوں پر "ہاں"  نگاہوں میں "نہیں" ہے
"بہم انکار بھی اقرار بھی ہے"
کنارے میری قسمت میں کہاں ہیں
کوئی دریا ہی دریا پار بھی ہے
تیرے لہجے میں جھرنوں کا ترنم
مگر تلوار سی اک دھار بھی ہے
 کس و ناکس کی جو کرتا ہو عزت
وہی تعظیم کا حق دار بھی ہے
وہی ہے دل کی راحت کا سبب بھی
مگر وہ باعثِ آزار بھی ہے
میرا وجدان آسی کہ رہا ہے
کوئی روزن پسِ دیوار بھی ہے
محمد نور آسی
27 جولائی 2020

Saturday, July 25, 2020

چشمِ نم کوکبھی دریا نہیں ہونے دیں گے

 چشمِ نم کوکبھی دریا نہیں ہونے دیں گے


چشمِ نم کوکبھی دریا نہیں ہونے دیں گے
تیری تصویر کو گیلا نہیں ہونے دیں گے

ٹوٹ جائیں کہ بکھرجائیں وفا کی راہ میں
"زندگی ہم تجھے رسوا نہیں ہونے دیں گے"

اپنی تعظیم کو رکھیں گے ہم حد کے اندر
پُوج کر اس کوخدا نہیں ہونے دیں گے

اڑ گئے سارے پرندے بھی تو ہم بیٹھیں گے
ہم درختوں کواکیلا نہیں ہونے دیں گے

ربط رکھنا ہے تو انداز بھی بدلو اپنے
یہ رویے تو کسی کا نہیں ہونے دیں گے

رات کٹ جائے گی ، سورج بھی نکل آئے کا
پر تیرے وہم سویرا نہیں ہونے دیں گے

وہ دعاؤں کے جن سایوں کو اوڑھے ہوئے ہے
میری بیٹی کو زلیخا نہیں ہونے دیں گے
محمد نور آسی
19-09-2019

جھیل کا مدعا سمجھتے ہیں


جھیل کا مدعا سمجھتے ہیں

غزل 
دل کا ہر رابطہ سمجھتے ہیں
ہم تیرا دیکھنا سمجھتے ہیں
اس لئے ہم برے ہیں بتلاؤ
ہم برے کو برا سمجھتے ہیں
ہم پرندوں کو ساتھ لے آئے
جھیل کا مدعا سمجھتے ہیں
وہ عمودی ہو یا کہ افقی ہو
ترا ہر زاویہ سمجھتے ہیں
عشق تھا، صبر تھا کہ قربانی
ہم کہاں کربلا سمجھتے ہیں
وصل کیا ہے ؟ تمھیں نہیں معلوم؟
چل، کسی روز آ، سمجھتے ہیں
یہ محبت ردیف ہے صاحب
آپ کیوں قافیہ سمجھتے ہیں
قربتیں تو اسی کا پرتو ہیں
ہم جسے فاصلہ سمجھتے ہیں
اب بھی یوسف کے کچھ برادر ہیں
"دوستی کو برا سمجھتے ہیں"
ہم فقط شعر ہی تو کہتے ہیں
لوگ ہیں کیا سے کیا سمجھتے ہیں
لوگ منزل سمجھ کے بیٹھے ہیں
ہم جسے راستہ سمجھتے ہیں
تیرے قدموں کی لڑکھڑاہٹ کو
ہم ترے زیر پا سمجھتے ہیں
گرچہ ہم جانتے ہیں عاصی ہیں
لوگ ہیں! پارسا سمجھتے ہیں
محمد نورآسی
14-09-2019 

