صفحات

Saturday, March 16, 2013

انسانی مزاج کی تشکیل میں غذائی عادات کا حصہ



انسانی مزاج کی تشکیل میں غذائی عادات کا حصہ
بابائے طب حکیم بقراط نے اپنے مریضوں کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا لے کہ لوگوں نے بحالت تندرستی درندوں کی طرح کھا کر اپنے آپ کو بیمار کر ڈالا اور ہم نے ان کا علاج کیا تو انہیں چڑیوں کی غذا دی اور تندرست بنا دیا
شیخ سعدی اگرچہ طببیت نہ تھے مگر بات نہائت معقول فرماگئے
خوردن برائے زیستن است
نہ کہ زیستن برائے خوردن
یعنی کھانا زندہ رہنے کے کھاؤ نہ کہ کھانے کے لئے زندہ رہو
حکیم ابو بکر محمد بن زکریارازی نے یہ سمجھتے ہوئے کہ عامتہ الناس اپنی غلط غذائی عادات سے بیمار ہوتے ہیں ۔ فرمایا
اگرطبیب دواؤں سے کام لینے کے بجائے محض اغذیہ کے ذریعے سے علاج کی توفیق پاجائے تو نہائت اعلی درجے کا طبیب اور سعید ہے۔
حکیم ثابت بن قرت کا قول ہے۔ جسم کا آرام کم کھانے پر، نفس کی راحت کم گناہ پر، قلب کی آسائش کم فکر کرنے پر اور زبان کی راحت تھوڑی باتیں کرنے پر منحصر ہے۔
صوفیائے کرام کا مسلک ہے۔ قلت طعام، قلت منام اور قلت کلام
ایک سرسری سا مطالعہ بھی یہ حقیقت واضح کر دیتا ہے کہ اسلام میں پاک صاف ، حلال و مطہر اور پاکیزہ غذا کی بہت اہمیت ہے۔ غذائیں انسانی جذبات و کردار پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ لقمہ حلال ، اچھے اخلاق اور نیک کردار کا سامان پیدا کرتا ہے۔ لقمہ حرام اور گندی ، ناپاک اور ناقص غذا سے روح اپنی لطافت اور طاقت پرواز کھو دیتی ہے۔
علامہ ان سیرین نے اپنی مشہور زمانہ کتاب تعبیر الرویاء میں تحریر کیا ہے کہ جو لوگ متوحش قسم کے خواب دیکھنے کے عادی ہوں ، انہیں حرام یا متشبہ غذا، غیبت اور کذب بیانی سے قطعا اجتناب لازم ہے۔
تصوف و سلوک میں نفلی روزوں کے علاوہ روح کی بالیدگی کے لئے بعض حالات میں مختلف غذاؤں سے پرہیز بھی تجویز کیا جاتا ہے مثلا حیوانی اور سفلی جذبات میں کمی کے لئے ضرورت پڑے تو ترک حیوانات کی ہدائت کی جاتی ہے۔ یعنی گوشت، مچھلی وغیرہ کے استعمال سے وقتی طور پر روک دیا جاتا ہے۔۔ ہر سال رمضان میں روزہ رکھ کر مسلمان تقلیل غذا کا اہتمام کرتے ہیں، روحانی اور اخلاقی طور پر خود کو بہت توانا پاتے ہیں۔
انسانی عادات وا طوار پر غذاؤں کے اثرات کا مطالعہ روز بروز وسیع ہوتا جارہا ہے۔ طب میں ثقیل و دیر ہضم  قرار دی جانے ولی غذائیں شریانوں اور قلب کے لئے مضر تسلیم کی گئ ہیں۔صدیوں سے سبزیوں کے مسلمہ فوائد کی دنیا معترف رہی ہے۔ گوشت خوری کی کثرت ہر جگہ مضر قرار دی جارہی ہے۔
مولانا حالی نے کہا تھا۔ افلاس میں سفلہ پن کی بو ہے۔ بھوک اور پیٹ انسان کو شرافت اور اخلاق سے محروم کردیتے ہیں۔
