Friday, November 22, 2024
Thursday, November 21, 2024
Friday, November 15, 2024
Monday, November 11, 2024
Thursday, November 7, 2024
Saturday, November 2, 2024
Sunday, October 27, 2024
Saturday, October 26, 2024
Wednesday, October 23, 2024
Thursday, October 17, 2024
Friday, October 11, 2024
Tuesday, October 8, 2024
Monday, October 7, 2024
Wednesday, October 2, 2024
ورنہ اس چوڑی کی قیمت کیا ہے؟
Monday, September 30, 2024
رقص میں عمر تلک ایک صدا نے رکھا
Friday, August 9, 2024
Friday, July 12, 2024
Sunday, June 30, 2024
Thursday, June 27, 2024
صبر کی طاقت اور کمال
صبر کی طاقت اور کمال
صبر بظاہر ایک چھوٹی سی کرداری خوبی
ہے ۔ لیکن صبر کی طاقت اور نتائج سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ صبر ایک خوبی نہیں بلکہ
ایک ایسی طاقت ہے کہ آپ بڑے سے بڑے مسئلے کو حل کرستکے ہیں ۔ حضرت ایوب کا صبر اور
برداشت مثالی تھا ۔ اسی طرح تاریخ سے صبر کی بے شمار مثالیں موجود ہوں ۔ لیکن آج
ہم صبر کے حوالے سے مارش میلو تھیوری پر بات کریں گے۔
استاد نے کلاس کے سب بچوں کو ایک خوب صورت ٹافی دی اور پھر ایک عجیب بات کہی۔
’’سنو
بچو! آپ سب نے دس منٹ تک اپنی ٹافی نہیں کھانی۔‘‘
یہ کہہ کہ وہ کلاس روم سے نکل گئے۔
چند لمحوں کے لیے کلاس میں خاموشی
چھاگئی ، ہر بچہ اپنے سامنے پڑی ٹافی کو بے تابی سے دیکھ رہا تھا اور ہر گزرتے
لمحے کے ساتھ ان کے لیے خود کو روکنا مشکل ہو رہا تھا۔ دس منٹ پورے ہوئے اور استاد
نے آ کر کلاس روم کا جائزہ لیا۔ پوری کلاس میں سات بچے ایسے تھے، جن کی ٹافیاں جوں
کی توں تھیں، جب کہ باقی تمام بچے ٹافی کھا کر اس کے رنگ اور ذائقے پر تبصرہ کر
رہے تھے۔ استاد نے چپکے سے ان سات بچوں کے نام اپنی ڈائری میں نوٹ کیے اور پڑھانا
شروع کردیا۔
اس استاد کا نام پروفیسر والٹر مشال
تھا۔
کچھ سالوں بعد استاد نے اپنی وہی
ڈائری کھولی اور ان سات بچوں کے نام نکال کر ان کے بارے میں تحقیق شروع کی۔ کافی
جدوجہد کے بعد ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اپنی زندگی میں کامیابی کے کئی زینے
طے کر چکے ہیں اور ان کا شمار کامیاب افراد میں ہوتا ہے۔پروفیسر والٹر نے اپنی
کلاس کے باقی طلبہ کا بھی جائزہ لیا، معلوم ہوا کہ ان میں اکثریت ایک عام سی زندگی
گزار رہی تھی، جب کہ کچھ افراد ایسے بھی تھے، جنھیں سخت معاشی اور معاشرتی حالات
کا سامنا تھا۔
اس تمام تر کاوش اور تحقیق کا نتیجہ
پروفیسر والٹر نے ایک جملے میں نکالا اور وہ یہ تھا۔۔۔
’’جو
انسان دس منٹ تک صبر نہیں کرسکتا، وہ زندگی میں ترقی نہیں کر سکتا۔‘‘
اس تحقیق کو دنیا بھر میں پذیرائی
ملی اور اس کا نام ’’مارش میلو تھیوری‘‘ پڑ گیا، کیوں کہ پروفیسر والٹر نے بچوں کو
جو ٹافی دی تھی، اس کا نام ’’مارش میلو‘‘ تھا۔ یہ فوم کی طرح نرم تھی۔
اس تھیوری کے مطابق دنیا کے کامیاب
ترین افراد میں اور بہت ساری خوبیوں کے ساتھ ایک خوبی ’’صبر‘‘ کی بھی پائی جاتی
ہے، کیوں کہ یہ خوبی انسان کی قوتِ برداشت کو بڑھاتی ہے، جس کی بدولت انسان سخت
حالات میں بھی مایوس نہیں ہوتا اور یوں وہ ایک غیر معمولی شخصیت بن جاتا ہے۔
Monday, June 24, 2024
Sunday, June 23, 2024
Thursday, June 20, 2024
Monday, June 10, 2024
Thursday, June 6, 2024
Tuesday, June 4, 2024
Monday, June 3, 2024
Friday, May 31, 2024
Thursday, May 30, 2024
Wednesday, May 29, 2024
Tuesday, May 28, 2024
Monday, May 27, 2024
Thursday, May 23, 2024
Monday, May 20, 2024
حرفوں سے نکل ، سوچ کو تمثیل بھنور کر
حرفوں سے نکل ، سوچ کو تمثیل بھنور کر
Friday, May 17, 2024
عین ممکن مدینے لے جائے
عین ممکن مدینے لے جائے
Friday, May 10, 2024
Tuesday, May 7, 2024