لفظ ہجرت پر کہے گئے اشعار




لفظ ہجرت پر کہے گئے اشعار


یہ اشعار انحراف انٹرنیشنل فورم میں لکھے گئے تھے

یہ خانہ بدوشی سے الگ اور ہی دکھ ہے
ہجرت کو فقط نقل مکانی نہیں سمجھو
٭٭٭٭٭
اپنے گھر سے نکلنا پڑتا ہے
ہجرتیں بیٹھ کر نہیں ہوتیں
٭٭٭٭٭
ان کو رکنے کا حکم ہو سائیں
پاؤں ہجرت پہن کے بیٹھے ہیں
٭٭٭٭٭
اونٹوں کی اک قطار تھی ، صحرا کی دھوپ تھی
ہجرت کی دوپہر کسی سوہنی کا روپ تھی
٭٭٭٭٭
گلیاں، گھر ، چوبارے، سارے خواب بھی چھوڑنے پڑتے ہیں
ہجرت کرنے والے دل میں لاکھوں قبریں ہوتی ہیں
٭٭٭٭٭
حسرت سے آنکھ دیکتھی تھی جب پڑاؤ کو
ہجرت نے مسکرا کے اشارہ کیا مجھے
٭٭٭٭٭
ہجرت کی ابتدا تو خدا جانے کب ہوئی
یثرب سے جب حسین چلے، انتہا ہوئی
٭٭٭٭٭
کون تھا جو ہجرت کا سوچتا مدینے سے
بات تھی شریعت کی حوصلہ حسینی تھا
٭٭٭٭٭
میری طرح سے یہ ہجرت پسند ہوتے ہیں
اسی لئے تو پرندوں سے پیار ہے مجھ کو
٭٭٭٭٭
ہجرت کے دکھ سہنے والے اس کی عظمت جانتے ہیں
ہجرت ایک ریاضت بھی ہے ہجر ت ایک سعادت بھی
٭٭٭٭٭
مجھے حیرت سے کیوں تم دیکھتے ہو
یہ موسم ہیں جو ہجرت کررہے ہیں
محمد نور آسی
2019

دہرے قوافی کے ساتھ ایک غزل




دہرے قوافی کے ساتھ  ایک غزل
محمدنور آسی 

مروت سے جو ملتا ہے سمجھ لیتے ہیں ہم اپنا
تبھی تو سانپ مل جاتے ہیں اکثر آستیں نیچے
 کہیں قدموں میں ہم بھی اس کو  شاید پھر نظر آتے
اگر تو دیکھ لیتا وہ ستم گر دل نشیں نیچے
روانی ہے کسی جھرنے کی جیسے۔ اک پہاڑی سے 
لچکتی آ رہی ہے وہ اتر کر ماہ جبیں نیچے
بڑے آئے گئے دنیا میں  تم جیسے کئی آسی
ہیں بے نام و نشاں دارا اور اسکندر، زمیں نیچے
ہمیشہ خواب دیکھ اونچے فلک کو چھو ستارے چن
نظر رکھ آسمانوں پر مگر رکھ کر زمیں نیچے
زمیں ہے آسماں میرا ، یہیں ہے آستاں میرا
کہ میرا آسماں نیچے، مرے اختر یہیں نیچے
کہاں آسی اس قابل فقط تیری نوازش ہے
مجھے بھی آسماں بخشا ہے مٹھی بھر یہیں نیچے