غریب ملکوں میں تو فقر وفاقہ جرائم کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہو تی ہے کہ امریکہ جیسے نہائت خوش حال اور ترقی یافتہ ملک میں بھی جرائم کا گراف مسلسل بلند ہو رہا ہے۔ اعلی غذاؤ ں کے باوجود خاص طور وہاں کے نوجوانوں میں برائیاں کیوں بڑھ رہی ہیں۔ قتل ڈاکے اور آبروریزی کے واقعات میں کیوں اضافہ ہورہا ہے۔
امریکی تہذیب کے لئے یہ ایک نیا پہلو تھا کہ غذائی عادات کا جرائم سے بھی تعلق ہو سکتا ہے۔ وہاں اب اس حوالے سے بہت سنجیدگی سے غوروخوص ہورہا ہے۔ کیلی فورنیا یونیورسٹی کے سماجیا ت کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور جرائم کے مطالعے کے ڈاکٹر اسٹیفن شوئینتھا نے اس پہلو کا بہت تفصیل سے جائزہ لے کر گویا تحقیق کا ایک نیا باب کھول دیا ہے۔
وہاں بہت دلچسپ تحقیقات کا ایک سلسلہ چل رہا ہے۔ نوجوانوں میں شکر کے زیادہ استعمال ، غذاؤں میں شامل کئے جانے والے رنگ اور مصنوعی ذائقہ پیدا کرنے والے مختلف کیمیکل کیسے نوجوانوں کی ذہنی رو میں تبدیلی کی تشکیل کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ سب مختلف مطالعاتی ٹیموں نے بے شمار جرائم پیشہ افراد، جیلوں میں بند بچے کی غذائی عادات سے اخذ کیا ہے۔
اور اس حوالے سے کیے گئے تجربات نے بہت ہی کامیاب نتائج دیے۔ جب بچوں اور جرائم پیشہ افراد کی غذاؤں میں مناسب تبدیلیاں کی گئیں تو ان کے رویوں میں بہت مثبت فرق نظر آیا۔
اسی طرح تحقیقات نے ثابت کیا کہ جہاں غذا میں کئی نقائص سامنے آئے ہیں وہیں یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ امریکی انڈے بہت کھاتے ہیں ۔ انڈہ قوت حیات بہت پیدا کرتا ہے۔ اس لئے حرکات میں تیزی اور طبیعت میں جلدبازی اور بے صبرا پن پیدا ہو تا ہے۔
جرائم پیشہ افرا د کی اکثریت میں جن غذائی اجزاء کی کمی پائی گئی وہ یہ ہیں
وٹامن بی، بی 2، بی 3، بی 6، فولک ایسڈ، کیلشیم ، میگنیشیم ، جست یعنی زنک اور فولاد
جو لوگ ان غذائی اجزاء کی کمی کا شکار رہتے ہیں ان میں 90 فی صد جرائم کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔

مذکورہ تحقیقات کی روشنی میں ہمیں بھی اپنی غذائی عادات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں گوشت، شکر، میدے سے بنی اشیائ جیسے مٹھائیاں وغیرہ، چیونگم، بوتلوں اور ڈبوں میں مشروبات و خوراک
کا غیرضروری استعمال بہت بڑھ رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمارے بچوں اور نوجوانوں میں بد تمیزی، بے صبرا پن، ضد، اور جرائم کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔
بحثیت مسلمان اعلی اخلاق اختیار کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔ ان کی ناکامی میں ہماری غذائی عادات کا بھی دخل ہو سکتا ہے۔
غذائی عادات میں بگاڑ اور ناقص اور غیرضروری غذا کا استعمال جسمانی اور روحانی بیماریوں کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

ماخوذ۔ روحانی ڈائجسٹ 

No comments:

Post a Comment