مزاحیہ نظم آپ کا یہ ہفتہ کیسے گزرے گا
مزاحیہ نظم آپ کا یہ ہفتہ کیسے گزرے گا
اچھے میاں کا سہرا
اچھے میاں کا سہرا
صاحبو ! افتاب قدر یعنی اچھے میاں، مہتاب قدر یعنی پیارے میاں (دونوں بھائی اپنے اخری ایام تک اسلام اباد میں F-6 میں رہائش پذیر تھے، یہ دونوں بھائی اور دلاور فگار مرحوم ہم عمر بھی تھے، بدایوں شریف میں ساتھ اسکول میں پڑھتے بھی تھے اور رشتہ داریاں بھی تھیں اپس میں۔ افتاب قدر یعنی اچھے میاں میرے سگے پھوپھا تھے۔ دلاور فگار مرحوم کو شرارت سوجھی اور ایک نقشہ کھینچا کہ دلاور فگار کے پاس ایک شاگرد بڑی بدحواسی میں ایا ہے اور کہہ رہا ہے کہ استاد ِ محترم، اچھے میاں کی اج شادی ہے اور پیارے میاں کا انتقال ہوگیا ہے، اسلیے اپ جلدی سے مجھے ایک تو سہرا لکھوادیں اور ایک مرثیہ لکھوادیں۔ دلاور فگار بہت غصہ ہوئے کہ ہمیشہ ایسی ہی بدحواسی میں اتے ہو، چلو جلدی جلدی لکھو، جب دلاور فگار مصرعہ بول رہے تھے تو شاگرد نے سہرا اور مرثیہ گڈمڈ کردیا اسکےکچھ مصرعے ادھر اور اسکے کچھ مصرعے اِدھر۔ پھر شاعر پہنچتا ہے اچھے میاں اور پیارے میاں کے گھراور بڑی ہی جلدی میں سہرا اور مرثیہ کچھ ایسے پڑھتا ہے:
Monday, May 6, 2024
Friday, May 3, 2024
Thursday, May 2, 2024
Sunday, April 28, 2024
Monday, March 4, 2024
Monday, February 26, 2024
Friday, February 23, 2024
Wednesday, February 21, 2024
Tuesday, February 20, 2024
Monday, February 19, 2024
Sunday, February 18, 2024
میں ہار جاؤں محبت میں کب گوارا ہے
میں ہار جاؤں محبت میں کب گوارا ہے
عجیب کھیل ہے یہ جیت بھی خسارا ہے
ہر ایک شخص سے ملتا ہے اس تپاک کیساتھ
ہر ایک شخص سمجھتا ہےوہ ہمارا پے
بچھڑنے والے تجھے وہ بھی سونپ دیتا ہوں
جو چشم نم میں مری آخری ستارا ہے
عجب گلی ہے جہاں روشنی نہیں جاتی
کہیں پہ اشک کہیں پر کوئی ستارہ ہے
کہیں سمٹنے میں آئے تو سانس لیں ہم بھی
یہ زندگی ہے کہ دکھ درد کا کھلارا ہے
قدم قدم نئے لہجے ہیں اپنی مٹی کے
ہراک زباں میں الگ ذائقہ ہمارا ہے
یہ چاند تارے توہیں صرف میرا عکس جمال
یہ آسماں میری مٹی کا استعارہ ہے
گذر کے ایا ہے کس کرب سے یہ سوچ ذرا
ہمارا اشک اگر ذائقے میں کھارا ہے
بھنور مزاج ہیں ہم اور ہمیں بتایا گیا
کہ اس طرف نہ چلیں جس طرف کنارا ہے
تمھارا سانحہ تاریکیوں میں لٹنا تھا
ہمارا المیہ ہےیہ ،روشنی نے مارا ہے
Tuesday, February 13, 2024
جسے سناتے ہوئے عمر کاٹ دی میں نے
جسے سناتے ہوئے عمر کاٹ دی میں نے
جسے سناتے ہوئے عمر کاٹ دی میں نے
وہ ایک بات بھی پوری کہاں کہی میں نے
یوں حرف و لفظ کی سیکھی ہے ساحری میں نے
کہ بات کہنے سے پہلے ،بہت سنی میں نے
محال سانس بھی لینا جہاں کیا گیا تھا
یہ کم نہیں ہے وہاں عمر کاٹ دی میں نے
نہیں ہے کوئی سزاوار اب سماعت کا
صدا لگا کے بھی دیکھا گلی گلی میں نے
ملے گا وقت تو جانیں گے کیا نواح میں ہے
ابھی تو اس کو بھی دیکھا ہے سرسری میں نے
اداس بیٹھا تھا ، پھر ایک بسرے لمحے کو
بہت لطیف سی کردی ہے گدگدی میں نے
روئیں روئیں میں دکھوں سے ہراک کٹاؤ بھرا
اور ایک شال بھی اوڑھی ہے ساحلی میں نے
تمارے شہر میں چشمے کہاں سے لا تا میں
سو اپنے اندر ہی کھودی ہے باؤلی میں نے
ملائمت سی جو لہجے میں ہے ، جواز تو ہے
زمانے بھر سے سنی ہے جلی کٹی میں نے
عجب نہیں ہے کہ جنگل میں وہ سنائی دے
وہ بات جو کبھی پہلے نہیں سنی میں نے
مرے دروں میں کوئی لو ہے جو جھلکتی ہے
کہاںکسی سے بھی مانگی ہے روشنی میں نے
میں پہلے سانس کی آری سے ریاض کرتا رہا
پھر اس کے بعد خریدی تھی بانسری میں نے
کہاں یہ چھاؤں سی ٹھنڈک مرے وجود میں تھی
بہت رکھی ہے درختوں سے دوستی میں نے
میں اپنی ساری سپہ ، سارے خوف چھوڑ آیا
کہ اب کے لڑنی تھی اک جنگ آخری میں نے
وہ گھر میں آیا اچانک ، سو ایسی عجلت میں
کہیں چراغ، کہیں چاندنی دھری میں نے