2019


Thursday, July 16, 2020

، تنگیء دل کا گلہ کیا

، تنگیء دل کا گلہ کیا


نعت خوانی تو محبت کا نشاں ہو تی ہے

نعت خوانی تو محبت کا نشاں ہو تی ہے


ورنہ ان لوگوں کی جرات کیا ہے

ورنہ ان لوگوں کی جرات کیا ہے


تھیں دل کی دھڑکنیں بھی ہماری صدا کے ساتھ

تھیں دل کی دھڑکنیں بھی ہماری صدا کے ساتھ


ظالم کے ہاتھ اس لئے اب تک دراز ہیں

ظالم کے ہاتھ اس لئے اب تک دراز ہیں


بے تیغ جاؤں گا نہ کبھی دشمن کے سامنے

بے تیغ جاؤں گا نہ کبھی دشمن کے سامنے


جلنا بھی منحصر ہے اسی کی بقا کے ساتھ

جلنا بھی منحصر ہے اسی کی بقا کے ساتھ


Sunday, July 12, 2020

ورد کیا صلی علی مجھ کو ملا ہے بے مثال

 ورد کیا صلی علی مجھ کو ملا ہے بے مثال



مررہے ہیں اگر کسی کے لئے

 مررہے ہیں اگر کسی کے لئے


مزدور ہجریار کو اجرت نہیں قبول

 مزدور ہجریار کو اجرت نہیں قبول


خالق کو ہی معلوم ہے شاہکار کا عالم

 خالق کو ہی معلوم ہے شاہکار کا عالم


کیسا رشتہ ہے خار پھولوں کا

کیسا رشتہ ہے خار پھولوں کا


Wednesday, July 8, 2020

ڈوبتا سورج، جھیل کنارہ

ڈوبتا سورج، جھیل کنارہ


سامنے پھیلا ہوا دیکھا ہے صحرا اب تک

  سامنے پھیلا ہوا دیکھا ہے صحرا اب تک


کبھی تو اپنی خودی کو مٹا کے دیکھو تم

 کبھی تو اپنی خودی کو مٹا کے دیکھو تم


اداس رخ پہ تبسم سجا کے دیکھو تم

  اداس رخ پہ تبسم سجا کے دیکھو تم


کیوں مجھ کو قیس ویس کا قصہ سنائیے

کیوں مجھ کو قیس ویس کا قصہ سنائیے


قید رکھتے ہیں میری سوچ کے جالے مجھ کو

قید رکھتے ہیں میری سوچ کے جالے مجھ کو


ہاتھ تھامے مرا اور آکے سنبھالے مجھ کو

 ہاتھ تھامے مرا اور آکے سنبھالے مجھ کو


اپنی آنکھوں کے فریموں میں سجا لے مجھ کو

اپنی آنکھوں کے فریموں میں سجا لے مجھ کو


رات وہ شور تھا اس جسم کے ایوانوں میں

رات وہ شور تھا اس جسم کے ایوانوں میں


اخلاص ہی عشاق کی پہچان رہے گا

اخلاص ہی عشاق کی پہچان رہے گا


ضبط کی کب یہ مانتا ہے دل

 ضبط کی کب یہ مانتا ہے دل


Tuesday, July 7, 2020

چاندنی آتی جاتی رہی رات بھر

چاندنی آتی جاتی رہی رات بھر


غار کی چو ٹیوں سے اترتا ہوا

 غار کی چو ٹیوں سے اترتا ہوا


جھیل کے پرندوں نے مجھ سے آج پوچھا ہے

جھیل کے پرندوں نے مجھ سے آج پوچھا ہے


گھیرے رکھتا ہے کوئی یاد کا سایہ اب تک

گھیرے رکھتا ہے کوئی یاد کا سایہ اب تک


جب ذرا کھرچتے ہیں خون رسنے لگتا ہے

 جب ذرا کھرچتے ہیں خون رسنے لگتا ہے


آگ کی تپش سہ کر موم جب پگھلتا ہے

 آگ کی تپش سہ کر موم جب پگھلتا ہے


قریں دل کے جو آیا چاہتا ہے

قریں دل کے جو آیا چاہتا ہے


پھر بھلے اشک رہا یا سرمژگاں نہ رہا

پھر بھلے اشک رہا یا سرمژگاں نہ رہا


بات کہتے ہوئے کیوں اٹکنے لگے

بات کہتے ہوئے کیوں اٹکنے لگے


رائیگاں کیا ہمارا سفر جائے گا

رائیگاں کیا ہمارا سفر جائے گا


روشنی سے ہے ڈر، رات کا خوف ہے

 روشنی سے ہے ڈر، رات کا خوف ہے


پہلے وہ ناز سے اک حسن ادا لکھے گی

 پہلے وہ ناز سے اک حسن ادا لکھے گی


ظلمت میں روشنی ہے سیرت رسول کی

ظلمت میں روشنی ہے سیرت رسول کی



گداز ہجر جل کر دیکھتے ہیں

 گداز ہجر جل کر دیکھتے ہیں


کل تک تو یہی شخص شجر کاٹ رہا تھا

کل تک تو یہی شخص شجر کاٹ رہا تھا


انصاف کا کیا خوب ہے معیار تمھارا

انصاف کا کیا خوب ہے معیار تمھارا


سروں کو کھڑے تھے کٹا نے کی خاطر

 سروں کو ، کھڑے تھ،ے کٹا نے کی خاطر


لڑنا ہے تو پھر حوصلے درکار بہت ہیں

 لڑنا ہے تو پھر حوصلے درکار بہت ہیں